توحید کا معنی خداوند کریم کو ایک ماننا ہے ۔ یہ اسلام کی اساسی اور بنیادی ترین تعلیم ہے اور اسلام کا اہم ترین شعار ہے ۔توحید صرف اسلام کا ہی نہیں بلکہ تمام آسمانی شریعتوں کی تعلیمات کا بنیادی اعتقاد خدا کو وحدہ لا شریک ماننا ہے ۔یہی وہ سب سے پہلا دینی اصول ہے

جسے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ نے نبوت پر مبعوث ہونے کے بعد لوگوں تک “لا الہ الا اللہ” کی صورت میں پہنچایا ۔اسلام کی تمام اعتقادی، اخلاقی،فقہی تعلیمات کی بازگشت اسی اصول کی جانب ہے ۔[1] ۔سب مسلمان ہر روز اذان اور نماز میں خدائے وحدہ لا شریک کی وحدانیت کی گواہی دیتے ہیں۔

“توحید نظری” اور “توحید عملی ” توحید کی دو اقسام بیان کی جاتی ہیں۔ توحید نظری میں توحید کے تمام پہلؤوں کے بارے میں اعتقاد کی ابحاث شامل ہیں۔مثلا خدا احد اور یگانہ ہے ۔اس کی شبیہ مثل یا نظیر نہیں ہے اسے توحید ذاتی سے تعبیر کیا جاتا ہے اور وہ اپنے افعال میں کسی کا محتاج نہیں ہے بلکہ تمام موجودات اس کے محتاج ہیں اسے توحید افعالی سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ توحید عملی کی بنا پر صرف خدا ہے جو عبادت کے لائق ہے اور مسلمانوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنے تمام دینی اعمال خدا کیلئے انجام دیں اور صرف اسی مدد طلب کریں ۔ شیعہ نقطہ نظر کے مطابق صفات خداوند عین ذات ہیں یعنی وہ ذات سے جدا نہیں ہیں بلکہ عین ذات ہیں ۔

قرآن کریم کی بہت سی آیات میں توحید اور مقام توحید کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔ قرآنی تعلیمات کے مطابق عقیدۂ توحید کی جڑیں انسان کی فطرت میں پوشیدہ ہیں ،تمام انبیاء توحید کی طرف بلانے والے تھے اور ان کی زیادہ تر کوششیں شرک اور مشرکانہ روشوں کو ختم کرنے کیلئے تھیں بلکہ بعثت انبیائے الہی کا مقصد ہی شرک پرستی کا مقابلہ کرنا اور ایک خدا کی عبادت کرنا ہے ۔عبادت کی غیر مشہور تفسیر کا سہارا لے کر بعض مسلمان اس بات کے مدعی ہیں کہ مسلمانوں کی رائج بعض روشیں توحید کے مخالف ہیں ۔ لیکن شیعہ اور سنی مکتبہ فکر کے دانشوروں کی اکثریت نے اس نظریے کو بہت زیادہ تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور اسے قبول کرنے سے انکار کیا ہے ۔
فہرست

    1 معنی
    2 اسلام میں مقام توحید
    3 قرآن میں توحید
    4 قرآن میں یکتا پرستی کی ابتدا
    5 توحید ایک فطری امر
    6 احادیث کی نگاہ میں توحید
    7 وحدت کا معنی
    8 دلائل توحید
    9 توحید ذاتی
    10 توحید صفاتی
    11 توحید افعالی
    12 توحید عبادی
    13 نصاب توحید
    14 شرک
        14.1 شرک عملی
    15 توحید اور شرک کے درمیان خط فاصل
        15.1 معنای عبادت
    16 ادلۂ توحید
        16.1 وجود کے وجوب کی دلیل
        16.2 برہان تمانع
        16.3 دلائل نقلی
    17 فلسفہ اور توحید
    18 توحید در عرفان
        18.1 توحید افعالی
        18.2 توحید صفاتی
        18.3 توحید ذاتی
    19 جہان بینی توحیدی
    20 منابع
    21 بیرونی رابطے
    22 حوالہ جات

معنی

توحید کا لفظ “و ح د ” سے نکلا ہے اس کا معنی “ایک کہنا” ہے [2]۔ نئی عربی میں “ایک کرنے” کے معنی میں ہے ۔[3]۔ واحد ، وحید، وَحْد (وَحدَهُ، وحدَک، وحدی)، وحدانیت، وحدانی اور وحد میں واو کی جگہ ہمزے کے ساتھ اَحد یہ تمام الفاظ اسی مشتق ہیں، وحد کا لفظ ایک ہونے پر دلالت کرتا ہے نیز یہ تمام کلمات اسی ایک معنی کی طرف ناظر ہیں۔[4]

احادیث میں کلمۂ توحید”لااله الاّ اللّه وحدَه لاشریک له ” یا اس کی مانند دوسرے الفاظ کیلئے استعمال ہوا ہے ۔[5]۔ اسی طرح آئمہ طاہرین کی احادیث میں اسی معنی کے بیان میں استعمال ہوا ہے ۔[6]

دوسری صدی تک اسی معنی میں استعمال ہوا اس کے بعد وجود،صفات اور افعال خدا سے مربوط تمام ابحاث کیلئے استعمال ہونے لگا اور شیعہ احادیث میں نیز وسیع تر معنی میں استعمال ہونے لگا ۔ اس کے بعد یہی وسیع تر مفہوم “التوحید”کے نام سے کتاب لکھے جانے کا سبب بنا کہ جس میں توحید سے متعلق تمام ابحاث بیان ہوئی ہیں ۔یہانتک کہ علم کلام کو اسی بنیادی بحث توحید کی وجہ سے “علم توحید” اور کبھی “علم التوحید والصفات” کہا جانے لگا [7]
اسلام میں مقام توحید

تعلیم توحید اسلام کی محوری اور اساسی ترین تعلیم اور قرآن کا اہم ترین پیغام ہے ۔ یہ بات قرآن اور روایات سے نہایت واضح اور روشن ہے ۔ اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن کی آیات کا تیسرا حصہ اس سے متعلق ہے نیز قرآن کی تصریح کے مطابق تمام انبیائے الہی کا پیغام بھی عقیدۂ توحید تھا ۔[8]

اسلام توحید کو انسانی زندگی کا سرمایہ اور خدا شناسی کی اصل قرار دیتا ہے اور شرک کو نہ بخشے جانے والا گناہ سمجھتا ہے ۔ اِنَّ اللّهَ لاَ یغْفِرُ أَن یشْرَکَ بِهِ وَیغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِکَ لِمَن یشَاء وَمَن یشْرِکْ بِاللّهِ فَقَدِ افْتَرَی إِثْمًا عَظِیمًا ترجمہ:خدا کبھی شرک کو نہیں بخشے گا اور اسک علاوہ جس گناہ کو چاہے وہ بخش دے گا،جو شخص اللہ کا شریک قرار دیتے ہیں وہ بہت بڑے گناہ کے مرتکب ہوئے ہیں ۔[9]

امیر المؤمنین حضرت علی ایک روایت میں خدا کی شناخت کی اساس توحید کو سمجھتے ہیں۔[10]

تاریخی لحاظ سے بھی پیغمبر اسلام کی دعوت ایجاب(مثبت) اور سلب (منفی)پر مشتمل تھی۔ مثبت اور ایجاب کی صورت میں خدائے وحدہ لا شریک میں بندگی کا منحصر ہونا اور منفی اور سلب کی صورت میں ہر قسم کے شرک آمیز عقیدے سے دوری اور بتوں کی پرستش کو ترک کرنا ہے ۔اسلام کی باقی تعلیمات اور شرائع اسی دو اصولوں کے گرد گھومتی ہیں۔

رسول خدا ؐ نے نبوت کے ظاہری اعلان کے وقت مکہ کے لوگوں کو خطاب کرتے ہوئے جو پہلا جملہ کہا وہ انہی دو اصولوں :خدا کی وحدانیت کی گواہی اور شرک کی نفی کرنے پر مشتمل تھا ۔[11] رسول خداؐ کی جانب سے دوسرے شہروں میں بھیجے جانے والے نمائندوں کو یہ ذمہ داری سونپی گئی تھی کہ وہ اپنی ہر گفتگو سے پہلے اور سب سے زیادہ لوگوں کو وحدانیت خدا اور اس کی گواہی کی طرف بلائیں۔[12]

مسلمانوں کے درمیان اعتقاد توحید کی مرکزیت اور اہمیت اس بات کا سبب بن گئی ہے کہ بعض لوگ “توحید” کو مسلمانوں کی شناخت اور مسلمانوں کو دوسرے مذاہب کے پیروکاروں سے جدا کرنے کیلئے اسے استعمال کرتے ہیں ۔اس لحاظ سے مسلمانوں کو “اہل توحید” کہا جاتا ہے ۔[13]
قرآن میں توحید

