میری نظر میں اہلبیت (ع) کی زندگی کے بارے میں گفتگو کرتے وقت جس چیز کو پیش کرنےکی ضرورت ہے اور جو معرفت کا باعث ہے وہ ان کی بائیوگرافی پیش کرنا نہیں ہے، شاید کسی کو نہ معلوم ہو کہ امام حسن مجتبی (ع) کی تاریخ ولادت کیا ہے یا تاریخ شہادت کیا ہے؟ لیکن ان امورکو نہ جاننا عدم معرفت کی دلیل نہیں ہے۔ لیکن جو روایت میں آیا ہے: “من مات و لم یعرف امام زمانه مات میتة جاهلیة ” جو شخص مر جائے اور اپنے زمانے کے امام کی معرفت نہ رکھتا ہو اس کی موت جاہلیت کی موت ہے۔ ( یہ معرفت بائیوگرافی کو جاننا نہیں ہے بلکہ ان کی عملی زندگی کی معرفت ہے)۔
سوال: سبط اکبر امام حسن مجتبیٰ(ع) کی ولادت با سعادت کا دن ہے۔ لہذا بہتر ہے ابتداً امام حسن مجتبیٰ (ع) کی مبارک زندگی اور آپ(ع) کے بعض معروف صفات مثلا کریم اہلبیت(ع) ہونا کی طرف اشارہ کیا جائے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اہلبیت طہار(ع) کی زندگانی کے سلسلے میں دو طرح سے گفتگو کی جا سکتی ہے۔ ایک یہ کہ ان کی بائیوگرافی پیش کی جائے یعنی انکی تاریخ ولادت، تاریخ وفات، ازواج کی تعداد، اولاد کی تعداد، خلفائے وقت وغیرہ وغیرہ بیان کئےجائیں۔
دوسرے یہ کہ قرآنی طرز سے گفتگو کی جائے۔ قرآنی طرز یہ ہے: «قَد کَانَ لَکُم اُسوَةٌ حَسَنَةٌ فِی اِبرَاهِیم وَ الَّذَینَ مَعَهُ» و «لَقَد کَانَ لَکُم فِی رَسُولِاللهِ اُسوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَن کَانَ یَرجُوا اللهَ وَ الیَومَ الآخِرَ» یعنی ہم انہیں نمونہ عمل کے عنوان سے پیش کریں۔
میری نظر میں اہلبیت (ع) کی زندگی کے بارے میں گفتگو کرتے وقت جس چیز کو پیش کرنےکی ضرورت ہے اور جو معرفت کا باعث ہے وہ ان کی بائیوگرافی پیش کرنا نہیں ہے، شاید کسی کو نہ معلوم ہو کہ امام حسن مجتبی (ع) کی تاریخ ولادت کیا ہے یا تاریخ شہادت کیا ہے؟ لیکن ان امورکو نہ جاننا عدم معرفت کی دلیل نہیں ہے۔ لیکن جو روایت میں آیا ہے: “من مات و لم یعرف امام زمانه مات میتة جاهلیة ” جو شخص مر جائے اور اپنے زمانے کے امام کی معرفت نہ رکھتا ہو اس کی موت جاہلیت کی موت ہے۔ ( یہ معرفت بائیوگرافی کو جاننا نہیں ہے بلکہ ان کی عملی زندگی کی معرفت ہے)۔
تمام اہلبیت اطہار(ع) فضائل کی کلیات میں یکساں ہیں۔ مثلاً عبادت میں سب کےسب پہلی صف میں نظر آتے ہیں تمام اماموں کے حالات میں وارد ہوا کہ جب وہ نماز کے لیے وضو کرتے تھے تو پورے نشاط کے ساتھ کرتےتھے لقاء الی اللہ اور زیارت اللہ کے لیے کرتے تھے۔ اہلبیت(ع) کی نماز حقیقت میں ’’قربان کل تقی‘‘ اور ’’معراج‘‘ ہوتی تھی۔ امیر المومنین (ع) کے سلسلے میں نقل ہوا ہے کہ نماز کی حالت میں انکے پاوں سے تیر نکال لیا گیا اور انہیں خبر تک نہیں ہوئی ۔ دوسرے ائمہ(ع) کے سلسلے میں بھی یہ خصوصیت پائی جاتی ہے۔ قرآن کریم سے انکا انس اور دعا و مناجات سے عشق انکی واضح صفات ہیں۔ اہلبیت اطہار(ع) جب لبیک کہتے تھے تو خود کو بارگاہ خداوندی میں پاتے تھے۔ امام حسن (ع) کئی بار پاپیادہ سفرِ حج پر گئے جبکہ آپ کی سواری آپ کے ساتھ ہوتی تھی اور اگر چاہتے تو سوار بھی ہو سکتے تھے لیکن چونکہ اپنے معبود سے اسقدر عشق ومحبت رکھتے تھے کہ نہیں چاہتے تھے سوار ہو کر اس کے گھر کی زیارت کرنے جائیں۔ لوگوں کے ساتھ برتاو کی منزل میں تمام ائمہ(ع) نمونہ عمل ہیں۔ اس دعوے کی دلیل امام حسن (ع) کا وہ ماجرہ ہےجو ہر اس شخص نے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے جس نے امام حسن (ع) کے بارے لکھنے کے لیے قلم اٹھایا کہ ایک شامی امام حسن (ع) کو گالیاں دینا شروع کر دیتا ہے جب گالیاں دے کر تھکتا ہے اور خاموش ہو جاتا ہے تو امام علیہ السلام اس سے فرماتے ہیں: مجھے لگ رہا ہےکہ تم سفر سے آئےہو شاید تمہارے پاس رہنے کے لیے جگہ نہیں ہو گی کھانےکے لیے آذوقہ نہیں ہو گا، تو آو میرے گھر چلو میں رہنے کے لیے جگہ دوں گا کھانا دوں گا۔ شامی نے گالیاں دیں لیکن امام نے اس کے ساتھ کیسا برتاو کیا۔ امام کی اس رفتار نے اس قدر اسے متاثر کیا کہ وہ یہ کہنے پر مجبور ہو گیا: “اللهُ یَعلَمُ حَیثُ یَجعَلُ رِسَالَتَهُ”.
اگر کوئی عبادت، زہد، دوسروں سے محبت اور دوستی، صبر اور شجاعت کو یکجا دیکھنا چاہتا ہے تو اہلبیت اطہار(ع) کے در پر جائے۔
سوال: پس ائمہ اطہار (ع) کو ’’یک بعدی‘‘ نگاہ سے دیکھنا اور ان کی کسی ایک جہت کو نمایاں کر کے دیگر جہات کو نظر انداز کر دینا صحیح نہیں ہے؟
دیکھے امام حسن (ع) کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے لوگ آپ کی شجاعت کے پہلو کو کم رنگ کر دیتے ہیں جبکہ وہی خون جو امام حسین (ع) کی رگوں میں تھا وہی خون امام حسن(ع) کی رگوں میں بھی تھا، وہی خون امیر المومنین (ع) کی رگوں میں بھی دوڑ رہا تھا۔ یہ سب شیر مرداں ہیں۔ مثال کے طور پر جنگ صفین میں امام حسن اور امام حسین علیہما السلام دونوں نے فرنٹ لائن پر جنگ لڑی۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جتنی شجاعت امام حسین (ع) میں تھی اتنی ہی امام حسن(ع) میں تھی۔ لہذا کوئی ایسی فضیلت نہیں ہے جو ایک امام میں پائی جاتی ہو اور دوسرے میں نہ پائی جاتی ہو۔
