
اسلام ٹائمز: سب سے پہلے تو یہ بتائیں کہ اس بات میں کتنی صداقت ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور اسکی وفاقی و صوبائی حکومت دہشتگردوں کی سرپرستی کر رہی ہیں۔؟
ڈاکٹر ایس ایم ضمیر: مسلم لیگ نواز کی حکومت کو بحیثیت حکومت تو دہشتگروں کی سرپرست نہیں کہہ سکتے، لیکن نواز حکومت کے بہت زیادہ اعلٰی ذمہ دار، یہاں تک کہ وزراء کالعدم دہشتگرد تنظیموں کی سرپرستی میں ملوث رہے ہیں، دہشتگردوں سے رابطے میں ملوث رہے ہیں، کالعدم تنظیموں کی انتخابی مہم میں شریک رہے، کالعدم تنظیموں کے رہنما نواز لیگ کی انتخابی مہم میں شریک رہے، یہ دہشتگرد عناصر کیلئے نرم گوشہ رکھتے ہیں، خصوصاً پنجاب حکومت سے تعلق رکھنے والے وزراء، مثال کے طور پر رانا ثناءاللہ، جن کی بہت س تصاویر کالعدم تنظیموں کے پروگرامات اور رہنما کے ساتھ منظر عام پر آچکی ہیں۔ لیکن سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاور کے بعد نواز حکومت مجبور ہوئی کہ دہشتگردوں کے خلاف کارروائی کی جائے، کیونکہ تمام سیاسی جماعتوں نے دہشتگرد عناصر کے خلاف مضبوط موقف اختیار کیا اور سب سے بڑھ کر پاک فوج اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے دہشتگردوں کے خلاف عملی اقدامات کیلئے اسٹینڈ لیا، تاکہ دہشتگرد عناصر کی اندرونی و بیرونی لحاظ سے سرکوبی کی جائے۔ بہرحال دہشتگردوں سے نواز حکومت کے ڈانڈے تو ملتے ہیں اور یہ دہشتگردوں کیلئے نرم گوشہ بھی رکھتے ہیں۔
اسلام ٹائمز: ملک میں دہشتگردی، اسکے خلاف نیشنل ایکشن پلان اور آپریشن ضرب عضب کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
ڈاکٹر ایس ایم ضمیر: ستر کی دہائی میں پاکستان افغان وار کا حصہ بنا، امریکا کا ساتھ دیا گیا، اسکی مدد لی گئی، افغانستان کے ساتھ ساتھ پاکستان بھی دنیا بھر سے لائے گئے عسکریت پسند عناصر کا مرکز بن گیا، پاکستان میں جہادی کلچر پروموٹ کیا گیا، لیکن افغان وار کے بعد اور افغانستان میں امریکی حملے کے بعد یہی عسکریت پسند عناصر پاکستان کی سالمیت کیلئے خطرہ بن گئے اور پاکستان دہشتگردی کی لپیٹ میں آگیا، عوام کی خواہشات کے باوجود ملک میں دہشتگرد عناصر کے خاتمے کیلئے کسی قسم کے ٹھوس اقدامات اٹھتے دکھائی نہیں دیئے گئے، یہاں تک کہ طالبان سے مذاکرات کا دور بھی چلا، لیکن اس دوران بھی دہشتگرد و انتہا پسند عناصر نے اپنی کارروائیاں جاری رکھیں، یہاں تک کہ 16 دسمبر 2014ء کو پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر دہشتگردوں نے حملہ کرکے 132 معصوم بچوں سمیت 141 افراد کو شہید کر دیا، جس کے بعد پاک فوج نے دہشتگردوں کے خلاف آپریشن ضرب عضب کا آغاز کیا، لہٰذا سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاور میں شہید ہونے والے معصوم بچوں کا خون دہشتگردی کے خاتمے کیلئے بننے والے نیشنل ایکشن پلان اور آپریشن ضرب عضب کے شروع کرنے میں شامل ہے، اس کے بعد حکمراں مجبور ہوئے اور انہوں نے ملک میں دہشتگردوں کیخلاف آپریشن جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔
اسلام ٹائمز: اس بات میں کتنی صداقت ہے کہ موجودہ حکمران نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد میں رکاوٹ ہیں۔؟
