ابو محمد حسن بن علی(ع) شیعہ اثنا عشری کے گیارہویں امام ہیں،سنہ 232 ق میں مدینہ میں پیدا ہوئے اور چونکہ زیادہ مدت، حکومت وقت کی طرف سے سامراء میں زندگی بسر کرنے پر مجبور کیے گئے اس لئے “امام عسکری” یا “امام حسن عسکری” کے نام سے مشہور ہو گئے.

حکومت کی طرف سے بہت شدت کے ساتھ تحت نظر رکھنے کا امام عسکری(ع) پر یہ اثر ہوا کہ آپ نے اپنے شیعوں سے رابطہ رکھنے کے لئے دوسری حکمت عملی اختیار فرمائی اور کچھ نمائندے منتخب کیے، عثمان بن سعید آپ کے خاص نمائندوں میں سے تھے جو امام عسکری(ع) کی وفات کے بعد اور غیبت صغریٰ کی ابتداء میں، پہلے باب کی حیثیت سے، یا دوسرے لفظوں میں سفیر، وکیل اور امام زمانہ(عج) کے خاص نائبین میں نیز ان کا شمار ہوتا ہے.

مختلف موضوعات پر امام حسن عسکری(ع) سے احادیث نقل ہوئی ہیں، جیسے کہ تفسیر قرآن، اخلاق، فقہ، اعتقادی امور، ادعیہ، زیارت.
فہرست

    1 نسب، کنیت اور القاب
        1.1 القاب
        1.2 کنیت
    2 ولادت اور شہادت
    3 زوجہ اور اولاد
    4 امامت کے دلائل
    5 سامرا
        5.1 شیعوں سے رابطہ
        5.2 سامرا میں امام(ع) کی وضعیت
        5.3 امام عسکری(ع) کے زمانے کے خلفاء
        5.4 امام(ع) کو قید کرنے کا زمانہ
    6 شہادت
    7 امام عسکری(ع) کے حرم میں بم دھماکہ
        7.1 حرم شریف کی تعمیر

نسب، کنیت اور القاب

امام حسن عسکری کا نسب اس طرح ہے: حسن بن علی بن محمد بن علی بن موسی بن جعفر، آپکی مادر گرامی، جسطرح کہ نقل ہوا، “حدیث” یا “حدیثہ” کے نام کی ایک کنیز تھی. کچھ اور اقوال کے مطابق آپکی مادر گرامی کا نام “سوسن” اور “عسفان” یا “سلیل” بتایا گیا اور دوسری عبارت میں”کانت من العارفات الصالحات” یعنی وہ عارفہ اور صالحہ خواتین میں سے تھیں” آپکا تعارف اسطرح کرایا گیا.
القاب

آپ کے القاب صامت، ہادی، رفیق (دوست) زکی، نقی لکھے گئے کچھ مورخین ںے آپکا لقب “خالص” بھی کہا “ابن الرضا” ایسا لقب ہے کہ امام جواد(ع)، امام ہادی(ع) اور امام حسن عسکری(ع)، اس لقب سے مشہور ہوئے. امام حسن عسکری(ع) کے والد محترم امام ہادی(ع) نے تقریباً 20 سال اور 9 ماہ سامراء میں زندگی بسر کی، اسی وجہ سے یہ دو امام “عسکری” کے نام سے مشہور ہوئے، “عسکر” سامراء کا ایک غیر مشہور عنوان تھا.

احمد بن عبیداللہ بن خاقان نے امام عسکری(ع) کی ظاہری مشخصات کو اس طرح توصیف کیا ہے، آپ کالی آنکھیں، بہترین قامت، خوبصورت چہرہ اور مناسب بدن کے مالک تھے.
کنیت

آپ(ع) کی کنیت ابو محمد تھی.
ولادت اور شہادت

امام حسن عسکری(ع) نے سنہ 232ق میں 10ربیع الثانی یا اسی مہینے کے آٹھویں یا چوتھے دن کو مدینہ میں آنکھ کھولی اور 28 سال تک زندگی فرمائی.

