خاتمیت یا ختم نبوت [عربی میں: خَتمُ النُّبُوَّةِ] تمام مسلمانوں کی مشترکہ تعلیمات میں سے ہے اور اس سے مراد و مقصود یہ ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ اور دین اسلام کے بعد کوئی نبی اور کوئی دین نہیں آئے گا اور اسلام دین کامل و جامع ہے اور اس کی تعلیمات ابد تک معتبر ہیں۔
خاتمیت کا عقیدہ رسول اللہ(ص) کے زمانے میں بھی اور آپ(ص) کے بعد بھی، روشن اور مسلّم تھا اور تواتر کے ساتھ نقل ہوا ہے۔
خاتمیت یا ختم نبوت کلامی اصطلاح اور تمام مسلمانوں کی مشترکہ تعلیمات و عقائد میں سے ہے اور اس کے معنی یہ ہیں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ کے بعد کوئی نبی اور دین اسلام کے بعد کوئی دین نہیں آئے گا اور اسلام دین کامل و جامع ہے اور اس کے احکام تا قیامت معتبر ہیں۔
ختم نبوت اور پیغمبر آخر الزمان(ص) کی خاتمیت کا عقیدہ آپ(ص) کے زمانے میں بھی اور آپ(ص) کے بعد بھی، روشن اور مسلّم تھا اور تواتر کے ساتھ نقل ہوا ہے۔ چونکہ ختم نبوت کا عقیدہ دین کی ضروریات ۔[1] میں سے سے ہے لہذا یہ بحث علم کلام میں بحث انگیز مسائل کے زمرے میں شمار نہیں ہوتا تھا چنانچہ متکلمین نے اس کے اثبات کے لئے [صرف] نقلی دلائل کا سہارا لیا ہے۔
گذشتہ ایک صدی کے دوران اس سلسلے میں نئے مباحث سامنے آئے ہیں۔ بہائیوں (اور قادیانیوں) کے شبہات و اعتراضات نے علماء کلام کو جواب دینے پر مجبور کیا ہے۔ جیسا کہ وحی اور نبوت کے بارے نئے نقطہ ہائے نظر، نیز “دینی تجربے اور وحی” جیسے مسئلے کی وجہ سے ختم نبوت کا مسئلہ کلامی مباحث کا مرکزی موضوع بن گیا۔
آیت ختم نبوت
مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيماً۔
ترجمہ: محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں مگر وہ اللہ کے پیغمبر اور انبیا کے لیے مہر اختتام ہیں اور اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔
قرآن کریم سورہ احزاب آیت 40۔
فہرست
1 مفہوم شناسی
1.1 لغوی معنی
1.2 اصطلاحی معنی
2 بحث کا تاریخچہ
3 ختم نبوت کے مباحث
3.1 قرآنی ثبوت و دلائل
3.2 احادیث کے آئینے میں
4 ختم نبوت اسلامی فلسفے اور عرفان میں
5 ختم نبوت کا فلسفہ
5.1 قرآن کا تحریف سے محفوظ ہونا
5.2 اسلام، دین کامل و جامع
5.3 تشریح و تفصیل جاری و ساری انتظآم
5.4 بنی نوع انسان کی ضروریات کی تبدیلی
6 عہد معاصر میں ختم و نبوت کے مباحث
6.1 نئے سوالات اور آراء
6.1.1 پیغمبروں کے خاتم یا پیغمبروں کی زینت!
6.1.2 خاتم الانبیاء یا خاتم الرسل
6.1.3 دعوت محمدیہ(ص) کی عمومیت کا انکار
6.1.4 دوسرے پیغمبروں کی بعثت کا امکان
6.1.5 آخر الزمان میں حضرت عیسی اور حضرت خضر کا نزول
6.1.6 ختم نبوت اور امامت کا باہمی ربط
7 مفید مآخذ
8 بیرونی روابط
9 پاورقی حاشیے
10 مآخذ
10.1 انگریزی مآخذ
مفہوم شناسی
پیغمبر اسلام کی بشارت سابقہ ادیان میںمحمد رسول اللہ(ص)2.png
کتاب مقدس مسیحیت • یہود • تورات • انجیل یوحنا • انجیل برنابا • فارقلیط • محمد کتاب مقدس میں •
افراد عیسی • موسی • برنابا • میرزا محمدصادق فخرالاسلام • سردار کابلی • مرتضی فہیم کرمانی • سید محمود طالقانی • محمد صادقی تہرانی • بزرگ علی مارہرَوی •
متعلقات فاران • بشارات فارقلیط • انیس الاعلام فی نصرۃ الاسلام والرد علی النصاری • فارقلیطا (کتاب) • ختم نبوت • موسی نہج البلاغہ کی روشنی میں •
لغوی معنی
[ہمارے پیغمبر(ص) خاتم ہیں اور ختم نبوت کو فارسی میں خاتمیت بھی کہتے ہیں] خاتمیت مصدر جعلی ہے خاتم سے جس کی جڑی “ختم” ہے اس کے معنی ختم ہونے اور انتہا کے ہیں۔ خاتم کے لئے جو معانی بیان کئے گئے ہیں ان میں رائج ترین معنی کسی چیز کے ختم ہونے اورمکمل ہونے کے ہیں۔ اس لحاظ سے خاتِم (بہ کسر تاء) و خاتَم (بہ فتح تاء) میں کوئی فرق نہیں ہے۔[2] خاتم کا دوسرا استعمال ـ دونوں صورتوں میں ـ آخر اور پایان اور آخرین کے معنی میں آیا ہے۔[3]
بعض دوسروں کی رائے ہے کہ “خاتِم”، بہ کسر تاء، کے معنی آخر اور آخری کے ہیں اور “خاتَم” بہ فتح تاء کے معنی انگشتری کی زینت اور زینت کے ہیں۔[4]
اصطلاحی معنی
اسلامی فرقوں اور مکاتب کے علماء نے ابتداء سے لے کر آج تک خاتمیت سے یہی مطلب لیا ہے کہ اسلامی شریعت آخری آسمانی شریعت ہے اور اس دنیا کے آخری ایام تک ـ آسمانی دین کی حیدثیت سے ـ انسانوں کے اعمال اور عقائد کا مرجع و منبع ہونا چاہئے۔ معتبر احادیث کے مضامین کی بنیاد پر اسلام کا حلال اور حرام قیامت تک باقی اور ناقابل تبدل و تغیر ہے۔[5] چنانچہ، اگرچہ الہی معارف اور وحیانی پیش نامہ (پروگرام) کسی خاص وقت کے تک محدود نہیں ہے اور انسان کو ہمیشہ ـ سعادت و کمال کا راستہ طے کرنے کے لئے اس سرچشمۂ فیض کی راہنمائیوں اور ہدایات کی ضرورت ہے؛ لیکن ان امور کے لئے انسان کی ضرورتمندی تمام اعصار میں اور تمام اقوام کے لئے یکسان نہیں ہے۔[6]
اس تشریح کے مطابق خاتمیت یا ختم نبوت چار بنیادی اصولوں پر استوار ہے:
انسان کا ثبات اور اس کی ضروریات؛
اصول دین جو ثابت ہیں اور فروع دین جو متغیر ہیں؛
علم اور اجتہاد؛
جدید اور عصری تقاضوں کے عین مطابق تفسیروں کے سانچے میں کتاب و سنت کا اختتام ناپذیر استعداد۔[7]
بحث کا تاریخچہ
خاتمیت [جس کو اس کے بعد ختم نبوت کہا جائے گا] کا مسئلہ ـ ان تعلیمات میں سے ہے جو قرآن کریم اور احادیث میں بیان ہوا ہے اسی بنا پر اسلامی کلام میں کافی طویل پس منظر کا حامل ہے اور متکلمین (=علمائے کلام)، فلاسفہ اور عرفاء کے کلام میں اس کی طرف اشارے ملتے ہیں؛ تاہم یہ مسئلہ متقدمین کی تالیفات میں مستقل عنوان کی حیثیت سے زیر بحث نہیں تھا [بلکہ مسئلۂ نبوت کے ذیل میں زیر بحث آتا تھا]۔ دور معاصر میں دو عوامل اس ضمن میں مستقل آثار و تالیفات کے معرض وجود میں آنے کا سبب بنے ہیں:
بابیت اور بہائیت (نیز قادیانیت) جیسے فرقوں کا وجود میں آنا جو اپنے آپ کو اسلام سے نسبت دیتے ہیں اور نئی شریعت کا دعوی کرتے ہیں؛
دین کے حوالے سے روایتی نقطۂ نظر میں میں تبدیلی آنا، جدت پسندی (Modernity) پر مبنی نئے افکار کی وجہ سے نئے سوالات نے جنم لیا کیونکہ جدت پسندانہ روش میں نبوت اور ختم نبوت کے سلسلے میں خاص قسم کے تجزیئے سامنے آئے۔ یہ جدید رویہ ـ جو “دینی تجربے” سے معرض وجود میں آیا تھا ـ محمد اقبال لاہوری کے موقف سے شروع ہوا۔
چنانچہ معاصر متکلمین کو اقبال کے نظریئے پر بحث و تمحیص کی ضرورت پڑی اور کتب کلام میں اس موضوع کو ایک مستقل فصل کے عنوان سے درج کیا؛ اور نتیجے کے طور پر اس موضوع پر مستقل کتب و رسائل کی تالیف کا آغاز ہوا۔ علماء اور دانشوروں میں، جن افراد نے سب سے پہلے اقبال کی آراء کا جائزہ لیا وہ مرتضی مطہری اور علی شریعتی تھے۔
ختم نبوت کے مباحث
ختم نبوت کی ماہیت و حقیقت اور دلائل و فلسفے کا جائزہ در حقیقت ختم نبوت کی بحث کے بنیادی مسائل ہیں۔ ختم نبوت میں لازم ہے کہ ذیل کے سوالات کا جواب دینا پڑتا ہے:
کیا ختم نبوت انسان کے کمال اور نئے پیغمبر سے اس کی بےنیازی (عدم ضرورتمندی) کے مترادف ہے؟
کیا ختم نبوت کہ مطلب یہ ہے کہ ہر قسم کا دینی اور الہی تجربہ اور عالم غیب کے ساتھ اتصال ختم ہوچکا؟
کیا ختم نبوت سے مراد ہر اس فعل اور قول کی حُجیت کا خاتمہ ہے؟ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ دین اور [قرآن کریم]] کی تفسیر کے سلسلے میں کوئی علمی مرجع نہیں ہونا چاہئے؟
قرآنی ثبوت و دلائل