قرآن کریم میں اصل توحید کی اہمیت اس طرح سے ہے کہ وہ رسول اللہ کی وحی کے اصل مضمون کو خدائے واحد کی وحدانیت کے اعلان کے علاوہ کسی اور چیز کو نہیں سمجھتا ہے [14] غیر خدا کی طرف سے وحی نہ آنے کی نفی کرتے ہوئے یوں اشارہ کرتا ہے کہ تمام انبیاء کی طرف وحی کرنے والا وہی اللہ ہے ۔[15]

قرآنی آیات میں وحدانیت خدا کے مفہوم کے بیان کیلئے مختلف تعبیریں استعمال ہوئیں :

    اس کے علاوہ ہر خدا کی نفی : لااله الاّ اللّه ؛ الاّ هو، الاّ انَا، الاّ انت یہی مطلب اس پیرائے میں بھی بیان ہوا ہے :مامِنْ الهٍ الاّ اللّه ؛ مَنْ اِلهٌ غَیرُ اللّه، اَغَیرَ اللّه اَبْغیکم الهاً؛ اَاِلهٌ مع اللّهِ، ما لَکم مِنْ اِلهٍ غیره؛ ماکان معه مِنْ الهٍ
    خدا کا ایک ہونا: هُوَاللّهُ احدٌ ؛ انّماهوَ الهٌ واحدٌ، اللّهُ الواحدُ، انَّما اللّهُ الهٌ واحدٌ
    سب کیلئے ایک خدا : اِلهُکم اِلهٌ واحدٌ؛اِلهُنا و اِلهکم واحدٌ، الهِ الناس
    سارے جہان کا خدا : هوَ الذی فی السماء اِلهٌ و فی الاَرضِ اِلهٌ
    آلہۃ یا خدا کے مقابلے میں خدا کا اعتقاد رکھنے والوں کی سرزنش : اَاِفکاً ا’لهه دونَ اللّهِ تریدونَ [16]
    ایک سے زیادہ خداؤن کے عقیدے کو ضرور چھوڑنے کی تاکید:ولا’ تَجْعَلوا مع اللّه اِلهاً آخَرَ [17]
    عقیدۂ تثلیث کے قائلین کی تردید: لَقَدْ کفَرَ الذینَ قالوا انَّ اللّه ثالثُ ثلاثة[18]
    فرزند خدا کی نفی: لم یلد و لم یولَدْ [19]
    فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں کہنے والوں تردید ؛[20]
    خدا کیلئے کسی قسم کی مثل اور نظیر کی نفی:لیس کمِثْله شیئی. [21]
    قرآن میں یہ نکتہ بھی بیان ہوا ہے کہ تمام انبیاء کی دعوت اور ان کی جانب ہونے والی وحی کا موضوع “اس کی وحدانیت کا اعلان” کرنا تھا ۔[22]
    قرآن نے حضرت نوح ،ہود،صالح اور شعیب کے اپنی قوم کو دینے والے اس پیغام کو بیان کیا: ما لکمْ مِنْ الهٍ غیرُه[23]

اسی طرح مسیحوں کی نکوہش کرتے ہوئے کہا وہ کیوں حضرت عیسیٰ اور ان کی والدہ کو خدا کہتے ہیں ،نیز قرآن اس بات پر تنبیہ کرتا ہے کہ قیامت کے روز حضرت عیسیٰ اس اعتقاد سے بیزاری کا اعلان کریں گے اور کہیں گے کہ میں نے سب کو اللہ کی بندگی کی طرف بلایا تھا اور میری یہی ذمہ داری تھی ۔[24]۔

قرآن پاک میں لفظ اللہ اور الہ کے علاوہ لفظ “رب” ہر چیز سے زیادہ وحدانیت خدا کیلئے خاص طور پر تدبیر عالم توحید ربوبیت [25] کے وسیع معنی اور اشارہ کئے گئے مطالب کیلئے استعمال ہوا ہے ۔جیسے ربّ العالمین (41 مرتبہ)، ربّ السموات و الارض (10 دفعہ)، ربّ العرش، ربّ السموات السبع، ربّ المشرق و المغرب، ربّ المشارق، ربّ المشرقین و ربّ المغربین، ربّ کلّ شیئی، و ربّ الناس [26] .
قرآن میں یکتا پرستی کی ابتدا

قرآن کی نگاہ میں یکتا پرستی انسان کی فطرت میں سموئی ہے اور یہ اسی قدر قدیم ہے جس قدر انسان کی تاریخ قدیم ہے کیونکہ ایک طرف زمین پر سب سے پہلے انسان حضرت آدم آئے تو وہ خود خدا کے نبی اور توحید پرست تھے تو دوسری طرف قرآن کے مطابق تمام انسان ابتدائے خلقت سے ہی توحید پرست تھے لیکن ہوا و ہوس کی پیروی کے سبب شرک اور کج روی اس کے بعد پیدا ہوئی ہے ۔[27]
توحید ایک فطری امر

قرآنی آیات اور احادیث کی روشنی میں انسان توحید کے عقیدے کی طرف فطری میلان رکھتا ہے۔ فطرت سے مراد یہ ہے کہ یہ میلان اور رجحان کسی کوشش یا کسی تربیت کے ذریعے حاصل نہیں ہوتا بلکہ یہ اس کی ذات میں ابتدائی طور پر پایا جاتا ہے۔آیت فطرت ،آیت میثاق اور سورۂ عنکبوت کی 65ویں آیت کی روشنی میں مفسرین نے توحید کے فطری ہونے کا استنباط کیا ہے ۔[28]

بہت سی آیات میں اس بات کی تصریح موجود ہے کہ انسان ہر حال میں جب بھی وہ اس جہان کے بنانے کیلئے اپنے اندر اور اپنی فطرت کی طرف رجوع کرتا ہے تو وہ صرف وحدانیت کو ہی قبول کرتا ہے یہانتک کہ اگرچہ انسان ظاہری طوری پر شرک ہی کرتا ہو لیکن جب اس سے خالق کے بارے میں پوچھا جائے تو وہ صرف “وحدانیت خدا” کے علاوہ کسی اور چیز کا اقرار نہیں کرتا ہے ۔[29]
احادیث کی نگاہ میں توحید

توحید سے متعلق احادیث خاص طور پر اہل بیت علیہم السلام کی احادیث میں توحید کے بارے میں بہت زیادہ گفتگو اور وسیع معلومات کا ذخیرہ موجود ہے ۔ ان میں سے امیر المؤمنین حضرت علی کا خطبہ توحیدیہ بہت زیادہ شہرت کا حامل ہے۔ بہت سی احادیث قرآن کی توحید سے متعلق آیات کی توضیح اور تفسیر میں منقول ہیں ۔ ان میں سے ایک تعداد توحید کی تعلیم کے بارے میں نکات بیان کرتی ہیں جبکہ کچھ خدا کے ایک ہونے کے دلائل اور کچھ وحدانیت کی مراد کو واضح کرتی ہیں ۔

غیر توحیدی تعلیمات کی نفی ،شرک آلود اور مشرکانہ رفتار بھی ان احادیث کا موضوع ہیں ۔دین میں اعتقاد توحید کے مقام اور اہمیت بھی بہت سی احادیث میں بیان ہوئی ہے ۔ ان احادیث کی بنیاد پر محدثین میں سے چند محدثوں نے توحید کے موضوع پر اسی نام سے یا ان سے ملتےجلتے ناموں سے کتابیں تالیف کی ہیں جن میں ان احادیث کو اکٹھا کیا گیا ہے ۔توحیدکے موضوع کی وسعت کے پیش نظر یہاں نمونے کے طور پر صرف ایک ذکر ہو گا ۔

احادیث کی روشنی میں اعتقاد توحید دل کے اعمال میں سے اعلی ترین عمل ہے اور موحد عذاب الہی سے دور ہیں نیز خدا کے نزدیک محبوب ترین عبادت لا الہ الا اللہ ہے۔حضرت امام رضا ؑ “سلسلہ الذہب” نام کی مشہور ترین حدیث میں فرماتے ہیں : اگر یہ جملہ اپنی شرائط جیسے ولایت، کے ساتھ کہا جائے تو یہ خدا کے امن کا قلعہ اور پناہ گاہ ہے ۔اساسی طور پر دین کا سنگ بنیاد “معرفت خدا ” یعنی اسے ایک ماننا ہے اور یہ سب سے پہلی خدا کی عبادت بھی ہے ۔[30]
وحدت کا معنی