کچھ روایات کے مطابق آپکی ولادت سنہ 213ق میں ہوئی.

امام حسن عسکری(ع) کی شہادت سنہ 260ق میں ہوئی. البتہ بعض نے اسی سال کے ماہ جمادی الاول کو آپ کی شہادت کے طور پر ذکر کیا ہے.
زوجہ اور اولاد

مشہور قول کے مطابق امام عسکری(ع) نے بالکل زوجہ اختیار نہیں کی اور آپکی نسل ایک کنیز کے ذریعے آگے بڑھی جو کہ حضرت مہدی(عج) کی مادر گرامی ہیں. لیکن شیخ صدوق اور شہید ثانی نے یوں نقل کیا ہے کہ امام زمان(عج) کی والدہ کنیز نہ تھیں بلکہ امام عسکری(ع) کی زوجہ تھیں.

منابع میں امام مہدی(عج) کی والدہ کے مختلف اور متعدد نام ذکر ہوئے ہیں اور منابع میں آیا ہے کہ امام حسن عسکری(ع) کے زیادہ تر خادم رومی، صقلائی اور ترک تھے اور شاید امام زمانہ(عج) کی والدہ کے نام مختلف اور متعدد ہونے کی وجہ امام حسن عسکری کی کنیزوں کی تعداد کا زیادہ ہونا ہی ہو یا پھر امام مہدی(عج) کی ولادت کو خفیہ رکھنے کی وجہ سے آپ کی والدہ کے نام متعدد بتائے جاتے تھے.

لیکن جو بھی حکمت تھی، آخری صدی میں امام زمانہ (عج) کی والدہ کے نام کے ساتھ نرجس کا عنوان شیعوں کے لئے باعث پہچان تھا. دوسری طرف جو سب سے مشہور نام منابع میں ملتا ہے وہ صیقل ہے.

دوسرے جو نام ذکر ہوئے ہیں ان میں سوسن، ریحانہ اور مریم بھی ہیں.

اکثر شیعہ اور سنی منابع کے مطابق ، آپ کے اکلوتے فرزند امام زمانہ (عج) ہیں جو کہ محمد کے نام سے مشہور ہیں.

کیونکہ امام حسن عسکری(ع)، حضرت امام زمانہ(عج) کے والد ہیں، لہذا امام حسن عسکری(ع) کی شخصیت کا یہ پہلو اہل تشیع کے نزدیک جانا پہچانا ہوا ہے. اور جو کچھ امامیہ (اہل تشیع) کے نزدیک مشہور ہے وہ یہ ہے کہ امام مہدی(عج) کی ولادت 15 شعبان سنہ 255ق کو ہوئی، لیکن تاریخ میں اور مختلف قول بھی موجود ہیں جن کے مطابق آپ کی ولادت سنہ 254ق یا سنہ 256ق میں ہوئی ہے.

آپ کی اولاد کے بارے میں بھی مختلف قول ہیں، کچھ نے تین بیٹے اور تین بیٹیان بتائی ہیں. اسی قول سے ملتا جلتا قول اہل تشیع کے نزدیک بھی موجود ہے؛ خصیبی نے امام مہدی(عج) کے علاوہ امام حسن عسکری (ع) کی دو بیٹیوں کے نام فاطمہ اور دلالہ ذکر کیے ہیں. ابن ابی الثلج نے امام مہدی کے علاوہ ایک بیٹے کا نام موسی کے طور پر، اسی طرح دو بیٹیوں کے نام فاطمہ اور عایشہ (یا ام موسی) بتائے ہیں. لیکن انساب کی کتابوں میں مذکورہ نام، امام حسن عسکری(ع) کی بہن بھائیوں کے طور پر ملتے ہیں جو شاید ان مورخین نے آپ کی اولاد کے عنوان سے ذکر کر دیے ہیں. اس کے برعکس، بعض اہل سنت کے علماء جیسے ابن جریر طبری، یحیٰ بن صاعد اور ابن حزم کا عقیدہ ہے کہ آپ کی کوئی اولاد تھی ہی نہیں.
امامت کے دلائل

