امریکہ تنہا شیعہ یا سنی کا نہیں بلکہ اصل اسلام کا مخالف ہے، آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای

حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی ولادت باسعادت کے موقع پر وحدت اسلامی کانفرنس کے شرکاء اور منتظمین، اسلامی ممالک کے سفیروں اور مختلف شعبہ ہای زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے آج صبح تہران میں رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای سے ملاقات کی۔ رہبر انقلاب اسلامی نے اس ملاقات میں پیغمبر عظیم الشان (ص) اور حضرت امام صادق (ع) کے یوم ولادت کی مبارک باد پیش کی۔ انہوں نے اسلام اور آنحضرت (ص) کی ولادت اور بعثت کو مردہ اور آفت زدہ دنیا میں زندگی کی روح پھونکے جانے اور حقیقی معنویت سے تعبیر کرتے ہوئے موجودہ دور میں دنیائے اسلام بالخصوص علماء اور دانشوروں کا اہم ترین وظیفہ ظلم و ستم، نسلی تعصب اور قساوت سے بھری ہوئی دنیا میں حقیقی اسلام اور معنویت کی روح پھونکنے کے لئے مجددانہ اور مجاہدانہ کوشش اور جدوجہد کو قرار دیا اور کہا کہ آج دنیائے اسلام کی باری ہے کہ وہ اپنے علم و دانش اور عالمی وسائل، اسی طرح عقل، خردمندی، تدبر اور بصیرت کو جدید اسلامی ثقافت کے احیاء کے لئے استعمال کریں۔ آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے پیغمبر اکرم (ص) کے یوم ولادت کی تقریبات کے انعقاد کو اس وظیفے کے مقابلے میں بہت چھوٹا قرار دیا کہ جس کی عالم اسلام سے امید ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج دنیائے اسلام کا وظیفہ صرف پیغمبر اسلام (ص) کا یوم ولادت منانا نہیں ہے بلکہ دنیائے اسلام کو چاہیئے کہ وہ جدید اسلامی تمدن کے حصول کے لئے خاطر خواہ اقدامات کرے۔

انہوں نے کہا کہ جدید اسلامی تمدن، سرزمینوں پر قبضہ کرنے، انسانوں کے حقوق پامال کرنے اور اپنی ثقافت کو دوسری اقوام پر مسلط کرنے اور ان چیزوں جیسا نہیں ہے کہ جو مغربی ممالک انجام دے رہے ہیں بلکہ اس کے معنی بشریت کو الٰہی فضیلتیں ہدیہ کرنے اور انسانوں کے بذات خود صحیح راستے کا انتخاب کرنے کے ہیں۔ رہبر انقلاب اسلامی نے مغرب کی جانب سے اپنی تہذیب کی بنیاد رکھنے کے لئے دنیائے اسلام کے علم و دانش و فلسفے سے استفادہ کئے جانے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ اس تہذیب میں ٹیکنالوجی، تیز رفتاری، سہولت و آسائش اور زندگی کے مختلف آلات و ابزار موجود ہیں، لیکن اس میں بشریت کے لئے خوشبختی، سعادت اور عدالت موجود نہیں اور یہ اندرونی طور پر بھی مشکلات کا شکار ہے۔ آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے تاکید کے ساتھ کہا کہ علی الظاہر زرق و برق سے لبریز نظر آنی والی مغربی تہذیب اب اخلاقیات کے لحاظ سے فاسد اور معنویت کے لحاظ سے کھوکھلی ہوچکی ہے اور اس بات کا اہل غرب خود بھی اعتراف کر رہے ہیں۔ انہوں نے اس بات کی جانب تاکید کرتے ہوئے کہ اب دنیائے اسلام کی باری ہے کہ وہ جدید اسلامی تمدن کے احیاء کے لئے اقدامات کرے، کہا کہ اس ہدف تک پہنچنے کے لئے دنیائے اسلام کے سیاستدانوں سے امید نہیں رکھنی چاہیئے اور وہ علمائے کرام اور روشنفکر افراد کہ جو مغرب سے وابستہ نہیں ہیں، انہیں چاہیئے کہ وہ امت مسلمہ کے درمیان روشنفکری کے لئے اقدامات کریں اور جان لیں کہ اس تمدن کا احیاء ممکن ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے دنیائے اسلام میں موجود امکانات اور توانائیوں من جملہ بہترین سرزمینوں، ممتاز جغرافیا، فراوان قدرتی ذخائر اور باصلاحیت افرادی قوت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اگر یہ امکانات اسلام کی حقیقی تعلیمات کے ہمراہ ہوں تو اسلامی امت اپنی ہنرمندانہ تخلیقات کو علم، سیاست اور ٹیکنالوجی اور اسی طرح سماجی میدان میں محقق کرسکتی ہے۔ آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے اسلامی جمہوریہ کے نظام کو ان بزرگ اہداف تک پہنچنے کے لئے ایک نمونہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایران اسلامی انقلاب کی کامیابی سے پہلے علمی، سیاسی اور اجتماعی لحاظ سے پسماندہ اور سیاسی لحاظ سے انحطاط کا شکار اور ملکی اعتبار سے ایک وابستہ ملک تھا، لیکن آج اسلام کی برکت سے ملت ایران نے اپنے آپ کو منوایا اور ملک سائنس و ٹیکنالوجی اور جدید سائنسی علوم میں اہم ترقی و پیشرفت کا حامل ہوگیا اور جدید علوم تک رسائی حاصل کرکے آج دنیا کے چند بڑے ممالک میں اس کا شمار ہوتا ہے۔ انہوں نے اس مثال کو پوری اسلامی دنیا کے لئے قابل تقلید قرار دیا اور کہا کہ اس مقام تک پہنچنے کی کچھ شرائط ہیں اور اسکی پہلی شرط یہ ہے کہ ملتوں کے اوپر سے بڑی طاقتوں کا بھاری سایہ کم ہوجائے کہ جس کے لئے بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی، کیونکہ بڑے اہداف کا حصول قیمت ادا کئے بغیر ممکن نہیں ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ اسلامی تمدن مغربی تمدن کے برخلاف، کسی بھی ملک کو زبردستی اپنے قبضے میں نہیں رکھتا، کہا کہ جدید اسلامی تمدن کے احیاء کے لئے ہماری نظریں مغرب کی جانب نہیں ہونی چاہئیں اور ہمیں انکی مسکراہٹ اور انکے غصے کی فکر نہیں کرنی چاہیئے بلکہ اپنی توانائیوں اور اپنے پاس موجود امکانات کو بروئے کار لاتے ہوئے صحیح سمت حرکت کرنا چاہیئے۔

آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے جدید اسلامی تمدن کا راستہ روکنے کے لئے دشمن کا ایک ہتھیار مسلمانوں کے درمیان فرقہ واریت کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ جب سے شیعہ اور سنی کا موضوع امریکی اعلٰی حکام اور عہدیداروں کے درمیان مطرح ہے، اہل فہم اور اہل نظر کو پریشانی لاحق ہوگئی ہے کیونکہ یہ بات واضح ہے کہ وہ پہلے سے زیادہ جدید اور خطرناک سازشوں اور فتنوں کی تلاش میں ہیں۔ انہوں نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ امریکی اصل اسلام کے مخالف ہیں اور انکی جانب سے بعض فرقوں کی حمایت کے بارے میں اظہار خیال کے فریب میں نہیں آنا چاہیئے، کہا کہ امریکہ کے سابقہ صدر نے گیارہ ستمبر کے واقعے کے بعد اپنی گفتگو میں صلیبی جنگ کا تذکرہ کیا تھا اور درحقیقت یہ بات عالمی استکبار کی اسلام سے جنگ کی نشاندہی کرتی ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے موجودہ امریکی عہدیداروں کی اسلام کی حمایت پر مبنی گفتگو کو حقیقت کے برخلاف اور انکے نفاق کی علامت قرار دیتے ہوئے کہا کہ موجودہ امریکی حکمران اصل اسلام کے مخالف ہیں اور اسکے برخلاف اظہار خیال کرتے ہیں، یہ لوگ مسلمانوں کے درمیان اختلافات کے درپے ہیں اور اس کی واضح مثال داعش اور ان جیسے دوسرے دہشتگرد گروہوں کو وجود میں لانا ہے کہ جو امریکہ سے وابستہ ممالک کی دولت اور انکی سیاسی حمایت کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں اور دنیائے اسلام میں موجودہ حادثات اور بحران کا سبب بنے ہیں۔ آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے اس بات کی تاکید کرتے ہوئے کہ امریکی عہدیداروں کے اہل سنت کی حمایت اور اہل تشیع کی مخالفت میں دیئے گئے بیانات جھوٹ پر مبنی ہیں، کہا کہ مگر غزہ کے عوام اہل سنت نہیں ہیں کہ جن کو یلغار اور دراندازی کا نشانہ بنایا گیا، یا غرب اردن کے عوام سنی نہیں ہیں، جن کو اتنا زیادہ دباو میں رکھا گیا ہے۔ انہوں نے ایک امریکی سیاستدان کی اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ امریکہ کا دشمن اسلام ہے، تاکید کے ساتھ کہا کہ امریکیوں کے لئے شیعہ اور سنی کے درمیان کوئی فرق نہیں، وہ ہر اس مسلمان کے مخالف ہیں کہ جو اسلام کے قوانین اور شریعت کے مطابق زندگی گزارنا چاہتا ہے اور اسکے لئے جدوجہد کرتا ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے مسلمانوں سے امریکیوں کی اصل مشکل اسلام کے احکامات اور اسکے احکام پر مسلمانوں کی پابندی اور جدید اسلامی تمدن کے قیام کے لئے جدوجہد کو قرار دیا اور کہا کہ اسی وجہ سے جب اسلامی بیداری کا آغاز ہوا تو یہ لوگ حیران و پریشان ہوگئے اور انہوں نے کوشش کی کہ اس کا راستہ روکیں اور بعض ممالک میں یہ کامیاب بھی ہوگئے، لیکن اسلامی بیداری کو نابود نہیں کیا جاسکتا اور خداوند متعال کے کرم سے یہ اپنے اہداف حاصل کرکے رہے گی۔ آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے مسلمانوں کے درمیان داخلی جنگ اور شام، یمن اور لیبیا جیسے ممالک کے انفرا اسٹرکچر کو تباہ و برباد کرنا استکباری محاذ کا اصلی ہدف قرار دیا اور کہا کہ ہمیں اس سازش کے مقابلے میں خاموش نہیں بیٹھنا چاہیئے اور سرتسلیم خم نہیں کرنا چاہیئے بلکہ بصیرت کے حصول اور استقامت کی حفاظت کے ذریعے اس سازش کا مقابلہ کیا جانا چاہیئے۔ انہوں نے بحرین کے مسلمانوں پر مسلسل دباو کے مقابلے میں عالم اسلام کے سکوت پر تنقید کرتے ہوئے اور اسی طرح یمن پر ایک سال سے جاری بمباری، شام اور عراق کے حالات اور نائیجیریا کی موجودہ صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے کہا کیوں اس مومن، شیخ، مصلح، تقریبی  کے خلاف اس طرح کا اندوہناک واقعہ برپا کیا جائے اور ایک ہزار سے زیادہ افراد کو قتل کیا جائے اور اسکے فرزندوں کو بھی شہید کر دیا جائے، لیکن دنیائے اسلام خاموش تماشائی بنی رہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے تاکید کے ساتھ کہا کہ دنیائے اسلام کے دشمنوں کے اہداف نہایت خطرناک ہیں اور اسکے مقابلے میں ہم سب کا وظیفہ ہے کہ ہم بابصیرت اور بیدار ہوں اور علمائے اسلام اور روشنفکر افراد کا وظیفہ ہے کہ وہ عوام اور بیدار ضمیروں کے حامل سیاستدانوں سے ملاقات کریں اور انہیں حقیقت سے آگاہ کریں۔ آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے کہا کہ ایسے عالم میں کہ جب زر و زور پر مشتمل دنیا، دنیائے اسلام کے خلاف خطرناک سازشوں میں مشغول ہے تو کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ خواب غفلت کا شکار ہو جائے اور حقیقت سے آشنا نہ ہو۔