حضرت علی اور دیگر آئمہ کی نگاہ ہر چیز سے زیادہ وحدت کی توضیح اور وضاحت پر رہی ہے ۔عدد اور اعتبار کے لحاظ سے وحدت عددی کی نفی ،وحدت کی تفسیر ذات کا بسیط ہونا اور اس کا بے مثل ہونا ایک طرف اور دوسری طرف فہم عقلائی سے حق متعال کی وحدت کا بالا تر ہونا مختلف تعبیروں میں بیان ہوا ہے ۔توحید اور وحدت عددی کی نفی کی توضیح میں حضرت علی سے اس طرح منقول ہے:

“ایک ہونا چار صورتوں میں قابل توضیح ہے ، ان میں سے دوصورتوں کو خدا کیلئے استعمال نہیں کیا جا سکتا جبکہ دوسری دو صورتوں کو خدا کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے ۔ پہلی دو صورتیں یہ ہیں کہ واحد عددی سے مراد یعنی ایک کو عدد دو یا دو سے زیادہ کے برابر لیں اور واحد نوعی سے مراد یعنی اقسام میں سے ایک قسم کا ہونا اگر یہ مراد لیں تو انہیں خدا کیلئے استعمال نہیں کیا جا سکتا ہے ۔ وہ دو صورتیں جنہیں خدا کیلئے استعمال کرنا صحیح ہے وہ یہ ہیں کہ واحد یعنی بے مثل بے نظیر اور واحد بسیط حقیقت کے معنی میں یعنی ایسا واحد کہ جو نہ خارج میں اور نہ عقلی لحاظ سے تقسیم ہونے کو قبول نہیں کرتا ہے ۔ حضرت علیؑ نے اس آخری قسم کو “احد المعنیٰ” سے تعبیر کیا ہے اور مزید فرمایا :کَذَلک اللہُ ربُنَا اس طرح نصاریٰ کے عقیدۂ تثلیث کے رد میں سورۂ مائدہ کی 73ویں آیت کو توحید کے متعلق وحدت عددی کی نفی میں شاہد کے طور پر بیان کیا ۔”[31][32]

حضرت علی کی حدیث میں واحدٌ لا مِنْ عددٍ [33] اور حضرت امام رضا ؑ کی حدیث میں اَحدٌ لابتأویلِ عددٍ [34] خدا کی وحدانیت سے عددی وحدت کی نفی میں ایک اور تصریح ہے۔
دلائل توحید

وحدانیت خدا کیلئے اور خاص طور پر منکرین توحید کے مقابلے میں دلائل پیش کرنے کو احادیث میں مشاہدہ کیا جا سکتا ہے ۔ان احادیث میں سب سے زیادہ توحید ربوبیت، انتظام خلق ، امور میں ہماہنگی اور اتصال اور وحدت مدبر کے دلائل بیان ہوئے ہیں۔[35] حضرت علی نے اپنے بیٹوں کو کی جانے والی ایک طویل وصیت میں اسی سے ملتی جلتے لیکن ایک اور لحاظ سے وحدانیت خدا پر استدلال کرتے ہوئے فرمایا:-

لو کان لربّک شریک لاتَتک رُسُله و لرایتَ آثارَ مُلکِه و سُلطانِه [36] اگر خداکے ہمتا اور برابر کوئی اور پروردگار شریک ہوتا تو اس کی جانب سے اس کے رسول آتے اور تم اس کی قدرت اور اس کے ملک کا مشاہدہ کرتے ۔
توحید ذاتی
اصل مضمون: توحید ذاتی

توحید کے مراتب میں سے سب سے پہلا مرتبہ توحید ذاتی کا ہے اور خدا کے ایک ہونے کے اعتقاد کو کہتے ہیں نیز ذات خدا میں تعدد اور دوگانگی نہیں ہے اور نہ اس کا کوئی مثل اور نظیر ہے ۔[37]

روایات میں توحید ذاتی دو معنی میں بیان ہوئی ہے :پہلا: خدا کا بسیط ہونا اور اس کیلئے کسی جزو کا نہ ہونا ہے اسے “احدیت” کہتے ہیں ۔دوسرا:مثل اور نظیر نہ ہونے کو “وحدانیت ذات” کہتے ہیں۔[38]

علم کلام اور فلسفے میں بھی “توحید ذاتی ” دو معنی میں استعمال ہوئی ہے :-

پہلا :خدا ایک ہے اور اس کی نظیر نہیں اور اس کیلئے دوسرا ہونا قابل فرض نہیں ہے ۔متکلمین اسے “توحید ذاتی” کہتے ہیں اور اسکے ذریعے ہر قسم کی شباہت،مثل اور نظیر کی ذات خدا سے نفی کرتے ہیں۔توحید کی اس قسم کو “توحید واحدی” کہتے ہیں۔دوسرے الفاظ میں وجوب وجود میں واحد و احد ہونا،ایک وجود کو ضروری سمجھنا اور ہر قسم کے شرک شباہت اور نظیر کی نفی کرنا “توحید واحدی” ہے ۔ دوسرا :ذات خدا اجزا سے مرکب نہیں وہ بسیط ہے اس قسم کی توحید کو بھی “توحید احدی” کہا گیا ہے ۔ دوسرے الفاظ میں خدا کے متعلق خارجی، عقلی اور وہمی ہر قسم کی ترکیب کی نفی کرنا اور خدا وند متعال کی بساطت کو ثابت کرنا “توحید احدی” ہے۔

قرآن پاک کے سورۂ اخلاص کی ابتدائی آیت میں لفظ “احد” کے ساتھ ذات خدا کی “توحید احدی” یعنی بسیط ہونے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور سورۂ کی آخری آیت وَلَمْ یکن لَّهُ کفُوًا أَحَدٌ کے ساتھ “توحید واحدی” اور خدا کے ہر قسم کے شریک ہونے کی نفی کی گئی ہے۔[39]
توحید صفاتی
اصل مضمون: توحید صفاتی

خدا کی صفات کا عین ذات ہونا “توحیدد صفاتی” کہلاتا ہے ۔ شیعہ مذہب کے مطابق صفات خداوند کی حقیقت اس کی ذات سے جدا نہیں ہے کہ یہ کہا جائے کہ ذات اس صفت سے متصف ہوتا ہے بلکہ خدا کی تمام صفات ایک دوسرے کا عین ہے اور اس کی عین ذات ہیں بلکہ اس کا وجود اس کا علم ہے اس کی قدرت اور دیگر صفات ذاتی ہیں اور تمام صفات ایک دوسرے کا عین ہیں ۔

توضیح:مخلوقات میں جب انسان ارادہ نہیں کرتا ہے تو وہ مرید نہیں ہوتا ہے۔ یعنی پہلے انسان کا نفس ہے اور اس کا ارادہ نہیں ہے پھر اس کا ارادہ پیدا ہوتا ہے تو وہ صاحب ارادہ ہوتا ہے ۔ لیکن خدا ایسا نہیں ہے کسی چیز کا اس میں اضافہ نہیں ہوتا کہ کہا جائے کہ یہ صفت اس میں پیدا ہوئی ہے ۔[40]

حضرت امام علی ؑ سے خطبے میں منقول ہے:خدا کی ذات صفات کو قبول کرنے والی نہیں ہے ۔ [41] اسی نکتے کی بیشتر تفصیل نہج البلاغہ میں حضرت علی ؑ کے “توحیدیہ” نامی خطبے میں مذکور ہوئی ہے :- “دین میں پہلا قدم معرفت خدا ہے ، اس معرفت کا کمال اس کا اعتقاد رکھنا ہے ۔اس کے ایک ہونے کا اعتقاد رکھنے سے خدا کی توحید اپنے کمال کو پہنچ جاتی ہے۔توحید اخلاص کے سائے میں مکمل ہوتی ہے اور اخلاص کامل کا لازمہ ذات باری تعالی سے صفات کی نفی کرنا ہے ۔”[42]

متکلمین میں سے اشاعرہ اس بات کے معتقد ہیں کہ خدا کی صفات اس کی ذات سے جدا ہیں اسی حال میں وہی صفات اس کی ذات کی مانند قدیم ہیں ۔اسی نظرئے کو “قدمائے ثمانیہ” کہا جاتا تھا۔یہ نظریہ ذاتی طور پر خود چند خداؤں کو مستلزم ہے جو عقیدۂ توحید کی اساس کے ساتھ متعارض ہے ۔[43]
توحید افعالی
اصل مضمون: توحید افعالی

توحید افعالی سے یہ مراد ہے کہ خدا اپنے تمام کام انجام دینے میں کسی کی مدد اور تعاون کا محتاج نہیں ہے اور اپنے ہر کام کو انجام دینے میں خود مختار اور مستقل ہے :

