
ماہ صفرالمظفر کا آخري دن پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کے خاندان کی ایک اور عظیم الشان ہستی فرزند رسول حضرت امام علی رضا علیہ السلام کی شہادت کا دن ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ آج دنیا میں جہاں جہاں بھی اہل بیت علیہم السلام کے دوست قرار پائے جاتے ہیں غمگین و سوگوار ہیں ۔
آج کے دن خاص طور پر ایران کے مقدس شہر مشہد امام رضا علیہ السلام میں حضرت کے حرم اطہر کی پوری فضا سیاہ پوش اور لاکھوں کی تعداد میں اہلبیت علیہ السلام کے عاشقین حرم اطہر کی ملکوتی فضاؤں میں دعاؤ مناجات کے لطیف و دلنشین زمزموں کے ساتھ قرآن حکیم کی تلاوت ، زیارت اور نوحہ و عزاداری میں مشغول ہیں ۔
زائرین امام رضا ، خلوص و پاکیزگی سے معمور قلوب کے ساتھ اس مکان مقدس میں جمع ہوئے ہیں اور دنیا ؤ آخرت کی سعادت و کامرانی کے خواستگار ہیں –
دنیا کے مختلف ملکوں سے آنے والے زائرین اپنے امام و رہنما کے یوم شہادت پر فرزند رسول کے روضۂ مبارک پر جمع ہوکر اپنے خدائے مہربان سے عہدو پیمان کرتے ہیں کہ اپنی زندگیاں ویسے ہی گزاریں گے جو خدا و رسول اور اہلبیت علیہم السلام کو پسند ہے ، جس راہ کی انہوں نے تعلیم دی ہے اور جس راہ پر انہوں نے اپنی زندگی بسر کی ہے ۔ تا کہ دنیا و آخرت میں رستگار ہوسکیں ۔
آٹھویں امام علی رضا علیہ السلام کو ” عالم آل محمّد ” کے عنوان سے پہچانا جاتاہے کیونکہ آپ نے ولایت اور نبوت و امامت کی مانند اسلام و تشیع کی بنیادی بحثیں ، درباری علماء کے درمیان علی الاعلان چھیڑیں اور بیان کی ہیں اور لوگوں کے شکوک و شبہات برطرف کئے ہیں ۔
آپ (ع) کا عرفان اور تقوی
امام رضا (ع) کے عرفان کی خصوصیت یہ تھی کہ آپ حق پر پائیدارتھے، اور آپ نے ظلم کے خلاف قیام کیا تھا، اس لئے آپ مامون عباسی کو تقوائے الٰہی کی سفارش فرماتے تھے اور دین سے مناسبت نہ رکھنے والے اس کے افعال کی مذمت فرماتے تھے، جس کی بناء پر مامون آپ کا دشمن ہوگیا اور اس نے آپ کو قتل کرنے کا فیصلہ کیا اگرامام (ع) اس کی روش کی مذمت نہ کرتے جس طرح کہ اس کے اطرافیوں نے اس کے ہرگناہ کی تائید کی تو آپ کا مقام اس کے نزدیک بہت عظیم ہوتا ۔اسی بناء پرمامون نے بہت جلد ہی آپ کو زہر دے کر آپ (ع) کی حیات ظاہری کا خاتمہ کردیا۔
آپ کے بلند و بالا اخلاق
امام رضا (ع) بلند و بالا اخلاق اور آداب رفیعہ سے آراستہ تھے اور آپ کی سب سے بہترین عادت یہ تھی کہ جب آپ دسترخوان پر بیٹھتے تھے تو اپنے غلاموں یہاں تک کہ اصطبل کے رکھوالوں اور نگہبانوں تک کو بھی اسی دستر خوان پر بٹھاتے تھے۔
ابراہیم بن عباس سے مروی ہے کہ میں نے علی بن موسیٰ رضا (ع)کو یہ فرماتے سنا ہے :
ایک شخص نے آپ سے عرض کیا :خدا کی قسم آپ لوگوں میں سب سے زیادہ اچھے ہیں ۔
امام (ع) نے یہ فرماتے ہوئے جواب دیا:اے فلاں! مت ڈر،مجھ سے وہ شخص زیادہ اچھا ہے جو سب سے زیادہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرے اور اس کی سب سے زیادہ اطاعت کرے ۔ خدا کی قسم یہ آیت نسخ نہیں ہوئی ہے۔
امام (ع) اپنے جد رسول اعظم کے مثل بلند اخلاق پر فائز تھے جو اخلاق کے اعتبار سے تمام انبیاء سے ممتاز تھے ۔
السلام علیک یا علی بن موسی الرضا علیہ السلام
آپ (ع) کا زہد
