سعودی عرب میں اس ملک کے عوام اپنے حقوق اور آل سعود کی حکومت کی جانب سے بدستور انسانی حقوق کی پامالی اور 2نوجوانوں کی سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں قتل کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ آل سعود کے اہلکاروں نے جہاں 2روز قبل اس ملک کے 2باشندوں کو فائرنگ کرکے قتل کردیا تھا وہیں۔ اس ملک کی عدالت کی جانب سے اس ملک کے عوام کو قید کی سزا سنانے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ ریاض کی عدالت نے سات شہریوں کو شہر قطیف میں پرامن مظاہروں میں شرکت کرنے اور حکومت کے خلاف نعرے لگانے کے جرم میں چھے سے بیس برسوں تک قید کی سزائيں سنائي ہیں۔ اس سے قبل سعودی عدالت نے ایک بل کی منظوری دی تھی جس کی رو سے حکومت کے خلاف مظاہرے کرنے والوں، تصویریں شایع کرنے والوں اور انٹرنیٹ پر حکومت مخالف سرگرمیوں میں ملوث لوگوں کو دس سال قید کی سزا دی جائے گي۔ سعودی عرب میں ان قوانین کی منظوری کے بعد سے پرامن مظاہرہ کرنے والوں اور سیاسی قیدیوں کے خلاف بڑی تیزی سے مقدمے دائر کئے جارہے ہیں اور انہیں سزائيں دی جارہی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود اس ملک میں عوامی مظاہرے جاری ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ سعودی عرب، اسلامی بیداری کی تحریک سے نہیں بچ سکتا کیونکہ اس ملک میں سیاسی اور مذہبی لحاظ سے ہرجگہ تعصب پایا جاتا ہے۔
سعودی عوام آل سعود کی سماجی عدم انصاف کی روش ختم کرنے اور ملک کے اقتصادی نظام میں تبدیلی لانے کے خواہاں ہیں۔ سعودی عوام ایسی حالت میں حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہرےکر رہے ہیں کہ جب سعودی عرب کی سیکورٹی فورسز نے جمعہ کو صبح کے وقت وسیع پیمانے پر فائرنگ کی جس کے نتیجہ میں2افراد ہلاک اور کئی افراد زخمی ہو گئے ۔العوامیہ کے باخبر ذرائع کا کہناہے کہ سعودی فورسز شہر میں داخلے کے راستوں پر تعینات ہوگئی ہے اور شہر کے مختلف علاقوں میں گشت جاری رکھ کے عوام کو وحشت زدہ کرنے کے درپے ہے۔ دوسری جانب ایمنسٹی انٹر نیشنل نے سعودی حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ سعودی عوام کو اس کی آزادی اور اجازت دیں کہ وہ اپنی بات کہ سکیں۔ ایمنسٹی انٹر نیشنل کے مشرق وسطی اور شمالی افریقہ کے امور کے انچارج فلیپ لوثر نے کہا کہ سعودی عرب میں آزادئ بیان پر حملوں میں اضافہ ہوتاجارہاہے۔اب وہ وقت آن پہنچاہے کہ سعودی حکام کو چاہیے کہ سعودی عوام کوپر امن طور پر اپنے مطالبات بیان کرنے کی آزادی اور اجازت دیں۔اور انسانی حقوق کے پیش نظر ان کی جائز اور قانونی سرگرمیوں کو جرم قرار دیکر انھیں گرفتار اور ان کو سزا دینا بند کریں۔ فلیپ لوثر نے مزید کہا کہ سعودی حکام اپنے عوام کے ساتھ ملکر انسانی حقوق کی صورت حال کا جائزہ لینے اور اس کو بہتر بنانے کی کوشش کے بجائے انسانی حقوق کی آزاد سرگرمیاں روکنے اور سیاسی شخصیات پر بے بنیاد اور بیہودہ الزامات عائد کرکے انھیں جیل میں ڈال دینا چاہتے ہیں۔ فرانس نیوز ایجنسی نے اسی سلسلے میں سعودی حکام پر آل سعود کی تشدد آمیز پالیسیوں کے مخالف افراد اور عہدیداروں کے خلاف الزامات عائد کرکے طویل مدت قید کی سزاکا حکم جاری کیا ہے۔حقوق انسانی کی تنظیموں نے ابتک بارہا،سعودی عرب میں انسانی حقوق کی بد ترین صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا ہے ۔
