سوال یہ ہے کہ رمی جمرات کے لئے جانے اور آنے والوں کے سارے راستے کیوں نہیں کھولے گئے؟ اگر حجاج کرام نے نظم و ضبط کی خلاف ورزی کی تو سعودی اہلکار کیا سو رہے تھے، جو بروقت انہیں روک نہ سکے؟ کیا ایسا ممکن تھا یا نہیں، یعنی حجاج کرام کی منظم آمد و رفت۔ اس پہلو کا موازنہ کربلا میں حرم امام حسین ؑ کے زائرین کے لئے کئے گئے انتظامات سے کیا جاسکتا ہے۔ شب عاشور سے یوم عاشور تک لاکھوں زائرین زیارت سے مشرف ہوتے ہیں۔ یوم عاشور اور یوم اربعین حج سے تین تا چار گنا زیادہ بڑے عوامی اجتماعات ہیں۔ غالباً دنیا بھر میں عوام کا یہ اوقیانوس سب سے بڑا تصور کیا جاتا ہے۔ وہاں کیوں اس نوعیت کی قضا و قدر دیکھنے میں نہیں آتی، حالانکہ عراق کی حکومت کو کئی چیلنجز کا سامنا ہے۔ کم از کم آل سعود کی خائن سلطنت و حکومت کو ان تکفیری وہابیوں سے تو آج تک اتنے بڑے نقصانات نہیں پہنچے، جتنے عراق و شام میں پہنچائے گئے ہیں۔ دنیا کی بدترین دہشت گردی کا شکار رہنے والے عراق میں حج سے زیادہ اچھے انتظامات ہوتے ہیں۔
تحریر: عرفان علی
سانحہ منٰی پر سحر اردو ٹی وی کے پروگرام ’’زاویہ نگاہ‘‘ میں ایک نئے زاویے سے سوالات اٹھائے گئے۔ نیا زاویہ تھا کہ کربلا میں حج سے تین، چار گنا زیادہ مسلمان یوم عاشور اور یوم اربعین پر جمع ہوتے ہیں، لیکن وہاں ایسے سانحات رونما نہیں ہوتے، جتنے سانحات حج کے موقع پر وقوع پذیر ہوتے رہتے ہیں۔ راقم الحروف نے ابھی صرف ایک زاویہ پر روشنی ڈالی تھی تو وقت ختم ہوگیا۔ لہٰذا ضروری سمجھتا ہوں کہ اس موضوع پر اپنی رائے تفصیل سے بیان کروں۔ میرا زاویہ نگاہ یہ ہے کہ حج کے موقع پر حجاج کرام کی خدمت کرنا، اگر واقعی خدمت کر بھی لی جائے، تب بھی یہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والوں کے مقابلے میں کوئی فضیلت نہیں رکھتی، چہ جائیکہ آل سعود کی نالائقی پر بھی انہیں خادم حرمین شریفین کے مقدس غلاف میں عالم اسلام کے سامنے پیش کیا جائے۔
آل سعود کو حج کے انتظامات کرنے کا اسی نوے سال کا تجربہ ہوچکا ہے، اسکے باوجود سانحہ منٰی سمیت دیگر سانحات اس لئے رونما ہوتے ہیں کہ آل سعود کی خائن عرب سلطنت عربستان نبوی ﷺ کے زائرین سے مسلکی عناد رکھتی ہے۔ وہ ان مقامات کو دیگر مسالک کی مانند مقدس سمجھتی ہی نہیں ہے، اس کا ناقابل تردید ثبوت مکہ میں جنت المعلٰی اور مدینہ میں جنت البقیع کا قبرستان ہے، جس میں اہلبیت ؑ، ازواج مطہرات، صحابہ کے مزارات و قبور اور اس کے علاوہ کئی دیگر اسلامی یادگاریں بشمول مساجد کی مسماری کا عمل تھا، جو آل سعود اور اس کی زیر قیادت محمد بن عبدالوہاب نجدی کے پیروکاروں کے ناپاک ہاتھوں سے انجام پایا۔ آل سعود کا اسلام و مسلمین اور اسلامی مقدسات سے بغض و کینہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ طول تاریخ میں اس کا علاقائی اور عالمی سطح پر کردار اسلام دشمن سامراج کے اتحادی کا رہا ہے۔
سانحہ منٰی سے پہلے کرین گرنے سے بھی کئی حجاج کرام شہید ہوئے اور ان کی موت کی ذمے دار ی بھی خائن حرمین بے شرمین آل سعود پر ہی عائد ہوتی ہے۔ یہ قدرتی آفات نہیں بلکہ man-made disaster کا عمل کہلاتا ہے، یعنی انسان کے ہاتھوں تباہی لانے کا عمل۔ آل سعود کی بنیاد ہی اللہ کے اولیائے کرام کی بے حرمتی پر رکھی گئی اور اس مذموم کارستانی کے لئے انہوں نے اللہ کے تقدس اور بزرگی کو بہانہ بنا کر اللہ اور اللہ والوں کو ایک دوسرے کا دشمن یا مخالف قرار دیا۔ یا اللہ مدد کا نعرہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی، ورنہ عالم اسلام کا متفقہ نعرہ تکبیر اللہ اکبر پہلے سے موجود تھا، لیکن نعرہ رسالت یا رسول اللہ ﷺ کے مقابلے میں ایک نیا نعرہ دیا گیا اور اس نعرے پر ایمان کی حالت یہ تھی کہ جب امریکہ نے صدام سے ڈرایا تو خود امریکہ کی ناپاک افواج کو سعودی سلطنت کی حفاظت کے لئے بلوایا۔ یہ ہے آل سعود کی سیاست!
