
آج ہمارے بابا قائدِاعظم محمد علی جناح کا یوم ولادت ہے۔وہ عظیم ہستی جسکی قابلیت ،اصول پسندی اور عزم کے سبھی دوست دشمن ایک صدی سے زیادہ عرصے سے معترف ہیں۔انکی صلاحیتوں اور کردار کا ایک ثبوت تو دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت پاکستان کی صورت میں روئے زمین پر موجود ہے۔ دوسرا ان کے افکار جو آج بھی ہر پاکستانی کیلئے مشعل راہ ہیں۔ بابائے قوم پر اتنی کتابیں لکھی جا چکی ہیں اور آج کے دن بھی لکھاریوں نے بہت کچھ لکھا ہے مگر عقیدت سے سوچنے والوں کیلئے کچھ گوشے باربار نئی نسلوں پر اجاگر کرنے کیلئے اب بھی موجود ہیں۔میرا دل چاہ رہا ہے کہ آج نوجوانوں کو اپنی سوچ کیمطابق اس اصطلاح کا مطلب سمجھانے کی کوشش کروں جسے وہ اکثر عزمِ نو کے پیرائے میں سنتے رہتے ہیں۔یعنی ’’ہم وطنِ عزیز کو قائدِاعظم کا پاکستان بنائیں گے‘‘ سب سے پہلے تو یہ واضح ہونا چاہیے کہ پاکستان کو ان کے افکار کی بلندی تک لے جانا ایک آئیڈیل صورت ہے۔ اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ ہم نے جو کچھ آج تک حاصل کیا ہے وہ کسی طرح سے بھی مایوس کن ہے۔ہاں!بہتر کر سکتے تھے جو آئندہ کرینگے۔ موضوع پر آگے بڑھنے کیلئے آج ہم صرف بابائے قوم کی اس ایک تقریر کو سٹڈی کرتے ہیں جو انہوں نے 11اگست 1947ء کو پاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی کے پہلے صدر کے طور پر اسمبلی ممبران کو خطاب کرتے ہوئے کی تھی۔
قائدِاعظم نے فرمایا کہ آپ کو دو انتہائی اہم اور بڑے کام سر انجام دینے ہیں (1)بہت ذمہ داری سے پاکستان کے مستقبل کیلئے آئین بنانا ۔(2)پاکستان کی مکمل اور بھر پور خود مختار وفاقی قانون ساز باڈی کے طور پر کام کرنا۔انہوں نے فرمایا کہ میں آج ساری تفصیلات تو نہیں دے سکوں گا مگر کچھ مشاہدات آپ کے سامنے پیش کروں گا جس سے آپ کو فیصلے کرنے میں آسانی ہوجائیگی۔وہ نقاط مندرجہ ذیل تھے:-
1۔حکومت کا پہلا فرض قانون کی پاسداری اور امن قائم رکھنا ہے تاکہ ریاست اپنے شہریوں کی زندگی ،پراپرٹی اور مذہبی عقائد کو تحفظ فراہم کر سکے۔ 2۔َسب سے بڑی لعنت کرپشن اور رشوت ہے اگرچہ یہ دوسری قوموں میں بھی موجود ہیںمگر ہمارے ہاں حالت بدتر ہے۔ 3۔ایک بڑی مرض بلیک مارکیٹنگ ہے خصوصاً جبکہ ہم خوراک اور دوسری ضروریات زندگی کی قلّت محسوس کر رہے ہوں۔ اس کو پروان چڑھانے والے عموماًذہین، جانے پہچانے اور ذمہ دار لوگ لگتے ہیں۔ایسے لوگ زیادہ بڑی سزا کے مستحق ہیں کیونکہ یہ بڑے پیمانے پر افلاس اور موت تک کا سبب بنتے ہیں۔4۔انہوں نے کہا کہ کنبہ پروری ہماری ایک بہت بڑی کمزوری ہے۔جو اگرچہ ہمیں ورثے میں ملی ہے مگر میں اسے کسی قیمت پر بھی برداشت نہیں کرونگا۔
5۔برصغیر کی تقسیم ،خصوصاًبنگال اور پنجاب کی تقسیم پر بہت کچھ کہا سنا جا چکا ہے یعنی مزید گنجائش نہیں۔دو مختلف قوموں کے ساتھ یونائٹڈ انڈیا ایک تباہی تھا اور تقسیم کے علاوہ کوئی حل نہ تھا۔اب اسے تسلیم ہی کرناہے۔6۔پاکستان کو خوشحال اور ترقی یافتہ بنانے کیلئے ہماری توجہ مکمل طور پر عوام،خصوصاً غریبوں پر مرکوز ہونی چاہیے۔کوئی کسی بھی کمیونٹی ،کسی رشتے ،کسی رنگ ونسل سے ہو، اب اگر صرف پاکستانی بن کر چلیں گے تو آپ کی ترقی کو دنیا دیکھے گی۔7۔ذات پات و گروہی تقسیم کی وجہ سے برصغیر ہمیشہ محکوم رہا ورنہ اتنی بڑی آبادی کو کوئی اسطرح محکوم نہیں رکھ سکتا تھا ۔اس سے محتاط رہنا ہو گا۔ 8۔پاکستان میں آپ اپنے اپنے گرجوں ،مساجد و دیگر عبادت گاہوں کو جانے کیلئے آزاد ہیں۔وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ آپ دیکھیں گے کہ ہندو ہندو نہیں رہے گا اور مسلمان مسلمان نہیں۔یہ مذہبی لحاظ سے نہیں صرف سیاسی لحاظ سے ہے۔
