صاحبزادہ حامد رضا سنی اتحاد کونسل پاکستان کے چیئرمین ہیں، سنی اتحاد کونسل کے بانی چیئرمین صاحبزادہ فضل کریم کی وفات کے بعد کونسل نے متفقہ طور پر صاحبزادہ حامد رضا کو چیئرمین منتخب کر لیا۔ صاحبزادہ حامد رضا نے جہاں اہل سنت جماعتوں کو اتحاد کی لڑی میں پرویا، وہاں انہوں نے اہل تشیع کے ساتھ بھی اتحاد کرکے دہشت گردوں اور تکفیریوں کے بھیانک چہرے سے نقاب الٹ دی۔ صاف گوئی میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے، دہشتگردوں کیخلاف دبنگ انداز میں بات کرتے ہیں، اتحاد امت کے داعی ہیں۔ پاک فوج کی ملک اور قوم کیلئے خدمات کا برملا اعتراف کرتے ہیں

، ملکی صورتحال پر بھی گہری نگاہ رکھتے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے ملک کی مجموعی صورتحال، فوج کے ضرب عضب کی کامیابی اور حکومتی گڈگورننس سے متعلق اٹھائے گئے سوال پر ایک تفصیلی انٹرویو کیا ہے، جو پیش خدمت ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: فوج کی طرف سے بیان دیا گیا ہے کہ ضرب عضب کی کامیابی اور طویل المدتی امن کیلئے گڈگورننس ضروری ہے۔ آپ اس بیان کو کیسے دیکھ رہے ہیں۔؟
صاحبزادہ حامد رضا:
ہمارا پہلے دن سے مسلم لیگ نون کی حکومت کے حوالے سے دوٹوک موقف ہے کہ یہ عوام کو ڈیلور کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہوگئی ہے، یہ صرف نیشنل ایکشن پلان کے تناظر میں نہیں بلکہ میں اوور آل بات کر رہا ہوں۔ انہوں نے الیکشن میں کہا کہ ہم چھ ماہ میں بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم کریں گے، اب یہ چھ ماہ سے نکل کر 2018ء تک چلے گئے ہیں، اب گیس کا بحران بھی اسی طرح موجود ہے، بیروزگاری میں بھی کوئی کمی واقع نہیں ہوئی، پورے پاکستان میں بجلی پیدا کرنے والے اداروں کی نجکاری کیخلاف احتجاج کیا جا رہا ہے، ان کی ہر معاملے میں مس مینجمنٹ ہر جگہ نظر آرہی ہے، انڈیا نے جو بلٹ ٹرین بنائی ہے اور جو ہمارے ملک میں میٹروبس بنائی ہے، اس میں بھی فرق کروڑوں نہیں بلکہ اربوں روپے ہے۔ یہ سب چیزیں گڈگورننس کا پول کھول رہی ہیں، میرے خیال میں کور کمانڈرز نے دیر سے نشاندہی کی ہے، جب ہم نے ان کی گڈ گورننس کے خلاف احتجاج کیا تھا اور بےگناہوں کا قتل عام کیا گیا تھا، یہ تو اس وقت سے ان کی گڈگورننس چلی آرہی ہے۔ فوج نے دیرآید درست آید والا کام کیا ہے اور ان کو اشارہ کیا ہے، لیکن میرے خیال میں خالی اشارہ کافی نہیں یا تو ان کو راہ راست پر لے کر آئیں یا پھر اس مسئلہ کا کوئی مستقل راہ حل نکالیں۔ اس صورتحال میں پاکستان آگے نہیں چل سکتا۔

اسلام ٹائمز: فوج کے بیان پر حکومتی اور اپوزیشن کے ردعمل پر کیا کہیں گے۔؟
صاحبزادہ حامد رضا:
حکومتی ردعمل پر کیا کہہ سکتا ہوں، ان سے پوچھیں کہ یہ کہہ رہے ہیں کہ ضرب عضب کا کریڈٹ عوام کو جاتا ہے، جب ضرب عضب شروع کیا گیا تھا تو اس وقت وزیراعظم صاحب کہاں تھے۔ آپریشن کی اطلاع تو ڈی جی آئی ایس پی آر نے دی تھی، حکومت کو تیسرے روز پتہ چلا کہ کوئی ضرب عضب نامی آپریشن بھی شروع کر دیا گیا ہے۔ وزیراعظم نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں تین دن بعد اس پر بات کی، اس وقت انہیں خیال آیا جب انہیں پتہ چلا کہ پوری دنیا میں ان کی جگ ہنسائی ہو رہی ہے کہ ان سے فوج نے پوچھا تک نہیں۔ نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد فوج کی طرف سے آنے والے تحفظات بجا ہیں، کیونکہ اس نیشنل ایکشن پلان میں مدارس کیخلاف آپریشن کی بات کی گئی ہے، اس میں کالعدم تنظیموں کیخلاف کارروائی کی بات کی جاتی ہے، ان کے سپیڈی ٹرائل کی بات کی جاتی ہے، انہیں گرفتار کرکے فوجی عدالتوں میں ان کے کیسز بنانے کی بات کی جاتی ہے۔ یہ کام حکومت کبھی نہیں کرے گی، کیونکہ حکومت کے اتحادی تو خود کالعدم ہیں، یہ لشکر جھنگوی، لشکر طیبہ، سپاہ صحابہ کی اتحادی ہے، جب اس قسم کے لوگ حکومتی صفوں میں موجود ہوں گے تو نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد تو نہیں ہوگا۔ اس لئے جن مدارس کیخلاف آپریشن کیا جانا چاہیئے، دنیا جانتی ہے کہ ان کا تعلق ایک خاص مکتبہ فکر سے ہے۔ ابھی حالیہ امریکن رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سعودی عرب سمیت کچھ خلیجی ممالک کی جانب سے جنوبی پنجاب میں سالانہ دس کروڑ ڈالر وہابی اور دیوبندی مکتبہ فکر کے لوگوں کو سپورٹ کی جاتی ہے۔ اس رقم کا خاص مقصد فرقہ واریت کو فروغ دینا ہے۔ اب یہ پاکستانی دس ارب روپے بنتا ہے۔ عالمی تناظر میں دیکھیں تو نواز حکومت سعودی عرب کی اتحادی ہے، لوکل سطح پر دیکھیں تو ان کے اتحادی مولانا سمیع الحق، مولانا فضل الرحمان، ملک اسحاق اور مولانا احمد لدھیانوی ہیں۔

یہ حکومت کے اتحادی ہیں، حکومت میں حصہ دار ہیں، یہ ان کے ساتھ ملکر الیکشن لڑتے ہیں، تو پھر کیسے ممکن ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر اس کی روح کے مطابق عمل ہوگا، اس لئے حکومتی جواب میں کوئی دلیل نہیں۔ ہاں اس کا سارا کریڈٹ عوام کو جاتا ہے، تاہم عوام کے کریڈٹ کو بتلانے کا حق حکومتی ترجمان کو نہیں۔ اس لئے حکومت تو عوام کی ترجمان ہوتی ہے، تو عوام تو بارہ سال پہلے سے پیٹ رہے ہیں کہ ان دہشتگردوں کے خلاف کارروائی کرو۔ اگر کسی حکومت نے ان دہشتگردوں کیخلاف کوئی کارروائی کی ہے تو اس کا کریڈٹ پیپلزپارٹی کی حکومت کو جاتا ہے، جس نے سوات میں ان دہشتگردوں کیخلاف آپریشن کرنے کا باقاعدہ اعلان کیا۔ اس آپریشن کو سیاسی اعتبار سے پیپلزپارٹی نے خود قبول کیا اور کرنے کا آغاز کیا۔ یہ تاج پیپلزپارٹی کے سر پر بہرحال موجود ہے، گو انہوں نے کرپشن کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اس آپریشن کا بہرحال کریڈٹ میاں صاحب کو کسی صورت نہیں جاتا۔ حکومتی ترجمان نے جس گڈرگورننس کی بات کی ہے، وہ اپنا منہ بولتا ثبوت ہیں، ابھی تک جتنے پاور پلانٹس لگے ہیں، وہاں پر ان کی گڈگورننس موجود ہے، ملک کا مستقل وزیر خارجہ موجود نہیں، یہ ان کی گڈگورننس ہے، وزیراعظم امریکہ میں تشریف لے جاتے ہیں تو پورے ملک کی سبکی ہوتی ہے۔ وزیراعظم صاحب کی یادداشت اتنی ہے کہ انہیں پرچی پکڑ کر بیٹھنا پڑتا ہے، ایک وزیراعظم کی اتنی یادداشت ہے تو اسے حکومت کرنے کا کوئی حق نہیں۔ مذکورہ تمام چیزیں ظاہر کرتی ہے کہ مسلم لیگ نون کسی بھی صورت اقتدار میں آنے کی اہل نہیں۔ ہاں کے ان کے پاس پیسہ ہے، 1980ء سے اقتدار میں ہیں، بیوروکریسی ان کے ہاتھ میں ہے، ضمیر خریدنا ان کو آتا ہے، جہاں تک عوامی پارٹی کی خصوصیات کا تعلق ہے، ان میں سے کوئی بھی چیز مسلم لیگ نون میں نہیں پائی جاتی۔