جس طرح کے شیخ مفید لکھتے ہیں، حسن بن علی (امام عسکری) اپنے والد (امام ہادی) کی شہادت کے بعد، فضیلت اور برتری کی وجہ سے امامت سے متعلق تمام کام (ناتمام) اور امام ہادی(ع) کی روایت کے مطابق آپ(ع) اہل تشیع کے گیارہویں امام ہیں علی بن عمر نوفلی، امام ہادی(ع) سے ایک روایت نقل کرتا ہے: „امام ہادی(ع) کے ساتھ آپ کے گھر کے صحن میں بیٹھا تھا کہ آپ کا بیٹا محمد-ابو جعفر- کا گزر ہوا، میں نے عرض کی: میں آپ پر قربان جاؤں! آپ کے بعد ہمارا امام یہ ہو گا؟ آپ نے فرمایا: میرے بعد آپ کا امام حسن ہو گا.

بہت کم تعداد میں محمد بن علی کی امامت (جو کہ امام ہادی(ع) کی زندگی میں ہی دنیا سے چلے گئے) اور جن کی تعداد انگلیوں پر گنی جاتی ہے جعفربن علی کو اپنا امام سمجھتے تھے، امام ہادی(ع) کے اکثر دوستان اور یاران نے امام حسن عسکری(ع) کی امامت کو قبول کیا مسعودی، شیعہ اثنا عشری کو امام حسن عسکری(ع) اور آپ کے فرزند کے پیروکاروں میں سے مانتا ہے کہ یہ فرقہ تاریخ میں قطیعہ کے نام سے مشہور ہوا ہے.
سامرا

امام حسن عسکری سنہ 233ق اپنے والد کے ھمراہ بچپن میں سامرا آئے اور باقی زندگی ادھر ہی گزاری.
شیعوں سے رابطہ

امام(ع) نے جو زندگی سامرا میں گزاری، ان سالوں کے علاوہ جو قید میں تھے، باقی عادی زندگی تھی اگرچہ آپ کی ہر حرکت حکومت کے زیر نظر تھی واضح ہے کہ اگر امام عسکری(ع) دوسرے اماموں کی طرح آزاد ہوتے تو اپنی زندگی سامرا کے بجائے مدینہ میں گزارتے، آپ کی سامرا میں زیادہ مدت رہںے کی وجہ اس کے علاوہ کہ سامرا کا خلیفہ آپ کو اپنے زیر نظر رکھنا چاہتا ہو کچھ اور نہیں ہے. بالخصوص اس مسئلے کی وجہ اہل تشیع کا ایک منظم اور متشکل گروہ جو کافی عرصہ پہلے وجود میں آیا تھا، جو کہ خلیفہ کی نظر میں بہت اہمیت رکھتا تھا اور پریشانی کا باعث بنا اور جس نے وحشت طاری کی.

اس لئے امام سے تقاضا کیا کہ ہمیشہ کے لئے حکومت کے سامنے رہیں جیسا کہ امام کے ایک خادم نے یوں نقل کیا، کہ آپ(ع) کو ہر پیر اور جمعرات کو مجبور کیا جاتا تھا کہ دارالخلافہ (کچھ جگہ پر (دار العامہ) کہا گیا کہ جس کا مطلب وہی (دار الخلافہ) ہے) میں حاضر ہوں، یہ حاضر ہونا، اگرچہ ظاہری طور پر آپ کے احترام کے لئے تھا، لیکن حقیقت میں خلیفہ کی جانب سے آپکو کنٹرول کیا جاتا تھا (یعنی امام کو زیر نظر رکھا جاتا تھا)