امام (ع) نے اس پرمسرت اورزیب وزینت والی زندگی میں اپنے آباء عظام کے مانند کردار پیش کیا جنھوںنے دنیا میں زہد اختیار کیا، آپ (ع) کے جد بزرگوار امام امیرالمومنین (ع) نے اس دنیا کو تین مرتبہ طلاق دی جس کے بعد اس سے رجوع نہیں کیا جا سکتا۔
محمد بن عباد نے امام کے زہد کے متعلق روایت کی ہے :امام (ع) گرمی کے موسم میں چٹائی پر بیٹھتے ، سردی کے موسم میں ٹاٹ پربیٹھتے تھے، آپ سخت کھر درا لباس پہنتے تھے، یہاں تک کہ جب آپ لوگوں سے ملاقات کے لئے جاتے تو پسینہ سے شرابور ہو جاتے تھے ۔
دنیا میں زہد اختیار کرنا امام (ع)کے بلند اور آشکار اور آپ کے ذاتی صفات میں سے تھا،تمام راویوں اور مورخین کا اتفاق ہے کہ جب امام (ع) کو ولی عہد بنایا گیا تو آپ (ع) نے سلطنت کے مانند کوئی بھی مظاہرہ نہیں فرمایا، حکومت وسلطنت کو کوئی اہمیت نہ دی،اس کے کسی بھی رسمی موقف کی طرف رغبت نہیں فرمائی، آپ کسی بھی ایسے مظاہرے سے شدید کراہت کرتے تھے جس سے حاکم کی لوگوں پر حکومت وبادشاہت کا اظہار ہوتا ہے چنانچہ آپ فرماتے تھے :
“”لوگوں کا کسی شخص کی اقتدا کرنا اس شخص کے لئے فتنہ ہے اور اتباع کرنے والے کے لئے ذلت و رسوائی ہے “”۔
آپ (ع) کے علوم کی وسعت
امام رضا (ع) اپنے زمانہ میں سب سے زیادہ اعلم اور افضل تھے اور آپ نے ان (اہل زمانہ) کو مختلف قسم کے علوم جیسے علم فقہ،فلسفہ ،علوم قرآن اور علم طب وغیرہ کی تعلیم دی ۔ ہروی نے آپ کے علوم کی وسعت کے سلسلہ میں یوں کہا ہے : میں نے علی بن موسی رضا (ع)سے زیادہ اعلم کسی کو نہیں دیکھا، مامون نے متعدد جلسوں میں علماء ادیان ،فقہاء شریعت اور متکلمین کو جمع کیا،لیکن آپ ان سب پر غالب آ گئے یہاں تک کہ ان میں کوئی ایسا باقی نہ رہا جس نے آپ کی فضیلت کا اقرار نہ کیا ہو،اور میں نے آپ (ع)کو یہ فرماتے سنا ہے: “”میں ایک مجلس میں موجود تھا اور مدینہ کے متعدد علماء بھی موجود تھے ،جب ان میں سے کوئی کسی مسئلہ کے بارے میں پوچھتا تھا تو اس کو میری طرف اشارہ کردیتے تھے اور مسئلہ میرے پاس بھیج دیتے تھے اور میں اس کا جواب دیتا تھا “”۔
ابراہیم بن عباس سے مروی ہے :میں نے امام رضا (ع)کو نہیں دیکھا مگر یہ کہ آپ (ع) نے ہر سوال کا جواب دیا ہے ۔ ،میں نے آپ کے زمانہ میں کسی کو آپ سے اعلم نہیں دیکھا اور مامون ہر چیز کے متعلق آپ سے سوال کرکے آپ کا امتحان لیتا تھا اورآپ (ع) اس کا جواب عطا فرماتے تھے ۔
مامون سے مروی ہے
میں اُن (یعنی امام رضا (ع))سے افضل کسی کو نہیں جانتا۔
بصرہ،خراسان اور مدینہ میں علماء کے ساتھ آپ کے مناظرے آپ کے علوم کی وسعت پر دلالت کرتے ہیں ۔دنیا کے جن علماء کو مامون آپ کا امتحان لینے کے لئے جمع کرتا تھا وہ ان سب سے زیادہ آپ (ع) پر یقین اور آپ کے فضل وشرف کا اقرار کرتے تھے ،کسی علمی وفدنے امام (ع)سے ملاقات نہیں کی مگر یہ کہ اس نے آپ کے فضل کا اقرار کرلیا۔ مامون آپ کو لوگوں سے دور رکھنے پر مجبور ہوگیا کہ کہیں آپ کی وجہ سے لوگ اس سے بد ظن نہ ہو جائیں۔
