
رپورٹ: سیدہ زینب عباس
جھنگ سے تعلق رکھنے والے 23 سال طویل قید کی سزاء کاٹنے والے دو بے گناہ اسیران امامیہ سید اسحاق کاظمی اور لیاقت حسین جعفری کی آج اس دنیا میں شائد آخری رات ہو، اور صبح 4 بجے ان دونوں کو فیصل آباد جیل میں محبت اہلبیت (ع) کے جرم میں پھانسی دے دی جائے گی، سید اسحاق کاظمی اور لیاقت حسین جعفری کو مولوی مختار قتل کیس میں بے گناہ ملوث کرتے ہوئے جون 1992ء کو گرفتار کیا گیا، اور پھر عدالت نے دونوں کو سزائے موت سنا دی، دونوں کو کالعدم جماعت کے کارندوں نے سازش کے تحت پھنسایا، لیاقت حسین جعفری کا بنیادی تعلق جھنگ کے علاقہ بستی سلطان سے ہے، 1992ء میں گرفتاری کے بعد 23 اکتوبر 2001ء کو ہائی کورٹ اور 15 جون 2009ء کو سپریم کورٹ نے سزائے موت کا فیصلہ برقرار رکھا۔ 10 جولائی کو سپریم کورٹ نے بھی نظرثانی کی اپیل خارج کرتے ہوئے سزائے موت کا فیصلہ برقرار رکھا۔ لیاقت جعفری کے اہلخانہ نے 8 اگست 2012ء کو صدر پاکستان کے پاس رحم کی اپیل دائر کی، لیکن اس پر اب تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ لیاقت جعفری سید اسحاق شاہ عرف ساقی کاظمی کے ہمراہ پاکستان کی تاریخ میں ملت تشیع کے طویل ترین قید کاٹنے والے قیدی ہیں۔
20 جون 2013ء کو لیاقت جعفری کے بھائی نزاکت جعفری کیساتھ ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے ایک انٹرویو کیا، جس میں ان کا کہنا تھا کہ ہمارے حالات ایسے تھے کہ کیس کے سلسلے میں عدالت جانے کیلئے پیسے تک نہیں ہوتے تھے۔ 21 سال ہوگئے ہیں، ہم اسی بحران کا شکار ہیں۔ کوئی پوچھنے تک نہیں آیا کہ ہم کس حال میں ہیں اور لیاقت کیسا ہے، بھائی کے اس کیس میں ہم نے سارے زیور، گھر کا سامان حتٰی کہ سب کچھ بیچ دیا، کبھی عید یا کسی اور خوشی کے موقع پر کوئی ایسا وقت نہیں آیا کہ کسی نے ہمارے گھر کے دروازے پر دستک دیکر ہمارا حال احوال پوچھا ہو۔ میرا بھائی اہل بیت (ع) کے راستے پر چلتے ہوئے اگر شہید بھی ہوجائے تو ہمیں افسوس نہیں ہوگا۔ اگر ہمیں تکلیف ہو بھی تو ہم کربلا کی طرف دیکھتے ہیں، میرا بھائی ان عظیم ہستیوں سے زیادہ عزیز نہیں ہے۔ امام سجاد (ع) سے زیادہ میرا بھائی عزیز نہیں۔
اس انٹرویو میں ان کا مزید کہنا تھا کہ امام موسٰی کاظم (ع) سے زیادہ میرا بھائی عزیز نہیں۔ اگر میرا بھائی قید میں ہے تو انہی عظیم ہستیوں کی خاطر قید میں ہے۔ وہ میرا بھائی ہے، وہ تکلیف میں ہے، ٹھیک ہے بھائی ہونے کی وجہ سے اسے دیکھ کر ہمیں بھی تکلیف ہوتی ہے، وہ ہمارا خون ہے۔ لیکن پھر جب ہم کربلا کی طرف دیکھتے ہیں تو تسکین ملتی ہے کہ وہاں پر تو اس سے کئی گنا زیادہ ظلم ہوا تھا۔ میری ملت کے اکابرین سے گزارش یہ ہوگی کہ شہید فاونڈیشن کی طرح اسیروں کے لئے بھی ادارہ قائم ہونا چاہیئے، یہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ ہم جن حالات سے دوچار ہیں، انہی حالات سے کئی دیگر خاندان بھی گزر رہے ہیں، ہم نہیں چاہتے کہ جو وقت ہمیں دیکھنا پڑا ہے، وہ کسی اور کو بھی دیکھنا پڑے۔
دوسرے اسیر امامیہ سید اسحاق کاظمی المعروف ساقی شاہ کو بھی جون 1992ء میں مولوی مختار سیال قتل کیس میں ہی جیل میں ڈال دیا گیا، جبکہ اس وقت اسحاق کاظمی کی عمر صرف 17 سال تھی اور میٹرک کا امتحان دے کر فارغ ہوئے تھے، جیل میں ہی رہ کر انہوں نے ایف اے، بی اے اور ایم اے کے امتحانات دیئے اور کامیاب ہوئے۔ سید اسحاق شاہ بنیادی طور پر منڈے سیداں ڈسٹرکٹ جھنگ کے رہائشی ہیں، بعدازاں خاندان سمیت غوثیہ محلہ، جھنگ صدر منتقل ہوگئے، 1991ء میں انہوں نے میٹرک کے امتحان میں پورے جھنگ سے ٹاپ کیا۔ اُن دنوں جھنگ کے حالات امن و امان کے حوالے سے انتہائی کشیدہ تھے، 8 ستمبر 2011ء کو ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے سید اسحاق شاہ سے ملاقات کیلئے جانے والے ان کے ایک عزیز کے ہاتھ سوالنامہ بھیج کر انٹرویو کیا۔
اس انٹرویو میں اسحاق شاہ کا کہنا تھا کہ 1992ء میں جھنگ کے حالات فرقہ وارانہ حوالے سے انتہائی کشیدہ تھے، سپاہ صحابہ کے دہشت گرد پورے جھنگ میں دنداتے پھرتے تھے، اُن میں سے ایک دہشت گرد سلیم فوجی کا جھنگ صدر میں پولیس سے مقابلہ ہوگیا، اس مقابلے میں گولیوں کی زد میں آکر مولوی مختار اور اس کا ایک اور ساتھی ہلاک ہوگیا، جبکہ سلیم فوجی فرار ہوگیا، یہ وہ واقعات ہیں جو بعد میں ہمارے علم میں آئے، چونکہ اس علاقے میں جس کے نزدیک یہ مقابلہ ہوا، سپاہ صحابہ کی اکثریت تھی، دو طرفہ پولیس کے ساتھ مقابلے میں کافی افراد زخمی بھی ہوگئے۔ جہاں یہ وقوعہ ہوا وہاں سے ڈیڑھ سے دو کلومیٹر دور ہمارا گھر ہے، ہمیں اس وقوعہ کی کوئی خبر نہیں تھی، میں اور میرا دوست لیاقت جعفری بائی چانس وہاں سے موٹر سائیکل سے گزر رہے تھے، چونکہ ہم ایک ہی محلے کے ہیں، سپاہ صحابہ کے مقامی افراد ہماری اچھی خاصی شناخت رکھتے تھے، انہوں نے ہمیں موٹر سائیکل سے اُتار کر پکڑ لیا۔