اہل تشیع کے لئے امام کو دیکھنا مشکل تھا، جیسا کہ ایک بار، ایسے موقع پر جب خلیفہ صاحب البصرہ (بصرہ کے والی) کو دیکھنے جاتا تھا اور امام(ع) کو بھی اپنے ھمراہ لے جاتا تھا، امام(ع) کے اصحاب اس تمام سفر میں خود کو امام(ع) کے دیدار کے لئے تیار کرتے تھے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امام(ع) کی زندگی میں ایسا دور بھی تھا کہ آپ(ع) کو نزدیک سے دیکھنا ممکن نہ تھا.

اسماعیل بن محمد کہتا ہے: جہاں سے آپکا گزر ہوتا تھا میں وہاں کچھ رقم مانگنے کے لئے بیٹھا اور جب امام(ع) کا گزر وہاں سے ہوا تو میں نے کچھ مالی مدد آپ سے مانگی.

ایک اور راوی نقل کرتا ہے کہ ایک دن جب امام(ع) کو دار الخلافہ جانا تھا ہم عسکر کے مقام پر آپ کو دیکھنے کے لئے جمع ہوئے، اس حالت میں آپ کی جانب رقعہ توقیعی (یعنی کچھ لکھا ہوا) ہم تک پہنچا جو کہ اسطرح تھا: کوئی مجھ کو سلام اور حتیٰ میری جانب اشارہ بھی نہ کرے، چونکہ مجھے امان نہیں ہے، اس روایت سے واضح ہوتا ہے کہ خلیفہ کس حد تک امام اور شیعیان کے درمیان روابط کو زیر نظر رکھتا تھا. البتہ امام اور آپ کے شیعہ مختلف جگہوں پر آپس میں ملاقات کرتے تھے اور (سرپوشھای) بھی اس رابطہ کے لئے تھے جو چیز آپ اور شیعوں کے درمیان رابطہ رکھنے میں زیادہ استعمال ہوئی وہ خطوط تھے اور بہت سے منابع میں بھی یہی لکھا گیا ہے.

حاکم کی طرف سے شدید محدودیت کی وجہ سے امام(ع) نے اپنے شیعوں سے رابطہ رکھنے کے لئے کچھ نمائندوں کا انتخاب کیا ان افراد میں ایک آپ کا خاص خادم جو کہ بچپن سے ہی آپ کے پاس بڑا ہوا، اور آپ کے بہت سے خطوط کو آپ کے شیعوں تک پہنچاتا تھا. اوروہ شخص جس کا کنیہ ابو الادیان جو کہ آپ کا خادم تھا، اور خط پہنچانا اس کے ذمے تھا. لیکن جو امامیہ منابع میں باب کے عنوان سے (امام کا رابط اور نمائندہ) پہنچانا جاتا تھا وہ عثمان بن سعید ہے اور یہی عثمان بن سعید امام حسن عسکری(ع) کی وفات کے بعد اور غیبت صغریٰ کے شروع ہوںے میں، پہلے باب کے عنوان سے یا دوسرے لفظوں میں سفیر، وکیل اور امام زمان(عج) کے خاص نائب میں سے تھا.
سامرا میں امام(ع) کی وضعیت