خاتمیت اور ختم نبوت کا عنوان قرآن کریم سے اخذ ہوا ہے۔ قرآن کریم کی سورہ احزاب کی آیت 40 میں صراحت کے ساتھ عبارت خاتَمُ النَّبِيّينَ کو بروئے کار لایا گیا ہے:
مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيماً۔؛[8]۔[9]۔[10]
اس آیت کی دو قرائتیں منقول ہیں۔ قرائت عاصم میں لفظ “خَاتَم” بہ فتح “تاء” پڑھا گیا ہے۔ اس قرائت “خَاتَمَ” میں باب مفاعلہ کے فعل ماضی کے کا صیغۂ مفرد مذکر غائب، یا پھر اسم ہے جس کے معنی مُہر اور آخری نبی کے ہیں۔ بقیہ چھ قرائتوں میں یہ لفظ “خاتِم” بہ کسر “تاء” پڑھا گیا ہے جو اسم فاعل ہے اور اس کے معنی نبوت کے ختم کرنے والے کے ہیں۔[11]۔[12]۔[13]۔[14] آیت کی تفسیر کے لئے تفسیر نمونہ سے رجوع کریں: ذیل آیت 40 سورہ احزاب۔[15] اور دونوں صورتوں میں آیت کا مفہوم یہ ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ اللہ کے آخری نبی ہیں۔
مذکورہ آیت کے علاوہ کئی دوسری آیات کریمہ بھی ہیں جو ضمنی طور پر ختم نبوت کا ثبوت پیش کرتی ہیں۔
مثال کے طور پر وہ آیات جو پیغمبر خدا(ص) کی رسالت کو ـ مکان اور زمان (Space and Time) عصر کے لحاظ سے ـ وسیع تر قرار دیتی ہیں اور زمانے کے لحاظ سے عمومیت بھی خاتمیت کی دلیل ہے:[16]
تمام زمانوں کے لوگوں کے لئے تنبیہ:
…قُلِ اللّهِ شَهِيدٌ بِيْنِي وَبَيْنَكُمْ وَأُوحِيَ إِلَيَّ هَذَا الْقُرْآنُ لأُنذِرَكُم بِهِ وَمَن بَلَغَ…۔
ترجمہ: کہہ دیجئے کہ اللہ میرے اور تمہارے درمیان گواہ ہے اور میری طرف اس قرآن کی وحی بھیجی گئی ہے تاکہ میں اس کے ذریعے تمہیں اور جس تک وہ پہنچے متنبہ کرواؤں۔[17]
لوگوں کو بشارت دینا اور ڈرا دینا:
وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا كَافَّةً لِّلنَّاسِ بَشِيراً وَنَذِيراً۔
ترجمہ: اور ہم نے آپ کو نہیں بھیجا ہے مگر تمام نوع انسانی کے لیے بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر…”۔[18]
تمام عالمین کو تنبیہ کرنا:
تَبَارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَى عَبْدِهِ لِيَكُونَ لِلْعَالَمِينَ نَذِيراً۔
ترجمہ: اپنے کمال ذات کے ساتھ قائم و برقرار ہے وہ جس نے قرآن اتارا اپنے بندہ پر تاکہ وہ تمام جہانوں کے لیے تنبیہہ کرنے والا ہو۔[19] اس آیت میں لفظ “عالمین” کے مصداق کی وضاحت، کتاب خاتمیت و مرجعیت میں ہوئی ہے۔[20]
خداوند متعال کی طرف سے آپ(ص) کا تمام انسانوں کے لئے بھیجا جانا:
قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعاً…۔
ترجمہ: کہئے کہ اے انسانو ! میں تم سب کی طرف بھیجا ہوا اللہ کا پیغمبر ہوں…۔[21]
پیغمبر(ص) کا عالمین کے لئے رحمت ہونا:
وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ۔
ترجمہ: اور ہم نے آپ کو نہیں بھیجا ہے مگر رحمت بنا کر تمام جہانوں کے لیے۔[22]
پیغمبر خدا(ص) کا دین حق کے ابلاغ کے لئے بھیجا جانا تا کہ اس کو تمام ادیان پر غالب کردیں:
هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ۔
ترجمہ: وہ وہ ہے جس نے اپنے پیغمبر کو بھیجا رہنمائی اور حقیقت والے دین کے ساتھ کہ اسے ہر دین پر غالب کرے۔ چاہے مشرک لوگوں کو ناپسند ہو۔[23]۔[24]۔[25]
کتاب خدا میں باطل کا گذر نہ ہونا:
لَا يَأْتِيهِ الْبَاطِلُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهِ…۔
ترجمہ: باطل کا اس کے پاس گذر نہیں، نہ اس کے سامنے سے اور نہ ا س کے پس پشت سے۔[26]
قرآن کریم کے محفوظ ہونے کی الہی ضمانت:
إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ۔
ترجمہ: بلاشبہ ہم نے اس قرآن کو اتارا ہے اور یقینا ہم اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔[27]
یہ تمام عبارات اس حقیقت پر مشتمل ہیں کہ اسلام کامل ترین شریعت اور تعلیمات کا حامل دین ہے اور یہ ایک عالمی اور آفاقی دین ہے اور قرآن کبھی منسوخ نہ ہوگا۔ لہذا دین اسلام آخری دین ہے اور پیغمبر اکرم(ص) آخری نبی اور خاتم الانبیاء ہیں۔
احادیث کے آئینے میں
شیعہ اور سنی مآخذ میں ختم نبوت کے سلسلے میں احادیث نبوی ـ نیز ائمۂ معصومین علیہم السلام سے منقولہ احادیث ـ بکثرت نقل ہوئی ہیں۔ ائمۂ معصومین علیہم السلام سے بہت سی مأثورہ دعاؤں میں پیغمبر اکرم(ص) کی خاتمیت کی طرف اشارہ ہوا ہے۔[28]۔[29]
اہم ترین احادیث نبوی جو ختم نبوت کا ثبوت ہیں:
حدیث منزلت
یہ متواتر حدیث ہے جس میں پیغمبر اسلام(ص) کے خاتم النبیین ہونے پر تصریح و تاکید ہوئی ہے۔ پیغمبر اکرم(ص) نے اس حدیث میں اپنے ساتھ امیرالمؤمنین(ع) کی نسبت کو حضرت موسی(ع) کے ساتھ ہارون(ع) کی نسبت سے تشبیہ دی ہے اور آخر میں فرمایا ہے کہ “فرق صرف یہ ہے کہ ہارون(ع) پیغمبر تھے لیکن امیرالمؤمنین(ع) پیغمبر نہیں ہیں کیونکہ آپ(ع) کے بعد کوئی نبی ہی نہیں آئے گا:
أنتَ مِنّی بِمَنزلةِ هارونَ مِنْ مُوسی، اِلّاأنـّه لانَبی بَعدی۔
ترجمہ: اے علی! تمہارے لئے میرے نزدیک وہی منزلت ہے جو ہارون کے لئے کو موسیٰ کے نزدیک تھی، سوا اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔[30]
وہ احادیث جن میں پیغمبر اکرم(ص) نے اپنے آپ کو خاتم الانبیاء یا ایک ہزار پیغمبروں یا اس سے بھی زائد پیغمبروں کا خاتم[31]۔[32]۔[33] اور امیرالمؤمنین(ع) کو “خاتم الاولیاء”، “خاتم الاوصیاء” یا ہزار وصیوں کا خاتم قرار دیا ہے۔[34]۔[35]۔[36]۔[37]
وہ حدیث جس میں پیغمبر خدا(ص) نے واضح کیا ہے کہ آپ(ص) ہر قوم اور ہر نسل کے تمام لوگوں کی ہدایت کے لئے مبعوث کئے گئے ہیں اور یہ کہ انبیاء کا سلسلہ آپ(ص) پر اختتام پذیر ہوا ہے۔[38]۔[39]۔[40]۔[41]
وہ حدیث جس میں پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا: میرے بعد کوئی پیغمبر، میری سنت کے بعد کوئی سنت اور تمہارے [یعنی میری امت کے] بعد کوئی امت نہیں ہے اور اگر کسی نے میرے بعد نبوت کا دعوی کیا وہ جھوٹا ہے۔[42]۔[43]۔[44]۔[45]
حضرت علی علیہ السلام نے نہج البلاغہ کے مختلف حصوں میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ پر نبوت کے ختم ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے۔[46]
امیرالمؤمنین(ع) نہج البلاغہ کے پہلے خطبے میں فرماتے ہیں:
بعث الله محمداً ـ صلّی الله علیه وآله ـ لِانْجَازِ عِدَتِهِ وَاِتْمَامِ نَبُوَّتِهِ۔
ترجمہ: خداوند متعال نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ کو اس (اللہ) کا وعدہ نبھانے اور اس کی نبوت کے سلسلے کے اتمام و تکمیل کے لئے مبعوث فرمایا۔[47]
وہ حدیثیں جو دلالت کرتی ہیں کہ اسلام کی شریعت اور اس کے احکام ـ جو فقہاء کے توسط سے شرعی احکام مدار و محور قرار پائے ہیں ـ کو بھی منسوخ نہیں کیا جائے گا، اور یہ امر بذات خود آپ(ص) کے خاتم الانبیاء ہونے اور آپ(ص) کی شریعت کی عدمی منسوخی کا ثبوت ہے۔
امام صادق(ع) ایک حدیث کے ضمن میں فرماتے ہیں:
حلال محمد(ص) حلال ہے روز قیامت تک اور حرام محمد(ص) حرام ہے روز قیامت تک۔
۔[48]۔[49]۔[50]۔[51]
ختم نبوت اسلامی فلسفے اور عرفان میں
اکثر اسلامی فلاسفہ نے اپنے آثار اور تالیفات میں ایک مستقل باب “نبوت” یا “نبوات” کے عنوان سے کھولا ہے اور اس میں ارسال رسل اور اعزام انبیاء الہی کی ضرورت کے اثبات میں عقلی دلائل دیئے ہیں[52]۔[53] انھوں نے کبھی ضمنی طور پر[54]۔[55] اور کبھی وضوح و صراحت کے ساتھ[56]۔[57] اسلام کے نبی مکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کی خاتمیت کی طرف اشارہ کیا ہے اور اس موضوع کی تشریح کا اہتمام کا ہے۔
