سعودی عرب یمن تنازع کھڑا کرکے عرب ملکوں کو ہی نہیں بلکہ پورے اسلامی ممالک کو منافرتوں کی آگ میں جھونک کے اب استعماری قوتیں انہی ممالک پر دوبارہ غاصبانہ قبضہ کرنے کے جتن کر رہی ہیں، جو کبھی ان کی نوآبادیات تھے، مگر اس وقت تک خود سامراج کو ان کی معدنی دولت اور زیرزمین وسائل کا علم نہیں تھا۔ نئے منظرنامے میں امریکہ کے چھا جانے کے بعد جس طرح عالمی نقشے میں تیزی سے تبدیلیاں رونما ہوئیں، انہوں نے انکل سام کے ہاتھوں ٹوٹ بکھرنے والے روس کو چوکنا کرکے عالمی دستر خوان سے اپنے حصے کی بوٹیاں سمیٹنے کیلئے ایک ایسی جنگ میں کودنے پر مجبور کر دیا، جس میں شریک فریق ایک ہی وقت میں باہم حلیف بھی ہیں اور حریف بھی۔
تحریر: تصور حسین شہزاد
دہشتگردی کیخلاف جنگ آزما پاکستان اس وقت ایک عجیب دوراہے پر آن کھڑا ہے، ایک طرف اس کی فوج علاقائی امن کی بحالی کیلئے جان و مال کی قربانی دے رہی ہے تو دوسری طرف اندرون ملک اسے متحارب فریقین کے باہمی گٹھ جوڑ کی ایسی مزاحمت کا سامنا ہے، جس کی توجیح سمجھ سے بالاتر ہے۔ ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے والے سیاسی گروہ جمہوریت کے نام پر یکجا ہوئے، نظام بچانے کی آڑ میں وطن عزیز کی ہی دفاعی حصار میں شگاف ڈالنے کی سازش میں مصروف ہیں۔ کراچی کل تک دشمن ملک کی سازشوں کے باعث “افغانستان” بنا ہوا تھا، جہاں پر عام آدمی کی زندگی اجیرن ہو کر رہ گئی تھی۔ سکیورٹی اداروں کی محنت اور سعی مسلسل سے معمول کی زندگی کی طرف پلٹ رہا تھا کہ شہر پر بالادستی قائم رکھنے کیلئے باہم دست و گریبان جرائم پیشہ گروہوں نے آپس کی بندر بانٹ معرض خطر میں دیکھ کر ایک دوسرے سے اتحاد کر لیا اور ان قوتوں کیخلاف ایک ہوگئے، جو شہر کراچی کو ہی نہیں بلکہ ملک کو بچانے کیلئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر رہی ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ سیاسی اقتدار کیلئے یکجا ہونے والوں کے آدھے ساتھی اس وقت سکیورٹی اداروں کے ساتھ کھڑے نظر تو آتے ہیں مگر بدہی طور پر یہ بھی ایک منافقانہ طرز عمل ہے، جس کا مقصد دھوکہ دہی سے سکیورٹی فورسز کو دفاعی پوزیشن پر لا کر کراچی آپریشن کے بے نتیجہ ختم کرنے پر مجبور کرنا ہے، لیکن کیا ہماری سلامتی کے ضامن ادارے یہ سب ہونے دیں گے۔؟ یہ سوال اپنی جگہ بہت اہم ہے، بالخصوص ایسے وقت میں جب یہود و نصاریٰ کی سامراجی قوتیں اہل اسلام کیخلاف عالمی سازشوں کا تانا بانا بُن رہی ہیں اور ان کا طرز عمل بھی منبی بر منافقت ہے، کہ ان سب نے مل کر اسلامی ممالک میں مسلکی اختلافات کو باقاعدہ دشمنی میں بدل کر اسلامی ممالک کو دو بڑے گروہوں میں بانٹ دیا ہے۔