توحید افعالی کی بنا پر کائنات میں کوئی موجود مؤثر ہونے اور کسی کام کے انجام دینے میں کسی قسم کی تاثیر نہیں رکھتا ہے مگر صرف وہ وسیلہ اور قدرت مؤثر ہو سکتا ہے جسے خدا نے قدرت دی ہو ۔ تمام افعال ،حرکات، مؤثر ہونا یا متاثر ہونا خدا کی طرف ہی منتہی ہوتے ہیں ۔جس طرح وہ اپنی ذات میں کوئی شریک نہیں رکھتا ہے اسی طرح خالقیت،ربوبیت، مالکیت اور حاکمیت تکوینی کی فاعلیت میں بھی اس کا کوئی شریک نہیں رکھتا ہے ۔

توحید افعالی علیت اور معلولیت کے قانون یا اسباب کے مؤثر ہونے کی نفی کرنے کے معنی نہیں ہے ۔شیعہ نکتہ نگاہ کے مطابق توحید افعالی کا یہ معنی نہیں ہے کہ خداوند مستقیم اور کسی واسطے کے بغیر کسی چیز کا ایجاد کرتا ہے اور تمام علل اور اسباب کی جگہ خود لیتا ہے بلکہ اس کا معنی یہ ہے کہ جب کوئی چیز ایجاد میں کسی چیز کی محتاج ہوتی ہے خدا اس سبب کو ایجاد اور خلق کرتا ہے اور وہ اس کام میں اپنی ذات کے علاوہ کسی اور چیز کا محاتج نہیں ہوتا ہے ۔

توحید افعالی توحید خالقیت ، توحید ربوبیت ،توحید تشریعی اور توحید تکوینی کی طرف تقسیم ہوتی ہے ۔

قرآن پاک کی بہت سی آیات میں توحید افعالی کی تصریح یا اس کی طرف اشارہ موجود ہے جیسے سوره رعد آیہ 16 ، سوره انعام آیت 102، سوره اعراف آیت 54 ، سوره یوسفآیت 40 ، و سوره انعام آیت  164۔
توحید عبادی
اصل مضمون: توحید عبادی

توحید عبادی توحید نظری کے مصادیق(افراد) میں سے ہے ۔ اس کا معنی یہ ہے کہ خدا کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور اس معبود کے علاوہ کوئی اور معبود موجود نہیں ہے ۔پس اس بنا پر بندے کو چاہئے کہ اپنی تمام عبادات کو صرف اور صرف خدا کیلئے اور صرف اس کے فرمان کی بجاآوری کیلئے انجام دے ۔

یہ قسم حقیقت میں توحید کی تمام اقسام کا طبعی نتیجہ ہے کیونکہ جب ہماری ہستی اس سے ہے ہمارے وجود کا اختیار اس کے دست قدرت میں ہے جہان میں مؤثر ہونے کی صلاحیت بھی اسی کے وجود سے ہے حکم دینے اور قانون بنانے کا اختیار بھی صرف اسی کے پاس ہے تو اب کسی اور کیلئے عبادت کا مقام بھی نہیں بچتا ہے ۔عبادت میں کسی بھی طرح کے غیر الہی محرکات کا داخل ہونا عبادت کی ارزش کی کمی کا باعث اور کبھی عبادت کے باطل ہونے کا سبب بنتا ہے ۔قرآن کی نگاہ میں انبیاء کے ارسال کا مقصد یہ ہے کہ بندگان خدا صرف اس کیلئے خالصانہ عبادت کو انجام دیں ۔[44]

قرآن کریم نے متعدد آیات میں توحید عبادی کے موضوع کو بیان کیا ہے:سوره انعام آیت 102، سوره حمد آیات 2 تا 5، سوره انبیاء|آیت 25۔
نصاب توحید

توحید کے مراتب جان لینے کے بعد اب سوال پیدا ہوتا ہے ان مراتب میں سے کونسا مرتبہ اسلام کے اصلی اعتقاد اور مسلمان ہونے کیلئے شرط شمار ہوتا ہے ؟کیا ایک موحد کیلئے خدا کے صرف اسے ایک ماننے کا اعتقاد رکھنا کافی ہے ؟

قرآنی آیات کی دقیق چھان بین سے یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ قرآن کی نگاہ میں توحید پرست وہ ہے کہ جو :صرف خدا کو اللہ میں منحصر مانے ،خالق ، ربِ تکوین ،رب تشریعی اور الہ و معبود اللہ میں منحصر مانے اور چونکہ اسکی الوہیت کا اعتقاد اور الوہیت میں وحدت آخری مرتبے میں واقع ہوئی ہے اور یہ توحید الوہیت گذشتہ تمام مراتب کو شامل ہے لہذا اسلام میں لا اله الا الله[45] کے شعار کو “شعار توحید”، سعادت اور کامیابی کا راہ قرار دیا گیا ہے ۔

دوسرے الفاظ میں پہلے مراتب میں توحید کا ہونا ضروری ہے لیکن یہ کافی نہیں ہے بلکہ شخص کو چاہئے کہ وہ اپنے اعتقاد میں اس مرحلے تک پہنچ جائے کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور صرف وہی عبادت کے لائق ہے اور عملی طور پر وہ صرف اسی کی عبادت کرے۔ یہ توحید کا حدِ نصاب ہے ۔پس اس بنا پر جب تک کوئی شخص توحید الوہیت تک نہیں پہنچتا ہے وہ توحید کے حد نصاب تک نہیں پہنچا ہے [46]

شرک خفی کی اقسام جیسے ہوا پرستی،عزت پرستی اور ریاکاری اسلام کی نگاہ میں اگرچہ مذموم ہیں لیکن اسلام مسلمانوں کے زمرے سے خارج ہونے سبب نہیں بنتے ہیں ۔[47]
شرک
اصل مضمون: شرک

جس طرح توحید کے مراتب ہیں اسی طرح شرک کے بھی مراتب ہیں انبیائے الہی جس توحید کی طرف لوگوں کو بلاتے تھے اس کے مقابلے میں شرک کی بھی مختلف اقسام موجود تھیں۔

شرک ذاتی:خدا کے مقابلے میں کسی اور خدا کا قائل ہو۔کچھ مکاتب فکر دو ، تین یا چند مستقل اور ازلی اصل قدیم کے قائل تھے ۔ اس جہان کو چند ستونوں ،چند قطبوں پر مشتمل سمجھتے تھے ۔

کائنات کے بارے میں چند چیزوں کو مبدا قرار دینا ذات میں شرک ہے جو توحید ذاتی کا نقطۂ مقابل ہے۔ اسی طرح کا اعتقاد رکھنا اہل توحید سے خروج اور دائرہ اسلام سے خارج ہونے کا موجب ہے ۔ اسلام ہر طرح کے شرک ذاتی کو جھٹلاتا ہے اور کلی طور پر اس کی نفی کرتا ہے ۔

شرک صفاتی:صفاتی شرک نہایت دقیق مسئلہ ہونے کی وجہ سے عال لوگوں میں بیان نہیں ہوتا ہے ۔ شرک صفاتی صرف کچھ دانشوروں سے مخصوص ہے جو اس قسم کے مسائل کے بارے میں سوچتے ہیں لیکن وہ اس مسئلے میں صلاحیت اور عمق لازم نہیں رکھتے ہیں۔اسلامی متکلمین میں سے اشاعرہ اس قسم کے شرک سے دوچار ہوئے ہیں ۔ یہ شرک بھی شرک خفی ہے لہذا یہ اسلام کے دائرۂ کار سے خارج ہونے کا موجب نہیں بنتا ہے ۔

خالقیت میں شرک: کچھ مذاہب خدا کو اس جہان میں ایک مانتے ہیں نیز مثل اور بے نظیر بھی مانتے ہیں لیکن بعض مخلوقات کو خدا کے ساتھ خالقیت میں شریک سمجھتے تھےمثلا وہ اعتقاد رکھتے تھے مخلوقات کی تمام بدبختیوں ،عیوب اور نقائص خلاصہ یہ کہ تمام حوادث اور ناپسندیدہ وقائع کا ذمہ دار نہیں ہے بلکہ یہ امور بعض مخلوقات کے پیداکردہ ہیں۔یہ خالقیت اور فاعلیت میں شرک ہے اس نقطۂ مقابل توحید افعالی ہے ۔ اسلام شرک کی اس قسم کو بھی قبل معافی نہیں سمجھتا ہے ۔البتہ شرک کی یہ قسم خود چند مراتب پر مشتمل ہے جن میں سے بعض اقسام شرک جلی نہیں بلکہ شرک خفی ہیں پس اس وجہ سے کلی طور پر یہ قسم بھی اہل توحید اور دائرہ اسلام سے خروج کا موجب نہیں ہے ۔
شرک عملی