فلاسفہ کی ایک تشریح یہ ہے کہ انسان، موجودات میں سب پر فوقیت رکھتا ہے اور انبیاء برتر انسان ہیں، رسل پیغمبروں پر برتری اور فوقیت رکھتے ہیں، رسل میں سب سے بہتر و برتر اولو العزم پیغمبر ہیں اور اولو العزم انبیاء میں سب سے بہتر و برتر وہ ہے جس کی شریعت عمومی اور کلی ہو اور ایسی ہی ذات ہے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ جو فرزندان آدم کے سردار اور نتیجتاً خاتم النبیین ہیں۔[58]
اسلامی فلاسفہ میں صدر الدین شیرازی ـ شیعہ نقطۂ نظر سے ـ ختم نبوت کو تشریعی (اور قانون سازانہ) وحی کے انقطاع اور فرشتے کے نزول کے سلسلے کے اختتام سے تشریح و تعبیر کرتے ہیں وہ اس حقیقت کے قائل ہوئے ہیں کہ “ختم نبوت کے معنی یہ نہیں ہیں کہ آسمانی حجت کا بھی خاتمہ ہوچکا ہے، بلکہ شیعہ عقیدے کے مطابق، ائمۂ معصومین علیہم السلام کے حکم کو رسول اللہ(ص) نے بذات خود “حجت الہی” اور معتبر قرار دیا ہے۔[59]
ملا ہادی سبزواری تشریعی نبوت اور تبلیغی نبوت میں فرق کے قائل ہوئے ہیں اور ختم نبوت یا انقطاع نبوت کو تشریعی نبوت کے تناظر میں دیکھا ہے۔ ان کے بقول، پیغمبر اکرم(ص) کی خاتمیت کی دو صورتیں ہیں: ایک یہ ہے رسول اکرم(ص) کے ظہور کے ساتھ ہی تمام قابل تصور کمالات اپنے عروج کو پہنچ چکے ہیں اور کسی بھی دوسرے نبی کے ظہور کے لئے کوئی گنجائش باقی نہیں رہی ہے؛ گویا کہ حضرت محمد(ص) نے تمام کمالات اور محاسن اور خوبیوں پر مہر لگا دی ہے۔ دوسرے یہ کہ پیغمبر اکرم(ص) اشرف مخلوقات اور عالم امکان کی غایت [اور آخری مقصد] ہیں، لہذا ان کے ظہور کے ساتھ خلقت کا مقصد حاصل ہوچکا ہے اور اپنے اختتام تک پہنچ چکا ہے۔[60]
عرفاء کے نزدیک حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ خاتم الانبیاء ہیں۔ ختم نبوت کے سلسلے میں عرفاء کی تفسیر و تشریح مذکورہ بالا تشریحات کی طرح ہے، خلاصہ یہ کہ تشریعی نبوت اور رسالت رسول اللہ(ص) کے ظہور کے ساتھ ہی منقطع ہوچکی ہے۔[61]۔[62]۔[63]
ختم نبوت کا فلسفہ
ختم نبوت کے مباحث میں اس امر کی علت (سبب) یا علل (اسباب) کے بارے میں سوال ہے کہ “انبیاء کا سلسلہ ایک معینہ وقت پر اختتام پذیر ہوا؟”۔
بعض معاصر مفکرین کے مطابق، دو دلیلوں کی بنا پر، اس سوال کا بہترین جواب یہ ہے کہ “خدا ـ اپنی حکمت بالغہ اور اپنے مطلق علم کی بنیاد ـ خوب جانتا ہے کہ اپنی رسالت اور پیغمبری کے منصب کو کہاں رکھے: اللّهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهُ،[64] اور کس وقت اس کا خاتمہ کردے:[65]
یہ ایک عقلیتی بحث نہیں ہے اور انسانی عقل اس کے پہلؤوں کا دقیق ادراک کرنے سے عاجز ہے۔ خداوند متعال اپنی حکمت کاملہ اور علم مطلق کی بنیاد پر جانتا ہے کہ کہاں، کب اور کیسے اپنے پیغمبروں کو مبعوث کرے اور ہم بندگان خدا اس مسئلے کے معیاروں سے مکمل آگہی نہیں رکھتے۔ ہم بس یہی جانتے ہیں کہ حکمت الہیہ کا تقاضا تھا کہ پیغمبر اسلام(ص) کے بعد دوسرا دوسرا نبی مبعوث نہ ہو۔
ختم نبوت کا عقیدہ ضروریات اسلام[66] میں سے ہے اور اعتقادات ضروریہ کے لئے استدلال کی ضرورت نہیں ہے۔[67] اس کے باوجود مسلم مفکرین ـ بالخصوص معاصر مفکرین ـ نے اس سوال کے مختلف جوابات دیئے ہیں اور مختلف حکمتوں کی طرف اشارہ کیا ہے:
قرآن کا تحریف سے محفوظ ہونا
مفصل مضمون: آسمانی کتب میں تحریف
انبیاء علیہم السلام خدا اور انسان کے درمیان واسطہ تھے تا کہ انسان کی راہنمائی کریں اور اس کو ابدی سعادت کی راہ پر گامزن کردیں۔ لیکن پیغمبر اسلام(ص) سے پہلے کے انبیاء کی دعوت کچھ عرصہ بعد، تحریف کا شکار ہوئی، چنانچہ حکمت الہیہ کا تقاضا تھا کہ ایک پیغمبر کی دعوت کا مضمون و محتوا تحریف سے دوچار ہونے کے بعد دوسرا پیغمبر مبعوث فرمائے تا کہ وہ اللہ کی حقیقی دعوت کو از سر نو زندہ کرے اور رسالت الہیہ کو اسکی صحیح ڈگر پر پلٹا دے:
وَمَا أَنزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ إِلاَّ لِتُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي اخْتَلَفُواْ فِيهِ وَهُدًى وَرَحْمَةً لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ
ترجمہ: اور ہم نے نازل نہیں کی آپ پر یہ کتاب مگر اس لیے کہ آپ ان کے لیے واضح طور پر بیان کردیں اسے جس میں وہ باہم اختلاف رکھتے تھے اور ہدایت اور رحمت بنا کر ان کے لیے جو ایمان لائے ہیں۔[68]
لیکن چونکہ خداوند متعال نے قرآن کریم کی حفاظت اور نگہبانی کی ذمہ داری خود سنبھالی ہے یہ مسئلہ اسلام کے سلسلے میں پیش نہیں آتا:
إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ۔
ترجمہ: بلاشبہ ہم نے اس قرآن کو اتارا ہے اور یقینا ہم اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔[69]
اسلام، دین کامل و جامع
جیسا کہ بیان ہوا، انسان کے فہم و دانش اور ـ زيادہ باریک بینانہ اور دقیق اور گہرے پیغامات وصول کرنے کے سلسلے میں اس کی صلاحیتوں ـ کے ارتقاء کے ساتھ ہی ادیان الہی بھی ارتقائی مراحل سے گذرتے تھے اور ہر نیا دین پرانے دین کی نسبت زیادہ کامل تھا۔ یہ ارتقائی سفر ظہور اسلام تک جاری رہا اور اسلامی شریعت ایک آسمانی شریعت کی چوٹی ہے جس کا نزول و نفاذ خداوند متعال کے لئے ممکن تھا۔ اس کمال سے مراد یہ ہے کہ یہ دین ایسے اصولوں، قواعد اور تعلیمات پر مشتمل ہے جو دو ـ مادی اور معنوی اور دنیاوی اور اخروی ـ پہلؤوں میں انسانی کی بنیادی ضروریات پوری کرتے ہیں۔
علامہ طباطبائی اس سلسلے میں کہتے ہیں:
دین اس وقت اپنے اختتام کے مرحلے میں پہنچتا ہے جب وہ انسان کی ضروریات کے تمام پہلؤوں کا احاطہ کرے اور اس صوررت میں کوئی بھی دین اس کے بعد نہیں آئے گا۔[70]
خداوند متعال بھی قرآن کریم میں دین اسلام کی اس کاملیت کی طرف اشارہ کرتا ہے اور ارشاد فرماتا ہے:
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلاَمَ دِيناً؛
ترجمہ: بلاشبہ ہم نے اس قرآن کو اتارا ہے اور یقینا ہم اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔[71]
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ فرماتے ہیں:
ما من شيءٍ يقربكم الی الجنة ويبعدكم من النار الا وقد امرتكم به وما من شيءٍ يقربكم من النار ويباعدكم من الجنة الا وقد نهيتكم عنه…
ترجمہ: میں نے تمہیں ہر اس چیز کا حکم دیا جو تمہیں جنت کے قریب پہنچاتی اور دوزخ سے دور کرتی ہے اور ہر اس چیز سے باز رکھا جو تمہیں دوزخ کے قریب پہنچاتی اور جنت سے دور کرتی ہے…”۔[72]
میں نے تمہیں ہر اس چیز کا حکم دیا جو تمہیں جنت کے قریب پہنچاتی اور دوزخ سے دور کرتی ہے اور ہر اس چیز سے باز رکھا جو تمہیں دوزخ کے قریب پہنچاتی اور جنت سے دور کرتی ہے…”۔
اس کمال و ارتقاء کا اثبات عقلی تجزیئے کے ذریعے ممکن نہیں ہے اور صروف ایک دین کے اصول عقائد اور اخلاق کا جائزہ لے کر اس کو ثابت کیا جاسکتا ہے۔ اس تجزیئے میں توحید، معاد، اخلاقی نظام اور معاشرتی اصولوں کے سلسلے میں مختلف آسمانی ادیان کا جائزہ لیا جاسکتا ہے۔ ان تمام موضوعات میں، دین اسلام نے ہمیشہ جامع ترین اور کامل ترین تعلیمات اور راہیں اور روشیں بنی نوع انسان کے سامنے رکھی ہیں تا کہ انسانی زندگی کے مادی احتیاجات کو بھی پورا کرے اور اس اس کی معنوی اور اخلاقی ضروریات بھی۔[73]