اور اس بات کا واضح طور پراعلان کیا ہے کہ سعودی حکومت ، سرگرم سیاسی شخصیتوں پر مقدمہ دائر کرکے سعودی عوام کو سرکوب کرنے کے درپے ہے لیکن آل سعود کی یہ پالیسی ابتک شکست سے دوچار رہی ہے ۔ واضح رہے کہ سعودی جیلوں میں تیس ہزار سے زائد سیاسی قیدی کسی طرح کی فرد جرم عائد کئے بغیرہی بدترین حالات میں زندگی بسر کررہے ہیں۔
حا لیہ دنوں میں لبنان کے دارالحکومت بیروت میں بھی سعودی عرب کے حامی حلقوں نے بدامنی اور افراتفری پھیلانے کی کوشش کی۔ یہ واقعات ایسے وقت رونما ہوئے کہ عراق بھی آل سعود کے بعض حکام کے تشدد اور دشمنیوں سے محفوظ نہیں ہے ۔ ایسا لگتاہے کہ اس وقت ریاض کے حکام علاقے میں مغرب اور امریکی پالیسیوں پر عمل درآمد کرانے میں اہم کردار ادا کررہے ہيں ۔ قابل غور نکتہ یہ ہے کہ اس سلسلے میں افریقہ کے شمالی ممالک میں بھی سعودی عرب کے برے اقدامات سے محفوظ نہیں رہے ہیں ۔ ان ممالک میں جاری بدامنی اور دہشت گردانہ واقعات میں سعودی عرب بالواسطہ یا بلاواسطہ ملوث ہے ۔
سعودی حکام سلفی اور تکفیری گروہوں سے رابطہ قائم کرکے عملی طورپر ان کی مالی اور تسلیحاتی مدد کرکے ان کی تقویت کررہے ہیں ۔
دلچسپ نکتہ یہ ہے کہ سعودی عرب نے یمن میں علی عبداللہ صالح جیسے ظالم وجابرحکمراں کی آخری لمحے تک حمایت اور مدد کی اور جب دیکھا کہ عبداللہ صالح کی برطرفی کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں ہے تو اس سے اس کے نائب کواقتدار کی منتقلی کے بارے میں پیش کئے جانے والےنقشے کی حمایت اور تائید کی ۔
سعودی عرب علاقے میں امریکہ کا اصلی ترین اتحادی کی حیثیت سے ایسے راستے کو اختیار کرنے کی کوشش کررہاہے جو مغرب کے لئے خوش آیند ہو جسے گذشتہ تین برسوں میں عرب ملکوں میں آنے والے اسلامی بیداری کے مقابلے میں ریاض کی کارکردگی میں اچھی طرح سے دیکھا جاسکتاہے ۔ اس وقت علاقے میں بہت کم ممالک ہیں جو بحران سے دوچار نہ ہوں اور سعودی عرب کا ان بحرانوں میں دخل یا کردار نہ ہو ۔
بعض سیاسی حلقوں کاکہنا ہےکہ بدامنی اور بحران پیدا کرنے کے لئے امریکہ پہلے سعودی عرب کو نقشہ دے چکا ہے ۔ایسی صورت میں یہ نکتہ ناقابل انکار ہے کہ مغرب کو مشرق وسطی کے علاقے میں صرف اپنے مفادات کی فکر ہے چاہے اس کے مفادات اس علاقے میں بحران کاباعث ہی کیوں نہ ہوں ۔
چنانچہ اس بارے میں سعودی عرب جیسے ممالک غلطیوں کے مرتکب ہوئے ہیں اور سعودی عرب تو آنکھیں بند کرکے مغربی پالیسیوں کے سامنے اپنا سر تسلیم خم کئے ہوئے ہے ۔ لیکن شواہد سے پتہ چلتاہے کہ وہ عرب ممالک جو اس وقت خطے میں بدامنی اور بحران پیداکرنے میں امریکی پالیسیوں کی حمایت کررہے ہیں جلدیادیر مغرب کی جلائی ہوئی آگ ان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لےگی