
29 دسمبر کو اسلام آباد میں اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی اور رُکن مولانا طاہر اشرفی میں کونسل کے اجلاس میں لڑائی، ہاتھا پائی اور ’’دست و گریبانی‘‘ کے مناظر ہر نیوز چینل پر بار بار دکھائے گئے۔ مولانا محمد خان شیرانی اور مولانا طاہر اشرفی اپنے اپنے مسلک کے لوگوں میں قابلِ احترام ہیں، ٹیلی ویژن پر اُن کی لڑائی کے مناظر دیکھ کر اُن کے عقیدت مند کیا سوچتے اور کیا کہتے ہوں گے؟ خبروں کے مطابق ’’اسلامی نظریاتی کونسل کے اجلاس میں لڑائی اجلاس کے ایجنڈے پر ہُوئی، جِس میں کہا گیا تھا کہ ’’مسئلہ قادیانیت کا نئے سرے سے جائزہ لیا جائے۔ ذِمّی کون ہے؟ مُرتد کون؟ اور کافر کون؟ کِسے کافر کہا جائے؟ اور کِسے نہ کہا جائے؟‘‘
مولانا طاہر اشرفی نے اعتراض کِیا اور کہا کہ ’’قادیانیوں کو کافر قرار دئیے جانے کا فیصلہ 1974ء میں قومی اسمبلی نے کردِیا تھا، اِس مسئلے کو زیر بحث نہ لایا جائے‘‘۔ اِس پر مولانا شیرانی نے مولانا طاہر اشرفی سے کہا کہ ’’آپ خاموش رہیں ورنہ میں آپ کو اجلاس سے باہر نکال دُوں گا‘‘۔ مولانا طاہر اشرفی نے کہا کہ ’’آپ کون ہوتے ہیں مجھے باہر نکالنے والے‘‘۔ اُس کے بعد لڑائی شروع ہوگئی۔
یہ درست ہے کہ علاّمہ اقبالؒ کے ’’فلسفۂ اجتہاد‘‘ کے مطابق ہماری قومی اسمبلی نے قادیانیوں کو کافر قرار دِیا۔ علاّمہ اقبالؒ نے کہا تھا کہ ’’اجتہاد کرنے کا حق مسلمانوں کی منتخب قومی اسمبلی کا ہے، کسی عالمِ دِین کا نہیں‘‘۔ علاّمہ صاحب کے فلسفے کے مطابق جمہوریہ ترکیہ کے بانی غازی مصطفیٰ کمال پاشا (اتا تُرک) کی صدارت میں تُرکیہ کی گرینڈ نیشنل اسمبلی نے ’’خلافت‘‘ کے ناکارہ ادارے کو ختم کردِیا تھا۔ عُلمائے سُو نے اتا تُرک کے خلاف کُفر کا فتویٰ دِیا اور متحدہ ہندوستان میں علاّمہ اقبالؒ اور بانیٔ پاکستان حضرت قائداعظمؒ کے خلاف بھی۔ قیامِ پاکستان کے بعد بھی انہیں شرمندگی نہیں ہُوئی اور نہ ہی اُن کی صُلبی اور معنوی اولاد کو اب ہوتی ہے۔
قادیانیوں کو کافر قرار دینے کے بعد اُن سے کہا گیا کہ ’’آپ اپنی عبادت گاہ کو مسجد نہیں کہہ سکتے اور نہ ہی اذان دے سکتے ہیں‘‘۔ انہوں نے حُکم مان لِیا۔ اپنی عبادت گاہ کا نام ’’داراُ لذکر‘‘ رکھ لیا اور اذان بھی بند کردی۔ وزیراعظم بھٹو کے دَور میں ایک لطیفہ ہُوا۔ اُنہوں نے کچھ لوگوں کو قادیانی اقلیت کے کوٹے میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹوں پر قومی اور صوبائی اسمبلیوں کیلئے منتخب کروالِیا تو قادیانیوں کے ہیڈ کوارٹر ’’ربوہ‘‘ سے وضاحت جاری ہوئی کہ ’’جن لوگوں کو ہمارے کوٹے میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان منتخب کرایا گیا ہے وہ ’’جعلی احمدی‘‘ ہیں‘‘۔
قیام پاکستان کے بعد قائداعظمؒ نے ایک قادیانی چودھری ظفر اللہ خان کو پاکستان کا وزیر خارجہ بنایا۔ اُس وقت پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے قادیانیوں کو کافر قرار نہیں دِیا تھا لیکن قیام پاکستان کے مخالف مولوی حضرات نے قائداعظمؒ کی اِس ’’غلطی‘‘ کو کبھی معاف نہیں کِیا۔ 2 نومبر 2013ء کو ایوانِ کار کُنانِ تحریک پاکستان لاہور میں ڈاکٹر مجید نظامی صاحب کی صدارت میں تحریکِ پاکستان کے ایک کارکُن جناب آزاد بن حیدر کی کتاب ’’آل انڈیا مسلم لیگ کی تاریخ‘‘ کی تقریبِ رونمائی ہوئی۔ ایک پیر صاحب نے موضوع سے ہٹ کر ’’قائدِاعظمؒ کا چودھری ظفر اللہ خان کو وزیر خارجہ بنانے کا تذکرہ کِیا‘‘۔ دو روز بعد ’’نوائے وقت‘‘ میں میرا کالم شائع ہُوا تو مَیں نے پیر صاحب کو اہمیت نہیں دی۔ اگلے روز مِلے تو گِلہ کِیا کہ ’’اثر چوہان صاحب! آپ نے میری تقریر کا نوٹس نہیں لِیا؟‘‘ میں نے کہا کہ ’’اگر میں نوٹس لیتا تو آپ بُرا منا جاتے!‘‘۔