شرک یہ قسم مستقیم طور پر انسان کے دائرۂ عمل میں دخالت رکھتی ہے اسے “عبادت اور پرستش میں شرک” کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔کچھ انسان مرحلۂ عبادت میں لکڑی،پتھر، دھات ،ستارے، سورج، درخت یا دریا کی عبادت کرتے تھے ۔شرک یہ قسم فراوان پائی جاتی تھی اور اب بھی اس دنیا کے گوشہ و کنار میں پائی جاتی ہے ۔یہ عبادت میں شرک عبادت میں توحید کا نقطۂ مقابل ہے ۔

اسی طرح وہ اقوال اور افعال کہ جو تسبیح ،تکبیر اور تحمید سے حکایت ہیں اور وہ ایک مکمل ذات کی کسی شرط کے بغیر ستائش ہیں۔اگر وہ غیر خدا کے بارے میں ہوں تو وہ شرک ہے کیونکہ کسی شرط کا لحاظ کئے بغیر “سبوح” اور “منزہ”یعنی وہ ہر قسم کے نقص و عیب سے پاکیزہ ہے وہ کسی شرط کے غیر کبیر ہے، وہ وہ پے کہ تمام تعریفیں اسی میں منحصر ہیں اور اسی کی طرف لوٹتی ہیں، وہ وہ ہے تمام قوتیں اسی کے ساتہ قائم ہیں۔اس طرح کی قول یا عمل کے ذریعے کسی غیر خدا کیلئے توصیف کرنا شرک ہے ۔[48]
توحید اور شرک کے درمیان خط فاصل

جیسا کہ پہلے کہا گیا کہ انسان کے موحد کہلانے کا معیار اسکا عقیدۂ الوہیت ہے جس میں اس سے پہلے تمام مراتب توحید شامل ہوتے ہیں ۔ توحید کی اس تعریف کی بنیاد پر مخلوقات کے ایجاد یا خلق میں خدا کیلئے شریک کے قائل ہوئے یا روزی دینا وغیرہ جیسی صفات میں خدا کی مانند کسی دوسرے کو فرض کریں تو ہم شرک سے دوچار ہوئے ہیں ۔

توحید کے مفہوم کی اس تحلیل کے مطابق خدا کے علاوہ موجودات کیلئے استقلال کا قائل ہونا توحید اور شرک کے درمیان حد فاصل کو کہا جا سکتا ہے ۔یعنی خدا کے مقابلے میں کوئی دوسرا موجود قدرت ، علم اور دوسری صفات کے لحاظ سے مستقل ہے اور وہ خدا وابستہ نہیں ہے ۔لیکن یہ فرض کریں کہ خدا نے موجودات کو خلق کیا ہے اور خود انہیں علم اور قدرت عطا کی ہے یہ موجب شرک نہیں ہو گا چونکہ وہ قدرت اور علم رکھنے کے باوجود وہ خدا سے وابستہ اور اس کی مخلوق ہیں اور یہ خدا کے لئے شریک شمار نہیں ہوں گے ۔

توحید اور شرک کے درمیان دقیق فرق نہ جاننے کی وجہ سے اس سلسلے میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں۔ اشاعرہ کہتے ہیں کہ اگر اصلِ علیت اور تاثیر گذاری کا قائل ہوا تو وہ شرک سے دوچار ہے ۔وہابی خیال کرتے ہیں کہ اگر کوئی خدا کے علاوہ انسانوں ،طبعی یا غیر طبعی علل کے مؤثر ہونے کا قائل ہوا ہے تو اس نے شرک کیا ہے یا کہتے ہیں اگر کوئی غیر خدا کیلئے بیمار کو شفا دینے حاجات کو بر لانے کا قائل ہوا تو وہ مشرک ہے ۔

اوپر ذکر کئے گئے ملاک اور معیار کے مطابق ہم دیکھتے ہیں کہ یہ تمام نظریات درست نہیں ہیں کیونکہ یہ تمام عقلی تحلیل کے مخالف ہیں نیز روایات بھی ان نظریات کی نفی کرتی ہیں ۔

قرآن کریم خود توحید کا ایک آئین نامہ ہے ۔مختلف آیات میں بعض کاموں اور بعض آثار کو انسانوں ،فرشتوں اور اشیاء کی طرف نسبت دی گئی ہے ۔یہانتک کہ خلق کرنا ،مردوں کو زندہ کرنا ،غیب کی خبر دینا اور شفا دینا جیسے بعض خارق العادہ (غیر معممولی) کاموں کو ایک انسان (حضرت عیسیٰ ؑ) کی طرف نسبت دی گئی ہے  :

وَإِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّینِ کهَیئَةِ الطَّیرِ بِإِذْنِی فَتَنفُخُ فِیهَا فَتَکونُ طَیرًا بِإِذْنِی ۖ وَتُبْرِئُ الْأَکمَهَ وَالْأَبْرَصَ بِإِذْنِی ۖ وَإِذْ تُخْرِجُ الْمَوْتَیٰ بِإِذْنِی ۖمائده آیت:110۔

جیسا کہ اس آیت میں دیکھ رہے ہیں کہ ایک طرف زندہ کرنے،شفا دینے،خلق کرنے کی قدرت کی نسبت حضرت عیسی کی طرف دی گئی ہے اور دوسری طرف “باذنہ ” کی تاکید ذکر ہوئی ہے تا کہ واضح ہو جائے کہ حضرت عیسی اکیلئے ان کاموں میں کسی ایک کام کو مستقل طور پر انجام نہیں دے سکتے ہیں ۔ اس بنا پر یہ آیت اور دیگر آیات کی وجہ سے انبیاء ؑ جیسے انسانوں کے ایسے غیر معمولی کام انجام دینے کی قدرت کا عقیدہ رکھنا کسی بھی طرح سے شرک نہیں ہے ۔

شہید مرتضی مطہری لکھتے ہیں :

انسان ،جہان اور خدا کے درمیان توحید اور شرک کا حد فاصل “اسی کی طرف سے ہیں “(یعنی انا للہ (ہم مملوک خدا ہیں وہی ہمیں خلق کرنے والاہے اور ہمارا وجود اسی کی وجہ سے قائم ہے) اور “اس کی طرف جانا ہے”یعنی انا الیہ راجعون یعنی ہمیں کی جانب لوٹنا ہے) ہے ۔توحید نظری میں شرک اور توحید کے درمیان حد فاصل “اس کی طرف سے ہیں ” یعنی “انا للہ” ہے ۔ہر حقیقت اور ہر موجود کو ذات ،صفات ، خصلت اور ہویت میں “اُسی کی طرف سے ہیں” کے ساتھ پہچانیں تو ہم نے اس چیز کو درست واقع کے مطابق اور اسے توحیدی نقطہ نگاہ کے مطابق پہچانا ہے، چاہے وہ چیز اثر کی حامل ہو یا نہ ہو برابر ہے کہ وہ اثر ما ورائے طبیعت ہو یا نہ ہو کیونکہ خدا صرف ما ورائے طبیعت اشیاءکا اور نہ ملکوت اور جبروت کا ہی خدا نہیں ہے بلکہ وہ سارے جہان کا خدا ہے ۔وہ اسی قدر طبیعت کے نزدیک، معیت اور قیومیت رکھتا جس قدر وہ ما ورائے طبیعت اشیاء کے قریب ، معیت اور قیومیت رکھتا ہے ۔کسی موجود میں ما ورائے طبیعت اشیاء میں سے کسی ایک پہلو کا ہونا اسے خدائی نہیں بخشتا ہے ۔اسلامی کائناتی مطالعے کی رو سے ماہیت “اس کی طرف سے ” ہے۔ قرآن کریم کی بہت سی آیات معجزانہ افعال(مردوں کو زندہ کرنا،اندھوں کو شفادینا وغیرہ کو انبیاء کی طرف نسبت دیتی ہیں لیکن ان کے ساتھ “باذنہ” کا اضافہ موجود ہے ۔پس یہ کلمہ اس بات کا بیانگر ہے کہ یہ تمام افعال اس ماہیت کے ہیں جو خود اس کی طرف سے ہے لہذا کوئی یہ گمان نہ کرے کہ انبیاء خود ان افعال کو انجام دینے میں مستقل ہیں ۔پس توحید نظری اور شرک نظری کے درمیان حد فاصل “اس کی طرف سے ہونا” ہے ۔لہذا اس بیان کی روشنی میں “خدا کی طرف سے نہیں ھے” کا اعتقاد رکھنا یہ شرک ہے۔کسی مؤثر موجود کے اثر کے بارے میں “خدا کی طرف سے نہیں ہے” کا اعتقاد رکھنا بھی شرک ہے ،کوئی فرق نہیں کہ تمام آسمانوں اور زمینوں کی خلقت جیسے ما ورائے طبیعت کا اثر ہو یا کسی ایک نہایت ہی بے قیمت چیز جیسے زیرو یا پتے کے نکلنے کا اثر ہو۔
معنای عبادت
اصل مضمون: عبادت