مرحوم خواجہ نصیر الدین طوسی کتاب تجرید الاعتقاد میں لکھتے ہیں کہ ہم معتقد ہیں اہلبیت(ع) تمام فضائل میں یکساں ہیں۔ اس کی دلیل یہ آیتِ قرآن ہے: «أَفَمَن يَهْدِي إِلَي الْحَقِّ أَحَقُّ أَن يُتَّبَعَ أَمَّن لاَّ يَهِدِّي إِلاَّ أَن يُهْدَي فَمَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ» کیا جو شخص حق کی طرف ہدایت کرتا ہے اس کی اطاعت کرنا زیادہ سزاوار ہے یا جو خود ہدایت سے بہرہ مند نہیں ہے مگر یہ کہ اس کی ہدایت کی جائے پس تم کیسا فیصلہ کرنے والے ہو؟ (سورہ یونس،۳۵) جو شخص امام ہو اسے تمام فضائل میں پیش پیش ہونا چاہیے۔ ائمہ معصومین (ع) کے سلسلے میں بعض خاص القاب خود پیغمبر اکرم (ص) نے انہیں دئے بعض لوگوں کے درمیان معروف ہو گئے۔ یہ جو کہا جاتا ہے کہ امام حسن (ع) کریم تھے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ باقی ائمہ(ع) کریم نہیں تھے۔ بلکہ یہ امام حسن (ع) کی ایک علامت ہے۔ یا مثلا اگر امام نہم کو جواد کہا جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ باقی ائمہ(ع) جود و بخشش نہیں کرتے تھے۔ بلکہ ائمہ(ع) میں سے ہر کوئی کسی ایک صفت سے معروف ہو گئے اور اس کی وجہ یا وہ عناوین ہیں جو خود پیغمبر اکرم (ص) نے دئے یا ائمہ نے ایک دوسرے کو دئے یا کبھی کبھی لوگوں کے درمیان کسی ایک صفت سے معروف ہو گئے ورنہ تمام ائمہ (ع) تمام فضائل میں یکساں ہیں۔
سوال: شاید یہی یک بعدی نگاہ کرنا اور صرف ایک جہت سے کسی کو مدنظر رکھنا اس بات کا باعث بنا ہے کہ آج دوسرے ادیان مثلا عیسائیت او بدھ مت کو محبت والے دین اور دین اسلام کو تشدد والا دین کہا جاتا ہے؟
اسلام اعتدال پسند دین ہے ہرگز جو چیز حضرت عیسی(ع) کی طرف نسبت دی جاتی کہ ’’اگر تمہارے ایک رخسار پر کوئی طمانچہ مارے تو تم دوسرا رخسار بھی اس کے سامنے رکھو‘‘ کو دین اسلام قبول نہیں کرتا۔ اور یہ بات قرآنی تعلیمات سے بھی ہم آہنگی نہیں رکھتی۔ بلکہ اسے ذلت کہا گیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ امام راحل (رہ) کہا کرتے تھے میں معتقد ہوں کہ یہ بات جھوٹ ہے جو حضرت عیسی علیہ السلام کی طرف نسبت دی گئی ہے یہ بات حضرت عیسی علیہ السلام کی نہیں ہو سکتی ہے۔ لہذا ہم محبت کو اسلام سے نہیں نکال سکتے اور نہ ہی اسلام کو فقط تشدد والا دین کہہ سکتے ہیں۔
اس لیے کہ اسلام کا بھیجنے والا بھی خدا ہے لہذا اسلام اعتدال پسند دین ہے جیسا کہ دعائے افتتاح میں وارد ہوا ہے: “و ایقنت انک انت ارحم الراحمین فی موضع العفو و الرحمة و اشد المعاقبین فی موضع النکال و النقمة” خدایا مجھے یقین ہے کہ تو مقام عفو و رحمت میں ارحم الراحمین ہے لیکن مقام عقاب و عذاب میں اشد المعاقبین ہے۔ دعائے افتتاح ماہ رمضان کی معتبر دعاوں میں سے ہے کہ جو دعاوں کے تمام منابع میں وارد ہوئی ہے۔ اور امام زمانہ(ع) کے نائب خاص سے منسوب ہے درحقیت خود امام زمانہ(ع) سے نقل ہوئی ہے۔