امام رضا علیہ السّلام علم و معرفت کا ایک جوش مارتا ہوا سمندر تھے جس سے تشنگان حقیقت سیراب ہوتے اور جہل و نادانی کے مرگ بار وجود سے نجات حاصل کرتے تھے فکری و اعتقادی مباحث میں امام رضا علیہ السلام نے بڑا قیمتی کردار ادا کیاہے یہ زمانہ علمی و ثقافتی سرگرمیوں کے لحاظ سے ایک آزاد فضا کا حامی تھا اور لوگ اپنے عقائد و نظریات بیان کرنے میں بالکل بے باک تھے لہذا اس وقت اسلامی حقائق و معارف سے آشنا مسلمان دانشوروں کی ذمہ داریاں بہت بڑھی ہوئی تھیں رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وارث ، اہلبیت علیہ السلام کی نمایان ترین فرد اور ملت اسلامیہ کے پیشوا کی حیثیت سے امام رضا علیہ السلام نے اس وقت قرآنی معارف کے تحفظ میں نمایاں کردار ادا کیا چنانچہ آپ کے مشہور صحابی ” ابا صلت ” جن کا مشہد مقدس میں ہی مزار ہے ، کہتے ہیں کہ میں نے امام رضا علیہ السلام کی زبانی سناہے وہ فرماتے تھے : ” میں مسجد مدینہ میں بیٹھ جاتاتھا علمائے مدینہ جن کی تعداد اس وقت بہت زیادہ تھی ، جب کسی مسئلے کے بیان سے عاجز ہوتے ، سب کے سب میری طرف اشارہ کرتے تھے ، سوال کرنے والا میرے سامنے مسئلہ بیان کرتا اور میں اس کا جواب پیش کردیتاتھا ۔
امام رضا علیہ السلام اسلامی علوم کی تعلیم کے ساتھ علماء کی تشویق اور حوصلہ افزائی بھی کرتے تھے ، کہتے تھے ” جو شخص ہمارے امر کو زندہ کرتاہے خداوند سبحان کی رحمت اس کے شامل حال ہے ” ہمارے امر کو زندہ کرنے کا مطلب یہ ہے کی ہم اہلبیت پیغمبر کے علوم کی تعلیم دے اور لوگوں میں پھیلائے ۔
اگر لوگ ہمارے علوم سیکھیں گے اور ہماری پیروی کریں گے تو علم عمل کے ساتھ ہوگا کیونکہ ہم خاندان نبوت کا علم وہ علم ہے جو عمل کے ساتھ ساتھ ہے ۔ ایک دن مامون کے دربار میں تمام امراء ، علماء اور مختلف ملکوں کے نمائندے و غیرہ موجود تھے اس نے امام رضا علیہ السلام کو بھی دربار میں آنے کی دعوت دی اور اپنی تقریر میں اہلبیت پیغمبر علیہ السلام کی عظمت و حقانیت کا اعتراف کرتے ہوئے کہا ” یہ لوگ خلافت کے زیادہ مستحق ہیں اور پھر امام رضا علیہ السلام کی طرف رخ کرکے کہا : میں چاہتاہوں کہ خلافت سے دست بردار ہوجاؤں اور آپ کو خلافت سونپ کر آپ کی بیعت کرلوں ” ۔ امام رضا علیہ السلام نے ، جو عباسی حکمرانوں کے فریب اور ہتھکنڈوں سے اچھی طرح واقف تھے جواب میں فرمایا :
” اگر یہ خلافت تیرا حق ہے اور خدا نے تیرے لئے قرار دی ہے تو جائز نہیں ہے کہ وہ لباس جو خدا نے تجھے پہنایاہے اتارکر کسی اور کے حوالے کردے اور اگر خلافت تیرا حق نہیں ہے تو جائز نہیں ہے کہ جو چیز تیری نہیں ہے میرے حوالے کرے “
امام رضا علیہ السلام اپنی تمام تر حق بیانی اور جرات اظہار کے باوجود عطوفت و محبت اور تواضع و انکساری کا پیکر تھے ، مامون کے مجبور کرنے پر آپ نے ” ولیعہدی” قبول کرنے کے باوجود تاکید کے ساتھ یہ بات واضح کردی کہ میں تیرے کسی عمل کا ذمہ دار نہیں ہوں اور تیرے کسی امر میں کبھی مداخلت نہیں کروں گا ۔
گویا مامون کو اس بات کا موقع ہی نہیں دیا کہ وہ اپنے عمل و کردار کے لئے امام رضا علیہ السلام کی تائید اور پشتپناہی حاصل کرسکے ۔
البتہ امام رضا علیہ السلام کی دربار میں موجودگی کے سبب دربار اور اس سے وابستہ دشمنان اہل بیت علیہ السلام کی سازشوں سے کسی حد تک مسلمانوں کو امن و امان حاصل ہوگیا ۔ لیکن مامون درباری فضا کا یہ “بوجہل پن ” زیادہ دن برداشت نہ کرسکا اور بالآخر ایک بڑی سازش کے تحت زہر میں بجھا انگور کھلاکر عباسی حکمران مامون نے امام رضا علیہ السلام کے وجود سے خود کو آزاد کرلیا ۔