اسلام نے توحید اور خدا شناسی نیز معاد سے متعلق معارف و تعلیمات کے عنوان سے بھی کامل ترین احکام و معارف کو متعارف کرایا ہے اور معاشرتی مسائل کے سلسلے میں بھی جامع اور ثابت اصولوں کو بنی نوع انسان کے لئے بیان کرچکا ہے تا کہ انسان خود ان اصولوں سے [عصری اور جغرفیائی تقاضوں کے مطابق] متغیر احکام کو ان سے اخذ و استخراج کرے۔
چنانچہ اسلام دین کامل ہے جس کے لئے تعمیر نو اور تکمیل کی ضرورت نہیں ہے؛ لہذا نئے پیغمبر کی بعثت کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
تشریح و تفصیل جاری و ساری انتظآم
نئے پیغمبروں کی بعثت کے اسباب میں سے ایک ہے کہ شریعت کی تشریح ہو، اس کی تفصیل بیان کی جائے اور انسان اور حجتِ خدا اور انسان کے درمیان ربط و اتصال برقرار رہے؛ اور یہ ضروریات رسول اکرم(ص) کی ذات اور ائمۂ معصومین(ع) کے توسط سے پوری ہوتی ہیں اور یہ ذمہ داری امام معصوم(ع) کی غیبت (اور غیر موجودگی) میں علماء اور شرائط پر پورے اترنے والے مجتہدین کو سونپ دی گئی ہے۔[74]۔[75]
چنانچہ اس لحاظ سے بھی نئے پیغمبر کی بعثت کی ضرورت نہ ہوگی۔ لہذا، ارسال رسل اور تنزیل کتب کا سلسلہ پیغمبر اسلام(ص) کی بعثت پر اختتام پذیر ہوچکا ہے اور دین اسلام تا قیامت ثابت اور استوار رہے گا؛ نہ تحریف کے لئے اس میں کوئی سبیل ہے اور نہ ہی کوئی نسخ (منسوخی) اس کے احکام کی تبدیلی کا سبب بن سکتی ہے۔
بنی نوع انسان کی ضروریات کی تبدیلی
ابتدائی معاشروں کے روابط اور تعلقات بہت سادہ تھے اور اسی بنا پر ان کے احتیاجات بھی قلیل اور سادہ تھے اور ان کی فکری سطح بھی ابتدائی ہی تھی۔ ایسے معاشروں میں گہرے اور پیچیدہ مباحث انسانوں کی سمجھ اور فہم سے بالاتر تھے۔ اس قسم کے معاشرے اللہ کی جانب سے ارسال رسل کے اعلی اہداف سے تناسب اور ہمآہنگی نہیں رکھتے تھے چنانچہ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ بنی نوع انسان کی دانش اور صلاحیت و استعداد کے نکھرنے کے مراحل بھی طے ہوتے گئے اور معاشروں کی ضروریات میں اضافہ ہوتا گیا چنانچہ ارسال رسل کا سلسلہ بھی معاشروں کے تقاضوں کے مطابق جاری رہا اور جدید معاشروں کی ضروریات میں تبدیلی آتی گئی، اس سلسلے کو اس وقت تک جاری رہنا تھا جب تک تمام انسانوں اور تمام قرون و اعصار کی ضروریات اور ان کے بدلتے ہوئے تقاضوں سے ہمآہنگ جامع نظام پیش نہ کیا جاتا۔
قرآن کریم کے نزول کے ساتھ خداوند متعال کی طرف سے جامع ترین اور کامل ترین نظام بھی آگیا تا کہ انسان اس پر عمل پیرا ہوکا اخروی کمال کی چوٹیاں سر کر لے اور دنیاوی ظلمت و گمراہی سے نجات پا لے۔ بہت سی احادیث اس مسئلے کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ “انسان کو جس چیز کی بھی ضرورت ہے وہ کتاب خدا اور سنت میں موجود ہے۔ امام جعف صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ آپ(ع) نے فرمایا:
إن الله تبارك وتعالى أنزل في القرآن تبيان كل شئ حتى والله ما ترك الله شيئا يحتاج إليه العباد، حتى لا يستطيع عبد يقول: لو كان هذا انزل في القرآن؟ إلا وقد أنزله الله فيه۔
ترجمہ: خداوند تبارک و تعالی نے قرآن میں ہر چیز کا بیان اتار دیا ہے حتی کہ خدا کی قسم! اس نے اپنے بندوں کی ضرورت کی کسی چیز سے بےاعتنائی نہیں فرمائی ہے، تا کہ کوئی بندہ یہ نہ کہہ سکے کہ “کاش یہ چیز قرآن میں اتاری جاتی”، سوا اس کے کہ اس نے وہ چیز اتار دی ہے۔[76]
البتہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ قرآن کریم کی زیادہ سے زيادہ معلومات سے فیض یاب ہونے کے لئے امام معصوم(ع) کی علمی مرجعیت سے استفادہ کرنے کی ضرورت ہے۔
عہد معاصر میں ختم و نبوت کے مباحث
حالیہ عشروں میں فکری اور معاشرتی تبدیلیوں اور وقائع و حوادث کے بعد ختم نبوت کا مسئلہ نئے زاویوں سے زیر بحث آیا۔ مسلم مفکرین نے نو ظہور فرقوں کے دعویداروں ـ منجملہ: احمدیت، قادیانیت، بابیت اور بہائیت ـ کا مقابلہ کرتے ہوئے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کی خاتمیت کی تشریح کی اور کے شبہات اور دعؤوں کا جواب دیا اور اس تقابل کے ضمن میں “خاتمیت کے اسرار” اور “ختم نبوت کے اسباب و علل” اور “ایک معینہ زمانے میں ختم نبوت کی وجوہات” کی تشریح کو مطمع نظر قرار دیا۔[77]۔[78]
بہائیوں نے سورہ احزاب کی چالیسویں آیت کی توجیہ و تاویل کا سہارا لے کر اور کبھی ختم نبوت سے متعلق قرآن کریم کی دوسری آیات سے استناد کرکے، خاتمیت کا انکار کیا چنانچہ انہیں مدلل جوابات دیئے گئے؛ اس قسم کے شبہات کی وضاحت کی گئی اور ان دلیل و برہان کے ساتھ تنقید کی گئی۔[79]۔[80]
بہت سے مفکرین نے ختم و نبوت کے اسباب و علل کے بارے میں نظریات پیش کئے ہیں اور ان میں زیادہ تر نظریات کو مسلم مفکرین کی تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ سب سے پہلے مفکر، جنہوں نے ختم نبوت کی تشریح کی، محمد اقبال لاہوری تھے۔ کہا جاسکتا ہے کہ بعد کے مفکرین نے اقبال سے متاثر ہوکر اس مسئلے کی طرف توجہ دی۔[81]۔[82] اقبال کہتے ہیں کہ “پیغمبر اکرم(ص) کی بعثت کے ساتھ ہی، انسان عقل و دانش کے لحاظ سے اس سطح پر پہنچ گیا جہاں وہ پیغمبرانہ ہدایات اور دستگیریوں اور مابعد الطبیعی اور وحیانی راہنمائیوں کے بغیر بھی سعادت کا راستہ پہچان سکتا ہے۔
اقبال اس نظریئے میں اشلائر ماکر[83] اور وليم جیمس،[84] کے نظریۂ “دینی تجربہ” (Religious Experience) سے متاثر ہوکر وحی کو ایک قسم کا تجربہ سمجھتے اور ہنری برگسن[85] کے “نظریۂ حیات (Lebensphilosophie = Philosophy of Life) [86] سے متاثر ہوکر اس کو جِبِلی نوعیت کا عمل سمجھتے ہیں۔[87]
وہ تاریخ کے مراحل کے بارے مین فرانسیسی فیلسوف “اگست کامٹے” (Auguste Comte) [88] کے تجزیئے کو قبول کرتے ہیں اور اس بنا پر ان کا خیال ہے کہ “انسان پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کے بعد اپنی عقل و خِرَد کے دور میں داخل ہوا ہے اور وہ شہود سے مدد لے سکتا ہے چنانچہ اس کو نئے پیغمبروں کی ہدایت کی ضرورت نہیں ہے۔[89] لہذا، انسانی حیات کی ڈوروں کو معین اور خاص افراد کے ہاتھ میں نہیں دینا چاہئے اور انسان کے اختیار کو خود اس کے ہاتھ میں دینا چاہئے۔[90]
اقبال کے بعد بھی، بعض مصنفین اور مفکرین ـ منجملہ: مرتضی مطہری، علی شریعتی اور عبدالکریم سروش نے بھی اقبال کے نظریئے کا تنقیدی جائزہ لیا اور اپنی رائے کا اظہار کیا۔[91] جعفر سبحانی [92] محمد جعفری،۔[93] ولی اللہ عباسی،[94] اور محمد رضائی [95] نے سروش کی آراء کا تنقیدی جائزہ لیا ہے اور ان کے نظریات کے مدلل جوابات دیئے ہیں۔
سروش نے اقبال کے نظریئے سے متاثر ہوکر خاتمیت کے بارے میں متعدد تجزیئے لکھے ہیں اور شیعہ عقیدہ امامت کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ عقیدہ خاتمیت سے ہمآہنگ نہیں ہے اور کئی جہات سے اس کی نفی کرتا ہے!۔ وہ لکھتا ہے کہ اگر فرض کیا جائے کہ انسان نے فکری لحاظ سے ترقی کی ہے اور معاشرے میں مزید کسی تبلیغی پیغمبر کی ضرورت نہیں ہے اور امت نبی کے بغیر بھی اپنے علماء سے اسفتادہ کرکے اپنے دین کو تحریف کے خطرات سے محفوظ رکھ سکتی ہے، پس امام کی کیا ضرورت ہے؟! ان مسائل کا جواب پانے کے لئے مرتضی مطہری کی کتاب ختم نبوت سے رجوع کیا جاسکتا ہے۔[96]
نئے سوالات اور آراء
پیغمبروں کے خاتم یا پیغمبروں کی زینت!
بہائیوں کا خیال ہے کہ سورہ احزاب کی آیت 40 میں لفظ خاتم النبیین میں لفظ “خاتم” کے معنی انگشتری کے ہیں اور مقصود یہ ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) آخری پیغمبر نہیں بلکہ پیغمبروں کی زینت ہیں!