اس بات کی طرف توجہ رہے کہ جس طرح صرف تشدد کی بات کرنا افراط ہے اسی طرح فقط محبت کی بات کرنا بھی افراط ہے۔ دونوں کے بارے میں برابر گفتگو ہونا چاہیے۔ ہمیں اس جال میں نہیں پھنسنا چاہیے جو مغربیوں نے ہمارے لیے پھیلا رکھا ہے وہ چاہتے ہیں دوسرے ادیان کو مہر و محبت سے پہچنوائیں جبکہ دین فطرت(اسلام) سے لوگوں کو دور کریں۔
امام خمینی(ع) کے دوستوں سے نقل ہوا ہے کہ آپ بارہا کہا کرتے تھے: سب سے زیادہ ان لوگوں نے اسلام پر کاری ضربتیں لگائی ہیں جنہوں نے اسلام کی یک بعدی تفسیر کی ہے مثلا اسلام کے زہد کو دیکھا لیکن اس کے نظریہ آبادانی کو نہیں دیکھا۔ لہذا ہمیں اسلام کے دونوں پہلو کو بیان کرنا چاہیے مثال کے طور پر واقعہ عاشورا میں سید الشہداء (ع) حضرت علی اکبر(ع) اور حضرت عباس(ع) کی شجاعت کو بیان کرتے وقت کبھی مغرب سے خوفزدہ ہو کر یہ فراموش نہیں کر دینا چاہیے کہ حضرت علی اکبر (ع) نے ایک سو بیس دشمنوں کو قتل کیا حضرت عباس نے ۸۰ یزیدیوں کو واصل جہنم کیا اور اس کے بعد خود شہید ہوئے۔ ہمیں ہر گز یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ اگر ہم نے ان حقائق کو بیان کیا تو مغرب اسلام کو تشدد والا دین کہے گا۔ وہ جو خود تشدد میں غرق ہیں اگر حقیقت میں کوئی مغرب کی ڈیموکریٹک پالیسی کو دیکھنا چاہتا ہے تو وہ امریکہ کی اس دور کی پالسی کو آنکھیں کھول کر دیکھے۔ جہاں بھی انسان کشی ہو رہی ہے وہاں امریکہ کا ہاتھ ہے۔ لہذا ان کی باتوں میں واضح تناقض ہے محض جھوٹ ہے۔
بنابرایں اگر ہم صرف رحم اور محبت کی بات کریں صرف اس وجہ سے تاکہ وہ اسلام کو دین تشدد نہ کہیں تو یہ صحیح نہیں ہے۔ ہمیں اسلام کی یک بعدی تفسیر نہیں کرنا چاہیے بلکہ اسلام جیسا ہے اسے ویسا دنیا کے سامنے پیش کریں جب امام حسن اور امام حسین علیہما السلام کی مہر و محبت کی بات ہو رہی ہو تو ٹھوس طریقے سے بات کرنا چاہیے اور جب ان کی شجاعت اور بہادری کی بات ہو تو بھی اسی طرح مضبوط طریقے سے بیان کرنا چاہیے۔ لہذا جہاں محبت کی بات ہو وہاں محبت سے اور جہاں تشدد کی بات ہو وہاں تشدد سے بات کریں۔
سوال: یہی یک بعدی نگاہ مجالس عزا میں بھی پائی جاتی ہے۔ مثال کےطور پر ماہ مبارک رمضان یا ماہ محرم کی مجالس میں جتنا زیادہ شفاعت اور توسل کو بیان کیا جاتا ہے اتنی معرفت کے پہلو کو اہمیت نہیں دی جاتی۔ اس نکتے کی طرف توجہ نہیں دی جاتی کہ اگر آپ امام کی معرفت نہیں رکھتے تو ان کی شفاعت بھی نصیب نہیں ہو گی۔ لیکن ہمارے ذاکرین شفاعت کے مسئلہ کو زیادہ بڑھا چڑھا دیتے ہیں کہ جو ہمارے جوانوں کے ذہنوں میں نقش کر جاتا ہے کہ ہم عزاداری منا کر ائمہ کی شفاعت کے مستحق ہو جائیں گے اور اسلام کے دیگر مسائل کی طرف توجہ دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ کا اس سلسلے میں کیا نظریہ ہے؟