اصل توحید کی بنا پر غیر اللہ کی عبادت جائز نہیں ہے اور اسلام سے خروج کا موجب بنتی ہے ۔عبادت کا معنی تسلیم ہونا ،خشوع اور تذلل کا اظہار کرنا ہے ۔[49][50]۔عبادت میں توحید کا معنی یہ ہے کہ کسی بھی دوسرے موجود کے مقابل اور کسی بھی دوسرے کے مقابلے میں انسان یہ حالت نہ رکھتا ہو ۔

پس اس بنا پر ایسا نہیں ہے کہ ہر فروتنی اور خضوع عبادت ہو۔ بلکہ بعض مقامات مخلوقات کے سامنے یہ فروتنی واجب ہوتی ہے جیسے والدین کے سامنے اور ان کی اطاعت ۔ ایسی اطاعت چونکہ خدا کے حکم سے ہے اور یہ حقیقت میں اطاعت خدا شمار ہوتی ہے ۔ لیکن جو چیز خدا کے مقابلے میں ہو تو وہ شرک ہے ۔ اس بنا پر قبور کی زیارت کرنا، اولیاء اور آئمہ سے مدد مانگنا یا توسل کرنا شفاعت کا اعتقاد رکھنا جب استقلال کی جہت سے نہ ہو اسے شرک شمار نہیں کیا جائے گا ۔

ابن تیمیہ اور اس کے پیروکار وہابی خیال کرتے ہیں کہ اس طرح سے دوسروں کی نسبت فروتنی ،خضوع اور خشوع کا اظہار عبادت ہے[51] اس لحاظ سے وہ کہتے ہیں کہ ہر طرح کا توسل،تبرک حاصل کرنا،قبور کی زیارت کرنااور طلب شفاعت انسانوں کی عبادت کرنے کے معنی میں ہے اور شرک ہے ۔
ادلۂ توحید
اصل مضمون: ادلۂ توحید

علم کلام کے ماہرین نے توحید کے اثبات کیلئے بہت سی ادلہ بیان کی ہیں ان میں سے ہم یہاں چار دلیلوں کو بیان کرتے ہیں :-
وجود کے وجوب کی دلیل

اگر دو واجب وجود فرض کئے جائیں تو ان دونوں کو وجود میں مشترک ہونے کے علاوہ ایک دوسرے سے متمایز ہونا چاہئے تا کہ ان دونوں کے درمیان اختلاف کے قائل ہوسکیں ۔ اس بنا پر ان دونوں میں سے ہر ایک وجود دو حصوں پر مشتمل ہونا چاہئے ایک وہ حصہ حو اس وجود اور دوسرے وجود کے درمیان مشترک ہو اور دوسرا وہ حصہ جو صرف اس وجود سے مخصوص ہو تا کہ ایک وجود اس دوسرے وجود سے مشخص ، ممیز اور جدا ہو سکے۔ لیکن کوئی مرکب موجود واجب الوجود نہیں ہو سکتا کیونکہ مرکب موجود اپنے اجزا کا محتاج ہے اور وہ(مرکب موجود) ان کا معلول ہے ۔ پس اس وجہ سے ان دونوں میں سے کوئی بھی واجب الوجود نہیں ہو گا ۔[52][53]
برہان تمانع
اصل مضمون: برہان تمانع

برہان تمانع اثبات توحید کی معروفترین دلیل ہے جو سورۂ انبیاء کی 22ویں آیت لَوْ کانَ فِیهِمَا آلِهَةٌ إِلَّا اللَّـهُ لَفَسَدَتَا سے حاصل کی گئی ہے ۔

اس برہان کا اصل ہدف مدبر عالم کے ایک ہونے کو ثابت کرنا ہے نہ یہ کہ خالقیت میں توحید یا ذات کے ایک ہونے کو ثابت کرتی ہے اگرچہ یہ تینوں باہم ایک دوسرے سے جدا نہیں ہیں۔

آیت اللہ جوادی عاملی کے بیان کے مطابق یہ برہان اس طرح سے مذکور ہے[54]:-

اگر یہ فرض کیا جائے کہ اس عالم کے ایک سے زیادہ پروردگار ہیں تو ضروری ہے کہ وہ مدبر خدا اپنی ذات اور وجود میں مستقل اور خود مختار ہوں۔ چونکہ خدا ہونے کے ساتھ مستقل اور خود مختار نہ ہونا سازگار نہیں ہے۔ اسی طرح انہیں باہم حقیقتِ ذات کے لحاظ سے باہم مختلف ہونا چاہئے تا کہ تعدد اور کثرت ان سے حاصل ہو نہ یہ کہ وہ مرکب ہوں۔ جب جوہر ِذات کے لحاظ سے ایک دوسرے سے جدا اور ممتاز ہو گئے تو انہیں چاہئے کہ وہ صفات کے لحاظ سے بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوں چونکہ خدا کی صفات ذاتی اس کی عین ذات ہیں اس کے نتیجے میں ان پروردگاروں کا علم ،ارادہ، قدرت وغیرہ دوسرے پروردگاروں سے جدا ہوں گے۔ہر ایک پروردگار کا نظامِ علمی، مقام تدبیر دوسرے پروردگار کے نظام علمی اور مقام تدبیر سے جدا ہو گا اور چونکہ نظام عینی نظامِ علمی کے تابع ہے ۔ ہر ایک کا نظامِ عینی اور نظامِ خارجی دوسرے کے نظام ِعینی اور خارجی سے جدا ہو گا اسکے نیتیجے میں مفروض خداؤں کی تعداد کے برابر ہی نظامِ عینی موجود ہونے چاہئے جو باہم ایک دوسرے سے مختلف ، جدا، متباین اور باہم غیر متوازن انسانی معاشرے ہونے چاہیئں جبکہ موجودہ نظامِ عالم کا مجموعہ آپس میں ہماہنگ واحد اور منسجم ہے ۔
دلائل نقلی

قرآن کی بہت سی آیات اور متعدد روایات سے روشن ہے کہ متعدد اور واضح نقلی دلائل توحید کے متعلق موجود ہیں۔متکلمین اور محدثین نے بہت سی کتابیں توحید کے متعلق لکھی ہیں۔ “کتاب التوحید” بھی ان میں سے ایک ہے ۔
فلسفہ اور توحید

الٰہیات با معنی اخص میں اثبات وجود خدا کے ابتدائی ترین مسائل میں سے ہونے کے بعد فلسلفۂ اسلامی کے مسائل میں سے اہم ترین مسائل میں سے “خدا کا ایک ہونا” ہے ۔ فلاسفۂ اسلامی نے توحید کے اثبات اور وضاحت میں مختلف طریقوں کا انتخاب کیا ہے کہ جو اس باب میں تحقیق کی مختلف صورتوں اور وسعت کی علامت ہے ۔

فلسفۂ اسلامی میں توحید کے تینوں مرتبوں توحید ذاتی، توحید صفاتی، و توحید افعالی کیلئے متعدد دلائل بیان ہوئے ہیں۔مثال کے طور پر ابن سینا[55] جیسے فلاسفہ کی نگاہ میں جہاں خدا ذاتی طور واب الوجود ہے وہیں توحید کی نفی کرنے سے خلف اور تناقض لازم آتا ہے ۔

“واجب الوجود کی تعبیر اور ابن سینا کے اثبات توحید کا طریقۂ استدلال اس کے بعد اسطرح رائج ہوگیا کہ فلاسفہ کے علاوہ علم کلام کے شیعہ ماہرین نے بھی اسی طریقۂ استدلال کو اختیار کیا ۔[56]

سہروردی نے ابن سینا کے واجب کے واحد ہونے کے استدلال کو بیان کیا اور “واجب الوجود” کی تعبیر سے استفادہ کیا ہے نیز اس نے صِرْفُ الشیءِ لایتثنّی ولایتکرّر کی مدد سے واجب الوجود کو ثابت کیا ہے ۔[57]

اسی طرح فلاسفہ ذات خداوند کی بساطت اوراس کے مرکب نہ ہونے کی طرف خصوصی نظر رکھتے تھے کیونکہ واجب الوجود کا کثیر ہونا ہر حال میں واجب الوجود کے معنی میں ایک طرح کی تقسیم کو لازم ہے۔