انہوں نے اپنی تقریر ان الفاظ پرختم کی
“My Guiding Principle will be Justice and Impartiality”
دوستو!کتنی خوبصورت بات ہے کہ ہمارے بابا کی دی ہوئی گائیڈلائنز آج بھی اتنی ہی Relevant ہیں جتنی 68سال 4ماہ اور14دن پہلے تھیں۔یہ ہوتی ہے بصیرت اور لیڈرشپ۔ہم نے انہیں کیسے اپنایا، یہ ایک لمبی بحث ہے۔ کمزوریوں پر تو ناکامی سپیشلسٹ اکثر لکھتے اور بولتے رہتے ہیں۔ہم آج بابائے قوم کی برتھ ڈے پر ایک تو انہیں سلام پیش کریں گے اور دوسرا انکے افکار کی روشنی میںکچھ عزائم اپنانے کی کوشش کرتے ہیں۔
1۔آئیں خود قانون کی پاسداری کریں اور امن قائم رکھنے میں بحیثیت افراد اور سوسائٹی متعلقہ ریاستی اداروں کے ہاتھ مضبوط کرنے کا عزم کرلیں۔شہریوں کی زندگی،پراپرٹی اور مذہبی عقائد کے تحفظ کی خاطر ایک مربوط سوسائٹی سے بڑھکر مضبوط کوئی ڈھال نہیں ہوتی۔ 2۔کرپشن اور رشوت کے زہر نے سوسائٹی میں پھیل کر اسکی قوت مدافعت کو خاصا کمزور کردیا ہے مگر ابھی جاں باقی ہے۔اس کے خلاف عوامی نفرت اور چھوٹے چھوٹے سیل تو ہر جگہ موجود ہیں ۔کوشش جاری رکھیں اور اداروں کو سپورٹ کریں۔3۔بلیک مارکیٹنگ کو روکنے کیلئے لوکل اداروں کو مجبور کریں کہ وہ حرکت میں آئیں ۔اور میڈیا نے جو بڑے مجرموں کے خلاف روّیہ اپنا رکھا ہے اسے سپورٹ کریں۔کب تک کوئی بے غیرتی سے کھا سکتا ہے؟۔ 4۔کنبہ پروری کو روکنے کیلئے میرٹ کا کلچر لانا ہو گا۔پھر جہاں بھی میرٹ کے خلاف کسی کا حق مارا جائے تو اس کے ساتھ مل کر احتجاج اور عدالت کا سہارا لیں۔5۔پاکستان کی سرحدوں کو بے اثر کہنے والوں کی زبانیں کافی حد تک گنگ ہوچکی ہیں جس کیلئے ہم مودی سرکار اور شیو سینا کے مشکور ہیں۔بھارت میں ان کے حالیہ روّیے سے ایسے لوگوں کی آنکھیں کھل جانی چاہیں۔ان لوگوں کو محفل میں بات ہی نہ کرنے دی جائے۔6۔ہمیں بڑھتی ہوئی صوبائیت اور فرقہ واریت کو روکنے کیلئے کھل کر سامنے آنا ہو گا۔ہر کسی کو مذہبی طور پر اپنی مرضی سے خوش رہنے کا حق دیتے ہوئے علاقائی و نسلی دوریوں کو قربتوں میں بدلنا ہو گا۔یہ آسانی سے ہو سکتا ہے اگر سوشل گروپس صرف ایک بات کی خاموش مہم چلائیں کہ ’’اپنے لئے خوشیاں کیسے حاصل کی جا سکتی ہیں‘‘۔اسکا قدرتی حل باہمی برداشت کی صورت میں نکل آئیگا۔ہم نے جو عزم کیا ہے اور جسکی تکمیل بادی الّنظر میں اگر نا ممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے، در حقیقت ایسا بھی نہیں ہے۔اگر غور سے دیکھں تو ہمیں موجودہ کمپرومائیزڈ سوسائٹی کو ایک مربوط سوسائٹی سے بدلنا ہے۔عوام کو جسطرح کے زخم آج کاسسٹم دے رہا ہے اسکے فطری نتیجے کے طور پر مطلوبہ سوسائٹی کا قیام زیادہ دور نہیں لگتا۔انشااللّٰہ ہماری آئندہ نسلیں فخر سے بابا کے الفاظ دہرائیں گی کہ “We Pakistanis are Committed to Justice and Impartiality”اور یہی قائدِاعظم کا پاکستان ہے۔