12376573_424757221051328_3640663393257208245_n - Copy

 

13 دسمبر 2015 کو پاراچنار کے عید گاہ مارکیٹ کے سامنے اہلسنت عیدگاہ کے قریب خالی جگہ پر کباڑ کی عارضی بازار میں دھماکہ ہوا۔ دھماکہ اس وقت ہوا، جب غریب بڑی تعداد میں سردیوں سے بچنے کیلئے اپنے اور اپنے بچوں کیلئے نئے کپڑے، جوتے اور کُرتے خریدنے سے قاصر ہونے کیوجہ سے مستعمل و پرانے کپڑے، جوتے اور کُرتے خریدنے میں مصروف تھے۔ جس کے نتیجے میں 27 غریب افراد شہید جبکہ 60 سے زائد مجروح ہوئے۔

 

دھماکے سے متعلق خبرنگاروں، کالم نگاروں اور مفسرین نے بہت سے کالمیں لکھ کر اخباروں کو مزین کردیا، تاہم اصل ذمہ دار اور قاتل سے نالاں ہیں۔ دوسری جانب قومی اور بین الاقوامی دہشت گرد تنظیموں نے غیر ترتیب وار ذمہ داری بھی قبول کرلی۔ پہلے لشکرجھنگوی نے شام میں شامی حکومت کا ساتھ دینے کا الزام لگا کر ذمہ داری قبول کرلی۔ بعد میں تحریک طالبان نے ذمہ داری قبول کرلی۔ دونوں تنظیموں کے درمیان دراڑ موجود ہیں۔ ان کے درمیان کوئی باہمی تعلقات نہیں ہیں۔ بلکہ پاکستان میں جہاں بھی کوئی دہشت گردی کا واقعہ پیش آتا ہے، تحریک طالبان اور دیگر کالعدم تنظیموں کے ڈیوٹی اسی دہشت گردی کے واقعات کے ذمہ داری قبول کرنا ہے۔

 

دھماکے سے ایک ہی ہفتہ یا 10 دن پہلے ایسے واقعات سامنے آئے تھے، جو اس دھماکے کے اصل ذمہ دار اور 27 غریب شہداء و مجروحین کا قاتل کی نشاندہی کرتاہے۔ وہ واقعات قارئین کے خدمت میں پیش کرتے ہیں۔

 

پہلا واقعہ:

 

  روز چہلم امام حسین ؑ کے موقع پر دنیا بھر کی طرح پاراچنار کے علاقہ بوشہرہ میں یزیدیت مردہ باد کے نعرے لگائے گئے۔ واضح رہے کہ بوشہرہ پاراچنار میں ایک ایسا اہلسنت کا علاقہ ہے، جہاں طالبان، داعش اور لشکرجھنگوی کے نمائندہ گان موجود ہیں، اور اسی علاقہ(بوشہرہ) کا متفقہ طور پر سربراہ بحت جمال ہے۔ یزیدیت مردہ باد نعروں کے خلاف بوشہرہ کے باشندہ گان نے بحت جمال کے سربراہی میں حکومت کے ساتھ میٹنگ کیا۔ حکومت نے یک طرفہ کاروائی کرکے اس مسئلے کا نوٹس لیا۔ اور بعض عزاداروں کی گرفتاری کی نوٹس بھی جاری کردیا۔ اور بعد میں یزیدیت نعرے سے منع کرنے کی کوشش بھی کی۔ تاہم حسینی جوانوں نے اسکا فوری طور پر رد عمل دیکھا کر بوشہرہ کے قریب احتجاجی جلوس کا اہتمام کیا۔ جس میں یزیدیت مردہ باد کے نعرے لگانے کا ارادہ کیا۔ اور بعد میں بوشہرہ کے شدت پسند سمیت بحت جمال پشیمان ہوکر یزید اور یزید یت پر لعنت بھیجنے پر راضی ہوئے۔ یہ پیشمانی انکے دل و ذہن میں کوئی نیا حربہ تھا۔ جو پاراچنار میں غریب مومنین کو خون میں لت پت کرنا تھا۔

 

 

 

دوسرا واقعہ:

 

