
پاکستان افغان سرحد پر نقل و حرکت سے وابستہ خطرات کا ذکر کرتے ہوئے وزیراعظم نے سرحد کے آر پار دہشت گردوں کی نقل و حرکت روکنے کیلئے سرحدی انتظام کے معیاری طریقہ کار کو جلد حتمی شکل دینے پر زور دیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان نے افغانستان میں پائیدار امن کے قیام کے لئے ہمیشہ ایک ہمہ جہت اپروچ اختیار کرنے پر زور دیا ہے۔ افغان عوام کا اپنا اور افغان قیادت میں قوی اور بامعنی مفاہمتی عمل افغانستان میں طویل المدتی امن اور استحکام کے لئے ناگزیر ہے۔ پاکستان کی حکومت اور عوام نے اپنی سرزمین سے دہشت گردی اور پرتشدد انتہا پسندی کی لعنت کو جڑ سے اکھاڑنے کے لئے غیر متزلزل عزم کا مظاہرہ کیا ہے۔ آپریشن ضرب عضب اور قومی لائحہ عمل کو دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف ہماری مہم میں مطلوبہ نتائج حاصل ہو رہے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہمارے لئے افغانستان ہمسائے سے بڑھ کر ہے، ہمارے خوشگوار روابط کی جڑیں مشترکہ تاریخ، مذہب، ثقافتی اور لسانی رشتوں میں پیوستہ ہیں اور عوامی سطح پر تعلقات کا سلسلہ صدیوں پرانا ہے۔ گذشتہ نصف صدی کے دوران بیرونی مداخلتوں نے افغان معاشرے کے امن، استحکام اور سماجی و اقتصادی ہم آہنگی کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ یہ بات اہم ہے کہ پائیدار امن اور استحکام کے لئے کاوشوں کا انحصار افغانستان کی خود مختاری، علاقائی سالمیت اور افغان معاشرے کی دیرینہ اقدار کے احترام پر ہے۔ میرا یقین ہے کہ امن اور سلامتی کے بغیر ہمارے خطے کے ممالک مطلوبہ سماجی اور اقتصادی ترقی کو حاصل نہیں کرسکتے، دہشت گردی کی لعنت کئی برسوں سے ہمارے خطے کو بری طرح متاثر کر رہی ہے۔ داعش جیسے نئے اور زیادہ خطرناک دہشت گرد گروپوں کے ابھرنے سے دہشت گری کے خلاف ہمارا عزم مضبوط ہونا چاہئے۔ ہمیں دہشت گردی کے خلاف جدوجہد کے ثمرات کو پائیدار انداز میں یقینی بنانے کے لئے علاقائی سلامتی کے محاذ پر اجتماعی اور مربوط اقدام اٹھانے چاہئیں۔ ہارٹ آف ایشیا استنبول عمل کی پانچویں وزارتی کانفرنس کی افغانستان کے ساتھ مشترکہ میزبانی پاکستان کے لئے باعث فخر ہے۔ افغان صدر اشرف غنی کے ساتھ کانفرنس کا افتتاح کرنا ان کے لئے اعزاز کی بات ہے۔
انہوں نے اس یقین کا اظہار کیا کہ کانفرنس میں غور و خوض اور مجوزہ اعلان اسلام آباد ان تمام شعبوں کا مناسب طور پر احاطہ کرے گا۔ ہارٹ آف ایشیا اقدام کو الگ طور پر نہیں دیکھا جانا چاہئے، اس اقدام کو افغانستان کے اندر اور باہر دیگر علاقائی بنیادی ڈھانچے اور مواصلاتی منصوبہ جات کے ساتھ بھی منسلک کیا جا سکتا ہے۔ کاسا 1000، تاپی، ایران ۔ پاکستان گیس پائپ لائن اور پاکستان چین اقتصادی راہداری جیسے علاقائی منصوبے بڑے دیگر منصوبوں میں سے چند ایک ہیں جو خطے کے اقتصادی منظر نامے کو تبدیل کرنے کے عزم کے حامل ہیں۔ پرامن ہمسائیگی کے حصول کے لئے کوشاں رہنا پاکستان کی خارجہ پالیسی کا بنیادی اصول ہے۔ ہمارا پختہ یقین ہے کہ امن ترقی کے لئے ناگزیر ہے اور ترقی پائیدار امن کے لئے ناگزیر ہے۔ ان اصولوں کی پیروی کرتے ہوئے پاکستان اپنے تمام ہمسائوں اور علاقائی ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط بنانے اور علاقائی تعاون اور مواصلاتی رابطوں کے فروغ کے لئے پرعزم ہے۔