مولانا طاہر اشرفی نے کہا کہ ’’مولانا شیرانی فرقہ وارانہ فسادات کی سازش کر کے پاکستان کے آئین کے خلاف کام کر رہے ہیں۔ مَیں وزیراعظم نوازشریف سے مطالبہ کرتا ہُوں کہ وہ اُنہیں اسلامی نظریاتی کونسل کی چیئرمین شِپ سے ہٹا دیں!‘‘ مولانا طاہر اشرفی ’’بھولے بادشاہ‘‘ ہیں۔ حکمرانوں کی مجبوریاں نہیں سمجھتے۔ مولانا شیرانی کے مُرشد مولانا فضل اُلرحمن کے پاس ایک ایسی ’’ گِڈّر سِنگی‘‘ کہ ہر حکمران اُن کی قُربت کو اپنے لئے مفید سمجھتا ہے۔ وزیراعظم نوازشریف، وزیراعظم بے نظیر بھٹو، صدر جنرل پرویز مشرف، صدر زرداری اور اب پھر وزیراعظم نواز شریف کے اتحادی۔ یہ مولانا صاحب کا ہی کمال ہے۔
اِس دور میںبھی مولانا فضل اُلرحمن اتحادی سیاست کے ’’دُلہا‘‘ اور مولانا محمد خان شیرانی ’’ شہ بالا‘‘ ہیں۔ مولانا فضل اُلرحمن وفاقی وزیر کی مراعات کے ساتھ ساڑھے سات سال سے چیئرمین کشمیر کمیٹی ہیں اور اُسی وقت سے مولانا شیرانی چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل اور اب تو مولانا عبدالغفور حیدری بھی منتخب ڈپٹی چیئرمین سینٹ ہیں۔ اِن تینوں مولانائوں کے فتوے ریکارڈ پر ہیں کہ ’’ہم امریکی مفادات کیلئے (دہشت گردوں کے خلاف) لڑکر جاں بحق ہونے والے پاک فوج کے افسروں اور جوانوں کو شہید نہیں سمجھتے‘‘۔ مسلم لیگ ن اقتدار میں ہو یا کوئی اور مسلم لیگ، اُسے علاّمہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ کے ’’نظریہ پاکستان‘‘ سے کوئی غرض نہیں اور نہ ہی چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل کا آگا پیچھا معلوم کرنے کی۔
صدر محمد ایوب خان نے (شاید اپنے اتحادی مولانا مفتی محمود کو خوش کرنے کیلئے) 1962ء میں اسلامی نظریاتی کونسل قائم کی تھی۔ ابھی تک اِس کی سرگرمیاں، نکاح، طلاق اور پہلی بیوی کی اجازت کے بغیر، دوسری شادی قِسم کے مسائل پر فتوے دینے تک محدود ہیں۔ اسلام کا اقتصادی نظام کیا ہے اور اُسے اسلامیہ جمہوریہ پاکستان میں کیسے نافذ کِیا جائے؟ پاکستان کے 60 فی صد مفلوک اُلحال انسانوں کی بنیادی ضروریات کو کِس طرح پورا کِیا جائے؟ شریعت کے مطابق چند خاندانوں کو، افغان، مُغل بادشاہوں، انگریز اور سِکھ حکمرانوں کی طرف سے بخشی گئی جاگیروں کی کمائی جائز ہے یا ناجائز؟ اس طرح کے مسائل پر اسلامی نظریاتی کونسل نے ہمارے حکمرانوں کی کبھی راہنمائی نہیں کی۔ اڑھائی سال پہلے مولانا شیرانی نے مطالبہ کِیا تھا کہ ’’چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل کو بھی چیئرمین سینٹ اور سپیکر قومی اسمبلی کے برابر “Status” دِیا جائے!‘‘۔
اگر وزیراعظم نواز شریف کسی وقت مزید مہربان ہوں گے تو آئین پاکستان میں یہ ترمیم بھی کرالیں گے۔ اِس طرح کسی وقت صدر ممنون حسین، سپیکر قومی اسمبلی جناب ایاز صادق اور چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی غیر ملکی دوروں پر ہوں تو مولانا شیرانی قائمقام صدر بن کر اپنی یا مولانا فضل اُلرحمن کی شریعت کے مطابق نظام قائم کرنے کے لئے کم از کم ایک آرڈیننس تو جاری کرہی دیں گے۔ پھر جو کچھ ہوگا دیکھ لیا جائے گا۔ مولانا محمد خان شیرانی نے 17فروری 2015ء کو اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہُوئے کہا تھا کہ ’’جمہوریت کُفر کا نظام ہے‘‘ اسلام آباد میں دہشت گرد تنظیم ’’داعش‘‘ کے ترجمان لال مسجد کے مولوی عبداُلعزیز بھی داعش سے تعلق کی وجہ سے بدنام ہیں۔ اِس وقت جب پاکستان کی مسلح افواج عوام کی حمایت سے دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے میں مصروف ہیں، کیا مولانا محمد خان شیرانی قادیانیوں کو ’’مُرتد‘‘ قرار دے کر اُنہیں عام مسلمانوں سے قتل کرانے پر مشتعل کرنے کی کوشش نہیں کر رہے؟ اور کِس کے اشارے پر؟ کیا وزیراعظم نواز شریف کی حکومت کی گود میں بیٹھ کر مولانا شیرانی اپنی ’’شریعتی خواہشات‘‘ کی تکمیل کر سکیں گے؟