وفاقی وزارت تعلیم حکومت پاکستان کے زیر اہتمام کنونشن سنٹر اسلام آباد میں پہلی دفعہ تعلیمی میلہ منعقد ہوا جس میں اسلام آباد کے مختلف سکولوں اور کالجز کے طلباء اور اساتذہ نے حصہ لیا ۔پاکستانی تہذیب و ثقافت کو اجاگر کرنے کیلئے مختلف قسم کے سٹالز لگائے گئے اور یوں طلباء کیلئے آوٹ ڈور تفریح کا خوبصورت انتظام کیا گیا۔ اسی میلے میں منسٹری آف ایجوکیشن کے پروجیکٹس ونگ کے زیر اہتمام کنونشن سنٹر کے ایک پروقار حال نمبر 101میں ’’دورحاضرمیں اسلام کو درپیش چیلنجز‘‘کے عنوان سے سمینار کا انعقاد کیا گیا۔ اس سیمنار کے کوآرڈینیٹر محترم جناب ڈاکٹر محمد حنیف ڈپٹی ایجو کیشن ایڈوائزر تھے۔ اس سمینار میں راقم کو بھی بطور سپیکر دعوت تھی اور مجھے گفتگو کیلئے ’’دینی نظام اور عصری نظام تعلیم میں ہم آہنگی کا فقدان‘‘ کا موضوع دیا گیا۔ یقیناًاس موضوع پر اظہا رخیال کیلئے طویل وقت درکار تھا۔ مگر گفتگو کیلئے پندرہ منٹ دیے گئے جو نہایت ناکافی تھے۔ جو کچھ وہاں اظہار کا موقع ملا اور پر مزید کچھ اس موضوع سے متعلق قارئین کرام کے پیش خدمت ہے۔

میں نے عرض کیا کہ آج ہمارا مسئلہ دینی نظام تعلیم اور جدید عصری تعلیم میں ہم آہنگی نہیں ہے بلکہ ان دو نظاموں کو باہم متحد و یکجا کرنا ہے۔ اس دوئی اور تفریق کو ختم کرکے قرون اولیٰ اور وسطیٰ کی طرح ایک بنا نا ہے۔ سرکار دو عالم ﷺ کے زمانے سے لیکر خلفائے اربع کے ادوار تک مسلمانوں کا نصاب تعلیم و نظام تعلیم قرآن و سنت تھا۔ قرون وسطیٰ میں بھی نصاب تعلیم میں قرآن و سنت کو اساسی حیثیت حاصل رہی۔ نصاب تعلیم میں کوئی دوئی نہیں تھی اور نہ ہی نظام تعلیم دینی اور عصری بنیادوں پر تقسیم تھا۔ بنو امیہ اور بنو عباس کے ادوار حکومت میں خوب علمی ترقی ہوئی اور ان ادوار میں نصاب تعلیم بالکل یکساں تھا۔ مسلمانوں کے تعلیمی اداروں میں فقہی اور شرعی علوم کے علاوہ ریاضی ، فلکیات ، جغرافیہ، تاریخ، طب اور دوسرے علوم کی تدریس پر بھی خصوصی توجہ دی جاتی تھی۔ یہ تمام علوم ایک ہی چھت کے نیچے پڑھائے جاتے تھے۔ زبانی دانی پر خصوصی توجہ رہی عبرانی، سیرانی اور دیگر زبانوں کو سیکھنے سیکھانے کا خصوصی اہتمام تھا۔ زبان دانی کا سلسلہ تو صدر اسلام میں ہی شروع ہو گیا تھا۔ خود سر کار دوعالم ﷺ نے حضرت زید بن حارثہؓ کو سیر یانی زبان سیکھنے کا حکم ارشاد فرمایاجو انہوں نے پندرہ دنوں سے بھی کم عرصے میں سیکھ لی۔ نبی دوعالمﷺ نے تعلیم کے لحاظ سے خود عصری تقاضوں کا خیال فرمایا اور خلفائے اربع نے بھی اسی نہج پر روز گار حکومت چلایا۔
