توہین ایک انسانی کیفیت کا نام ہے، جس کا تعلق انسان کے احساس عزت سے ہے۔ جو جس قدر عزت دار ہو، اس کو ہتک عزت کا احساس اسی قدر زیادہ ہوتا ہے۔ کائنات میں رسول اکرم کے گھرانے سے بڑھ کر کوئی عزت و ناموس والا نہ تھا۔ اس خانوادے کی خواتین اپنی شرافت و پاکدامنی پر ناز کیا کرتی تھیں۔ یہ خواتین ناز کرتی تھیں کہ عرب کے شجاع، پاکدامن اور باکردار فرزند اس خانوادے سے ہیں۔ انہیں ناز تھا کہ حمزہ ان میں سے ہیں، انہیں فخر تھا کہ جعفر و عقیل اس خانوادے کے فرزند ہیں۔ انہیں ناز تھا کہ اللہ نے ہمارے خانوادے کو کار رسالت کے لئے منتخب کیا۔ یہ خواتین ناز کرتی تھیں کہ علی شیر خدا اس خانوادے کے چشم و چراغ ہیں۔ یہ بجا طور پر نازان تھیں کہ جوانان جنت کے سردار حسن و حسین علیھم السلام ان کے بھائی ہیں۔
تحریر: سید اسد عباس
انسانی معاشروں میں خواہ کسی مذہب مسلک سے ہوں، یہ روایت ہے کہ جب کسی کا عزیز چلا جائے تو افسوس کے لئے اس کے گھر جایا جاتا ہے، اظہار غم اس سے کیا جاتا ہے جو نہایت قریبی ہو۔ بھائی، بیٹا، بیٹی، ماں، باپ غرضیکہ ہر وہ عزیز جو انتہائی قریبی ہو، کو اپنے جذبات سے آگاہ کیا جاتا ہے۔ اس اظہار کا مقصد پسماندگان کی دلجوئی ہے، انہیں احساس دلانا ہے کہ آپ اس غم میں تنہا نہیں ہیں۔ یہی دستور زمانہ ہے۔ پسماندگان کے لئے جدائی کا غم تو اپنی جگہ، تاہم لوگوں کا یوں چلے آنا اور دلجوئی کرنا، وقتی طور پر ہی سہی کچھ اطمینان کا باعث ہوتا ہے۔ دکھی دل کو سکون ملتا ہے۔ اگر یہ دلجوئی نہ ہو بلکہ الٹا پسماندگان کو ستایا جائے، طعنے دیئے جائیں تو غم فرقت دوگنا ہو جاتا ہے۔ اسلام جو دین فطرت ہے، نے اس انسانی فطرت کو ملحوظ رکھتے ہوئے یتیموں کی دلجوئی پر بہت زور دیا۔ یتیم سے اظہار ہمدردی کرنے، اس کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرنے اور اسی طرح ان کے ضروریات کا خیال رکھنے کو نیکی قرار دیا۔ نبی کریم ؐ جو خود در یتیم تھے، نے فرمایا کہ جس نے یتیم کی کفالت کی یا اس کو نفقہ پہنچایا وہ اور میں جنت میں پہلو بہ پہلو ہوں گے اور پھر شہادت کی انگلی اور درمیانی انگلی کو جوڑ کر دکھایا کہ ایسے۔
آیات قرآن، احادیث رسالت مآب اور روایات معصومین علیھم السلام میں یتیموں کی سرپرستی، کفالت پر نہ صرف بے پناہ زور دیا گیا ہے بلکہ ان حضرات کی عملی سیرت میں بھی ہمیں یتیموں کی کفالت کے عملی مظاہر نظر آتے ہیں۔ امیر المومنین علی علیہ السلام نے شہادت سے قبل فرمایا: “یتیموں کے بارے میں خدا سے ڈرو، یہ نہ ہو کہ ایک روز وہ خوراک حاصل کریں اور دوسرے روز بھوکے رہیں۔” سید العارفین فرماتے ہیں کہ کہ ہر مومن و مومنہ جب بھی کسی یتیم کے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھتا ہے تو خداوند کریم اس کو یتیم کے بالوں کے برابر ثواب عطا کرتا ہے۔ سیرت آئمہ میں ہمیں ملتا ہے کہ وہ راتوں کو خوراک لے کر نکلتے اور شہر میں ایسے گھروں میں تقسیم کرتے، جن کے بارے میں انہیں معلوم ہوتا کہ ان کا کمانے والا کوئی نہیں رہا۔ اگر ان واقعات کو شمار کرنا شروع کیا جائے تو شائد کتب ناکافی ہوں، میرا مقصد یتیم کی دلجوئی کو واضح کرنا تھا۔
اسلام کی تاریخ کئی آپسی جنگی معرکوں، قضیوں سے بھری پڑی ہے۔ دو گروہوں نے جنگ لڑی، ایک فاتح ہوا اور دوسرا مغلوب، معاملہ اس سے آگے نہ بڑھتا۔ لاشیں پس مانندگان کے حوالے کر دی جاتیں کہ وہ ان کو عزت و احترام سے دفنائیں، نوحہ و گریہ کریں۔ جنگ صفین، جنگ نہروان، جنگ جمل دو مسلمان گروہوں میں لڑی جانے والی جنگیں ہیں۔ جنگ نہروان میں جب مخالف لشکر مکمل طور پر ختم ہوگیا تو امیر المومنین نے حکم دیا کہ ان کو کفن دے کر دفن کیا جائے۔ اسی طرح جمل و صفین میں مقتولین کو عزت و احترام کے ساتھ دفن کیا گیا۔ لیکن اکسٹھ ہجری خانوادہ رسالت مآب کے ساتھ جو کچھ کیا گیا، پڑھ کر عقل حیران ہوتی ہے کہ یہ کون سا اسلام تھا؟ ہمیں اکسٹھ ہجری تک کی تاریخ اسلام میں مالک بن نویرہ کے واقعے کے علاوہ کوئی ایسا واقعہ نہیں ملتا، جس میں مقتول کے خانوادے کو قید کرکے دربار تک لایا گیا ہو۔ حضرت ابو بکرؓ کے دور میں منکرین زکواۃ سے جنگ کے بعد ایک مسلمان جرنیل نے ایسا کیا، جس پر حضرت ابو بکر نے اس کی سرزنش کی۔ وہی عرب، وہی مسلمان مگر وطیرہ بالکل مختلف۔
حسین علیہ السلام اور ان کے خانوادے کے دیگر احباب نیز اصحاب کو شہید کرنے کے بعد عجیب روش اختیار کی گئی۔ شش ماہے کا قتل، لاشوں پر گھوڑے دوڑانا، اگر اسی پر اکتفا کرتے تو بھی تھا۔ حکم ہوا کہ مقتولین کے خیام کو لوٹا جائے۔ مسلمانوں نے جانتے بوجھتے ہوئے کہ ان خیام میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نواسیاں ہیں، ان پر دھاوا بولا، خیام کو آگ لگائی، جو قیمتی سامان ملا لوٹا گیا۔ حتی کہ بیبیوں کی ردائیں بھی مال غنیمت کے طور پر چھینی گئیں۔ حکم حاکم کے تحت مخدرات کو شہداء کے اجساد کے ہمراہ چھوڑنے کے بجائے رسن بستہ کرکے کوفہ کی جانب سفر کروایا گیا۔ لشکر زیاد فاتحانہ شہداء کے سروں اور قیدی خواتین کے ہمراہ کوفہ میں داخل ہوا۔ تاریخ میں کوفہ کے بازاروں اور دربار میں رسول اکرم ؐ کی بیٹیوں کے خطبوں کی صدائیں ان واقعات کی گواہ ہیں۔ لشکر زیاد کی یہ روش اسلامی اقدار سے بالکل ہٹ کر تھی، جس نے کوفہ میں بھونچال برپا کر دیا۔ خوف و دبدبہ کے تحت آئے ہوئے کوفی عوام جن کی اکثریت مسلمان اور مقام اہل بیت علیہ السلام سے واقف تھی، فرزندان رسول (ص) کے سر اور رسول زادیوں کو قیدی دیکھ کر ہوش و حواس کھو بیٹھے۔ اس قافلہ اسراء کو حاکم شام کے حکم پر دمشق کی جانب روانہ کر دیا گیا۔ کوفہ سے دمشق کا انتہائی طولانی اور کٹھن سفر سید زادیوں نے جنگی قیدیوں کی طرح کیا۔ ایک جانب اپنے پیاروں کی جدائی کا غم اور دوسری جانب امت رسول (ص) کی جانب سے اسارت و دربدر پھرائے جانے کا زخم۔
قارئین کرام! توہین ایک انسانی کیفیت کا نام ہے، جس کا تعلق انسان کے احساس عزت سے ہے۔ جو جس قدر عزت دار ہو، اس کو ہتک عزت کا احساس اسی قدر زیادہ ہوتا ہے۔ کائنات میں رسول اکرم کے گھرانے سے بڑھ کر کوئی عزت و ناموس والا نہ تھا۔ اس خانوادے کی خواتین اپنی شرافت و پاکدامنی پر ناز کیا کرتی تھیں۔ یہ خواتین ناز کرتی تھیں کہ عرب کے شجاع، پاکدامن اور باکردار فرزند اس خانوادے سے ہیں۔ انہیں ناز تھا کہ حمزہ ان میں سے ہیں، انہیں فخر تھا کہ جعفر و عقیل اس خانوادے کے فرزند ہیں۔ انہیں ناز تھا کہ اللہ نے ہمارے خانوادے کو کار رسالت کے لئے منتخب کیا۔ یہ خواتین ناز کرتی تھیں کہ علی شیر خدا اس خانوادے کے چشم و چراغ ہیں۔ یہ بجا طور پر نازان تھیں کہ جوانان جنت کے سردار حسن و حسین علیھم السلام ان کے بھائی ہیں۔ حاکم شام بھی اس عزت و شرف سے بخوبی آگاہ تھا۔ خاندانی شرافت، اسلامی اقدار، عرب روایات کو پس پشت ڈالتے ہوئے اس نے اس عزو شرف کے حامل خاندان کی بے حرمتی کا ارادہ کیا۔ کئی سو کلومیٹر کا سفر بے کجاوہ اونٹوں پر کروایا، شہر شہر جشن کی تقاریب، جن شہروں میں جشن کی تیاریاں مکمل نہ ہوتیں، وہاں قافلے کو انتظار کی زحمت اور آخر کار شام میں شاہانہ جشن کا اہتمام۔ شامی مسلمانوں میں منادی کروائی جاتی کہ باغی کا سر اور اس کا کنبہ لایا جا رہا ہے، جشن کی تیاری کرو۔ فوج کے سپاہیوں کو انعام و اکرام سے نوازا جاتا۔
شام کے عام مسلمان دیگر خطوں کے مسلمانوں کی مانند اہل بیت (ع) کی عظمت و رفعت سے آگاہ نہ تھے۔ تاریخ کہتی ہے کہ امیر المومنین کی شہادت کی خبر جب شام پہنچی اور لوگوں کو معلوم ہوا کہ علی مسجد میں قتل ہوئے تو لوگ سوال کرتے تھے کہ علی کا مسجد میں کیا کام تھا، جو وہ وہاں قتل ہوا۔ یہ ذہن کیسے تیار ہوا، اس کی بھی ایک طویل تاریخ ہے، جو تاریخ کے طالب علموں کو دعوت تحقیق دیتی ہے۔ اسی شام میں امیرالمومنین (ع) پر ہر خطبہ جمعہ میں سب و شتم کیا جاتا، جس کا حوالہ امام حسن (ع) نے اپنے صلح نامے میں بھی کیا۔ بہرحال جب علی (ع) کی بیٹیاں شام کے بازاروں میں آئیں تو وہ نبی کی بیٹیاں نہیں بلکہ اس علی (ع) کی بیٹیاں تھیں جس پر جمعہ کے خطبوں میں سب و شتم کیا جاتا تھا۔ شامی عوام نے جی بھر کر اولاد علی (ع) کو ستایا۔ کہیں پتھر برسائے، کہیں آوازے کسے، کہیں طعنے دیئے۔ یوں عز و شرف کے حامل اس خانوادے کو بے توقیر کرنے کی مذموم اور منظم کوشش کی گئی۔ سید زادیوں کا یہ قافلہ قریباً ایک سال تک زندان شام میں پابند سلاسل رہا۔ یہیں سکینہ بنت الحسین (ع) زندان میں اپنے بابا سے ملحق ہوئی۔ کوفہ سے شام کی راہ میں قافلے میں شریک بہت سے بچے اور خواتین دم توڑ گئیں۔
اس خانوادے کی ہر دور میں شہادتیں اور بھی بہت ہوئیں، جس پر تاریخ دانوں کو مقاتل الطالبین جیسی کتب تحریر کرنی پڑیں، تاہم کربلا، کوفہ اور شام، یہ وہ زخم ہیں جس نے ہر دور میں اس خانوادے کو خون رلایا ہے۔ اس خانوادے کا کوئی بھی فرد جب ان واقعات کو سنتا یا پڑھتا ہے اور حسین (ع) کے کنبے پر روا رکھے جانے والے مظالم نیز اپنے عزو شرف سے ان واقعات کا موازنہ کرتا ہے، اس کے پاس سوائے رونے کے کوئی چارہ نہیں رہتا۔ اسی لئے سید سجاد سے جب کسی نے پوچھا کہ مولا اس سارے واقعے میں کس چیز سے آپ کو سب سے زیادہ دکھ ہوا، تو مولا فرماتے ۔۔۔الشام ۔۔۔الشام۔۔۔الشام۔ زین العابدین، سید الساجدین تنہا مرد تھے جو اس واقعے میں بچ گئے۔ مخدارت کا قافلہ کربلا سے کوفہ، کوفہ سے شام آپ ہی کے ہمراہ گیا۔ سید ساجدین کا غم جنہیں نوح اہل بیت (ع) بھی کہا جاتا ہے، ناقابل بیان ہے۔ اس غم کو وہی سمجھ سکتا ہے جس نے عزو شرف کو محسوس کیا ہو۔ اس خانوادے کا ایک فرد جسے نوح زماں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا، آج بھی پردہ غیبت میں نوحہ کرتا ہے۔ آئیں نوح زماں سے توسل کریں۔
اے نوح زمان!
ہم آپ کے دکھ کو محسوس کرتے ہیں۔ آئیں ہم آپ کو پرسہ دینا چاہتے ہیں۔ ہم شائد اس تکلیف کو کم تو نہ کرسکیں، تاہم آپ کی دلجوئی کرنا چاہتے ہیں۔ ہم پر بہت گراں ہے کہ آپ تنہا ہوں اور کوئی آپ کا غمگسار نہ ہو۔
اے اللہ! ہمارے گناہوں کو معاف کر دے، ہمارے شعور کو بلند کر دے، تاکہ زمانہ سازگار ہو اور فرزند حسین (ع) ہمارے مابین آسکیں۔
اے اللہ! مقصد حسین (ع) تشنہ تکمیل ہے اور فرزند حسین (ع) کے لئے یہ بات زیادہ باعث رنج ہے کہ ان کے بابا نے جس مقصد کے لئے قربانی دی اور جس مقصد کے لئے ان کی دادی کوفہ و شام کے بازاروں میں گئی اب تک ادھورا ہے۔
اے اللہ! اس دل نازنین پر رحم فرما، تقریباً گیارہ سو سال، ہر لمحہ یاد حسین (ع)، اجڑی ہوئی قبریں، ویران گھر۔۔۔۔سب وارث کو صدائیں دیتے ہیں۔ انسانیت تشنہ ہے۔ ہم پر رحم فرما ۔۔۔ ہم تشنہ ہیں۔ اپنے ولی کو اذن ظہور دے۔ آمین