امام عسکری(ع) اگرچہ بہت جوان تھے لیکن زیادہ علم واخلاق کی وجہ سے اور شیعوں کے رہبر اور اہل تشیع کی نظر میں آپ کا زیادہ احترام ہونے کی وجہ سے آپ کی بہت شہرت تھی. اور ہر عام و خاص کی آپکی طرف توجہ کی وجہ سے عباسی حاکم لوگوں کے سامنے ظاہری طور پر آپ کا احترام کرتا تھا. سعید بن عبد اللہ اشعری جو کہ اہل تشیع کے مشہور علماء میں سے ہے جو کہ ظاہراً امام عسکری(ع) کی ملاقات سے بھی شرفیاب ہوا ہے، کہتا ہے: شعبان سنہ 278ق کو امام کی شہادت کے اٹھارہ سال بعد اپنے والد احمد بن عبید اللہ بن خاقان جو کہ معتمدعباسی کا وزیر تھا اس کی مجلس میں – کہ ان دنوں قم کی مسئولیت اس کے کندھوں پر تھی اور وہ آل محمد اور قم کے لوگوں سے عداوت اور دشمنی رکھتا تھا- بیٹھے تھے کہ سامرا میں رہنے والے طالبیوں اور وہاں کے مذہب اور وضعیت کے بارے میں بحث شروع ہوئی، احمد بولے: میں نے علویون کے درمیان حسن بن علی عسکری(ع) جیسا نہ دیکھا تھا اور نہ سنا تھا کہ اس طرح اپنے اہل بیت میں وقارو عفت اور ذہانت اور بزرگواری میں مشہور ہو اور خلیفہ اور بنی ہاشم میں صاحب احترام ہو اسطرح کہ وہ بوڑھے افراد حتیٰ امیر اور وزیر اور منشیوں پر برتری رکھتے تھے ایک دن میں اپنے والد کے ہمراہ کھڑا تھا، اس دن میرا والد لوگوں سے ملنے کے لئے بیٹھا تھا، ایک حاجی داخل ہوا اور کہا: ابن الرضا باہر دروازے پر کھڑے ہیں، میرے والد نے اونچی آواز میں کہا: ان کو داخل ہونے کی اجازت دی جائے اور وہ حضرت داخل ہوئے…

جب میرے والد نے ان کو دیکھا کچھ قدم چل کر ان کی جاںب گئے، حتیٰ کہ میں نے کبھی وزراء اور ولایت عہدی کے سامنے بھی ان کو ایسا کرتا ہوا نہ دیکھا تھا. جب آپ کے نزدیک ہوا تو ہاتھ آپکی گردن میں ڈالے اور آپکے چہرے اور پیشانی پر بوسے لیے، اور آپ کا ہاتھ پکڑا اور اپنی جگہ پر بٹھا دیا.

میرے والد ان کے سامنے بیٹھ گئے اور گفتگو شروع کی، گفتگو کے دوران، ان کو ان کی کنیت – کہ آپ کے احترام کی حکایت کرتا ہے- سے مخاطب کرتا اور بار بار کہتا: میرے ماں باپ آپ پر قربان…. رات کو اپنے والد کے پاس گیا….. اور اس سے پوچھا: بابا، وہ شخص جس کا آج آپ نے اتنا احترام کیا کون تھے حتیٰ اپنے ماں باپ کو اس پر قربان کر دیا؟ کہا: میرے بیٹے اگر ایک دن خلافت بنی عباس کے ہاتھوں سے نکلے، بنی ہاشم کے درمیان اس کے علاوہ کسی کو یہ منزلت حاصل نہ ہو گی، وہ اپنے فضل، صیانت نفس، پرہیزگاری، عبادت اور اچھے اخلاق کی وجہ سے خلافت کا حقدار ہے.

اگر اس کے والد کو دیکھا ہوتا وہ بہت بزرگوار، عاقل، نیکو کاراور فاضل انسان تھے، یہ سب سن کر غصے کی آگ نے سر سے پاؤں تک میرے وجود کو گھیر لیا، لیکن ساتھ ہی ساتھ آپکو پہنچاننے کے لئے جستجو کی پیاس شدت اختیار کر گئی بنی ہاشم میں جس سے بھی، منشیان، قاضی، فقھاء، حتی عام لوگوں سے بھی جب ان کے بارے میں سوال کرتا ان کو سب کے نزدیک اہل بیت میں سب سے بزرگوار اور باجلالت پاتا. سب کہتے: وہ رافعیان کا امام ہے. اس کے بعد ان کی اہمیت میرے نزدیک زیادہ ہو گئی، جہاں تک کہ دوست اور دشمن ان کو نیکی سے یاد کرتے تھے.