یہ سمینار اس لحاظ سے بہت اہمیت کا حامل تھا کہ محترم ڈاکٹر محمد حنیف صاحب نے محکمہ ایجوکیشن کے بڑے اعلیٰ دماغ رکھنے والے احباب کو دعوت دے رکھی تھی۔ جو جدید عصری تقاضوں کو سمجھنے میں بالکل باخبر اور مستعد تھے ۔ یہ لوگ نظام تعلیم کی کمزوریوں سے آشنا بھی تھے اور انکو دور کرنے کی استعداد اور جذبہ بھی رکھتے تھے۔ میں نے فاضل شرکاء سمینار کی خدمت میں عرض کیا کہ آج نہ صرف پاکستان بلکہ پوری امت مسلمہ کو ایک ایسے نصاب تعلیم کی ضرورت ہے جو امت میں افزئش علوم کی استعداد پیدا کر سکے۔ افزائش علوم سے مراد نئے علوم کی تخلیق Generationہے۔جہاں علمی ترقی ہوتی ہے وہاں نئے علوم معرض وجود میں آتے ہیں اور بقول عمر و مصطفےٰ الوردانی نائب مفتی مصر کے دنیا کی قوتوں میں وہی قوم سرداری کرتی ہے جو افزائش علوم پر توجہ کرتی ہے اور نئے علوم تخلیق کرتی ہے۔ مسلمان تیسری صدی ہجری سے چھٹی صدی ھجری تک دنیا میں علمی رفعت کے بلند ترین مقام پر فائز تھے۔ علمی ترقی کی بدولت اسلامی خلافت کے مشہور شہر رات کے وقت روشنیوں سے جگ مگا رہے تھے اور اس جگمگاتی روشنی میں شہر کی کسی گلی میں گم شدہ سوئی کو ڈھونڈنا اتنا مشکل نہ تھا جتنا کہ لندن اور برمنگھم کی کیچڑ آلود گلیوں سے پیدل گزرنا مشکل تھا۔ اہل اسلام نے اس دور میں قرآن و سنت کو بنیاد بنا کر علوم تخلیق کیے اور یونان کی دانش گاہوں سے جملہ روشنیوں کو اپنی اکیڈمیوں اور کلیات میں منتقل کر دیا۔ اہل یونان کو اگر ارسطو ، بطلیموس ، اقلیدس اور ارشمیدس پر ناز تھا تو اہل اسلام کے الھیثم، ذکریا رازی، جابر بن حیان ، فخر الدین رازی، جلال الدین رومی اور جلال الدین سیوطی ایسے نابغہ روزگار انکی دانش گاہوں کے ماتھے کا جھومر تھے ۔ جب مسلمانوں کی درسگاہوں سے تولید علوم کا سلسلہ بند ہوا تو ساتھ ہی مسلمانوں کا آفتاب علم مائل بغروب ہو گیا۔ قوموں کی زندگیوں میں عروج زوال ہر قوم کی زندگی کا لاینفق جز و ہے۔ مسلمانوں کے دور زوال میں بھی نصاب تعلیم ہمیشہ یکساں رہا۔ حتی کہ برصغیر پاک و ہند میں آخری مغلیہ تاجدار بہادر شاہ ظفر تک علمی اداروں میں بلا تفریق جدید و قدیم ایک قسم کا نصاب رائج رہا۔
جب برصغیر پر انگریز بہادر کا قبضہ ہوا اور ایسٹ انڈیا کمپنی نے یہاں قد م جمائے تو ان کا پہلا حدف مسلمان ہی تھے کیونکہ انہوں نے مسلمان حکمرانوں سے ہی اقتدار چھینا تھا۔ سمندر کے اس پار سے آیا ہوا یہ شاطر مسلمانوں کو ہر میدان میں شکست سے دو چار کرنا چاہتا تھا۔ وہ اپنے اقتدار کو برصغیر میں مضبوط دیکھنا چاہتا تھا۔ کہ یہ قطعہ ارضی ا س کیلئے ’’سونے کی چڑیا‘‘ تھی۔ ہر طرف آزادی کے نعرے گونج رہے تھے۔ وہ کسی طور پر اسے ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہتا تھا۔ 1832ء میں گورنمنٹ آف برطانیہ نے برطانوی پالیمنٹ کے ایک رکن کو ایسٹ انڈیا کمپنی کا قانونی مشیر مقرر کیا۔ اس رکن پارلیمنٹ کو برطانوی ایوان نمائندگان میں بہت اہمیت حاصل تھی۔ یہ مشہور مؤ رخ ، ادیب اور صاحب علم پارلیمنٹیرین تھا۔ 1833ء میں یہ ہندوستان آیا اس نے مسلمانوں کے حالات اور بودو باش کا نہایت باریک بینی سے جائزہ لیا۔ اور یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ مسلمانوں میں شرح خواندگی 90 %سے زیادہ ہے۔ اس نے مسلمانوں کو روحانی ،ثقافتی ، معاشی اور علمی طور پر مفلوج بنانے کا خطرناک منصوبہ بنایا۔ اس نے اپنی تجاویز پیش کیں کہ مسلمانوں کو زیر نگیں رکھنے کیلئے انکے کلچر کو بدلنا ضروری ہے اور انکے کلچر کو بدلنے کیلے نصاب و نظام تعلیم کو بدلنا ضروری ہے۔ نصاب تعلیم بدلنے سے انکا کلچر خود بخود بدل جائے گا۔ قارئین کرام ! ایسٹ انڈیا کمپنی کے اس قانونی مشیر کا نام تھا لارڈ میکالہ جس نے برصغیر کے تعلیمی اداروں کا نصاب بدلتے ہوئے کہا تھا ’’کہ میں ہندوستان کیلئے ایسا نصاب تعلیم بنا رہا ہوں جس کو پڑھنے کے بعد مسلمان بچے اگرچہ عیسائی اور یہودی نہ بنے

تو وہ مسلمان بھی نہیں رہیں گے۔ لارڈ میکالے کے مرتب کردہ نصاب تعلیم میں صرف جدید عصری تعلیم تھی اور دینی تعلیم کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ یہاں سے دینی اور عصری تعلیم کو تقسیم کرنے کی ابتدا ء ہوئی جس نے مسلم معاشرے کو دو گرہوں(مسٹر اور ملا) تقسیم کر دیااور یہ تقسیم آج تک قائم ہے۔
تقسیم ہند کے بعدجب مسلمانوں کی ایک آزاداور خود مختیار مملکت معرض وجو د میں آگئی توضروری تھا کہ ملا اور مسٹر کے درمیان پیدا کی گئی اس مصنوعی خلیج کو ختم کیا جاتا اور یہاں کی 98%مسلمان آبادی کی دینی اور عصری ضروریات کے مطابق نصاب تعلیم وضع کیا جاتا مگر بدقسمتی سے ایسا نہ ہوسکا ۔ لارڈ میکالے کا مرتب کردہ نصاب تعلیم اسی طرح برقرار رکھا گیا۔ علماء کو مجبوراً مذہبی تعلیم کی نشر و اشاعت کیلئے مدارس قائم کرنے پڑے نجی سطح پر قائم کیے جانے والے مدارس یقیناًان سہولیات سے محروم ہیں جو سرکاری سطح پر چلنیوالے اداروں میں موجود ہیں ۔ مسلسل نظر انداز کیے جانے کی وجہ سے اس دینی طبقے میں احساس محرومی نے جنم لیا اور عدم اطمینان کی صورت حال نے ان مذکورہ دو طبقوں کو آمنے سامنے لا کھڑا کر دیا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان دوطبقوں کے درمیان خلیج کو مکمل ختم کرنے یا کم از کم minimizeکرنے کی قابل ذکر منصوبہ بندی کی جائے۔ اس سلسلے میں ماہرین تعلیم کی ایسی کمیٹی تشکیل دی جائے جو کالج و یونیورسٹی ، مدارس اور پارلیمنٹ کے بااثر نمائندگان پر مشتمل ہو اور یہ افراد اس اہم مسئلہ کا سنجیدگی سے حل تلاش کریں ۔ وزارت تعلیم کو صوبوں کے حوالے کر دینے سے ایک طرف معیار تعلیم مزید پستی کی طرف جائے گا تو دوسری طرف پاکستانی قوم مزید تقسیم در تقسیم ہوتی چلی جائے۔ ہمارے سیاست دانوں میں ابھی تک وہ پختگی نہیں آئی کہ وہ قوم کو علمی ترقی کی راہ دکھلائیں ۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہماری پارلیمنٹ میں اکثر وہ افراد بیٹھتے ہیں جنکی اپنی تعلیمی ڈگریاں قابل اعتبار نہیں ہیں ۔ انکے اندر قومی سوچ کا فقدان ہے صوبائی تعصب ، لسانیت ، قبائلی انانیت کے خول میں محصور یہ لوگ تعلیم کی عظمت کو کیا سمجھیں گے۔ وزارت تعلیم کو صوبوں کے حوالے کرنے سے ایسی خوفناک صورت سامنے آئے گی کہ خاکم بدہن میں یہ ملک تباہ ہو سکتا ہے۔ ملکی سلامتی کیلئے ضروری ہے کہ کم از کم نصاب تعلیم پورے ملک میں یکساں ہواور نظام تعلیم طبقاتی کشمکش کو ختم کرے ۔ 
اسلامی دنیا میں ہمارے سامنے ترکی، مصر اور ایران ایسے ممالک ہیں جو اپنے نصاب تعلیم میں انقلابی تبدیلی لائے ہیں اور ترقی کی طرف گامزن ہیں ۔ ترکی پورپی یونین میں شمولیت کیلئے بہت بے تاب رہا، مایوسی کے بعد اس نے اسلامی دنیا کے ساتھ تعلقات از سر نو استوار کئے ہیں اور اپنے نظام تعلیم کا جائزہ لینے کے بعد سیکنڈری ایجوکیشن میں40فیصددینی تعلیمات اور 60فیصد جدید عصری تعلیم کا تناسب قائم کیا ہے ۔ مصر نے اپنا پورا نظام تعلیم جامعۃ الازہر کے زیراہتمام دے دیا ہے اور یہاں بھی مذہبی اور عصری نظام تعلیم کا خوبصورت امتزاج موجود ہے ۔مصر میں سیکنڈری ایجوکیشن کے نصاب میں 60%مذہبی اور اور 40%فیصد عصری تعلیم کا حصہ متعین ہے، اس حوالے سے ایرانی نظام تعلیم بہت ہی قابل تقلید ہے۔ انقلاب ایران کے بعد انقلابیوں نے مدرسہ (جسے وہ حوزہ ء علمیہ کہتے ہیں )اور یونیورسٹی(جسے وہ دانش گاہ کہتے ہیں )اکھٹا کر دیا ہے۔ اور ایک ہی ادارے میں دینی تعلیم اور جدید عصری تعلیم میسر ہے ۔ ایرانی اہل علم کی یہ متفقہ اور نہایت صائب رائے ہے کہ جس علم میں انسان کیلئے منفعت ہے وہ علم دینی علم ہے اور جس میں انسان کیلئے کوئی منفعت نہیں ہے اسکو علم میں شمار کرنا بے سود ہے۔ ہم ان اسلامی ملکوں کے تجربات سے مستفیض ہو سکتے ہیں اور تعلیمی معیار کی پستی کو ختم کرنے کیلئے ایسے انقلابی اقدامات اٹھائے جا سکتے ہیں ۔