اسلام ٹائمز: مسلم لیگ نون نے بلدیاتی الیکشن میں کامیابی کا سہرا اپنی پالیسز کو قرار دیا ہے۔ کیا واقعی عوام نے ان پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔؟
صاحبزادہ حامد رضا:
آپ اعتماد کی سب سے بڑی نشانی دیکھ لیں، ایک چھوٹی سی مثال فیصل آباد کی دیکھ لیں پھر فیصلہ کریں۔ فیصل آباد میں امیدوار بھی کھڑے تھے، میرے والد کے حلقہ میں انتالیس یو سیز ہیں، جن میں سے مسلم لیگ نون نے فقط سات یوسیز جیتی ہیں، باقی جو سیٹیں ہیں وہ ہم نے، پی ٹی آئی نے اور آزاد امیدواروں نے جو پینل بنایا تھا اس نے جیتی ہیں۔ باقی اگر ہم سمندری تحصیل کی بات کریں تو ستائیس میں سے چودہ سیٹیں عوامی محاذ جس میں سنی اتحاد کونسل، پی ٹی آئی اور آزاد امیدواروں پر مشتمل تھا، اس نے جیتی ہیں۔ ان کا آزاد امیدواروں کے بعد دوسرا نام آتا ہے، مسلم لیگ نون کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ نون لیگ کے ضلعی صدر میاں قاسم فاروق صاحب جو میاں فاروق کے صاحبزادہ ہیں اور سٹنگ ایم این اے ہیں، وہ الیکشن ہار گئے ہیں، یعنی مسلم لیگ نون کے ضلع کا صدر ہار گیا۔ مسلم لیگ نون کے سٹنگ ایم پی اے ملک نواز کا بھائی ملک شاہد، جو رانا ثناء اللہ گروپ کی طرف سے میئر کیلئے کھڑا ہوا تھا وہ ہار گیا۔ وفاقی وزیر مملکت عابد شیر علی کا بھائی عمران شیر علی ہار گیا، ایم پی اے فقیر حسین ڈوگر کا بیٹا ہار گیا، نون لیگی ایم این اے میاں عبدالمنان کا سگا بھانجہ الیکشن ہار گیا، ایم این اے رانا افضل ان کے دونوں کزن الیکشن ہار گئے۔ یہ ہے مسلم لیگ نون کی عوامی پذیرائی۔ اگر نون لیگ الیکشن جیت چکی ہوتی تو آزاد امیدواروں کو زبردستی اپنے ساتھ ملانے کیلئے دباو نہ ڈالا جاتا۔ حقیقت یہ ہے کہ فیصل آباد سے مسلم لیگ نون دوسرے نمبر پر رہی ہے، پہلے نمبر پر آزاد امیدوار الیکشن جیتے ہیں جبکہ یہ دوسرے نمبر یہ رہے ہیں۔ تیسرے نمبر پر ہمارا عوامی اتحاد رہا ہے۔ آپ دیکھیں کہ وزیر بلدیات خود رانا ثناءاللہ تھے، جنہوں نے کمال مہارت سے دھاندلی کرائی ہے، اپنی پسند کے آر اوز تعینات کرائے ہیں، فیصل آباد کی چند سیٹوں کو چھوڑ کر آپ دیکھیں کہ نون لیگ کے امیدواروں نے چالیس سے پچاس ووٹوں سے جیتی ہیں۔ اب ظاہر ہے کہ ریاست میں حکومت ان کی ہے، پیسہ ان کے پاس ہے، ادارے ان کے ماتحت ہیں، پوری ریاستی مشینری سے مقابلہ تو نہیں کیا جاسکتا۔ لاہور کے رزلٹ کو نکال کر اوور آل مسلم لیگ نون نے اپنا ووٹ بینک کھویا ہے، لاہور میں کسی اور نوعیت کی دھاندلی کرائی گئی ہے۔

اسلام ٹائمز: عمران خان کہتے ہیں کہ اس بار ایس ایچ اوز کا الیکشن ہوا ہے۔ کیا آپ اس سے اتفاق کرتے ہیں۔؟
صاحبزادہ حامد رضا:
میں سمجھتا ہوں کہ اس بار ایس ایچ اوز اور آر اوز کا الیکشن تھا، اس الیکشن میں انتظامی مشینری نے آر اوز کا بھرپور ساتھ دیا ہے۔ جہاں ووٹ کم تھے، وہاں پولیس نے ڈلوائے، ہمارے پاس کلپس موجود ہیں، جن میں دیکھا جاسکتا ہے کہ پولیس افسران کے ساتھ آنے والے فراد نے ٹھپے لگائے ہیں۔ پوری دنیا نے دیکھا ہے۔ فیصل آباد میں اکثر مقامات پر یہ ہوا ہے کہ جن لوگوں کو رات میں کامیاب قرار دیا گیا تھا، انہیں صبح ہرا دیا گیا، وہ ساری رات خوشی کے شادیانے بجاتے رہے، لیکن صبح ہار نے ان کا استقبال کیا، تو یہ کیا ہے۔ میں ایسے انیس امیدواروں کی نشاندہی کرسکتا ہوں، جو ٹی وی رزلٹ کے مطابق جیت چکے تھے، لیکن بعد میں انہیں ہروا دیا گیا۔ یہ بالکل، آر او ز کا، پولیس کا، بلدیات کا اور شہباز شریف کے لاڈلے رانا ثناءاللہ کا الیکشن تھا۔

اسلام ٹائمز: ایک بار پھر داعش کی پاکستان میں موجودگی کی باتیں ہو رہی ہیں، اے این پی کے سربراہ اسفند یار ولی کہتے ہیں کہ داعش پاکستان میں موجود ہے۔ کیا آپ کو بھی نظر آرہی ہے۔؟
صاحبزادہ حامد رضا:
سنی اتحاد کونسل کے بننے کی وجہ یہی تھی کہ پاکستان میں طالبانائزیشن تیزی کے ساتھ پھیل رہی تھی، میرے والد نے قومی اسمبلی کے اندر ان طالبان کیخلاف پہلی بار آواز اٹھائی، ہمارا پہلے سے مطالبہ رہا ہے کہ فوجی آپریشن ہونا چاہیئے جو ہوگیا ہے، داعش، طالبان اور لشکر جھنگوی کسی جماعت کا نہیں بلکہ ایک نظریہ کا نام ہے، جب تک آپ اس نظریہ اور فکر کو ختم نہیں کریں گے، اس وقت نئی نئی جماعتیں اور نئے نئے نام سامنے آتے رہیں گے۔ یہ لوگ کل سپاہ صحابہ تھے، آج یہ اہل سنت والجماعت بن گئے ہیں، کل لشکر جھنگوی تھے، آج داعش کے نام سے کام کر رہے ہیں۔ ممکن ہے کہ کل ایک نئی طاقت کھڑی کر دی جائے، اس لئے ضرورت اس امر کی تھی کہ فوجی آپریشن کے ساتھ سویلین اقدامات نظر آتے اور اٹھائے جاتے، تاکہ یہ نظریہ اور فکر ہی ختم کر دی جائے۔ نصاب تعلیم میں ایسی تبدیلیاں کی جاتیں کہ ہماری نئی نسل میں رواداری پروان چڑھتی، حقیقی اسلامی اور مثبت چہرہ نکل کر سامنے آتا۔ اس کے علاوہ دینی مدارس جو دہشتگردی میں ملوث ہیں، ان کیخلاف کارروائی عمل میں لائی جاتی، ان کی فنڈنگ روکی جاتی۔ انتہا پسندوں کو معاشرہ سے جدا کیا جاتا اور ان کی سرگرمیوں پر پابندی لگائی جاتی۔ اب ظاہر ہے کہ یہ سارے کام فوج نے نہیں کرنے، یہ سارے کام سول حکومت نے کرنے ہیں، جو نہیں کر رہی۔ داعش نے جب شام میں قدم رکھا تھا، ہم نے اس وقت ہی کہہ دیا تھا کہ اب یہ پاکستان میں قدم جمائے گی، کیونکہ تکفیریت کے حوالے سے افغانستان اور پاکستان قبائلی علاقوں کی پٹی بڑی زرخیز ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ناصرف افغانستان بلکہ پاکستان میں بھی داعش کا وجود بن رہا ہے، یہ بات میں نہیں کر رہا اور نہ ہی آپ کر رہے ہیں، سوشل میڈیا پر لال مسجد کے پیجز گواہ ہیں کہ جامعہ حفصہ کی طالبات نے خطوط لکھے ہیں اور ویڈیو پیغامات ارسال کئے ہیں کہ اے ابوبکر البغدادی آپ پاکستان آئیں، ہم آپ کا ساتھ دیں گے۔ اس کے بعد بھی کوئی ابہام باقی رہ جاتا ہے۔ خود آرمی چیف کا یہ بیان کہ ہم داعش کو پاکستان میں پنپنے نہیں دیں گے، یہ ظاہر کرتا ہے کہ داعش پاکستان میں پنپنے کی کوشش کر رہی ہے۔

اسلام ٹائمز: شام میں داعش کیخلاف روس کی آمد کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