 جس جگہ یہ دھماکہ ہوا، یہ علاقہ کافی عرصہ پہلے شیعہ سنی کے مابین متنازعہ رہاہے۔ پرانے زمانے میں یہ علاقہ شیعہ مومنین سے اہل سنت نے اپنے قبرستان کیلئے 6 جیریب زمین خرید لیا تھا۔ لیکن اہل سنت نے حکومت کی تعاون کے ساتھ خرد برد کرکے 6 سے 60 جیریب کردیا۔ اور پھر اسی مسئلے پر شیعہ سنی جنگ بھی لڑی گئی۔ شیعہ مومنین نے پاراچنار کے امن کو برقرار رکھنے کی خاطر 6 سے 60 جیریب مان کر یہ معاہدہ کیا کہ اس میں کوئی چھت بننے کی اجازت نہیں ہوگی۔ اس معاہدے پر فریقین نے دستخط کیے۔ پھر 2007 کے شیعہ و طالبان جنگوں میں جب اہلسنت پاراچنار سے نکال دیے گئے۔ تو یہ علاقہ بھی رہ گیا۔ اور اسی طرح صدہ جو اہل سنت اکثریتی شہر ہے، وہاں پر 1987 کی شیعہ سنی جنگ میں شیعیوں کو نکال دیا گیا۔ اور وہاں پر شیعہ اراضی، قبرستان حتٰی کہ امام بارگاہ کو مسمار کرکے مارکیٹیں بنائے گئے۔ اور شیعہ مومنین نے پاراچنار میں موجود اسی علاقہ(جہاں دھماکہ ہوا ہے) صدہ میں مسماری کا بدلہ لینے کی خاطر اس قبرستان میں کوئی نقصان پہنچانے کے بجائے جہاں قبریں نہیں تھیں، وہاں عارضی طور پر پرانے کپڑے و جوتے فروخت کرنے لگے، اور اسکے قریب شیعہ مومنین کے مارکیٹین زیر تعمیر ہیں۔ اس دوران بہت کم مقدار میں قبرستان کے قریب گندگی پڑی ہوئی تھی۔ جوکہ بہت پہلے عرصے سے  حتی کہ پاراچنار میں اہلسنت کی موجودگی میں بھی پڑی ہوئی تھی، تو بوشہرہ سے تعلق رکھنے والے بحت جمال کے بیٹے نے زیر تعمیر مارکیٹ مالکان جس میں ایم این اے ساجدطوری کے بھائی بھی شامل ہے، کو تنبیہہ کیا تھا کہ مارکیٹوں کو جلدی مکمل کرکے ہمارے قبرستان سے گندگی کو صاف کرے۔ اس پر مارکیٹ مالکان اور بحت جمال کے بیٹے اور نمائندے کے ساتھ تلخ کلامی بھی ہوئی۔ یہ واقعہ دھماکے سے 5 دن پہلے کی بات ہے۔

 

 

 

تیسرا واقعہ:

 

  اسی دھماکے سے 3 دن پہلے شیعہ مومنین کی نبض معلوم کرنے کیلئے بوشہرہ سے یہ پروپیگنڈا پھیل گیا۔ کہ پاراچنار شہر میں جہاں کوئی اہل سنت نہیں رہتا، اہل سنت 12 وفات کا جلوس کریں گے۔ اس پر مومنین طیش میں آکر بوشہرہ کے ذمہ دار لوگوں کو تنبیہہ کیا کہ اگر امن میں زندگی پسند کرتے ہیں تو کوئی ایسا قدم اٹھانے کا سوچ بھی نہ لیں۔

 

نتیجہ:

 

مذکورہ بالا واقعات میں بوشہرہ کے شدت پسندوں کا سربراہ بحت جمال سمیت دیگر شدت پسند ناکام ہوئے۔ اور انہوں نے اسی واقعات کے ایک ہفتہ کے فوراً بعد اسی جگہ پر، جس جگہ پر شیعہ سنی تنازعہ تھا ایک زوردار دھماکہ ہوا۔ جس میں 27 غریب مومنین شہید جبکہ 60 مجروح ہوئے، جو کہ سردیوں سے بچنے کیلئے اپنے بچوں اور اپنے لئے نئے کُرتے، جوتے اور کپڑے خریدنے سے قاصر ہونے کی وجہ سے پرانے و مستعمل کپڑے، جوتے اور مستعمل کُرتے خریدنے میں مصروف تھے۔ مذکورہ بالا واقعات قارئین کے سامنے رکھ کر فیصلہ قارئین حضرات پر چھوڑتے ہیں۔ کہ کیا اس دھماکے کا ذمہ دار لشکر جھنگوی، تحریک طالبان ہیں یا بوشہرہ کا بحت جمال؟

 

اور مندرجہ بالا تصویر اس وقت لیا گیا ہے۔ جب گورنرخیبر پی کے سردار مہتاب عباسی کے پاراچنار اچانک دورے کے موقع پر 13 دسمبر 2015 کو پاراچنار میں یعنی حالیہ دھماکے میں شہداء کے ورثاء میں پاراچنار گورنر ہاوس میں امدادی پیکیج تقسیم کررہے تھے، اور شہداء کا قاتل بحت جمال پرمسرت  انداز میں بیٹھ کر تماشا دیکھ رہاہے۔ لیکن افسوس! ہر کسی کے آنکھوں سے غائب کیوں ہے؟ اور اسکے قریب پاراچنار کے مرکزی امام بارگاہ کے انجمن کا سیکرٹری ملک سراج حسین بھی بیٹھا ہے۔

 

یہ رپورٹ شفقنا اردو کے مرکزی گروہ سیاسی نے لکھا ہے اور شائع کیا گیا۔