ایک شام سینیٹر علامہ راجہ ناصر عباس جعفری صاحب کے ساتھ
تحریر : م ع شریفی
یہ کوئی باقاعدہ پہلے سے طے شدہ پروگرام تو نہیں تھا شیڈول کچھ اس طرح تھا مجلس وحدت مسلمین شعبہ قم کی طرف سے شہید سید حسن نصر اللہ کی برسی کے پروگرام سے بازوے انقلاب مرحوم آیت اللہ مصباح یزدی کے صاحبزادے حجت الاسلام والمسلمین مجتبی مصباح یزدی نے حسب پروگرام ، مقاومت کے مختلف زاویوں پر خوبصورت گفتگو فرمائی خطیب محترم کی گفتگو کے اختتام پر دعا بھی ہوئی یوں شیڈول کے مطابق پروگرام ختم ہوا خطیب مہمان جانے لگے تو بغیر اطلاع اپوزیشن لیڈرسینٹ چئیرمین مجلس وحدت مسلمین پاکستان سینٹر علامہ راجہ ناصر عباس جعفری صاحب دروازے سے اچانک داخل ہوئے اس نے سب شرکاء کو حیرت میں ڈال دیا ،خیر دعاسلام کے بعد مہمان کو کسی اور جگہ بھی پہنچنا تھا اس لئے جلدی تھی وہ اجازت لیکر چلےگئے۔اب شیڈول سے ہٹ کے علامہ راجہ ناصرعباس صاحب کی آمد کی وجہ سے دوسرا سیشن خودبخود وہیں پر بن گیا ۔
دفتر کا ہال تحصیلی ایام ہونے کےباوجود کھچاکھچ بھرا ہوا تھا قم کے تنظیمی مسئولین اور شرکاء نے فرصت کو غنیمت جاکر خواہش ظاہر کی کہ قائد وحدت سے استفادہ کیاجائے ۔ دوسرا سیشن باقاعدہ شروع ہوا علامہ صاحب نے طلاب کو پاکستان کے داخلی اور عالمی حالات سے آگاہ کرنے کے ساتھ نہایت مفید اور عمدہ نصیحتوں سے نوازا اور اپنی طلبگی ، اور سیاسی زندگی کے تجربات بھی سنائے ۔ اس دوران سوال جواب کا بھی ایک سلسلہ چلا ۔ حقیر سمیت کئی دوستوں نے سخت سوالات بھی کئے جنہیں آپ نے مطمئن کنندہ اور تسلی بخش جوابات دیئے ۔۔یہ سیشن بھی دعا کے ساتھ ختم ہوا اکثر عمومی شرکاء چلے جانے کے بعد ان کے شاگردوں اور خاص سنئیر تنظیمی دوستوں کے ساتھ بھی ایک خصوصی بیٹھک ہوئی پہلے سیشن کے سوالات اور جوابات سے ہمارا دل نہیں بھرا تھا ہم نے پھر ایک بار اور زیادہ مطمئن ہونے کی ٹھان لی اور کچھ اور سوالات کرکے مزید تسلی بخش جواب لینے کی کوشش کی اور آپ نے انتہا متانت شائستگی ، صبرو تحمل ، اور پیار و محبت کے ساتھ ان کی روش سیاست کی ، ضرورت، اہمیت اور زمینی حقائق بیان کیئے ۔ یہ مخالفت کرنے والے مخالفت برای مخالفت، تنقید برای تنقید کررہےہیں، علامہ راجہ ناصر عباس صاحب ایک درویش صفت سادہ زیست انسان ہیں ہماری پچھلی کسی تحریر میں ان کی سادگی کا تذکرہ کیا تھا مجھے ٹیکسی پکڑنے سے سختی سے منع کرکے کہ ایک دفعہ عمامہ اور عباقبا کے ساتھ ہماری خستہ حال بائیک پر ساتھ شہید منا شہید فخرالدين اعلی اللہ مقامہ کے گھر تک چلے تھے ،وہ سادگی کو بہت پسند کرتے ہیں پاکستان کے تشیع کی تاریخ میں پہلی بار ایک انقلابی عالم دین لباس روحانیت میں ملک کے ایوان بالا کے اپوزیشن لیڈر بن گئے ۔ یہ سب ان کی شائستگی ، دیانت بہادری ، نڈر، وفاداری ،صداقت اور امانتداری کی وجہ سے ہیں۔آج ملک کے ایوان بالا سینٹ کے اپوزیشن لیڈر بننے کےبعد بھی مزاج اور خو میں کوئی تبدیلی نہیں دیکھی گئی