ملاں صدرا[58] “بسیط الحقیقت” کے نام سے ایک جدید قاعدے کے ساتھ استدلال کرتے ہیں :اس ذات کی حقیقت مبیّن بساطت ہے اور محض اس کا کامل ہونا ہے نیز جہاں حقیقت میں تمام اشیاء کی حقیقتِ صرف اور بسیط ہے وہیں اس حقیقت کیلئے کوئی غیر باقی بچتاہی نہیں ہے کہ جو دو ہو سکے۔

توحید صفاتی یعنی ذات اور صفات کا عین ہونا،کے متعلق بھی فلسفے نے نہایت اہم مطالب ذکر کئے ہیں اور شیعہ نظریات میں انہیں قبول کیا گیا ہے ۔ ابن سینا کے بعد فلسفیوں نے توحید صفاتی کے باب میں شیعہ متکلمین کی مشہور آراء کے ساتھ فلاسفہ کے تعارض اور اختلاف کو بیان کیا ہے ۔خواجہ نصیرالدین طوسی [59]،نے ذات احدیت کیلئے صفات کے زائد ہونے کے اشاعرہ نظریے کو جو کہ آٹھ خداؤں کے قدیم ہونے پر منتہی ہوتا ہے، بیان کیا ہے ۔دوسری جانب معتزلہ کا “نظریۂ نیابت” کہ جس میں کہا گیا ہے کہ ذات صفت کی نائب ہے،کو ذکر کیا اور ان دو مشہور کلامی نظریات کے مقابلے میں فلاسفہ کے نظریے کی توضیح اور وضاحت بیان کی ہے ۔

ملاں صدراالدین شیرازی [60] نے اپنے سے پہلے فلاسفہ ابن سینا، فارابی و شیخ اشراق کے نظریات کو اپنے پیش کردہ نظریے “بسیط الحقیقۃ” کی طرف لوٹایا ہے اور اس پر تطبیق کیا ہے ۔

اسی طرح فلاسفہ توحید افعالی میں صراحت سے کہتے ہیں کہ بعض موجودات کو دوسرے بعض موجودات کی طرف نسبت دیئے بغیر خدا کے علاوہ کوئی چیز فاعل اور مؤثر نہیں ہے اور تمام افعال کسی واسطے کے بغیر اس کی طرف منسوب ہیں۔ پس اس بنا پر صادرِ اول صادرِ دوم کا کوئی معنی نہیں ہے بلکہ تمام خدا کی طرف سے صادر ہوئے ہیں۔ اس لحاظ سے ،توحید ایجادی توحید وجودی اور توحید فعل توحید ذات کی طرف منتہی ہونگی کیونکہ ایجاد وجود کی فرع ہے ،اثر کی ابتدا اور ابتدا کا اثر دونوں ہی وجود ہیں۔[61]
توحید در عرفان

علم عرفان میں ” توحید” وجود وحدت شخصی جیسے ایک متنازعہ اور جنجالی مسئلے کے ساتھ ملی ہوئی ہے ۔
توحید افعالی

عرفا کے ہاں سیر و سلوک کے مراتب میں جب انسان اپنے “معرفتِ نفس” کے مرحلے کو طے کر لیتا ہے اور توحید کی وادی میں قدم رکھتا ہے تو توحید کا پہلا مرتبہ جسے وہ حاصل کرتا ہے اور دیکھتا ہے وہ “توحید افعالی” ہے ۔پس عرفا کی نگاہ میں “توحید افعالی ” کی اصطلاح یعنی کائنات کے ہر ظاہر ہونے والے موجود کو یوں دیکھنا اور پانا ہے کہ اسے خدا ہی وجود بخشتا ہے اور ہر چیز حقیقت میں اسی کا فعل ہے اور یہ اسباب کی حیثیت ایک وسیلے سے زیادہ نہیں ہے۔
توحید صفاتی

جب انسان اس سے بلند مرتبے پر پہنچتا ہے اور اس مقام کو پا لیتا ہے اور اپنی اس سیر کو جاری رکھتے ہوئے “توحید صفاتی” کے مقام پر پہنچ جاتا ہے۔یہ توحید صفاتی کی اصطلاح فلسفے کی توحید صفاتی کے علاوہ ایک اور معنی میں ہے۔ کہتے ہیں کہ انسان اس مرحلے میں اس مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ وہ ہر صفتِ کمال کو حقیقت میں خدا کی طرف سے ہے ۔پہلے مرتبے میں وہ یہ ہر چیز (کا وجود)اسکی طرف سے ہے جبکہ اس مرتبے میں دیکھتا ہے کہ ہر صفت کمال کو بھی خدا کی جانب سے ملاحظہ کرتا ہے یعنی خدا کے علاوہ کوئی چیز “علم” نہیں رکھتی ہے صرف وہی علم حقیقی رکھتا ہے ۔دیگر تمام علم “علم الہی” کا جلوہ ہیں ۔علم حقیقی صرف اس (خدا) کی طرف سے ہے صرف وہی ہے جو علم حقیقی رکھتا ہے ۔دوسرے تمام علم اس بے نہایت علم الہی کا ناچیز سایہ ہیں ۔تمام قدرتیں اس خدا کی قدرت کا جلوہ ہیں کہ جنہوں نے “مظاہر خلق” میں تجلی کئے ہوئے ہیں ورنہ بنیادی طور پر قدرت صرف اسی سے ہے ۔پس عارف توحید صفاتی کو اس معنی میں پاتا ہے کہ تمام صفات کمال خدا کی خدا کی صفات ہیں اور جو کچھ وہ خلق میں دیکھتا ہے وہ ان اصیل صفات کا سایہ ،مظاہر اور جلوہ ہے ۔
توحید ذاتی

عرفاء توحید کے آخری مرحلے کو “توحید ذاتی” کے نام سے بیان کرتے ہیں۔عرفاء کے ہاں توحیدِ ذاتی “وحدتِ وجود”کے نام سے پہچانی جاتی ہے۔انکے بیان کے مطابق انسان سیر کے تکامل میں اس مرحلے پر پہنچ جاتا ہے کہ وہ حقیقی ہستی کو “ذات خدا میں منحصر پاتا” ہے۔ جو کچھ اس عالم میں دیکھتا ہے وہ اس کے وجود کے جلوے اور اس کی تصویریں ہیں۔ تصویر کی تعبیر درست نہیں ہے لیکن اسے صرف اذہان کو قریب تر کرنے کیلئے بیان کیا جاتا ہے ۔عرفاء کہتے ہیں انسان توحید کے عالی ترین مراتب پر پہنچ جاتا ہے تو وہ جو دیکھتا ہے تو وہ گویا وہ ایک آئینے کو دیکھ رہا ہے کہ جس میں خدائے متعال جلوہ گر ہے ۔یہ جو جہان میں کثرتوں(یعنی تعداد کے لحاظ سے زیادہ ہونا) کو دیکھتا ہے آئینوں کی تعداد زیادہ ہے ۔آئینے متعدد ہیں لیکن وہ نور جو ان آئینوں میں جلوہ گر ہے وہ ایک ہی ہے آئینے نور نہیں ہیں بلکہ وہ اس نور کو دکھانے والے ہیں: اللَّهُ نُورُ السَّماواتِ وَ الْأَرْضِ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكاةٍ فيها مِصْباحٌ الْمِصْباحُ في‏ زُجاجَةٍ الزُّجاجَةُ كَأَنَّها كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ يُوقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُبارَكَةٍ زَيْتُونَةٍ لا شَرْقِيَّةٍ وَ لا غَرْبِيَّةٍ يَكادُ زَيْتُها يُضي‏ءُ وَ لَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نارٌ نُورٌ عَلى‏ نُورٍ يَهْدِي اللَّهُ لِنُورِهِ مَنْ يَشاءُ وَ يَضْرِبُ اللَّهُ الْأَمْثالَ لِلنَّاسِ وَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْ‏ءٍ عَليمٌ سورۂ نور35۔ ترجمہ: اللہ زمین اور آسمانوں کا نور ہے اسکے نور کی مثال ایسے ہے جیسے گویا ایک طاق ہے اس میں ایک چراغ رکھا ہوا ہے چراغ شیشے کے فانوس میں ہے ،فانوس گویا موتی کا چمکتا ہوا تارا ہے جو زیتون کے مبارک درخت سے روشن کیا جاتا ہے جو نہ شرقی اور نہ غربی،اس کا تیل روشنی دیتا ہے خواہ آگ اسے نہ چھوئے ،یہ نور بالائے نور ہے،اللہ جسے چاہے اپنے نور کی راہ دکھاتا ہے اور اللہ لوگوں کیلئے بھی مثالیں بھی بیان فرماتا ہے اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھتا ہے ۔