اس سانحے کا ایک افسوسناک پہلو جس کا پاکستان اور پاکستانیوں سے براہ راست تعلق ہے، وہ یہ ہے کہ اس سال حج کے موقع پر دو سو سے زائد پاکستانی حجاج مارے گئے۔ کیا حکومت پاکستان نے اور اس کے ادارے پیمرا نے دانستہ طور پر یہ کوشش نہیں کی کہ ان دو سو پاکستانیوں کی ارض مقدس مکہ میں آل سعود کی مجرمانہ غفلت کے سبب ہونے والی اموات کی خبروں کو پاکستان میں نشر نہ ہونے دیا جائے۔ اب جبکہ پاکستانیوں کی اکثریت زلزلے کی اموات و دیگر نقصانات پر گریہ کناں ہیں تو وزیر مذہبی امور قومی اسمبلی کی اسٹینڈنگ کمیٹی کو بتا رہے ہیں کہ دو سو سے زائد پاکستان حجاج کی موت واقع ہوئی اور یہاں بھی وہ اچھی خاصی تعداد کو بیماری کے سبب مار کر آل سعود کی خدمت میں مصروف ہیں، جبکہ سانحہ منٰی اور کرین گرنے کے سبب دو سو اموات ہوئی ہیں۔
ہم بھی آل سعود کے نمک خواروں سے یہ نہیں کہیں گے کہ خاتم الانبیاء ﷺ سے ڈرو بلکہ انہی کے مسلک میں جو بات جائز ترین حلال ترین اور مقبول ترین ہے، وہی جملہ کہیں گے کہ کم از کم اللہ سے خود تو ڈرو، پوری دنیا کو اپنی تکفیری سوچ سے ڈرانے والو، تم خود تو اللہ سے ڈرو۔ کیا صرف ایک ملک ایران کے حاجی شہید ہوئے ہیں، جو پوری دنیا میں وہ ایک ملک ہی زیادہ بول رہا ہے اور سارے متاثرین کی نمائندگی کر رہا ہے۔ کراچی کی وہ معصوم کمسن بچی جس کے ماں اور باپ دونوں ہی سانحہ منٰی میں شہید ہوگئے، جب اس کے ننھے ہاتھ اللہ تبارک و تعالٰی کی بارگاہ میں بلند ہوں گے اور اس کے دل سے جو آہ نکلے گی اور لبوں پر جو نوحہ ہوگا، اس کے نتیجے میں جو کچھ ہوگا، کیا آل سعود کے ریالوں کی لالچ میں غلامی کرنے والوں نے اس کے بارے میں کچھ سوچ بچار کی ہے۔ کیا تم اللہ تعالٰی سے بھی یہی کہو گے کہ یہ سب کچھ تیرا ہی کیا دھرا ہے پروردگار، تیری قضا و قدر، جو تیری مرضی۔
ایک بات جو اب تک چھپائی جا رہی ہے، وہ یہ ہے کہ سانحہ منٰی برپا کرنے کا مقصد ایران کے حاجیوں کو اغوا کرنا تھا۔ ایک سعودی شہزادے سلطان بن خالد بن فیصل آل سعود نے امریکہ میں اپنے آقاؤں کو بریفنگ میں بتایا کہ انہوں نے یمن سے ایرانی پکڑے ہیں، یعنی اصل منصوبہ یہ تھا کہ ایران کی اہم شخصیات جو حج کرنے عربستان نبویﷺ پہنچیں تو انہیں اغوا کرکے یہ ظاہر کیا جائے کہ انہیں یمن سے پکڑا گیا ہے، لیکن ایران کی اہم شخصیات اپنے اصلی پاسپورٹ پر ہی سفر کر رہی تھیں اور لگتا ایسا ہے کہ شاید اسی سازش کو ناکام کرنے کے لئے ایرانی حکومت نے اقوام متحدہ میں بھی اس سانحے پر شکایت درج کروا دی تھی۔ ابھی تک ایران کی بعض اہم شخصیات کا اتا پتہ معلوم نہیں کہ ان پر کیا گذری۔ اللہ تعالٰی نے آل سعود کی خائن حکومت کے مکر کو ناکام بنا دیا ہے۔