شفاعت ان مسائل میں سے ہے جن کا بیان کرنا بہت ضروری ہے۔ اس لیے کہ وہابیت کی طرف سے اس مسئلہ پر بہت حملے ہوتے ہیں۔ ہمیں وہابیت کی خطرناک سازشوں کا سامنا ہے۔ لہذا شفاعت اور توسل کو زیادہ اہمیت دینا چاہیے۔ لیکن توجہ اس بات پر کرنا چاہیے کہ اس سلسلے میں گفتگو کے طریقے مختلف ہیں۔ کبھی کبھی ہم شفاعت اور توسل کے سلسلے میں عقیدتی گفتگو کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر پیغمبر اکرم (ص) کن لوگوں کی شفاعت کریں گے اور کن لوگوں کی نہیں کریں گے۔ ابوبصیر کہتے ہیں: امام صادق علیہ السلام کی شہادت کے بعد ان کے گھر تسلیت عرض کرنے کے لیے گیا تو آپ کے اہلبیت نے کہا: ابوبصیر تم نہیں تھے جب امام دنیا سےجا رہے تھے، انہوں نے تمام اہل خانہ اور رشتہ داروں کو جمع کیا اور ایک جملہ فرمایا: “لاتنال شفاعتنا من استخف بالصلاة” ہماری شفاعت اس کو نصیب نہیں ہو گی جو نماز کو ہلکا سمجھے۔
ہماری مجالس کے اندر عقلی، منطقی، عواطفی اور احساساتی تمام باتیں ہونا چاہیے اور ان تمام چیزوں کو صرف لوگوں کی تربیت کے لیے بیان کرنا چاہیے۔ لہذا مشکل یہ نہیں ہے کہ کیوں شفاعت اور توسل کو زیادہ بیان کیا جاتا ہے بلکہ مشکل یہ ہے کہ انداز بیان صحیح نہیں ہوتا۔
آج کے دور میں ہمارا ھم و غم یہ ہے کہ ہم کیسے ان عقلی اور عواطفی باتوں کو میدان عمل میں اتاریں۔ طریقہ کار وہی ہے جو قرآن ور اہلبیت(ع) نے یبان کیا ہے قرآن کریم جب بھی کسی عقیدتی مسئلہ کو بیان کرتا ہے تو اس کے ساتھ ساتھ عملی نمونہ بھی پیش کرتا ہے۔ اگر اخلاص کے بارے میں گفتگو کرتا ہے تو ساتھ میں حضرت یوسف اور حضرت موسی کی مثال پیش کرتا ہے۔
سوال: شاید قرآن کریم کا یہ طریقہ اپنانا اس وجہ سے مشکل ہو کہ مجلس میں حاضر ہونے والے افراد کی علمی سطح مختلف ہوتی ہے۔
ان مجالس میں جہاں عام لوگ حاضر ہوتے ہیں عقلی اور فلسفی باتوں کو بیان کرنےسے پرہیر کرنا چاہیے چونکہ سامعین کو تھکن کا احساس ہونے لگتا ہے تو ایسے میں ایک شخص ایک دو دن مجلس میں آئے گا تیسرے دن غائب ہو جائے گا۔ لہذا ذاکر اور مقرر سامعین کے ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اپنی گفتگو کو منظم کرے۔ خطیب کو یہ کوشش کرنا چاہیےکہ خطاب کرنے سے پہلے اپنے موضوع سے متعلق قرآنی آیات کو تلاش کرے، ان کی تفسیر دیکھے، موضوع کے بارے میں روایتیں تلاش کرے اور گفتگو کو جذاب بنانےکی کوشش کرے۔
سوال: یہاں پر ہم اپنے موضوع کے متعلق بھی ایک سوال کریں کہ کیا تقویٰ اور صبر کا نہ ہونا اس بات کا باعث نہیں بنا کہ لوگ امام حسن علیہ السلام کو ان کے قیام میں اکیلا چھوڑ دیں؟