افغانستان کے صدر اشرف غنی نے کہا کہ ہمارے دشمن افغانستان کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔ سیاسی عمل کا حصہ بننے کے لئے تمام مسلح گروہوں کو ہتھیار پھینکنے ہوں گے۔ مہاجرین کا مسلہ مشترکہ ہے۔ پاکستان کے تین سے پانچ لاکھ مہاجرین اس وقت افغانستان میں موجود ہیں۔ اشرف غنی کا لب و لہجہ قدرے جارحانہ تھا۔ انہوں نے اپنے ملک کو لاحق مسائل کا ذمہ دار علاقائی ملکوں اور دہشت گرد گروپوں کو ذمہ دار ٹھہرانے کی کوشش کی، تاہم اپنے ملک کی مخدوش صورتحال میں اس کرپشن، حکومتی نااہلی کا کوئی ذکر نہیں کیا، جس کی امریکہ اور مغربی ملک اکثر نشاندہی کرتے رہتے ہیں۔ انہوں نے پاکستان کے اس مئوقف کی بین السطور مخالفت کی کہ افغانستان میں قیام امن کی واحد راہ مذاکرات ہیں۔ اشرف غنی نے کہا کہ سیاسی عمل میں حصہ لینے کے خواہش مند گروپوں کو پہلے ہتھیار پھینکے ہوں گے۔ ان کا واضح اشارہ افغان طالبان کی طرف تھا، جن کے ساتھ مری میں ان کی حکومت مذاکرات کا ایک دور منعقد کرچکی ہے۔ تاہم اب دوسرا دور کھٹائی میں پڑا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا جمہوری معاشرے میں تشدد پسندی کا کوئی مقام نہیں۔ ہم خطے کے دیگر ممالک سے مضبوط رابطوں پر کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے دہشت گرد گروپوں کو افغان تنازعہ کی اولین وجہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ دہشت گرد گروپ افغانستان، اس خطہ اور پوری دنیا کیلئے خطرہ ہیں۔ انہوں نے ایسے نظام کی ضرورت پر زور دیا، جس کی مدد سے دہشت گردوں کے مالی معاونت کا سراغ لگایا جا سکے۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ پاکستان میں ہونے والے آپریشن ضرب عضب سے دہشت گرد فرار ہو کر افغانستان آئے۔
ان کا کہنا تھا کہ افغانستان گذشتہ برسوں میں خانہ جنگی کا شکار رہا، عوامی مقامات پر عورتوں اور بچوں کو نشانہ بنایا گیا۔ افغانستان کو سکیورٹی، معیشت اور روزگار کے مسائل کا سامنا ہے، لیکن غربت کا خاتمہ ہمارا سب سے اہم ہدف ہے جبکہ دیگر مسائل کی طرح افغان مہاجرین کی آباد کاری بھی ایک مسئلہ ہے، پاکستان نے لاکھوں افغان مہاجرین کی مہمان نوازی کی، جس پر ہم ان کے شکر گزار ہیں۔ یہ مشترکہ مسئلہ ہے کیونکہ تین سے پانچ لاکھ پاکستانی پناہ گزین افغانستان میں موجود ہیں۔ افغانستان میں انفرسٹرکچر بہتر ہو رہا ہے، افغانستان اپنے قدرتی وسائل سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہا ہے جبکہ وسط ایشیائی ممالک کے ساتھ ٹرانسمیشن لائن کے منصوبوں پر کام جاری ہے۔ پاکستان کے ساتھ راہداری منصوبے اب تک ابتدائی مراحل میں ہیں۔ مختلف ممالک اور تنظیموں کے نمائندوں نے ہارٹ آف ایشیاء کانفرنس سے خطاب میں دہشت گردی اور انتہاء پسندی کے خاتمے کیلئے موثر اقدامات کرنے، افغانستان میں پائیدار ترقی اور امن کیلئے طویل المدتی تعاون، خطے میں امن و استحکام کیلئے باہمی روابط اور مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے اور امن مذاکراتی عمل جاری رکھنے پر زور دیا۔