اس شبہہے کے جواب میں کہا گیا ہے کہ “خاتم” وسیلہ ہے ختم کرنے کا، چنانچہ اس کو “خاتم” کا نام دیا گیا ہے کیونکہ اس کے ذریعے خط یا دوسری چيزوں کو ختم کیا جاتا ہے اور ان پر مہر ثبت کی جاتی ہے اور یہ اطلاق مجازی ہے۔ چنانچہ آیت کریمہ کو اس معنی میں لینا آیت کے ظاہری مفہوم کے منافی ہے اور ہرگز معتبر نہیں ہے۔[97]
خاتم الانبیاء یا خاتم الرسل
اس موضوع کو اٹھانے والے افراد کا شبہہ یہ ہے کہ سورہ احزاب کی چالیسویں آیت میں “خاتم النبیین” کہا گیا ہے اور “خاتم الرسل” نہیں کہا گیا؛ چنانچہ یہ پیغمبر آخری نبی تو ہیں مگر آخری رسول نہیں ہیں اور ممکن ہے کہ آپ(ص) کے بعد بھی کوئی دوسرا رسول مبعوث ہوجائے!
لیکن یہ اعتراض بھی رد کریا گیا ہے اور باطل ہے کیونکہ نبی یا تو رسول کے مساوی ہے یا پھر نبی عام ہے رسول سے[98] یعنی ہر رسول نبی ہے لیکن ہر نبی رسول نہیں ہے۔ چنانجہ یہاں ختم نبوت سے مراد ختم رسالت بھی ہے کیونکہ یہ ممکن نہیں ہے کہ کوئی نبی نہ ہو لیکن رسول ہو۔
دعوت محمدیہ(ص) کی عمومیت کا انکار
مخالفین کے بزعم، قرآن کریم کی بعض آیات پیغمبر(ص) کی دعوت کی عمومیت کی نفی کرتی ہیں اور اس دعوت کو ایک خاص قوم اور جماعت تک محدود کردیتی ہیں۔ مثال کے طور پر قرآن میں ایسی آیات ہیں جن میں ایک خاص قوم کے انذار مقصود ہے:
فَإِنَّمَا يَسَّرْنَاهُ بِلِسَانِكَ لِتُبَشِّرَ بِهِ الْمُتَّقِينَ وَتُنذِرَ بِهِ قَوْماً لُّدّاً۔
ترجمہ: اور ہم نے اسے آپ کی زبان کے ذریعے اس لیے آسان بنا دیا ہے کہ آپ اس کے ذریعہ سے پرہیز گاروں کو خوش خبری سنائیں اور اس کے ساتھ اہل عناد کو عذاب سے متنبہ کریں۔[99]
وَمَا كُنتَ بِجَانِبِ الطُّورِ إِذْ نَادَيْنَا وَلَكِن رَّحْمَةً مِّن رَّبِّكَ لِتُنذِرَ قَوْماً مَّا أَتَاهُم مِّن نَّذِيرٍ مِّن قَبْلِكَ۔
ترجمہ: اور آپ طور کے پہلو میں بھی نہ تھے جب ہم نے آواز دی تھی مگر یہ آپ کے پروردگار کی طرف کی رحمت ہے تاکہ آپ اس قوم کو ڈرائیں جن کے پاس آپ کے پہلے کوئی ڈرانے والا نہیں آیا، شاید کہ وہ نصیحت قبول کریں۔[100]
أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ بَلْ هُوَ الْحَقُّ مِن رَّبِّكَ لِتُنذِرَ قَوْماً مَّا أَتَاهُم مِّن نَّذِيرٍ مِّن قَبْلِكَ۔
ترجمہ: کیا وہ کہتے ہیں کہ اس نے اسے گھڑلیا ہے۔ بلکہ وہ آپ کے پروردگار کی طرف سے حق ہے تاکہ آپ متنبہ کریں اس قوم کو جس کے پاس آپ کے پہلے کوئی متنبہ کرنے والا نہیں آیا۔[101]
لِتُنذِرَ قَوْماً مَّا أُنذِرَ آبَاؤُهُمْ فَهُمْ غَافِلُونَ۔
ترجمہ: تاکہ آپ ڈرائیے اس قوم کو جس کے باپ دادا کو ڈرایا نہیں گیا تھا تو وہ بے خبری کے عالم میں ہیں۔[102]
بعض مخالفین کا کہنا ہے کہ پیغمبر اسلام(ص) کی دعوت “امّ القرٰی” تک محدود ہے اور اپنے دعوے کے اثبات کی کوشش کرتے ہوئے ان آیات کریمہ سے استناد کیا ہے:
وَهَـذَا كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ مُبَارَكٌ مُّصَدِّقُ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَلِتُنذِرَ أُمَّ الْقُرَى وَمَنْ حَوْلَهَا۔
ترجمہ: اور یہ وہ بابرکت کتاب ہے جسے ہم نے اتارا ہے تصدیق کرنے والی اس کی جو اس کے پہلے ہے اور اس لئے کہ آپ متنبہ کریں مکہ میں اور اس کے اردگرد جتنے ہیں، سب کو۔[103]
وَكَذَلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ قُرْآناً عَرَبِيّاً لِّتُنذِرَ أُمَّ الْقُرَى وَمَنْ حَوْلَهَا۔
ترجمہ: اور اسی طرح ہم نے آپ کی طرف بذریعہ وحی بھیجا ہے عربی زبان کا قرآن تا کہ آپ متنبہ کریں مکہ اور اس کے ارد گرد والوں کو۔[104]
مخالفین نے ان آیات کریمہ سے استناد کرکے پیغمبر اسلام(ص) کی دعوت کی عمومیت کی نفی کی ہے جبکہ اس دعوت کی عمومیت ختم نبوت کے تقاضوں میں سے ایک ہے۔
اس قسم کا جواب “نقض” اور “حل” کی صورت میں دیا گیا ہے:
نقضی جواب میں ان ہی سورتوں کی دوسری آیات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے جو پیغمبر(ص) کی دعوت کی ہمہ گیریت اور عمومیت و آفاقیت کی طرف اشارہ کرتی ہیں اور مخالفین کے مدعا کو باطل کر دیتی ہیں۔[105]
حلّی جواب کے ضمن میں کہا جاسکتا ہے کہ “یہ جو ایک خاص قوم یا جماعت سے کسی دعوت میں خطاب کیا جاتا ہے اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ وہ دعوت عمومی اور عالمی نہیں ہے؛ پیغمبر اسلام(ص) نے آغاز رسالت میں صرف اپنے اقارب اور اپنی قوم کو دعوت دی اور پھر اس دعوت کو وسعت دی اور اہلیان حجاز کو حق کی دعوت دی اور پھر دوسرے ممالک کے سربراہوں کو دعوتنامے بھجوائے”۔[106]
دوسرے پیغمبروں کی بعثت کا امکان
منکرین ختم نبوت میں سے بعض نے ایسی آیات کا حوالہ دیا ہے جو ان کے بزعم مستقبل میں بھی پیغمبروں کے آنے اور نئے دین و شریعت کے ابلاغ کا امکان ظاہر کرتی ہیں اور ارسال رسل کا سلسلہ جاری رکھنے کے سلسلے میں اللہ کے وعدے کے جاری و ساری رہنے کی طرف اشارہ کرتی ہیں؛ بطور مثال وہ سورہ اعراف کی اس آیت کی طرف اشارہ کرتے ہیں جہاں ارشاد خداوندی ہے:
يَا بَنِي آدَمَ إِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ رُسُلٌ مِّنكُمْ يَقُصُّونَ عَلَيْكُمْ آيَاتِي۔
ترجمہ: اے آدم کی نسل کے لوگو! اگر تماری طرف آئیں کچھ پیغمبر تم میں سے جو تمہارے سامنے میرے احکام پیش کریں۔[107]
ان کا کہنا ہے کہ اس آیت کے مطابق، خداوند متعال مستقبل میں بھی پیغمبروں کو مبعوث فرمائے گا!