آج کل لوگوں کے پاس دولت آجائے یا کچھ شہرت ملے یا صاحب اختیار بن جائیں تو فورا بدل جاتے ہیں ہم نے بہت سوں کو قریب سے دیکھا ہے دولت اور عزت نے انہیں فرعون بنادیا وہ دولت بھی اپنی محنت اور کمائی کی دولت نہیں خدا اور قوم اور امام کی امانت پر قبضہ کرکے ۔ لیکن آپ کو سینیٹر اور اپوزیشن لیڈر بننے سے پہلے اور بعد میں کوئی فرق محسوس کرتے ہوئے نہیں دیکھا ۔ ہمارے ہاں عام کارکن اور عام آدمی کی رسائی قیادت تک بہت کم ہوتی ہے اور قیادت بھی ایک مقدس جامہ پہن کر مریدوں سے مفت میں تعریفیں سننے اور سمیٹنے عام لوگوں اور جوانوں سے دور رہنے کو پسند کرتی ہے اور سمجھتی ہے کہ عوام میری پرسش کرتے رہیں اور کارکردگی ، سیاسی نقطہ نگاہ اور عملی سیاست پر سوالات کوئی کرئے تو گناہ کبیر اور توہین سمجھا جاتا ہے مریدوں کی حالت تو قابل ذکر ہی نہیں لیکن اس کا بلکل برعکس میں نے سب سے بڑی اور خوبصورت اور عمدہ خصوصیت ان میں دیکھی وہ ان کی سادگی تواضع ، صبر وتحمل، کاذب القابات سے نفرت، مقدس مآب بننے سے بیزار، قوم و ملت وطن اور مظلوموں اور محروموں کے لئے درد اور کاموں میں اخلاص قابل ذکر ہیں ان سے بہت ساری گفتگو ہوئی وہ سب باتیں یہاں زیرقلم لانا مناسب نہیں سمجھتا چونکہ کچھ باتیں شاید ذکر نہ کرنے میں ہی مصلحت ہو ۔ لہذا جب تک کسی اتحاد کسی کی حمایت کا سیاسی نقطہ نگاہ تہہ تک معلوم نہ ہو مخالفت معقول نہیں کچھ باتیں بتانے کی خاص جگہ اور پلیٹ فارم ہوتا ہے ۔
میں نے چند ہفتہ پہلے کچھ لوگوں کو علامہ راجہ ناصر عباس جعفری صاحب کے اذان دینے پر اعتراض کرتے دیکھا ۔ کیا اذان دیکر کوئی غلط کام کیا ؟؟
انہوں نے کسی ڈانس گانے کی محفل میں شرکت کی ؟ پاکستان میں شدت پسند اور شرپسند طبقے کی سرتوڑ کوشش یہی ہے علی ولی اللہ بند ہو لیکن اعتراض کرنے والوں کو اس بات کا اندازہ ہے ؟ کہ ان کی اس اذان کو پاکستان کی مقبول ترین سیاسی پارٹی کی میڈیا ٹیم نے چلا کر کروڑوں لوگوں کے کانوں تک علی کا نام مبارک ولایت کی گواہی کے ساتھ پہنچایا؟؟ آپ فرمارہےتھے اہل سنت کی ایک بہت بڑی سیاسی شخصیت نے کہا صرف میں نے خود آپ کی آذان کو تقریبا 9 بار شئیر کیا ۔وہ ایوان بالا میں جاکر تشیع، اسلام ، مظلومین کے حق اور حقوق کےلئے آواز اٹھارہے ہیں آج تک پاکستان کی تاریخ میں مثال ملتی ہے؟ کہ سینٹ سے اس طرح کی گفتگو ہوئی ہو . ان کی جماعت کے جی بی اسمبلی اور وفاق کے نمایندوں کو خریدنے کےلئے کروڑوں روپوں کی آفر ہوئی لیکن انہوں نے اصولی اور اسلامی سیاست کی ، کسی کو بکنے نہیں دیا اس سے دینی اور اخلاقی اصولوں کی پاسداری ہوئی ، اسلامی اقدار کا وقار بڑھا۔
وہ ایوان بالا میں کھڑے ہوکر نہج البلاغہ کے حوالہ کے ساتھ علی مولائے متقیان کی عدالت اسلام کےلئے حسین ابن علی کی قربانی اہل بیت کی شہزادیوں کی مظلومیت پر کھل کر گفتگو کرتے ہیں ظالم اور ستمگر حکمرانوں طاقت کے نشے میں مست صاحبان اختیار کی اچھی خاصی کلاس بھی لے چکے ہیں مسئلہ فلسطین و کشمیر اور جی بی کے حقوق کے مسئلے کو بھی کسی مصلحت کا شکار ہوئے بغیر ہر بار اپنی گفتگو کا حصہ بناتے ہیں ہر ظالم اور ستمگر کو للکارتے ہیں اور ہر مظلوم اور مستضعف کی آواز بنتے ہیں یہ سب ایک شیعہ عالم دین شیعہ مذہبی جماعت کے سربراہ ہونے کی حیثیت سے عالمانہ لباس میں کررہےہیں۔
میں شہزاد گل کی ایک گفتگو سن رہا تھا ۔اس میں وہ راجہ صاحب کی بڑی تعریفیں کررہےتھے ٹائیٹل ہی یہ لکھا تھا علامہ راجہ ناصر عباس نے علی امین گنڈاپور کو دھو ڈالا ۔
ملت کےلئے کام کرنے والوں کی ٹانگیں کھینچنے کے بجائے اپنے اپنے حساب سے کام کرنے دیں تو کچھ اس قوم کی بھلائی ہوگی۔
لکھنے کےلئے بہت ساری باتیں اور بھی ہیں لیکن طوالت کو مدنظر رکھتے ہوئے انہی سطور پر اکتفا کرتے ہیں۔اللہ تعالی دین و ملت کےلئے اخلاص کے ساتھ کام کرنے والے سب کی توفیقات خیر میں اضافہ فرمائے۔۔
ایک شام سینیٹر علامہ راجہ ناصر عباس جعفری صاحب کے ساتھ تحریر : م ع شریفی
Shares:








