وحدت نیوز نیٹ ورک (اسلام آباد) چیئرمین مجلس وحدت مسلمین پاکستان سینیٹر علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے تحریک تحفظ آئین پاکستان کے رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ 1947ء میں بننے والا ملک 1971ء میں ٹوٹ گیا، موجودہ پاکستان 1972ء میں وجود میں آیا۔ پھر اس بکھرے ہوئے پاکستان کو اکٹھا کرنے کے لیے آئین بنایا گیا، تاکہ سارے صوبے ایک ساتھ رہ سکیں۔ انسانی معاشروں میں جب لوگ اکٹھے رہتے ہیں تو مختلف معاملات جنم لیتے ہیں۔ اگر کوئی ضابطہ اور قانون نہ ہو تو اکٹھے زندگی گزارنا ممکن نہیں ہوتا۔
ایک چیز اپنی جگہ پر تب ہی قائم رہ سکتی ہے جب قانون موجود ہو۔ اگر قانون نہ ہو تو سب کچھ جنگل بن جاتا ہے، اسی لیے اکٹھے رہنے کے لیے آئین بنایا گیا۔ 1973ء کا آئین ایک ایسی دستاویز ہے جو “سوشل کنٹریکٹ” کہلاتا ہے۔ اس کے تحت پاکستان کے سارے صوبے اور ساری قیادت نے فیصلہ کیا کہ وہ اکٹھے رہیں گے۔ ان کے نمائندوں نے آئین بنایا اور پاکستان کے عوام نے اس کو قبول کر لیا۔ آئین وہ بنیادی دستاویز ہے جو ہمیں اکٹھا رکھتا ہے۔ پھر اس کی روشنی میں قانون سازی ہوتی ہے، ادارے بنتے ہیں، پارلیمنٹ بنتی ہے، صوبائی سیٹ اپ بنتے ہیں۔ قانون وہ محترم چیز ہے جس کے بغیر معاشرے تباہ و برباد ہو جاتے ہیں۔ جن معاشروں میں قانون اپنی حرمت کھو دیتا ہے وہ معاشرے بکھر جاتے ہیں۔
قانون کے نفاذ کے بغیر عدل قائم نہیں ہو سکتا اور لوگوں کے حقوق دلوانا ممکن نہیں ہوتا۔ ملک میں سیلاب آیا ہوا ہے جو تباہی مچا رہا ہے۔ لیکن اس سے پہلے آئین شکنی کا طوفان آیا، لاقانونیت کا طوفان آیا، عوام کے حقوق پر ڈاکا ڈالنے کا طوفان آیا۔ آٹھ فروری کو عوام نے جو فیصلہ کیا تھا اس کو اس آئین شکنی کے ذریعے بدلنے کی کوشش کی گئی اور ملک کو تباہی کے حوالے کر دیا گیا۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ آئین شکنی کر کے، یا آئین کی روح ختم کر کے، جو آئین ہمارے بزرگوں نے بنایا تھا، اس کو ایک معذور سا آئین بنا دیں اور اپنی مرضی کے قوانین بنا لیں، جو قانون کی روح اور فلسفۂ قانون سازی کے خلاف ہیں، تو اس کا نتیجہ تباہی کے سوا کچھ نہیں نکلے گا۔ ادارے غیر مؤثر ہو جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ پنجاب میں دیکھ لیں، ادارے مفلوج ہیں۔ سیلاب آیا ہوا ہے، لوگ بے حال ہیں۔ اگر ہمیں اکٹھا رہنا ہے تو آئین کی طرف واپس جانا پڑے گا، قانون کی حکمرانی کی طرف جانا پڑے گا۔ پاکستان میں وہی حکومت قائم ہونی چاہیے جسے عوام منتخب کریں، اور جو عوام سے نکل کر آئے تاکہ عوام کے حقوق کا خیال رکھے۔ جب سیلاب آتا ہے تو لوگ مر رہے ہوتے ہیں، گھر اجڑ رہے ہوتے ہیں۔ یہ کوئی جشن منانے کا وقت نہیں ہوتا بلکہ غم اور دکھ کا وقت ہوتا ہے۔ ان علاقوں میں جہاں لوگوں کی خواہشات، خواب اور ارمان پانی بہا کر لے گیا، وہاں خوشیاں منانا ظلم ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ پہلے بھی بڑے بڑے آمر آئے، انہوں نے طویل اقتدار کے خواب دیکھے لیکن وہ خواب کبھی پورے نہ ہو سکے۔ موجودہ حکمران معذور ہو چکے ہیں اور ان کے پیچھے جو قوتیں ہیں وہ کہتی ہیں کہ ہمارا سیاست سے کوئی تعلق نہیں، مگر بدترین سیاست وہی کر رہے ہیں۔ آئین شکنی اور قانون شکنی کی سیاست وہی کر رہے ہیں اور جھوٹ بول رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان ہمارا وطن ہے۔ کل کوئٹہ میں جو ہوا، پرامن سیاسی جدوجہد کو بم دھماکوں اور جیلوں کے خطرے سے دبایا جا رہا ہے۔ لوگوں کو ناجائز مقدمات میں پھنسایا جا رہا ہے اور پریشرائز کیا جا رہا ہے۔ جب کسی ملک کے اندر یہ صورتحال پیدا ہو جائے تو وہ اپنی نرم طاقت (Soft Power) کھو بیٹھتا ہے۔ سافٹ پاور ہی کسی ملک کی اصل طاقت ہوتی ہے۔ گولی اور ٹینک کے ذریعے آپ زیادہ دیر نہیں ٹک سکتے۔
سافٹ پاور دلوں کو جیتتی ہے، دنیا میں آپ کا وقار بڑھاتی ہے، لوگ آپ پر اعتماد کرتے ہیں۔ مگر اس ملک کے اندر سافٹ پاور ختم ہو چکی ہے۔ معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ہم آئین کی طرف لوٹیں۔ پاکستان کی خاطر، عوام کی خاطر، اپنے مستقبل کی خاطر، اور خدا کی خاطر۔ اگر ہم آئین کی طرف واپس نہ آئے تو ایک وقت آئے گا جب ہم غلط راستوں پر چلتے چلتے کھائی میں گر جائیں گے۔