صاحبزادہ حامد رضا:
میں اسے بہت ہی مثبت دیکھتا ہوں، یہ کوئی امریکہ کا ٹھیکہ تو نہیں کہ جہاں چاہیے فوجیں اتار دے اور اس ملک کو تباہ و برباد کر دے، پھر پندرہ سال بعد یہ کہہ دے کہ ہماری معلومات غلط تھیں، دیکھیں صدام حسین کی پالیسیوں سے ہم سب اختلاف کرسکتے ہیں اور تھا بھی، لیکن یہ حق امریکیوں کو نہیں دے سکتے کہ آپ ایک ملک کو تہہ بالا کرکے وہاں حکومت گرا دیں اور عراقیوں پر ظلم و جور کے بازار گرم کر دیں، عراق کو لوٹ لیا گیا ہے، ان کا تیل اور سونا تک اٹھا کر لے گئے۔ سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلئیر اب کہتا ہے کہ ہم سے غلطی ہوئی، یہ بتائیں کہ آپ تو اپنے ایک بندہ کی خاطر فوجیں اتار دیتے ہیں، بتائیں عراق میں شہید ہونے والے لاکھوں بےگناہوں کے خون کا جوابدہ کون ہے۔؟ آپ تو مہذب معاشرہ کہلاتے ہیں اور اس کے دعویدار ہیں۔ آپ نے شام کے اندر داعش کو سپورٹ کیا ہے اور وہاں اس ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، آپ نے لبنان کے اندر دھماکہ کرائے، لیبیا کو برباد کر دیا، یمن میں جنگ مسلط ہے۔ اسرائیل کے دفاع میں آپ نے مسلم امہ کو تباہ و برباد کر دیا ہے۔ آپ سے کوئی پوچھنے والا ہے، آپ کسی کو جوابدہ ہیں؟، روس نے ایک انتہائی اہم اقدام اٹھایا ہے، ولادی میر پیوٹن نے جس انداز میں روس کو کھڑا کیا ہے، وہ قابل تحسین ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ مستحکم دنیا کیلئے ایک سے زائد طاقتیں ضروری ہیں۔ روس کے مثبت اقدام سے امریکہ پیچھے ہٹے گا اور دنیا میں امن قائم ہوگا۔ ہم روس کو خوش آمدید کہتے ہیں اور اس اقدام کو سراہتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: کسی مجرم کو بھی پھانسی دی جائے تو اصولی طور پر اسکی لاش ورثاء کی دی جاتی ہے، لیکن سانحہ منیٰ کے بعد پاکستانی شہداء کے جنازے واپس منگوانے کیلئے حکومت نے کوئی کردار ادا نہیں کیا۔؟
صاحبزادہ حامد رضا:
حکومت کی ترجیح ہی نہیں عوام کی خدمت، آپ نے خود دیکھا کہ ایران کے بھی لوگ شہید ہوئے، لیکن انہوں نے تمام شہداء کی لاشیں واپس منگوائیں اور ائیرپورٹ پر جس انداز میں شہداء کو خراج تحسین پیش کیا گیا اور جس انداز میں اسٹیٹ پروٹوکول دیا گیا، اس کو دیکھ کر تو ہماری آنکھوں میں آنسو آگئے، یہ ہوتی ہیں قومیں، کیا ہمارا خون اتنا ارزاں ہے کہ انہیں واپس تک نہیں لایا گیا، کتنا اچھا ہوتا کہ ہمارا شہداء کو بھی واپس لایا جاتا اور حکومت کی جانب سے انہیں پروٹوکول دیا جاتا، وزراء سے لیکر وزیراعظم اور صدر وہاں موجود ہوتے اور خود شہداء منٰی کا ائرپورٹ پر استقبال کرتے،کیونکہ وہ مقدس فریضہ کی ادائیگی میں شہید ہوئے، ایک حکومت کی نااہلی کی وجہ سے ان کی جانیں گئیں۔ افسوس کا مقام ہے کہ سعودی حکومت نے جس انداز میں شہداء منٰی کی توہین کی اور کچرے کی طرح جس انداز میں کرینوں سے لاشیں اٹھائی جا رہی تھیں، اس دیکھ کر اور کہتے ہوئے شرم محسوس ہوتی ہے۔ یہ حکومت دراصل سعودیوں کی اتحادی ہے، اس لئے یہ ان کے آگے کچھ نہیں بول سکتی، ان سے یہ توقع کرنا کہ یہ عوام کی خدمت کریں گے، ناممکن ہے۔