ڈاکٹر ایس ایم ضمیر: وفاق میں مسلم لیگ نواز کی حکومت ہو یا سندھ میں پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت، نہ تو انہوں نے نیشنل ایکشن پلان بنایا اور نہ اس پر عمل درآمد کے حق میں ہیں، یہ تو آخری وقت تک اچھے طالبان اور برے طالبان کی رٹ لگا کر طالبان سے مذاکرات کی بات کر رہے تھے، حتیٰ کے تحریک انصاف بھی طالبان سے مذاکرات کے حق میں تھی، قطر میں طالبان کا دفتر تک کھلوایا گیا، وہاں سے بھی مذاکرات کا ایک راستہ شروع کیا گیا، اگر ہماری پاک فوج اقدامات نہیں کرتی تو ہمارے حکمران کبھی بھی دہشتگردوں کے خلاف کارروائی پر آمادہ نہیں ہوتے، لیکن اب جب دہشتگردوں کے خلاف ملک میں پاک فوج کا آپریشن ضرب عضب جاری ہے، تو حکمران مختلف ہتھکنڈوں سے اسے ناکام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، کیونکہ اگر حکمران اگر مخلص ہوتے تو نیشنل ایکشن پلان پر سوائے ایک آدھ نکات کے سارے بیس نکات پر صحیح معنوں پر عمل درآمد ہوتا، لیکن ایسا نہیں ہے اور جن نکات پر عمل ہو بھی رہا ہے، اس کا کریڈٹ حکمران کو نہیں بلکہ پاک فوج اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو جاتا ہے، حکومت تو کوئی بھی کام کرنے میں ناکام رہی ہے۔
اسلام ٹائمز: آپ نے ذکر کیا کہ پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت بھی نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کے حق میں نہیں ہے، اس تناظر میں ڈاکٹر عاصم کے معاملے کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
ڈاکٹر ایس ایم ضمیر: اگر یہ بات مان بھی لیں کہ مالی کرپشن پر ہاتھ ڈالنا رینجرز کا کام نہیں ہے، لیکن یہاں سیاسی معاملات میں پہلی بار ایک نئی چیز سامنے آئی اور وہ ہے دہشتگردوں کو مالی معاونت فراہم کرنا، میڈیا رپورٹس کے مطابق دو تین ارب روپے ماہانہ کراچی شہر کے اندر دہشتگردوں کی مالی معاونت میں استعمال کئے جا رہے ہیں، سندھ میں ڈاکٹر عاصم نے اگر مالی کرپشن کی ہے تو تو صحیح ہے، اسے محکمہ اینٹی کرپشن دیکھے، لیکن اگر کرپشن سے حاصل کیا گیا پیسہ دہشتگردوں کی مالی معاونت کرنے، انہیں چلانے، انہیں تحفظ فراہم کرنے اور دہشتگردی کو فروغ دینے میں استعمال کیا گیا ہے، تو اس پر رینجرز کی جانب سے ہاتھ ڈالنا پڑے گا، اب چونکہ سندھ حکومت کو پتہ ہے کہ ڈاکٹر عاصم پر ہاتھ ڈالنے کے نتیجے میں یہ ہاتھ اس تک پہنچے گا، اس لئے وہ ڈاکٹر عاصم کو بچانے کیلئے مزاحمت کر رہی ہے، بلآخر ڈاکٹر عاصم آصف زرداری صاحب کے انتہائی قریبی دوست بھی ہیں، لیکن قوم تو چاہتی ہے کہ حقائق منظر عام پر آئیں، اور اگر یہ تمام کارروائیاں نہیں کی گئیں، تو پھر دہشتگردی کے خاتمے کا خواب کبھی پورا نہیں ہوسکے گا۔
اسلام ٹائمز: سعودی فوجی اتحاد میں پاکستان کی شمولیت کے حوالے سے کیا کہیں گے۔؟
ڈاکٹر ایس ایم ضمیر: سب سے پہلے تو میں ایک اہم نکتے کی طرف توجہ دلانا چاہوں گا، وہ یہ کہ پاکستان حکمران انتہائی غیر سنجیدہ ہیں، یعنی آج تک نواز حکومت کوئی وزیر خارجہ ہی نہیں بنا پائی، اس سے اندازاہ لگا لیں کہ یہ کتنے سنجیدہ حکمران ہیں، دوسرا یہ کہ سعودی فوجی اتحاد میں پاکستان کی شمولیت کے حوالے سے کتنی مضحکہ خیز باتیں ہوئی ہیں، پہلے بیان دیا کہ ہم سعودی فوجی اتحاد کا حصہ بن گئے، اس کے بعد وزارت خارجہ کا ترجمان کہتا ہے کہ ابھی ہمیں کچھ پتہ ہی نہیں ہے، یعنی پاکستان کو مذاق بنا دیا گیا ہے، یعنی یہ بات تسلیم کر لیں کہ آپ کی خارجہ، داخلہ، فنانس کی پالیسی کہیں اور سے چلتی ہیں، اس سے زیادہ عجیب اور مضحکہ خیر بات کیا ہوگی کہ پاکستان کو پتہ ہی نہیں اور وہ سعودی فوجی اتحاد کا حصہ بن گیا، مختصراً اور واضح طور پر کہنا چاہوں گا کہ سعودی فوجی اتحاد ہو یا کوئی اور اتحاد، پاکستان کو مسلم امہ کو تقسیم کرنے والے کسی بھی اتحاد کا حصہ نہیں بننا چاہیئے۔