اس شبہے کا جواب دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ “یہ آیت کریمہ آدم ابوالبشر(ع) کے جنت سے نکلنے کی داستان کے تسلسل میں نازل ہوئی ہے اور اس میں خداوند متعال کا خطاب انسانوں سے ہے اور بیان کیا گیا ہے کہ خداوند متعال نے انسان کی ہدایت و راہنمائی کے لئے نبوت اور شریعت کا نظام مقرر فرمایا ہے۔[108]۔[109] علاوہ ازیں، صیغۂ مضارع ہمیشہ کسی فعل کے مستقبل میں واقع ہونے پر دلالت نہیں کرتا۔ اور پھر اس آیت کریمہ کا مضمون جملۂ شرطیہ کے سانچے میں بیان ہوا ہے، اور وہ یوں ہے کہ “اگر پیغمبر تمہاری طرف آئیں تو ان کی پیروی کرو؛ اور جملۂ شرطیہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ شرط کا جملہ قطعی طور پر واقع بھی ہوجائے۔[110]۔[111]۔[112]
نیز ختم نبوت کے منکرین نے سورہ نور کی آیت 25[113] کو نئے دین و شریعت سے تفسیر کیا ہے۔ حالانکہ اس آیت میں “دین” سے مراد جزا اور سزا ہے نہ کہ اسلام کے سوا کوئی اور دین۔[114]۔[115] مخالفین نے دوسرے شبہات بھی پیش کئے ہیں اور ان کے مدلل جوابات بھی دیئے گئے ہیں۔[116]
آخر الزمان میں حضرت عیسی اور حضرت خضر کا نزول
مفصل مضمون: آخر الزمان
ان افراد کا ایک شبہہ یہ ہے کہ یہ کیونکر ممکن ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) اللہ کے آخری پیغمبر ہوں جبکہ حضرت عیسی علیہ السلام ابھی زندہ ہیں اور آخر الزمان میں زمین پر پلٹ آئیں گے۔ یہی بات یہ لوگ حضرت خضر کے بارے میں بھی ـ بشرطیکہ وہ اللہ کے پیغمبر ہوں ـ کہتے ہیں۔
لیکن یہ شبہہ باطل ہے کیونکہ نئے پیغمبر سے مراد وہ پیغمبر ہے جو نئی شریعت ساتھ لائے یا تبلیغی پیغمبر کی حیثیت سے سابقہ دین کی تبلیغ کرے حالانکہ یہ موضوع حضرت عیسی اور حضرت خضر پر صادق نہیں آتا۔ وہ آئیں گے تو اسلامی شریعت پر عمل کریں گے اور وہ پیغمبروں کی حیثیت سے نہیں بلکہ مسلمانوں کی حیثیت سے اتر کر آئيں گے۔[117]
ختم نبوت اور امامت کا باہمی ربط
دینی متون کے مطابق، نبوت اور امامت کے درمیان، نہ صرف منافات و مغایرت نہیں ہے بلکہ امامت نبوت کا تسلسل اور امام نبی کا راستہ اور مشن جاری رکھنے والا ہے۔ اسی بنا پر ختم نبوت کی ایک حکمت امام کا وجود ہے۔ صدر اول سے لے کر دور معاصر تک اس مسئلے میں کوئی اختلاف سامنے نہیں آیا ہے۔ مسلمان یا تو امام کو پیغمبر(ص) کا جانشین سمجھتے تھے یا نہیں سمجھتے تھے؛ لیکن کوئی یہ نہیں کہتا تھا کہ ـ شیعہ تعریف و تفسیر کے مطابق ـ امامت ختم نبوت کے ساتھ سازگار نہیں ہے۔ حالیہ برسوں میں ختم نبوت کے بارے میں نئے نقطہ ہائے نظر سامنے آنے کے بعد، بعض سنی اور حتی کہ شیعہ دانشور مذکورہ شبہات سے متاثر ہوکر اس بات کے قائل ہوئے ہیں کہ گویا ختم نبوت اور امامت کے شیعہ عقیدے کو یکجا قبول نہیں کیا جاسکتا۔ ختم نبوت اور امامت سے متعلق اس شبہے سمیت تمام تر شبہات کے جواب میں علماء نے متعدد کتب لکھی ہیں۔
مفید مآخذ
آئین خاتم، و امامت، بقلم محمد حسن قدردان قراملکی۔
خاتمیت، استاد مرتضی مطہری،
ختم نبوت، وہی مولف۔
خاتميت و پاسخ به ساخته هاي بهائيت، بقلم کتاب علي امير پور
خاتميت پيامبر اسلام و ابطال تحليلي، بقلم یحیی نوری۔
بیرونی روابط
مضمون کا منبع تصرف کے ساتھ: دایره المعارف بزرگ اسلامی، مدخل خاتمیت۔
فلسفه خاتمیت و امامت(ختم نبوت اور امامت کا فلسفہ)۔
جمع خاتمیت با امامت و مهدویت (مسئلۂ ختم نبوت اور امامت و مہدویت کا جمع ہونا)۔
پیوند ناگسستنی خاتمیت با ولایت (ختم نبوت اور ولایت کا اٹوٹ رشتہ)۔
پیوند ناگسستنی خاتمیت با ولایت ختم نبوت اور ولایت کا اٹوٹ رشتہ)۔
تعارض امامت با خاتمیت (امامت اور ختم نبوت کے درمیان تعارض)!۔
مبانی و ماهیت خاتمیت (ختم نبوت کو اصول اور ماہیت)۔
امامت و خاتمیت، تعارض یا تلائم (امامت اور ختم نبوت کے درمیان تضاد یا توافق)۔
چالشهای فکری در تفسیر خاتمیت (ختم نبوت کی تفسیر میں فکری چیلنج)۔
نگاه اقبال و شریعتی به خاتمیت، صواب یا ناصواب (ختم نبوت کے بارے میں اقبال اور شریعتی کے نظریات، صحیح یا غیر صحیح)۔
پاورقی حاشیے
ضروریِ دین سے مراد وہ شیئے ہے جس کے جزء دین کے عنوان سے اثبات کے لئے کسی نظر اور دلیل و ثبوت کی ضرورت نہیں ہے اور ہر مسلمان جانتا ہے کہ وہ دین کا جزء ہے سوائے نو مسلم افراد کے جو اسلام کے احکام و عقائد سے زیادہ واقفیت نہیں رکھتے یا کسی ایسے علاقے میں ہوں جو اسلامی بلاد سے دور ہو اور ان افراد کا مسلمانوں کے ساتھ آنا جانا نہ ہو۔(القواعد الفقهية- حسن بجنوردی – مكتبة الآداب، نجف، ۷ جلدی،1391ہجری قمری، ج5 ص312)۔
ابن فارس، معجم مقائیس اللغة، ص245۔
ابن منظور، لسان العرب، ج12، ص164۔
طریحی، مجمع البحرین، ج6، ص54۔
حر عاملی، وسائل الشیعه، ج27، ص169۔
سبحانی، مفاهیم قرآن، ص486۔
صادقی، درآمدی بر کلام جدید، ص234۔
زمخشری، کشاف، ج3، ص544ـ545۔
طبرسی، مجمع البیان، ج7، ص567۔
فخررازی، تفسیر کبیر، ج13، ص185۔
طوسی، تبیان، ذیل آیت 40 سورہ احزاب۔
میبدی، کشف الاسرار وعدة الابرار، ص61۔
ابوالفتوح رازی، روض الجِنان و روح الجَنان فی تفسیر القرآن، ج15، ص432۔
آلوسی، ج21، ص34۔
تفسیر نمونه، ج17، ص338ـ341۔
مطهری، مرتضی، خاتمیت، ص17، المیزان، ذیل آیات۔
سوره انعام، آیت 19۔
سوره سباء، آیت 28۔
سوره فرقان، آیت1۔
سبحانی، خاتمیت و مرجعیت، 1369ہجری شمسی، ص33ـ38۔
سورہ اعراف، آیت 158۔
سوره انبیاء، آیت 107۔
سورہ توبه، آیت 33۔
سوره فتح، آیت 28۔
سوره صف، آیت 9۔
سوره فصّلت، آیت 42۔
سوره حجر، آیت 9۔
طوسی، مصباح المتهجد، 1411، ص719، 778، 803۔
سید ابن طاؤس، اقبال الاعمال، ج1، ص84، 116، ج2، ص64، 303۔
اس حدیث کے بارے میں مزید آگہی کے لئے رجوع کریں: المراجعات، تألیف امام شریف الدین، مراجات نمبر 28 اور 29۔
ابن حنبل، مسند، ج3، ص79۔
حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، ج2، ص597۔
هیثمی، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، ج7، ص346۔
صفّار قمی، بصائر الدرجات الکبری فی فضائل آلمحمد(ع)، ص330۔
ابن ابی زینب، الغیبة، ص266۔
ابن شهرآشوب، مناقب آل ابی طالب، ج3، ص54۔
مجلسی، بحارالانوار، ج39، ص76۔
ابن سعد، الطبقات، ج1، ص192۔
ابن حنبل، مسند، ج1، ص301۔
مسلم بن حجاج، صحیح، ج2، ص64۔
طبرانی، المعجم الکبیر، ج7، ص155۔
ابن بابویه، مَن لا یحضُرُه الفقیه، 1414، ج4، ص163۔
وہی مؤلف، الخصال، ج1، ص322۔
مفید، الامالی، ص53۔
حرّعاملی، وسائل الشیعہ، ج28، ص337ـ338۔
نهج البلاغه، خطبات: 133، 173، 235۔
نهج البلاغه، خطبه 1۔
صفّار قمی، بصائر الدرجات، ص168۔
کلینی، الکافی، ج1، ص58۔
حرّعاملی، الفصول المهمة فی اصول الائمة، ج1، ص643۔
احادیث کی تفصیل اور خاتمیت کے بارے میں دوسری احادیث کے لئے رجوع کریں: سبحانی، خاتمیت از نظر قرآن و حدیث و عقل، ص45ـ94۔
نمونے کے طور پر رجوع کریں: ابن سینا، اثبات النبوات، ص41ـ47۔
صدرالدین شیرازی، الشواهد الربوبیة فی المناهج السلوکیة، ص337ـ379۔
ابن سینا، النجاة فی الحکمة المنطقیة و الطبیعیة و الالهیة، قسم 3، ص305ـ 306۔
ابن سینا، الالهیات من کتاب الشفاء، ص491۔
سهروردی، مجموعة مصنفات شیخ اشراق، ج3، ص456۔
صدرالدین شیرازی، الشواهد الربوبیة…، ص376ـ 377۔
سهروردی، مجموعة مصنفات…، ج3، ص456۔
صدر الدین شیرازی، الشواهد الربوبیة …، ص376ـ 377۔
سبزواری، شرح الاسماء، او، شرح دعاء الجوشن الکبیر، ص102، پاورقی حاشیہ نمبر3، ص547ـ548۔
بطور مثال رجوع کریں: ابوطالب مکی، قوت القلوب فی معاملة المحبوب …، ج2، ص166۔
ابن عربی، 1370ش، ج1، ص134ـ135، ج2، فصوص الحکم، والتعلیقات علیه بقلم ابي العلاء عفیفی، ص171۔
ابن عربی، الفتوحات المکیة، سفر2، ص291۔
سوره انعام، آیت 124۔
مصباح یزدی، آموزش عقائد، ص184۔
دیکھیں: پاورقی نمبر 1۔
مصباح، معارف قرآن بخش 5، ص189۔
سوره نحل آیت 64۔
سوره حجر آیت 9۔
طباطبائی، المیزان، ج2، ص130۔
سوره مائده آیت 3۔
