داعش کیخلاف عالمی اتحاد میں شامل نہ کرنے کے معاملے پراطمینان بخش جواب نہ ملنے پر چیئرمین سینٹ رضا ربانی بھی برہم ہوگئے۔
تاہم وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز نے ایوان بالاکو بتایاکہ سعودی عرب کی طرف سے دہشتگردی کے خلاف تشکیل دیئے جانیوالے 34ممالک کے اتحاد کا معاملہ عالمی سطح پر زیربحث لائیں گے اورکچھ عرب ممالک کو شامل نہ کیے جانے پر سعودی عرب سے پوچھیں گے، ہمیں اس معاملے پر کچھ تحفظات ہیں جن پر ابھی بات کرناہے۔
چیئرمین سینٹ رضاربانی کی طرف سے اتحاد میں شام، عراق اور ایران کو شامل نہ کیے جانے سے متعلق سوال کے جواب میں سرتاج عزیز کاکہنا تھا کہ اس معاملے پر سعودی عرب سے آئندہ چند ہونیوالی میٹنگز میں بات ہوگی۔
اسلامی ممالک کی تعاون تنظیم (او آئی سی) اجلاس کے موقع پر بھی بات چیت کریں گے، پاکستان کے علاوہ دیگر ممالک بھی اتحاد میں شامل ہیں۔
مشیر خارجہ کے بیان پر شدید ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے چیئرمین سینٹ نے کہا کہ کیا کسی کی خاطر کسی اتحاد میں شمولیت ہمارے لئے عدم تحفظ کا احساس نہیں دلاتی؟
دوسرے ملک ہماری ذمہ داری نہیں،تفصیلات آپ کو معلوم نہیں اور اتحاد میں شامل ہو گئے ہیں۔
پاکستان کی خارجہ پالیسی سے متعلق سوال کے جواب میں سرتاج عزیز نے بتایاکہ اس کا بنیادی مقصد پاکستانی مفادات کا تحفظ، خودمختاری اور دوسرے ممالک کی عدم مداخلت تھا۔
مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر بات کرتے ہوئے اُن کاکہناتھاکہ شام کی جنگ میں ہم نے شام کی خودمختاری کی حمایت کی اور بات چیت کرکے مسئلے کے پرامن حل پر زور دیا۔
پاکستان اپنے پڑوسی ممالک سے پرامن تعلقات چاہتا ہے جو کہ معاشی ترقی کیلئے بھی ضروری ہیں ، پاکستان تجارت اور سرمایہ کاری کرناچاہتاہے نہ کہ امدا د کا حصول۔
افغانستان کی حالیہ صورتحال پر بات کرتے ہوئے ان کاکہناتھاکہ یہ افغانستان کا اندرونی معاملہ ہے، پاکستان کا افغانستان میں موجود کوئی بھی گروپ پسندیدہ نہیں اور پڑوسی ممالک میں قیام امن کیلئے ہونیوالی کاوشوں کی حمایت کرتے ہیں۔
ان کاکہنا تھاکہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی وجہ سے ہی بھارتی حکومت پاکستان کیساتھ تمام معاملات پر مذاکرات شروع کرنے کے لیے میز پر آئی، پاکستان نے اپنا کیس موثر طریقے سے عالمی فورمز پر پیش کیا۔