اگرچہ اس روایت کو نقل کرنے والا اہل بیت کے سخت ترین دشمنوں میں سے تھا، امام کی اخلاق اور اجتماعی حالت عام و خاص لوگوں میں ظاہر ہوتی ہے، امام عسکری(ع) کے خادم کا کہنا ہے: کہ جب امام(ع) جایگاہ خلافت پر جاتے، لوگوں میں عجیب شور وشوق پیدا ہوجاتا، جہاں سے آپکی سواری گزرتی تمام راستے میں لوگوں کا ہجوم ہوتا، جب امام تشریف لاتے، ہر کوئی ایک دم سے خاموش ہو جاتا، وہ حضرت لوگوں کے درمیان سے گزر کر محفل میں داخل ہو جاتے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ زیادہ تر لوگ اہل تشیع تھے کہ دور اور نزدیک سے آپ کو دیکھنے کے لئے سامرا میں آتے، اگرچہ لوگوں کی نظر میں فرزندان رسول کی جو اہمیت ہے اس کی وجہ سے بھی زیادہ تر لوگ امام کو دیکھنے کے لئے آتے.
امام عسکری(ع) کے زمانے کے خلفاء

امام عسکری(ع) کی امامت کے دوران تین عباسی خلفاء تھے معتز عباسی (سنہ252،255ق) معتدی (سنہ 255،256ق) اور معتمد (سنہ 256،279ق)
امام(ع) کو قید کرنے کا زمانہ

جیسا کہ بیان کہ امام ہادی(ع) اور امام عسکری(ع) کو سامرا میں متوکل عباسی کے حکم سے، اور ان دو اماموں کو زیرنظر رکھنا اور آپ کا اہل تشیع کے ساتھ رابطے کو کنٹرول کرنا، قید کا معنا رکھتا ہے
شہادت

آپ نے اپنی شہادت سے کچھ عرصہ پہلے سنہ 259ق میں اپنی والدہ کو حج پر بھیجا اور جو کچھ آپ کے ساتھ سنہ 260ق میں ہونے والا تھا اس کو اپنی والدہ کے لئے بیان فرمایا اور اپنے فرزند حضرت مہدی (عج) کو اپنی وصیتیں فرمائیں اور ‟اسم اعظم‟، ‟امامت کی میراث‟ اور تلوار کو آپ کے سپرد فرمایا. امام کی والدہ مکہ کی طرف روانہ ہو گئیں اور حضرت مہدی (عج) کو بھی ساتھ لے گئیں.

امام عسکری(ع) پہلی ربیع الاول سنہ 260ق کو بیمار ہوئے اور اسی مہینے کی آٹھویں تاریخ کو 28 سال کی عمر میں سامرا میں ہی اس دنیا سے چل بسے، اور اپنے ہی گھر میں جہاں کہ آپ کے والد کو بھی دفن کیا گیا تھا، دفن کیا گیا.

طبرسی (سنہ 548ق) میں لکھتا ہے: ہمارے زیادہ تر اصحاب (یعنی اہل تشیع کے علماء) کی نظر میں امام (ع) کی اس دنیا سے جانے کی وجہ مسمومیت تھی اور اس کے آگے بیان کرتا ہے کہ اسی طرح آپ(ع) کے والد اور آپ کے آباؤ و اجداد اور اہل تشیع کے سارے امام شہادت کے مرتبے پر فائز ہوئے ہیں اور اس پر شیعہ علماء کی دلیل امام صادق(ع) کی یہ روایت میں کہ جس میں آپ فرماتے ہیں: „واللہ ما منا الا مقتول شھید‟ (خدا کی قسم، ہم سب کو شہادت کی موت نصیب ہو گی)