محمد باقر مجلسی، بحارالانوار، ج67، ص96، ح3، باب47۔
علی ربانی گلپایگانی، کلام تطبیقی، ص115-121۔
مطهری، مجموعه آثار، ج2، ص184ـ 186، ج3، ص156ـ157، 195ـ196۔
سبحانی، الخاتمیة، ص47ـ49۔
کلينی، الکافی، ج1، ص59۔
نجفی، بهائیان، ص435ـ442۔
عامر نجار، فی مذاهب اللّااسلامیین: البابیة، البهائیة، القادیانیة، ص96ـ 102، 195ـ226۔
مصباح، معارف قرآن، بخش 5، ص180ـ181۔
سبحانی، خاتمیت از نظر قرآن وحدیث وعقل، ص23ـ33۔
مطهری، مجموعه آثار، ج2، ص186ـ 194۔
عباسی، عباسی، ولی اللّه، “استاد مطهری: کلام جدید و مسأله خاتمیت” ص214ـ229۔
فریڈرک ڈینیل ارنسٹ اشلائرماکر (Friedrich Daniel Ernst Schleiermacher) نومبر 1768 – 12 فروری 1834) جرمنی کے پروٹسٹنٹ الہی فیلسوف۔
ولیم جیمس (William James، 1842-1910) امریکی فیلسوف اور پراگمیٹزم کے بانی۔
مشہور فرانسیسی فیلسوف، ہینری برگسن (فرانسیسی میں: Henri Bergson) (ولادت: 18 اکتوبر 1859 وفات: 4 جنوری 1941 عیسوی)۔
سروش، بسط تجربه نبوی، ص120۔
اقبال لاهوری، احیای فکر دینی در اسلام، ص145۔
آئیسڈور آگسٹے ماریے فرانسس ہاؤیئر کومٹے Isidore Auguste Marie François Xavier Comte (19 January 1798 – 5 September 1857), better known as Auguste Comte۔
اقبال لاهوری، احیای فکر دینی در اسلام، ص146۔
اقبال لاهوری، احیای فکر دینی در اسلام، ص146۔
برای بیان رابطه خاتمیت و امامت از نظر سروش رجوع کنید به سروش، بسط تجربه نبوی، ص142ـ 147؛ وہی مؤلف، “ڈاکٹر بہمن پور کی تنقید کا جواب”، 1388ہجری شمسی۔
سبحانی، “خاتمیت و مرجعیت”، ص5ـ24۔
جعفری، “معنا و مبنای خاتمیت از منظر روشنفکران” ص39ـ47۔
عباسی، “استاد مطهری: کلام جدید و مسأله خاتمیت” ص235ـ 237۔
محمد رضایی، “خاتمیت یا بسط تجربه نبوی؟!”، ص96ـ100۔
مطهری، ختم نبوت، ص50 اور بعد کے صفحات۔
مصباح، معارف قرآن، بخش5، ص181ـ182۔
طباطبائی، تفسیر المیزان، ذیل آیت 40 سورہ احزاب۔
سوره مریم: 97۔
سوره قصص، آیت 46۔
سوره سجده، آیت 3۔
سوره یس، آیت 6۔
سوره انعام، آیت 92۔
سوره شوری، آیت 7۔
سبحانی، الالهیات علی هدی الکتاب و السنة و العقل، ج3، ص477ـ 478۔
سبحانی، الالهیات علی هدی الکتاب و السنة و العقل، ج3، ص477ـ 478۔
سوره اعراف، آیت 35۔
طباطبائی، ذیل آیت 35 سورہ اعراف۔
نیز خداوند متعال ارشاد فرماتا ہے: قَالَ اهْبِطَا مِنْهَا جَمِيعاً بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُم مِّنِّي هُدًى فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقَى۔
ترجمہ:ارشاد ہوا کہ دونوں اترو اس میں سے ایک ساتھ، تم سب ایک دوسرے کے دشمن ہو گے۔ اب اگر تمہارے پاس میری طرف سے کوئی ہدایت آئے تو جو میری ہدایت کی پیروی کرے گا، وہ نہ گمراہ ہو گا اور نہ زحمت اٹھائے گا: سوره طه، آیت 123۔
مصباح، معارف قرآن، بخش 5، ص181ـ182۔
سبحانی، خاتمیت از نظر قرآن و حدیث و عقل، ص96ـ109۔
سبحانی، مفاهیم القرآن، ج3، ص171ـ181۔
يَوْمَئِذٍ يُوَفِّيهِمُ اللَّهُ دِينَهُمُ الْحَقَّ،
ترجمہ: اس دن اللہ ان کی پوری پوری جزا سزا انہیں پہنچائے گا۔
سبحانی، خاتمیت از نظر قرآن و حدیث و عقل، ص112ـ113۔
سبحانی، مفاهیم القرآن، ج3، ص193ـ194۔
سبحانی، خاتمیت از نظر قرآن و حدیث و عقل، ص125ـ129۔
زمخشری، کشاف، ص545۔
مآخذ
قرآن کریم.
ابن ابی زینب، الغیبة، چاپ فارس حسون کریم، قم 1422ہجری قمری
ابن ابی شیبه، المصنَّف فی الاحادیث و الآثار، چاپ سعید محمد لحّام، بیروت 1409ہجری قمری/1989عیسوی۔
ابن اثیر.
ابن بابویه، کتاب الخصال، چاپ علی اکبر غفاری، قم 1362ہجری شمسی۔
ابن بابویه، کتاب مَن لا یحضُرُه الفقیه، چاپ علیاکبر غفاری، قم 1414ہجری قمری۔
ابن حجر عسقلانی، فتح الباری: شرح صحیح البخاری، بولاق 1300ـ1301ہجری قمری، چاپ افست بیروت بی تا.
ابن حزم، المُحلّی بالآثار، ج1، چاپ عبدالغفار سلیمان بنداری، بیروت 1408ہجری قمری/1988عیسوی۔
ابن حنبل، مسند الامام احمد بن حنبل، بیروت: دارصادر، بیتا.
ابن داوود، سلیمان بن اشعث، سنن ابی داود، چاپ سعید محمد لحّام، بیروت 1410ہجری قمری/1990عیسوی۔
ابن سعد، الطبقات، (بیروت).
ابن سینا، حسین، اثبات النبوات، چاپ مایکل مرمورا، بیروت 1968عیسوی۔
ابن سینا، حسین، الالهیات من کتاب الشفاء، چاپ حسن حسن زاده آملی، قم 1376ہجری شمسی۔
ابن سینا، حسین، النجاة فی الحکمة المنطقیة و الطبیعیة و الالهیة، قاهره، 1357ہجری قمری/1938عیسوی، چاپ افست تهران، بی تا.
ابن شهر آشوب، مناقب آلابیطالب، نجف 1956عیسوی۔
ابن طاؤس، اقبال الاعمال، چاپ جواد قیومی اصفهانی، قم 1414ـ1416ہجری قمری۔
ابن عربی، الفتوحات المکیة، سفر2، چاپ عثمان یحیی، قاهره 1405ہجری قمری/1985عیسوی۔
ابن عربی، فصوص الحکم، و التعلیقات علیه بقلم ابوالعلاء عفیفی، تهران 1370ہجری شمسی۔
ابن فارس، معجم مقائیس اللغه.
ابن منظور، لسان العرب.
اثبات نبوت خاتم الانبیاء(ص) و حقانیت دین اسلام (راه سعادت)، تهران 1363ہجری شمسی۔
اقبال لاهوری، محمد، احیای فکر دینی در اسلام، ترجمه احمد آرام، بی جا: رسالت قلم، بیتا.
آلوسی، محمودبن عبداللّه، روح المعانی، بیروت: داراحیاءالتراث العربی، بی تا.
آمدی، علی بن محمد، غایةالمرام فی علم الکلام، چاپ حسن محمود عبداللطیف، قاهره 1391ہجری قمری/1971عیسوی۔
ایجی، عبدالرحمان بن احمد، المواقف فی علم الکلام، بیروت: عالم الکتب، بیتا.
باقلانی، محمدبن طیب، التمهید فی الرد علی الملحدة المعطلة و الرافضة و الخوارج و المعتزلة، چاپ محمود محمد خضیری و محمد عبدالهادی ابوریده، قاهره 1366ہجری قمری/1947عیسوی۔
بخاری، محمدبن اسماعیل، صحیح البخاری، چاپ محمد ذهنی افندی، استانبول 1401ہجری قمری/1981، چاپ افست بیروت، بیتا.
بغدادی، عبدالقاهربن طاهر، الفرق بین الفرق، چاپ محمد محیی الدین عبدالحمید، بیروت: دارالمعرفة، بیتا.
بغدادی، عبدالقاهربن طاهر، کتاب اصول الدین، استانبول 1346ہجری قمری/1928عیسوی، چاپ افست بیروت 1401ہجری قمری/1981عیسوی۔
بیاض، علیبن محمد، الصراط المستقیم الی مستحقی التقدیم، چاپ محمدباقر بهبودی، تهران 1384ہجری شمسی۔
بیاضی، علی بن محمد، الصراط المستقیم الی مستحقی التقدیم، چاپ محمدباقر بهبودی، تهران 1384ہجری شمسی۔
تزمذی، محمدبن عیسی، سنن الترمذی و هو الجامع الصحیح، چاپ عبدالوهاب عبداللطیف، بیروت 1403ہجری قمری/1983عیسوی۔
تفتازانی، مسعودبن عمر، شرح المقاصد، چاپ عبدالرحمان عمیره، قاهره 1409ہجری قمری/1989عیسوی، چاپ افست قم 1370ـ1371ہجری شمسی۔
تفسیر نمونه، زیر نظر ناصر مکارم شیرازی، ج17، تهران: دارالکتب الاسلامیه، 1376ہجری شمسی۔
جعفری، محمد، «معنا و مبنای خاتمیت از منظر روشنفکران »، معرفت، سال 12، ش 11 (بهمن 1382)ہجری شمسی۔
جوهری، اسماعیل بن حماد، الصحاح: تاجاللغة و صحاحالعربیة، چاپ احمد عبدالغفور عطار، قاهره 1376ہجری قمری، چاپ افست بیروت 1407ہجری قمری۔
جوینی، عبدالملک بن عبداللّه، کتاب الارشاد الی قواطع الادلة فی اصول الاعتقاد، چاپ محمدیوسف موسی و علی عبدالمنعم عبدالحمید، مصر 1369ہجری قمری/1950عیسوی۔
حاکم نیشابوری، محمدبن عبداللّه، المستدرک علی الصحیحین، و بذیله التلخیص للحافظ الذهبی، بیروت: دارالمعرفة، بیتا.
حرّ عاملی، محمدبن حسن، الفصول المهمة فی اصول الائمة، چاپ محمدبن محمد حسین قائینی، قم 1376ہجری شمسی۔
حرّ عاملی، محمدبن حسن، تفصیل وسائل الشیعة الی تحصیل مسائل الشریعة، مؤسسة آل البيت عليهم السلام لاحياء التراث 1414ہجری قمری۔
خلیل بن احمد، کتاب العین، چاپ مهدی مخزومی و ابراهیم سامرائی، قم 1409ہجری قمری۔
دارمی، عبداللّه بن عبدالرحمان، سنن الدارمی، چاپ محمد احمد دهمان، دمشق 1349ہجری قمری۔
رازی، ابوالفتوح، روض الجِنان و روح الجَنان فی تفسیر القرآن، چاپ محمد جعفر یاحقی و محمدمهدی ناصح، مشهد 1365ـ1376ہجری شمسی۔
راغب اصفهانی، حسین بن محمد، المفردات فی غریب القرآن، چاپ محمد سید کیلانی، بیروت بیتا.