امریکی نائب وزیر خارجہ انتھونی بلینکن نے کہا کہ افغانستان میں امن مصالحتی عمل کی حمایت کرتے ہیں، جنگ زدہ افغانستان میں گورننس کا نظام بہتر بنانا چاہتے ہیں، چاہتے ہیں کہ افغانستان میں ادارے کامیابی سے کام کریں۔ سعودی نائب وزیر خارجہ نے کہا کہ دہشت گردی انسانیت اور مذاہب دونوں کی دشمن ہے، افغانستان میں تعمیر نو کیلئے عالمی تعاون بے حد ضروری ہے۔ کرغیزستان کے وزیر خارجہ نے کہا کہ عسکریت پسندی روکنے کیلئے موثر اقدامات کرنا ہوں گے، افغانستان کی تعمیر نو کیلئے کرغستان اپنا کردار ادا کرنے کیلئے تیار ہے۔ تاجکستان کے وزیر خارجہ نے کہا کہ افغانستان میں پائیدار ترقی اور امن چاہتے ہیں، لٹویا کے وزیر خارجہ نے کہا کہ خطے میں امن و استحکام کیلئے باہمی روابط اور تعاون ضروری ہے، افغانستان کی تعمیر نو میں مثبت کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔ ترکمانستان کے وزیر خارجہ نے کہا کہ ترکمانستان سے ہائی وولٹیج ٹرانسمیشن لائن افغانستان پہنچائی جا رہی ہے۔
ترک وزیر خارجہ نے کہا کہ دہشت گردی و انتہاء پسندی اور انسانی سمگلنگ خطے کے ملکوں کیلئے خطرہ ہیں، ان خطرات سے نمٹنے کیلئے باہمی تعاون اور اعتماد سازی ضروری ہے، آذربائیجان کے نائب وزیر خارجہ نے کہا کہ افغانستان کی ترقی کیلئے قیام امن اور سیکیورٹی اقدامات ضروری ہیں، پولینڈ کے سفیر نے کہا کہ افغانستان میں 2016ء کے بعد بھی نیٹو کی مدد جاری رہنی چاہیے۔ روسی نمائندہ برائے افغانستان نے کہا کہ دہشت گردی کے خاتمے کیلئے افغانستان سے منشیات کی سمگلنگ روکنا ہوگی، داعش کے خاتمے کیلئے افغانستان سے تعاون کریں گے۔ مصر کے نائب وزیر خارجہ نے کہا کہ افغانستان میں معاشی ترقی اور امن کو فروغ دینا ہوگا، عراق کے نائب وزیر خارجہ نے کہا کہ دہشت گردی اسلامی نظریات کی غلط ترجمانی کر رہے ہیں، اقتصادی تعاون تنظیم کے سیکرٹری جنرل نے کہا ہے کہ افغانستان میں تعمیر نو کا عمل خطے کی تعمیر و ترقی کیلئے ضروری ہے۔ ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کے نتیجہ خیز فوائد برآمد ہوں گے۔
ہارٹ آف ایشیا کانفرنس نے افغانستان میں پائیدار امن کے قیام کیلئے افغانوں کی زیر سرکردگی امن و مفاہمت کے عمل کی مکمل حمایت کرنے کا اعلان کیا ہے۔ وزیراعظم کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز اور افغان وزیر خارجہ صلاح الدین ربانی نے مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران 43 نکاتی اعلامیہ کی تفصیلات بتائیں۔ اعلامیہ میں اس بات دنیا پر زور دیا گیا ہے کہ افغانستان کی خود مختاری کا احترام کیا جائے۔ رکن ممالک امن عمل میں کردار ادا کریں، پائیدار امن کیلئے طالبان کو مذاکرات کی میز پر آنا ہوگا۔ بات چیت کا سلسلہ جہاں سے ٹوٹا تھا وہیں سے شروع کیا جائے۔ افغانوں کی زیر قیادت امن عمل میں تعاون کیا جائے۔ سکیورٹی اور دہشتگردی خطرات کسی ایک ملک کے نہیں سب کے لئے یکساں ہیں دہشت گردوں کی مالی معاونت کو مل کر ختم کرنا ہوگا۔ سرتاج عزیز نے کہا کہ پاکستان افغانستان میں دیرپا امن اور استحکام کا خواہاں اور عوام پر مشتمل مفاہمتی عمل کا حامی ہے۔ افغان وزیر خارجہ صلاح الدین ربانی نے مشترکہ اہداف کے حصول کے لئے مشترکہ کوششوں کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ کانفرنس نے افغانستان کی مشکلات پر قابو پانے کیلئے افغانستان کی بھرپور مدد کے عزم کا اعادہ کیا۔ سرتاج عزیز نے بتایا کہ شرکائے کانفرنس نے اتفاق کیا کہ افغان مہاجرین کو باوقار انداز میں وطن واپس بھیجا جائے، عالمی برادری ان مہاجریں کی ان کے وطن میں بسانے کیلئے بھرپور مدد کرے۔ کانفرنس نے علاقائی سطح پر انفراسٹرکچر کی تشکیل، انسداد دہشت گردی، انسداد منشیات، علاقائی تعاون کی کوششوں کے عزم کا اعادہ کیا۔ سرتاج عزیز نے بتایا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان بارڈر مینجمنٹ کمیشن موجود ہے، جو سرحد پر کراسنگ پوائنٹس، بائیو میٹرک نظام، مقامی لوگوں کے حقوق اور سفری دستاویزات پر اپنی سفارشات دے گا۔
افغان وزیر خارجہ نے کہا کہ یہ اعلامیہ شرکائے کانفرنس کی طرف سے افغانستان میں پائیدار امن کے قیام کیلئے ان کے عزم کا آئنہ دار ہے۔ ہمیں مشترکہ چیلنج درپیش ہیں جن سے نمٹنے کیلئے مشترکہ کوششیں ہی کام آ سکتی ہیں۔ اس ضمن میں اجتماعی سلامتی کی اپروچ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان اور افغانستان ایک دوسرے کی شکایات کا جائزہ لینے کا میکنزم وضع کرنے پر غور کر رہے ہیں۔ دونوں ملکوں کی قیادت نے اتفاق کیا ہے کہ الزام تراشی کا سلسلہ بند ہونا چاہئے۔ تمام رکن ممالک افغان مفاہمتی عمل میں کردار ادا کریں۔ اعلامیہ میں دہشت گرد گروپوں کے خلاف کارروائیاں تیز کرنے پر اتفاق کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ دہشت گرد گروپوں کے تربیتی کیمپ اکھاڑ دیئے جائیں گے، ان کی سپلائی لائن کاٹی جائیگی۔ دہشت گردوں کیخلاف کارروائی کے لئے خفیہ معلومات کا تبادلہ کیا جائیگا، بارڈر سکیورٹی بڑھائی جائیگی، علامیہ کے مطابق ہارٹ آف ایشیاء استنبول پراسس کانفرنس نے دہشتگردی پر تشدد انتہا پسندی کو اہم ترین علاقائی و عالمی چیلنج قرار دیا اور انتہا پسندانہ تنظیموں خصوصاً القاعدہ اور داعش کے خلاف اعلان جہاد افغانستان میں امن و استحکام کیلئے تمام کوششوں بالخصوص طالبان و دیگر اپوزیشن گروپوں سے مذاکرات کی حمایت کرتے ہوئے طالبان سے مذاکرات عمل میں فوری طور پر شرکت کا مطالبہ کیا اور اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ خطے میں تجارتی اقتصادی روابط کے فروغ کیلئے ہر ممکن اقدامات کئے جائینگے۔