آل سعود کی خائن سلطنت کے بارے میں پہلے ہی عرض کرچکا کہ اگر یہ واقعاً حجاج کرام کی خدمت کا حق ادا کر بھی دیتی، تب بھی یہ اللہ کی راہ میں جہاد و ہجرت کرنے والوں پر فضیلت نہ رکھتی، کیونکہ قرآن کی آیت یہی کہتی ہے۔ لیکن آل سعود کی خائن حکومت نے تو حجاج کی خدمت کا حق بھی ادا نہیں کیا۔ ڈھائی لاکھ روپے پاکستانی کرنسی خرچ کرکے جب کوئی پاکستان سے عربستان نبویﷺ جاتا ہے تو وہاں پر قابض آل سعود کی سلطنت اپنے ذمے صرف ٹرانسپورٹ کا ٹھیکہ رکھتی ہے، ان کا قیام و طعام حکومت پاکستان خود کرتی ہے اور اس کی ادائیگی حاجی کی ادا شدہ رقم سے کی جاتی ہے اور ٹرانسپورٹ کا خرچہ بھی اسی حاجی کی ادا شدہ رقم سے نکالا جاتا ہے۔ کسی بھی حاجی سے پوچھ لیں کہ کیا آل سعود کا انتظام اچھا ہوتا ہے؟ دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ مشرکین مکہ کے دور میں بھی حجاج کی خدمت کی جاتی تھی اور وہ یعنی مشرکین مکہ حجاج سے کھانے پینے کے پیسے نہیں لیتے تھے بلکہ حجاج اس دور میں جو خریداری کیا کرتے تھے، اسی کی برکت سے مشرکین مکہ کو بہت کچھ مل جاتا تھا، لیکن آل سعود کی خائن حکومت مشرکین مکہ سے بدتر ثابت ہوئی ہے۔
سوال یہ ہے کہ رمی جمرات کے لئے جانے اور آنے والوں کے سارے راستے کیوں نہیں کھولے گئے؟ اگر حجاج کرام نے نظم و ضبط کی خلاف ورزی کی تو سعودی اہلکار کیا سو رہے تھے، جو بروقت انہیں روک نہ سکے؟ کیا ایسا ممکن تھا یا نہیں، یعنی حجاج کرام کی منظم آمد و رفت۔ اس پہلو کا موازنہ کربلا میں حرم امام حسین ؑ کے زائرین کے لئے کئے گئے انتظامات سے کیا جاسکتا ہے۔ شب عاشور سے یوم عاشور تک لاکھوں زائرین زیارت سے مشرف ہوتے ہیں۔ یوم عاشور اور یوم اربعین حج سے تین تا چار گنا زیادہ بڑے عوامی اجتماعات ہیں۔ غالباً دنیا بھر میں عوام کا یہ اوقیانوس سب سے بڑا تصور کیا جاتا ہے۔ وہاں کیوں اس نوعیت کی قضا و قدر دیکھنے میں نہیں آتی، حالانکہ عراق کی حکومت کو کئی چیلنجز کا سامنا ہے۔ کم از کم آل سعود کی خائن سلطنت و حکومت کو ان تکفیری وہابیوں سے تو آج تک اتنے بڑے نقصانات نہیں پہنچے، جتنے عراق و شام میں پہنچائے گئے ہیں۔ دنیا کی بدترین دہشت گردی کا شکار رہنے والے عراق میں حج سے زیادہ اچھے انتظامات ہوتے ہیں۔
جس اللہ نے سورہ توبہ میں حجاج کی خدمت کرنے والوں کو اللہ کی راہ میں جہاد و ہجرت کرنے والوں سے کمتر کہا، اسی اللہ نے قرآن شریف کی سورہ بقرہ میں “فاذکرونی اذکروکم” کی آیت بھی نازل کی اور خود سورہ توبہ کی آیات میں جو کچھ کہا گیا یہ دونوں حقیقتیں ملاکر دیکھی جائیں تو معلوم ہوجائے گا کہ کربلا والوں نے امام حسین ؑ کی قیادت میں اللہ کو جس طرح یاد رکھا، آج اللہ انہیں خود سے زیادہ یاد رکھنے کا ثبوت پوری دنیا کو دے چکا ہے۔ یعنی اللہ نے اپنے پیارے بندے امام حسین ؑ کے زائرین کی تعداد حاجیوں سے زیادہ کرکے دکھا دیا کہ “فاذکرونی اذکروکم” کا مطلب کیا ہے اور سورہ توبہ کی آیات کیا کہتی ہیں۔ آل سعود کے نمک خوارو! سورہ توبہ کی آیات نمبر انیس، بیس، اکیس اور بائیس پڑھو اور سمجھو کہ یہ ناچیز کس حقیقت کی طرف متوجہ کر رہا ہے، شاید تم بھی راہ راست پر آجاؤ۔