ربانی گلپایگانی، علی، کلام تطبیقی (نبوت، امامت و معاد)، انتشارات مرکز جهانی علوم اسلامی، 19 مهر، 1388ہجری شمسی۔
زَبیدی، محمدبن محمد، تاج العروس من جواهر القاموس، چاپ علی شیری، بیروت 1414ہجری قمری/ 1994عیسوی۔
زرگری نژاد، غلامحسین، رسایل مشروطیت: مشروطه به روایت موافقان و مخالفان، تهران 1387ہجری شمسی۔
زمخشری، محمود، الکشاف عن حقایق غوامض التنزیل، بیروت: دارالکتب العلمیه، 1407ہجری قمری۔
سبحانی، جعفر، «خاتمیت و مرجعیت علمی امامان معصوم علیهم السلام »، قبسات، ش 37 (پاییز 1384)ہجری شمسی۔
سبحانی، جعفر، الالهیات علی هدی الکتاب و السنة و العقل، به قلم حسن محمد مکی عاملی، ج3، قم 1412ہجری قمری۔
سبحانی، جعفر، الخاتمیة فی الکتاب و السنة و العقل الصریح، تهران، بیتا.
سبحانی، جعفر، خاتمیت از نظر قرآن و حدیث و عقل، ترجمه رضا استادی، قم 1369ہجری شمسی۔
سبحانی، جعفر، مفاهیم القرآن، ج:3 یبحث عن عالمیة الرسالة المحمدیة و خاتمیتها و امیة النبی الاکرم(ص) و اطلاعه علی الغیب باذن الله سبحانه، و حیاته فی القرآن، قم 1413ہجری قمری۔
سبزواری، هادی بن مهدی، شرح الاسماء، او، شرح دعاء الجوشن الکبیر، چاپ نجفقلی حبیبی، تهران 1375ہجری شمسی۔
سروش، عبدالکریم، «پاسخ به نقد آقای بهمن پور »، عبدالکریم سروش، 1388ہجری شمسی۔
سروش، عبدالکریم، بسط تجربه نبوی، تهران 1382ہجری شمسی۔
سروش، عبدالکریم، مدارا و مدیریت، تهران 1376ہجری شمسی۔
سهروردی، یحیی بن حبش، مجموعة مصنفات شیخ اشراق، ج3، چاپ حسین نصر، تهران 1373ہجری شمسی۔
سیوطی، عبدالرحمان بن ابیبکر ، الجامع الصغیر فی احادیث البشیر النذیر، بیروت 1401ہجری قمری۔
شریعتی، علی، اسلام شناسی، تهران 1378ہجری شمسی الف.
شریعتی، علی، تاریخ و شناخت ادیان، تهران 1336ہجری شمسی۔
شریعتی، علی، شیعه، تهران 1378ہجری شمسی ب.
شعرانی، ابوالحسن، ردّ شبهات.
شهرستانی، محمدبن عبدالکریم، کتاب نهایةالاقدام فی علم الکلام، چاپ آلفرد گیوم، قاهره، بیتا.
صادقی، هادی، درامدی بر کلام جدید، چاپ دوم، قم، کتاب طه و نشر معارف، 1383ہجری شمسی۔
محمدبن ابراهیم صدرالدین شیرازی (ملاصدرا)، الشواهد الربوبیة فی المناهج السلوکیة، با حواشی ملاهادی سبزواری،ص 376-377، چاپ جلال الدین آشتیانی، تهران 1360ہجری شمسی۔
صفار قمی، محمدبن حسن، بصائر الدرجات الکبری فی فضائل آلمحمد(ع)، چاپ محسن کوچه باغی تبریزی، تهران 1362ہجری شمسی۔
طباطبائی، محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن.
طبرانی، سلیمان بن احمد، المعجم الکبیر، چاپ حمدی عبدالمجید سلفی، ج7، موصل 1405ہجری قمری/1985عیسوی۔
طبرسی، مجمع البیان.
طبری، تاریخ (بیروت).
طبری، علی بن سهل، الدین والدولة فی اثبات نبوة النبی محمد صلی اللّه علیه وسلم، چاپ عادل نویهض، بیروت 1402ہجری قمری/1982عیسوی۔
طریحی، فخرالدین بن محمد، مجمع البحرین، چاپ احمد حسینی، تهران 1362ہجری شمسی۔
طوسی، محمدبن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، چاپ احمد حبیب قصیر عاملی، بیروت، بیتا.
طوسی، محمدبن حسن، کتاب تمهیدالاصول فی علم الکلام، چاپ عبدالمحسن مشکوةالدینی، تهران 1362ہجری شمسی۔
طوسی، محمدبن حسن، مصباح المتهجّد، بیروت 1411ہجری قمری/ 1991عیسوی۔
عباسی، ولی اللّه، “استاد مطهری: کلام جدید و مسأله خاتمیت”، کتاب نقد، ش 31 (تابستان 1383)ہجری شمسی۔
عراقی، عثمان بن عبداللّه، الفرق المفترقة بین اهل الزیغ و الزندقة، چاپ یشار قوتلوآی، آنکارا 1961عیسوی۔
علمالهدی، علی بن حسین، شرح جمل العلم و العمل، چاپ یعقوب جعفری مراغی، تهران 1419ہجری قمری۔
علی بن ابیطالب(ع)، امام اول، نهج البلاغة، چاپ صبحی صالح، قاهره 1411ہجری قمری/1991عیسوی۔
غزالی، محمدبن محمد، کتاب الاقتصاد فی الاعتقاد، بیروت 1409ہجری قمری/1988؛
غزالی، محمدبن محمد، مجموعة رسائل الامام الغزالی، بیروت 1414ـ1418ہجری قمری/ 1994ـ1997عیسوی۔
فاضل مقداد، مقدادبن عبداللّه، الاعتماد فی شرح واجب الاعتقاد، چاپ صفاءالدین بصری، مشهد 1412ہجری قمری۔
فاضل مقداد، مقدادبن عبداللّه، اللوامع الالهیة فی المباحث الکلامیة، چاپ محمد علی قاضی طباطبائی، قم 1380ہجری شمسی۔
فخر رازی، محمدبن عمر، التفسیر الکبیر، بیروت 1421ہجری قمری/2000عیسوی۔
فخر رازی، محمدبن عمر، محصل افکار المتقدمین و المتأخرین من العلماء و الحکماء والمتکلمین، چاپ طه عبدالرؤوف سعد، بیروت 1404ہجری قمری/1984عیسوی۔
قاضی عبدالجباربن احمد، المغنی فی ابواب التوحید و العدل، ج16، چاپ امین خولی، قاهره 1380ہجری قمری/1960عیسوی۔
قاضی عبدالجباربن احمد، شرح الاصول الخمسة، چاپ عبدالکریم عثمان، قاهره 1408ہجری قمری/1988عیسوی۔
قدردان قراملکی، محمد حسن، امامت، تهران، سازمان انتشارات پژوهشگاه فرهنگ و اندیشه، 1387ہجری شمسی۔
قدردان قراملکی، محمد حسن، آئین خاتم، تهران، سازمان انتشارات پژوهشگاه فرهنگ و اندیشه، 1388ہجری شمسی۔
قندوزی، سلیمان بن ابراهیم، ینابیع المَودَّةِ لِذَوی القُربی، چاپ علی جمال اشرف حسینی، قم 1416ہجری قمری۔
قوشجی، علی بن محمد، شرح تجریدالعقائد، چاپ سنگی تهران 1285ہجری قمری، چاپ افست قم، بیتا.
کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی.
لاهیجی، عبدالرزاقبن علی، گوهر مراد، چاپ زینالعابدین قربانی لاهیجی، تهران 1372ہجری شمسی۔
متقی هندی، علی بن حسام الدین، کنزالعُمّال فی سنن الاقوال و الافعال، چاپ بکری حیانی و صفوة سقا، بیروت 1409ہجری قمری/1989عیسوی۔
مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار.
محمدرضایی، محمد، «خاتمیت یا بسط تجربه نبوی؟! »، مجله تخصصی کلام اسلامی، ش 46 (تابستان 1382)ہجری شمسی۔
مسلم بن حجاج، الجامع الصحیح، بیروت: دارالفکر، بیتا.
مصباح، محمدتقی، معارف قرآن، بخش 4 و 5: راه و راهنماشناسی، قم 1379ہجری شمسی۔
مصباح، محمدتقی، معارف قرآن، بخش 4 و:5 راه و راهنماشناسی، قم 1379ہجری شمسی۔
مطهری، مرتضی، ختم نبوت، تهران: نشر صدرا، 1370ہجری شمسی۔
مطهری، مرتضی، مجموعه آثار، تهران، ج2، 1381ش، ج3، 1380ہجری شمسی۔
مفید، محمدبن محمد، الامالی، چاپ حسین استادولی و علیاکبر غفاری، بیروت 1414ہجری قمری/1993عیسوی۔
مکی، محمدبن علی ابوطالب، قوت القلوب فی معاملة المحبوب و وصف طریق المرید الی مقام التوحید، ج2، قاهره 1381ہجری قمری/1961عیسوی۔
مُناوی، محمدعبدالرؤوف بن تاج العارفین، فیض القدیر: شرح الجامع الصغیر من احادیث البشیر النذیر، چاپ احمد عبدالسلام، بیروت 1415ہجری قمری/1994عیسوی۔
موصلی، ابویعلی، مسند ابییعلی الموصلی، چاپ حسین سلیم اسد، دمشق 1404ـ1409ہجری قمری/ 1984ـ1988عیسوی۔
میبدی، احمد احمد بن ابی سعود، کشف الاسرار وعدة الابرار، چاپ پنجم، تهران: نشر امیرکبیر، 1371ہجری شمسی۔
نجار، عامر، فی مذاهب اللّااسلامیین: البابیة، البهائیة، القادیانیة، قاهره 1424ہجری قمری/2004عیسوی۔
نجفي، محمد باقر، ولادت 1325 وفات 1381 هجری شمسی، بهائیان، تهران 1357ہجری شمسی۔ موسسه تحقيقات و نشر معارف اهل البيت (ع)۔
نراقی، محمدمهدی، اللمعة الالهیة و الکلمات الوجیزة، چاپ جلال الدین آشتیانی، تهران 1357ہجری شمسی۔
هیثمی، علیبن ابوبکر، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، بیروت 1408ہجری قمری/1988عیسوی۔
یزدی، محمدرضا جدیدالاسلام، منقول الرضائی (اقامة الشهود فی رد الیهود)، ترجمه علی بن حسین حسینی طهرانی، چاپ سنگی تهران، 1292ہجری قمری۔
انگریزی مآخذ
Yohanan Friedmann, Prophecy continuous: aspects of Ahmadi religious thought and its medieval background, Berkeley, Calif. 1989.
Muhammad Iqbal Lahuri, The reconstruction of religious thought in Islam, New Delhi 1981.