یہ توحید کا عالی ترین مرتبہ ہے کہ جسے ایک عارف شخص پاتا ہے ۔

یہ بزرگ جس ادعا کو بیان کرتے ہیں ان کا سمجھنا اور انہیں متعارف الفاظ کے پیرائے میں بیان کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے اور شروع سے ہی عرفاء کی یہ گفتگو متکلمین، فلاسفہ اور فقہاء کی طرف سے تنقید کا نشانہ بنتی رہی ہے۔البتہ جن لوگوں نے اپنی کتابوں میں اپنے عقائد صحیح طور پر بیان کئے ہیں اوران کے اخلاق اسلام کے بتائے ہوئے قوانین کے مطابق تھے۔ ان کی نسبت ہم حسن ظن کی بنا پر کہہ سکتے ہیں کہ وہ اس طرح کے گزاف اور باطل ادعا نہیں کرتے ہیں ۔لیکن الفاظ کی وجہ سے جو چیز وہ ہم تک پہنچانا چاہتے ہیں وہ نہیں پہنچا سکتے ہیں۔جنہوں اپنی کتابوں میں خدا کے جسم کے نہ ہونے کو ثابت کیا ہے اور یہ کہا ہے کہ وہ حلول نہیں کرتا ہے ،جب وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم خدا کے علاوہ کسی چیز کو نہیں دیکھتے ہیں تو اس کا معنی یہ نہیں ہے کہ وہ جو دیکھ رہے ہیں وہ خدا ہے بلکہ اس کا معنی یہ ہے کہ ہم اپنے محبوب کے جمال کو آئینوں میں دیکھ رہے ہیں۔ جن لوگوں کی ساری زندگی خدا کی اطاعت اور بندگی سے سرشار گزری ہے اگر وہ ایسا ادعا کریں تو ہمیں حق ہیں کہ ہم انہیں حسن ظن کی نگاہ سے دیکھیں اور کہیں کہ انکی گفتگو بلند معانی پر مشتمل ہے کہ جسے ہم درست نہیں سمجھ سکتے ہیں۔ نہ یہ کہ ہر وہ آدمی جو لا ابالی ، کسی قسم کی قیود و شروط کا پابند نہ ہو اور وہ عرفان کا مدعی ہو تو ہم اس کے متعلق حسن ظن رکھیں ۔

روایات میں بھی اس مطلب کی طرف اشارہ ہوا ہے یہانتک کہ اصحاب پیغمبرؐ اور آئمہؑ بھی ایسے تھے کہ جو وہ سمجھتے تھے وہ اپنے قریبی ترین ساتھیوں کے سامنے اسے بیان نہیں کر سکتے تھے ۔[62]
جہان بینی توحیدی
منابع

    قرآن‌ پاک؛
    ابن‌بابویہ، التوحید، چاپ‌ ہاشم‌ حسینی طہرانی، قم‌،1357 ش‌.
    ابن تیمیہ، احمد، التدمریہ، 1426 ق، تحقیق: محمد بن عوده السعودی، ریاض، مکتبہ العبیدکان، ط الرابعہ.
    ابن‌فارس‌.
    سعیدی مہر، محمد، آموزش کلام اسلامی، قم: طہ، 1383.
    مصباح یزدی، محمد تقی، خداشناسی در قرآن، قم: موسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی، 1384.

بیرونی رابطے

    منبع مقالہ : دانشنامہ جہان اسلام
    توحید

حوالہ جات

مطہری، آشنائی با قرآن، ج۲، ص۹۸
بیہقی، ج۲، ص۵۹۲
المعجم الوسیط، ذیل «وحد»
راغب اصفہانی؛ ابن فارس؛ ابن منظور، ذیل «احد» و «وحد»
رجوع کریں:شیخ صدوق،الخصال، حدیث 72 و
رجوع کریں: ابن بابویه،التوحید، ص۴۲، ۹۰
رجوع کریں: تفتازانی، ج۴، ص۶، ۱۱؛ تھانوی، ج۱، ص۲۲، ج۲، ص۱۴۷۰؛ عبده، ص۴۳؛ د. اسلام، چاپ دوم، توحید کے ذیل میں دیکھیں ۔ دائره المعارف الاسلامیہ، ذیل «التوحید، علم»
رکـ: انبیا، 25
رکـ: نساء 48
تحف العقول،، ص 61 ، چاپ اسلامیہ
یعقوبی،تاریخ یعقوبی ج2، ص24
جیسے معاذ بن جبل کو یمن کے سفر پر کہا گیا ۔رجوع کریں: یعقوبی، ج2، ص76، 81
دیکھئے: اشعری، ص146؛ مفید، ص51
رجوع کریں: کہف: 110؛ انبیاء: 108
شوری: 3
صافّات: 86؛ نیز رجوع کریں: انعام: 91؛ مریم: 81؛ انبیاء: 34؛ یس: 73؛ حجر: 96؛ ق: 26؛ مؤمنون: 117
ذاریات: ۵۱؛ نیز رجوع کریں نحل: 51؛ قصص: 88؛ اسراء: 22، 129
مائده: ۷۳
اخلاص: 3؛ صافّات: 152؛ نساء: 171؛ انعام:100ـ101؛ مریم:35، 88، 91، 92؛ مؤمنون:91؛ زخرف:15، 81؛ بقره:116؛ یونس:68؛ اسراء: 111؛ کہف:4؛ انبیاء: 26؛ فرقان:2؛ زمر: 4؛ جنّ: ۳
دیکھیں: نحل:57؛ صافات:149؛ اسراء: 140
شوری: ۱۱
رجوع کریں انبیاء: 25
اعراف: 59، 65، 73، 85؛ هود: 50، 61،84
دیکھیں : مائده:116ـ117
رجوع کریں: انعام: 164
رجوع کریں: عبدالباقی،معجم مفہرس القرآن ذیل «رب»
بقره: 213، تفسیر المیزان میں اسی آیت کی تفسیر دیکھیں
تفصیل کیلئے رجوع کریں: مصباح یزدی، معارف قرآن، خداشناسی؛ اسی طرح دیکھئے تفسیر نمونہ، جلد 16،صفحه357
مثلاً عنکبوت:61؛ لقمان:25؛ زمر:38؛ زخرف:9؛ نیز رجوع کریں : بغوی، تفسیر بغوی، ج3، صص474
ابن بابویہ، التوحید صص34،35،57
ابن بابویہ،التوحید، ص83،84
قاضی سعید قمی، ج2، ص15،16
رجوع کریں: ابن بابویہ، ص70
رجوع کریں:ابن بابویہ، ص37
رجوع کریں: بابویہ،التوحید، ص244، 250
نہج البلاغه، نامه ۳۱
سوره شورا، آیت 11؛ سورۂ توحید، آیت 4
صدوق، کتاب التوحید، ص83 و 144
الالہیات، ج1، ص355٫
مصباح یزدی، معارف قرآن، خداشناسی،
رجوع کریں: کلینی، ج8، ص139؛ ابن بابویہ، ص56
نہج البلاغہ، خطبہ 1، ص39
رجوع کریں: ابن بابویہ،التوحید، ص140،144؛ مجلسی،بحار الانوار ج4، ص62
سوره بینہ، آيت5
محمد/ 19- صافات/ 35
مصباح یزدی، خداشناسی در قرآن، ص۷۶
سعیدی مہر، آموزش کلام اسلامی، ج1۱، ص162 و 163
مطہری، جہان بینی توحیدی، ج2، ص80، معمولی سے تغیر و تبدیلی کے ساتھ
ابن منظور،لسان العرب1408ق، ج9، ص10
شرتونی، 1374، ج3، ص461
ابن تیمیہ، 1983 م، ج5، ص247
نصیرالدین طوسی، تجرید الاعتقاد.حصہ الٰہیات
سبحانی، جعفر، الالٰہیات علی ضوء الکتاب و السنہ و العقل، ج2، ص29
جوادی آملی، توحید در قرآن، ص۷۴
ابن سینا، 1363 ش، ص4ـ 5؛ ایضا، 1376 ش، ص60
رجوع کریں: سہروردی، ج1، ص35، 392ـ393؛ علامہ حلّی، ص35؛ میرداماد، 1376 ش، ص267
رجوع کریں:مجموعۂ مصنّفات، ج2، ص121ـ124
1337 ش، سفر سوم، ج1، ص100ـ102؛ ایضا، 1346 ش، ص37ـ 38
ص 45ـ53
،ملاصدرا، اسفار، سفر سوم، ج1، ص120ـ 121؛ ایضا، 1346 ش، ص38ـ39
صدرالدین شیرازی، ۱۳۳۷ش، اسفار، سفر اول، ج2، ص324ـ325؛ زنوزی، ص269ـ 270؛ سبزواری، ۱۳۵۷ش، ص336ـ337؛ ایضا، 1416ـ 1422، ج3، ص621ـ622

    مصباح یزدی، معارف قرآن، خداشناسی، درس یازدہم