اسحاق شاہ نے بتایا کہ اُس وقت میری عمر 17 سال دو ماہ تھی، یہ لوگ ہمیں پکڑ کر تھانے لے گئے، تھانے میں انہوں نے موقف اختیار کیا کہ یہ افراد ہمارے مولوی مختار کی ہلاکت میں ملوث ہیں، انہوں نے اپنے پاس سے ایک کلاشنکوف بھی پولیس کو جمع کروا دی۔ سلیم فوجی نے اسی رات پولیس سے بدلہ لینے کے لئے پولیس وین پر فائرنگ کی اور تقریباً 7 پولیس اہلکاروں کو شہید کر دیا، بہرحال ہمارا چالان عدالت میں پیش کر دیا گیا، ہم پر جو ناجائز کلاشنکوف رکھنے کے جرم کا الزام تھا وہ عدالت نے سماعت کے بعد بری کر دیا۔ اس کیس کے بری ہونے کے بعد ہمیں امید پیدا ہوگئی تھی کہ عدالت قتل کے مقدمے کی بھی سماعت کرکے بری کر دے گی، اس دور میں سپاہ صحابہ کا ایم پی اے شیخ حاکم تھا، جس کا اس وقت کے وزیراعلٰی پنجاب منظور وٹو کے ساتھ اتحاد تھا، کچھ سیاسی دباو اور کچھ سپاہ صحابہ کے دہشت گرد ونگ لشکر جھنگوی کے خوف نے کام کیا، ایک اسپیڈی ٹرائل کے ذریعے 1994ء میں ہمیں سزائے موت سنا دی گئی۔
قوم سے یہیں کہوں گا کہ پہلے تجزیہ کریں کہ کون کیا کر رہا ہے؟ کون لوگ قوم کے ساتھ مخلص ہیں؟ میں گذشتہ سولہ سترہ سال سے یوں قید کاٹ رہا ہوں، جیسے لاوارث ہوگیا ہوں، باقی اسیران امامیہ کا بھی یہی حال ہے۔ پہلی دفعہ جیل میں جس نے ہماری حالت زار پر توجہ دینے کی کوشش کی ہے وہ مجلس وحدت مسلمین ہے، میں تمام مومنین سے اپیل کروں گا کہ مجلس کے ہاتھ مضبوط کریں، کیونکہ یہ بے لوث افراد قوم کے ساتھ مخلص ہیں۔ اپنی قوم کے سے یہ بھی گزارش کروں گا کہ اسیران امامیہ کو ہرگز نہ بھولیں، یہ افراد محبت اہلبیت علیھم السلام کے جرم میں جیلوں میں قید و بند کی سختیاں گزار رہے ہیں۔ تمام اسیران امامیہ خصوصاً اس حقیر کو اپنی دعاوں میں خصوصاً یاد رکھیں۔ میں اسلام ٹائمز اُردو کا بھی شکر گزار ہوں کہ میری بےگناہی کی آواز اس نے تمام باضمیر اور آزاد لوگوں تک پہنچائی، آخر میں یہی کہوں گا کہ ہمارے حوصلے بلند ہیں، یزیدیت اوچھے ہتھکنڈوں سے ہمیں جھکا نہیں سکے گی۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ
سید اسحاق ساقی اور لیاقت حسین جعفری کو بے جرم کو خطا جھوٹے کیس میں ملوث کیا گیا، اور ملکی عدالتی نظام کے باعث آج یہ دونوں نوجوان اپنی آخری رات گزار رہے ہیں، اس قسم کے دیگر اسیران امامیہ بھی ملت کی بے حسی اور قائدین کی عدم توجہی کے باعث صرف محبت اہلبت (ع) کے جرم میں اپنی موت کے منتظر ہیں، آج اسحاق ساقی اور لیاقت جعفری کے گھروں میں کیا مثل شب عاشور صف غم نہیں ہوگی۔؟ کیا دونوں اسیران امامیہ کی بہنیں مثل بی بی زینب (س) اپنے بھائیوں کی جدائی کا سوچ سوچ گریہ و زاری نہیں کر رہی ہوں گی۔؟ لیکن یہ دونوں قیدی جنہیں محبت اہلبیت (ع) میں سولی پر لٹکانے کی تیاری کی جا رہی ہے شائد حضرت میثم تمار (ع) کی طرح اپنے آقا و مولا (ع) سے ملاقات کی خاطر اس رات کے جلد گزرنے کا انتظار کر رہے ہوں۔