اس امر پر زور دیا ہے کہ تمام مسائل بات چیت کے ذریعے حل کئے جائیں، دہشتگردوں کو فنڈز کی فراہمی روکنے کیلئے ہر ممکن اقدامات کئے جائینگے، منشیات کی نقل و حرکت ہر صورت روکی جائیگی اور تمام رکن و معاون ممالک اس مقصد کیلئے اپنا بھرپور کر دارادا کریںگے جبکہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ آئندہ ہارٹ آف ایشیاء کانفرنس 2016ء کے آخری سہ ماہی میں بھارت میں ہوگی، افغانستان کے بارے میں ترقیاتی وزارتی کانفرنس برسلز میں یورپی یونین کے زیر اہتمام منعقد ہوگی۔ ہم افغانستان کے صدر اشرف غنی اور پاکستان کے وزیراعظم محمد نواز شریف کے کانفرنس کے افتتاحی اجلاس میں شرکت پر شکر گزار ہیں۔ ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ گذشتہ برسوں کے دوران ہارٹ آف ایشیاء میں ہونے والی پیشرفت کا سلسلہ مستقبل میں جاری رہے گا پائیدار امن، سکیورٹی، خوشحالی اور خطے کی ترقی کے مقاصد کے حصول کیلئے کام جاری رکھیں گے، ہم اس عزم کو بھی دہراتے ہیں کہ ہمارے ممالک ایک دوسرے کی یکجہتی، جغرافیائی سالمیت، اتحاد اور سیاسی آزادی کا احترام کرتے ہیں، جس کی اقوام متحدہ کے چارٹر میں ضمانت دی گئی ہے، ہم کسی قسم کے خطرے یا کسی بھی ملک کی جغرافیائی سالمیت یا سیاسی آزادی کے خلاف خطرے اور طاقت کے استعمال سے گریز کا عزم رکھتے ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ افغانستان میں بین الاقوامی سکیورٹی امدادی فورسز (ایساف) کے مشن کی تکمیل، افغانستان کی خود مختاری کی جانب ایک اہم قدم ہے۔ عالمی برادری افغانستان کی قومی اتحاد کی حکومت کو 2017ء تک مالیاتی امداد جاری رکھنے کے بارے میں لندن کانفرنس میں لے گیا عزم پورا کرے، اس ضمن میں ہم 2016ء میں برسلز میں آئندہ افغانستان ترقیاتی وزارت کی کانفرنس بلانے کے سمجھوتے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ ہم ہر قسم کی دہشتگردی کے خاتمے کا عزم رکھتے ہیں اور اس حوالے سے بین الاقوامی تعاون اور رابطے کی اہمیت کو سمجھتے ہیں۔ تمام ممالک کے دہشتگردی کے خلاف اقدامات کو بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت ہونا چاہئے۔ ہم دہشتگردی اور تمام دہشتگرد تنظیموں خصوصاً القاعدہ، داعش اور ان سے ملحقہ تنظیموں کے خاتمے اور مقابلے کیلئے ضروری اقدامات کا عزم کرتے ہیں اور اس ضمن میں ہر قسم کی حمایت کرینگے، ہم سمجھتے ہیں کہ منشیات کی نقل و حرکت اور سرحدی سکیورٹی کے انتظام کے ذمہ دار حکومت اداروں کے درمیان اطلاعات کے تبادلے کو بہتر بنانے اور اس مقصد کیلئے مالیاتی اور ساز و سامان کی سہولیات کی فراہمی کی ضرورت پر زور دیتے ہیں جو دہشتگردی کے خلاف علاقائی جامع حکمت عملی کا حصہ ہے اور ہم اپنے علاقوں میں دہشتگردی کے خلاف اعتماد سازی کے اقدامات کی حوصلہ افزائی کا عزم رکھتے ہیں۔ دریں اثنا سشما سوراج واپس بھارت چلی گئیں اور افغان صدر اشرف غنی واپس افغانستان چلے گئے ہیں۔ سشما سوراج واپس نئی دہلی چلی گئی ہیں۔ نور خان ائر بیس پر مشیر خارجہ سرتاج عزیز اور دیگر اعلی حکام نے انہیں الوداع کہا۔