امام حسن علیہ السلام اپنے والد بزرگوار امیر المومنین(ع) کے بعد آٹھ مہینہ مسند حکومت پر رہے۔ معاویہ کو بھی نوٹس دیا کہ تسلیم ہو جائے۔ لیکن آخر کار حالات کچھ ایسے ہو گئے کہ امام حسن (ع) اپنے بلند مقاصد تک نہ پہنچ سکے۔ امام حسن علیہ السلام کے مقاصد بھی وہی مقاصد تھے جو امیر المومنین (ع) کے تھے، یعنی معاویہ کو اس عنوان سے کہ اس نے امام حق پر خروج کیا ہے برکنار ہونا چاہیے۔ لیکن اس کام کے لیے شرائط فراہم نہ ہو سکے۔ شاید آپ پوچھیں کہ کیوں شرائط فراہم نہیں ہو سکے؟ بہت سارے عوامل اور اسباب ہیں جنہوں نے امام علیہ السلام کو صلح کرنے پر مجبور کیا۔ ان میں سے ایک سبب آپ کے اصحاب کی سستی تھی جو چند چیزوں کی معلول تھی:
۱: امام حسن علیہ السلام کے لشکر کی نامناسب ترکیب: امام علیہ السلام کا لشکر ایک مزاج رکھنے والے افراد پر مشتمل نہ تھا اس لیے کہ وہی لشکر جو امام علی (ع) کے دور میں تھا وہی امام حسن علیہ السلام کی طرف منتقل ہوا۔ آپ اس میں ترمیم نہیں کر سکتے تھے۔ انکے درمیان کچھ ایسے لوگ تھے جو پیسہ لے کر جنگ کے لیےحاضر ہو جاتے تھے۔ لہذا جو بھی انہیں پیسہ دیتا وہ اس کی طرف سے لڑتے تھے۔ اس لشکر کے بیچ مزدور زیادہ تھے اہلبیت(ع) کی محبت اور اسلام کا درد رکھنے والے لوگ بہت کم تھے جیسے حجر بن عدی، یا عمر بن حمق خزاعی۔ لہذا لشکر کی نامناسب ترکیب اس بات کا باعث بنی کہ آپ معاویہ کے ساتھ صلح کرنے پر مجبور ہو جائیں۔
۲: عدم بصیرت: لوگوں کی سمجھ میں یہ نہیں آرہا تھا کہ امام حسن (ع) اور معاویہ کی داستان ایک امام معصوم اور ایک باغی کی داستان ہے۔ بعض تو یہ سمجھ رہے تھے کہ دو حاکموں اور دو حکومتوں کی آپس میں ٹکر ہے۔
۳: عدم تقویٰ: کچھ لوگ بظاہر امام حسن علیہ السلام کے ساتھ تھے لیکن باطناً معاویہ سے ملے ہوئے تھے۔ مثال کے طور پر عبد اللہ ابن عباس کہ جو امام کے رشتہ دار تھے آپ کے لشکر کے سپہ سالار تھے لیکن معاویہ کے سونے کے سکوں پر بک گئے جبکہ معاویہ نے ان کے دو بیٹوں کا قتل کیا تھا قاعدۃ انہیں ہر گز معاویہ کے دھوکے میں نہیں آنا چاہیے تھا لیکن سکوں کی تھیلیوں نے ان کے ایمان کو بھی ڈنواڈول کر دیا۔ تقویٰ تمام مسائل میں ہونا چاہیے۔ بعض لوگ سوچتے ہیں تقویٰ یعنی نماز و روزہ، کہتے ہیں متقی وہ ہے جو اہل نماز و روزہ ہو۔ جبکہ تقویٰ خون کے مانند ہے جو اسلامی اخلاق کے پیکر میں دوڑتا ہے۔
۴: معاویہ کی شیطنت: معاویہ انتہائی درجہ کا مکار اور فریبکار شخص تھا۔
ان تمام وجودہات کے باوجود امام حسن علیہ السلام نے صلح کا تقاضا نہیں کیا۔ صلح کا تقاضا معاویہ نے کیا اور کہا: آپ جو شرائط بھی رکھنا چاہتے ہیں رکھیں ہمیں تسلیم ہے۔ امام حسن(ع) نے ایک ہوشیار اور وقت شناس حاکم کی طرح عمل کیا۔اور صلح کی قرار داد میں جو چیزیں ہونا چاہیے تھیں وہ سب رکھیں۔ اور اس قرار داد کو باندھ کر امام حسین (ع) کے قیام کے لیے زمینہ فراہم کر دیا۔ اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ قیام حسینی سے پہلے قیام حسنی واقع ہو چکا تھا۔
خدا کا شکر ہے کہ اس سلسلے میں کافی مقدار تک کام ہوا ہے اور سب سے بہترین کتاب امام حسن علیہ السلام کی صلح کے بارے میں مرحوم آل یاسین کی کتاب ہے کہ جسے رہبر معظم انقلاب نے ’’صلح امام حسن(ع)‘‘ کے عنوان سے ترجمہ کیا ہے۔
سوال: آج ہمارے معاشرے میں موجود بہت ساری اخلاقی برائیاں اس وجہ سے ہیں کہ انسانی زندگی کے مختلف ابعاد اور گوشوں میں سیرت اہلبیت(ع) کم رنگ ہو گئی ہے۔ تو کیسے ہم ان واقعات سے عبرت حاصل کر سکتے ہیں جو امام حسن علیہ السلام کی زندگی میں پیش آئے؟
ہمارا درس عبرت یہ ہے کہ امت اسلامی اس صورت میں کامیابی کی چوٹیاں سر کر سکتی ہے جب اس کے ساتھ رہبر ہو گا جس کی وہ اطاعت کر سکے۔
توجہ رہنا چاہیے کہ صرف صالح رہبر کا ہونا کسی مشکل کو حل نہیں کر سکتا۔ امیر المومنین علی (ع) سے زیادہ صالح رہبر کون ہو سکتا ہے؟ آپ فرماتے ہیں: “ولکن لا رأی لمن لایطاع” جب تم علی(ع) کی بات کو نہیں سنو گے تو علی کا کیا کام ہے؟ تمام اسلامی امتیں مصر سے لے کر تیونس، بحرین، یمن سب یہ جان لیں کہ صرف ظالم حکمرانوں کو سرنگوں کرنا کافی نہیں ہے بلکہ بلند مقاصد تک پہنچنے کے لیے صالح رہبر کی اطاعت ضروری ہے۔
دوسرا نکتہ بصیرت اور تقویٰ کا زندگی کے تمام گوشوں میں پایا جانا ہے جو بلند مقاصد تک پہنچنے کے لیے اہم کردار ادا کرتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ لشکر امام حسن (ع) میں نہ بصیرت پائی جاتی تھی اور نہ تقویٰ، جس کی وجہ سے عالم اسلام پر ایک کاری ضربت لگی۔ صحیح ہے امام حسن (ع) نے اپنا فریضہ انجام دے دیا لیکن شیعوں کے اندر عدم بصیرت نے شیعت کے دامن پر ایک سیاہ دھبہ چھوڑ دیا۔ معاویہ نے آل زیاد کو اس بات پر گماشتہ کر رکھا تھا کہ شیعوں کو ان کے مخفی ٹھکانوں سے نکال کر قتل کریں۔ امت اسلام پر تاریک راتیں گزریں ہیں جن کا سبب صرف دنیا طلبی، عدم بصیرت اور اسلامی سماج میں سستی تھی۔ ہمیں امام حسن علیہ السلام کی زندگی سے اس چیز کی عبرت حاصل کرنا چاہیے تاکہ یہ ناگوار حوادث دوبارہ تاریخ اسلام میں تکرار نہ ہوں۔
آخری بات یہ ہے کہ ہمیں دشمن شناسی کو ایک اصل کے عنوان سے ہمیشہ قبول کرنا چاہیے۔ جب دشمن اور اس کی سازشیں معلوم ہو جائیں تو اس کا مقابلہ کرنا آسان ہو جاتا ہے۔