سعودی عرب یمن تنازع کھڑا کرکے عرب ملکوں کو ہی نہیں بلکہ پورے اسلامی ممالک کو منافرتوں کی آگ میں جھونک کے اب استعماری قوتیں انہی ممالک پر دوبارہ غاصبانہ قبضہ کرنے کے جتن کر رہی ہیں جو کبھی ان کی نوآبادیات تھے، مگر اس وقت تک خود سامراج کو ان کی معدنی دولت اور زیرزمین وسائل کا علم نہیں تھا۔ نئے منظرنامے میں امریکہ کے چھا جانے کے بعد جس طرح عالمی نقشے میں تیزی سے تبدیلیاں رونما ہوئیں، انہوں نے انکل سام کے ہاتھوں ٹوٹ بکھرنے والے روس کو چوکنا کرکے عالمی دستر خوان سے اپنے حصے کی بوٹیاں سمیٹنے کیلئے ایک ایسی جنگ میں کودنے پر مجبور کر دیا، جس میں شریک فریق ایک ہی وقت میں باہم حلیف بھی ہیں اور حریف بھی۔ اس گنجلک صورتحال میں پاکستان کی پوزیشن سب سے نازک ہے۔ جسے امریکہ نے پہلے سوویت یونین کیخلاف استعمال کرکے افغانستان کی جنگ میں جھونکا اور اپنے سب سے بڑے حریف سوویت یونین کے انہدام کے بعد اسے اور افغانستان کو بُرے حالات میں چھوڑ کر نکل بھاگا۔ افغان جنگ کی کوکھ سے جنم لینے والے حشرات الارض میں شامل ناگوں نے پھن پھیلا کے اپنی پھنکاروں سے انسان کش زہر اگلنا شروع کیا تو رفتہ رفتہ زہر نے پوری دنیا کی فضاؤں میں بس گھول کر ہر ذی روح کا سانس لینا دوبھر کیا تو سامراجی خداؤں کے ہوش ٹھکانے آئے اور وہ ایک بار پھر افغانستان کی طرف چھپٹے، مگر 10 سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد انہیں شکست کی عزیمت کا سامنا ہوا تو وہ پاکستان کو قربانی کا بکرا بنا کر بھاگنے کی فکر میں ہیں۔
پاکستان اس موقع پر پھر کشمکش کا شکار ہے کہ ایک طرف اسے دہشتگردوں کیخلاف مزید اقدامات کرنے پر اصرار کیا جاتا ہے اور دوسری طرف افغانستان میں قیام امن کیلئے افغان طالبان پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے کیلئے دباؤ ڈالا جاتا ہے۔ افغان حکومت دو عملی کا شکار ہے، کیونکہ اس میں شامل عناصر افغان طالبان سے مذاکرات کے مسئلہ پر تقسیم ہیں۔ اشرف غنی ان کے ساتھ بیٹھنے پر تیار ہیں مگر ان کے متحارب فریق اس سوچ کیخلاف ہیں۔ اسی دوران خلیج کے حالات میں سعودی عرب نے ایک اور ہلچل مچا دی۔ اس نے 34 ممالک کا ایک فوجی اتحاد بنا کر پاکستان کو بھی اس میں شامل کر لیا ہے۔ اس اتحاد میں ایران، شام اور عراق شامل نہیں جبکہ پاکستان کی حکومت نے اس میں مشروط طور پر شمولیت کی تصدیق کر دی ہے، جس پر ملک میں ایک نئی بحث شروع ہوگئی ہے۔ افغانستان میں روس کی شکست کے اسباب و علل جاننے کے باوجود امریکہ نے 2001ء میں افغان جنگ چھیڑ کر جو حزیمت اٹھائی، اب ویسا ہی تجربہ وہ پھر سے شرق اوسط میں کرنے کی حماقت کا ارتکاب کرنے جا رہا ہے۔ اسے معلوم بھی ہے کہ اس کی لگائی آگ کے شعلوں نے پاکستان، ایران اور وسطی ایشیا کو ہی لپیٹ میں نہیں لیا بلکہ یہ چنگاریاں پوری دنیا میں پھیل چکی ہیں۔