رہبر انقلاب اسلامی کی گفتگو سے پہلے ایران کے صدر مملکت ڈاکٹر حسن روحانی نے نبی مکرم اسلام (ص) اور حضرت امام صادق (ع) کی ولادت باسعادت کی مبارک باد پیش کرتے ہوئے پیغمبر اسلام (ص) کو اخلاق اور پاکدامنی کا کامل نمونہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ حضرت محمد (ص) دنیا کے لئے وحدت، اتحاد اور برادری کا تحفہ لے کر آئے۔ ایرانی صدر نے اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ گذشتہ ہر دور کے مقابلے میں آج نبی مکرم (ص) کی پیروی کی بہت زیادہ ضرورت ہے، کہا کہ ملی وحدت اور اپنے عظیم رہبر کی ہدایات کے سایے میں ہم نے دنیا کی بڑی طاقتوں کے مقابلے میں کامیابی حاصل کی ہے اور کامیابی کا یہ سلسلہ جاری و ساری رہے گا۔ انہوں نے اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ مجلس خبرگان رہبری اور ایران کی پارلیمنٹ مجلس شورائے اسلامی کے انتخابات درپیش ہیں، ان انتخابات کو ملک کی عظمت و بزرگی کا امتحان قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں چاہیئے کہ ہم ان انتخابات میں اسلامی نظام اور اس ملک کی کامیابی کی فکر کریں۔ ڈاکٹر حسن روحانی نے ۹ دی کو ایرانی عوام کے حماسے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ۹ دی خاندان رسالت، نظام، قانون، ولایت فقیہ اور ولی فقیہ کے دفاع کا دن ہے۔

ایرانی صدر نے کہا کہ آج اسلامی جمہوریہ ایران کی سکیورٹی اور امن و امان رہبر معظم انقلاب اسلامی کی تدابیر اور انکے فرمودات کی روشنی میں حاصل ہوا ہے اور اس نعمت کا شکر ادا کرتے ہیں اور وحدت میں اضافے اور دہشتگردی اور اغیار کی دنیائے اسلام میں مداخلت سے نجات وحدت میں اضافے کے ذریعے حاصل ہوگی۔ ڈاکٹر حسن روحانی نے اس بات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہ دشمنوں نے عالم اسلام کو ایک دوسرے کے دست و گریبان کر دیا ہے، کہا کہ اگر عالم اسلام کے بڑے ممالک ایک دوسرے کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے عمومی مسائل کی فکر کرتے تو یہ مسائل بہت آسانی کے ساتھ حل ہوسکتے تھے۔ انہوں نے اس بات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ بعض اسلامی ممالک ایک دوسرے کے ساتھ ثقافتی اور اقتصادی میدانوں میں تعاون کے بجائے خطے سے باہر موجود عوام سے تعاون کرتے ہیں، کہا کہ یہ نہایت افسوس کا مقام ہے کہ بعض ممالک سیاسی میدان میں ایک ملک کی کامیابی پر پریشان ہوجاتے ہیں اور عالم اسلام کے سرمایے کو اغیار کے حوالے کر دیتے ہیں۔ ایرانی صدر نے کہا کہ جس ملک نے تیل کی قیمت میں کمی لانے کے لئے بھرپور کردار ادا کیا، اب اپنے اگلے سال کے بجٹ میں سو بلین ڈالر کی کمی کا اعلان کرچکا ہے اور یہ اس بات کی علامت ہے کہ جو کوئی بھی کسی دوسرے کے لئے گڑھا کھودتا ہے، وہ سب سے پہلے خود اسی گڑھے میں گرتا ہے۔ اس محفل کے اختتام پر وحدت اسلامی کانفرنس کے بعض مہمانوں نے رہبر انقلاب اسلامی سے بہت نزدیک سے ملاقات کی۔