لندن کے بعد فرانس میں ہونیوالے خودکش دھماکے اسی کا شاخسانہ ہے، جسے بہانہ بنا کر پورا مغرب امریکہ کے ساتھ مل کر شرق اوسط میں شام پر چڑھ دوڑا ہے۔ جس کے مقابلے میں روس بھی آن دھمکا ہے اور اب مشرق وسطٰی میں جو کھچڑی پکنے جا رہی ہے، اس کے اجزاء میں کیا کیا کچھ شامل ہے، کسی کو کوئی اندازہ نہیں، مگر ایک بات طے ہے کہ اس بار کھچڑی نہیں بلکہ پلاؤ پکے گا، جس میں گوشت اور خون مسلمانوں کا ہی پڑے گا۔ یمن میں جاری تنازع کو ختم کرنے کیلئے سویئٹزرلینڈ میں ہونے والے امن مذاکرات بغیر کسی معاہدے کے ختم ہوگئے۔ ادھر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے شام میں خانہ جنگی کے خاتمہ اور قیام امن کا حل تلاش کرنے کیلئے متفقہ قرارداد کی توثیق کر دی ہے۔ اس قرارداد کا بنیادی مقصد داعش کو شکست دینا اور شام میں ایک عبوری حکومت کا قیام ہے۔ تاہم قرارداد میں شام کے صدر بشار الاسد کے مستقبل کا کوئی تذکرہ نہیں کیا گیا۔ قرارداد کے مطابق 18 ماہ کے اندر اقوام متحدہ کی نگرانی میں آزاد اور شفاف انتخابات کروانے کے خواب دیکھے جا رہے ہیں۔ جس میں کہا جا رہا ہے کہ شام کے عوام ہی اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں گے۔ اگر فیصلے شام کے عوام نے ہی کرنا ہے تو پھر انکل سام کے پیٹ میں اٹھنے والے مروڑ سمجھ سے بالا تر ہیں۔
روس کے صدر ولایمیر پوٹن کا کہنا ہے کہ شام میں جاری آپریشن کے دوران اپنی صلاحیت سے کم طاقت استعمال کر رہے ہیں، تاہم ضرورت پڑنے پر اس سے بھی کہیں زیادہ استعمال کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ امریکی صدر باراک اوباما کا کہنا ہے کہ شام کے سیاسی مستقبل میں بشار الاسد کا کوئی کردار نہیں ہوگا اور خانہ جنگی سے متاثرہ ملک میں امن کیلئے بشار الاسد کا جانا ضروری ہے۔ شام میں 2011ء میں شروع ہونے والی خانہ جنگی میں اب تک اڑھائی لاکھ سے زائد افراد جاں بحق اور لاکھوں بے گھر ہوچکے ہیں، جبکہ پاکستان اور افغانستان میں امریکہ کی بھڑکائی ہوئی آگ میں بھی لاکھوں بے گناہ مارے جا چکے ہیں۔ دریں حالات کیا پاکستان نئے عالمی منظر نامے میں کسی نئے امتحان میں پڑنے کا متحمل ہوسکتا ہے؟ یہ ملٹی ملین سوال پالیسی سازوں کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔ انہیں سعودی کشتی میں سوار ہونے سے قبل ہزار بار سوچنا ہوگا کیونکہ پاکستان میں سعودی عرب کے ہمدرد چند درجن اور امت مسلمہ کے ہمدرد کروڑوں کی تعداد میں ہیں۔ اگر پاکستان کے حکمران ذاتی سعودی احسانات کا بدلہ چکانے کیلئے کوئی غلط فیصلہ لیتے ہیں تو پاکستان میں خانہ جنگی کی صورت حال پیدا ہوسکتی ہے، جو کہ امریکہ کا پرانا خواب ہے۔ فیصلہ سوچ سمجھ کر کرنا ہوگا۔