
تحریر: نذر حافی
[email protected]
خاموش اکثریت اور گنگ زبانیں بڑے بڑے حادثات کو جنم دیتی ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ جب ہمارے ہاں کسی فرقے کے لوگ قتل ہوتے تھے تو عام لوگوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی تھی، ہمارے ہاں کی اکثریت تو اس بارے میں کچھ بولنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتی تھی۔ پھر یہ معمولی سی بات غیر معمولی بنتی گئی، شیعوں کی گردن پر تیز کیا گیا خنجر اہلِ سنّت والجماعت کی شہ رگ کو بھی کاٹنے لگا، امام بارگاہوں پر آزمائے گئے بم، اولیائے کرام کے مزارات کو بھی نشانہ بنانے لگے، ذاکرین کو قتل کرنے والوں نے قاری سعید چشتی جیسے قوال کو بھی موت کے گھاٹ اتارا، مسجدوں میں خودکش دھماکے کرنے والوں نے چرچ بھی اڑائے، عیسائیوں کو ستانے والوں نے اسماعیلیوں کو بھی خون میں نہلایا، عبادت گاہوں میں خودکش دھماکے کرنے والوں نے بازاروں میں بھی دھماکے کئے، گاڑیوں سے مسافروں کو اتار کر قتل کرنے والوں نے پاکستان آرمی کے جوانوں کے گلے بھی کاٹے، اہلِ تشیع کو کافر کہنے والوں نے اہلِ سنّت والجماعت کو بھی مسلمان نہیں سمجھا، پاکستان کو کافرستان اور قائدِ اعظم کو کافرِ اعظم کہنے والوں نے پاک فوج کو ناپاک فوج بھی کہا، جلسے اور جلوسوں کو حرام اور بدعت کہہ کر دہشت گردی کا نشانہ بنانے والوں نے پشاور کے آرمی پبلک سکول میں ننھے مُنھے بچوں کو بھی خون میں نہلایا اور یوں ظلم و ستم کی ایک بھیانک تاریخ رقم کرکے اہلیانِ پاکستان کو یہ پیغام دیا کہ ہم صرف شیعہ یا سنّی کے دشمن نہیں بلکہ انسانیت کے دشمن ہیں۔
انسانیت کے ان دشمنوں نے جس طرح پاکستان میں قائداعظم ریزیڈنسی پر حملہ کیا، اسی طرح افغانستان میں آثارِ قدیمہ کو مسمار کیا۔ انہوں نے بری امامؒ، حضرت داتا گنج بخش اور رحمٰن بابا جیسے مزارات سے لے کر مدینے میں جنت البقیع اور شام میں موجود صحابہ کرام ؓ کے مزارات کو بھی اپنے ظلم کا نشانہ بنایا، لیکن ہمارے ہاں کی اکثریت خاموش ہی رہی۔۔۔ ابھی چند روز پہلے انسانیت کے ان دشمنوں نے یعنی 13 نومبر 2015ء کی شام کو فرانس کے دارالحکومت پیرس اور سینٹ-ڈینس میں مرکزی یورپی وقت کے مطابق 21:16 پر تین علیحدہ علیحدہ دھماکے اور چھ جگہوں پر اجتماعی شوٹنگ کی۔ نیز اسی دوران سینٹ ڈینس کے شمالی مضافات میں فرانسیسی سٹیڈیم کے قریب تین بم دھماکے بھی کئے۔ یاد رہے کہ دھماکوں کے وقت سٹیڈیم میں فرانس اور جرمنی کے درمیان فٹبال میچ ہو رہا تھا اور میچ دیکھنے کے لئے فرانس کے صدر فرانسوا اولاند اور وزیر اعظم بھی موجود تھے۔ اسی دوران مسلح افراد نے 100 سے زائد افراد کو یرغمال بنانے کے بعد گولیاں مار کر ہلاک کر دیا۔ اب تک کی میڈیا کی اطلاعات کے مطابق “اس واردات میں کل 128 افراد ہلاک اور 250 زخمی ہوئے، زخمیوں میں سے 99 افراد شدید زخمی ہیں۔“ [1]
وحشت، دہشت اور قتل و غارت کے لحاظ سے یہ دوسری جنگ عظیم کے بعد فرانس میں پیش آنے والا سب سے زیادہ دلخراش سانحہ ہے۔ اس سانحے کی سنگینی کا اندازہ آپ اس سے کر لیں کہ 71 برس کے بعد پہلی مرتبہ فرانس کے کسی شہر میں کرفیو لگایا گیا ہے۔ اب لطف کی بات یہ ہے کہ 13 نومبر کو یہ واقعہ پیش آیا اور 14 نومبر کو داعش نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کرلی۔ جس کے بعد مغربی میڈیا نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنا شروع کر دیا ہے۔ [2]
اب آیئے تصویر کا دوسرا رخ دیکھتے ہیں:
“گذشتہ سال نومبر میں فرانس نے مقبوضہ فلسطین کو آزاد ریاست تسلیم کرنے کا فیصلہ کیا، جسے صیہونی میڈیا نے اسرائیل کی پیٹھ میں خنجر گھونپنے سے تعبیر کیا، اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے فیصلے کو فرانس کی سنگین غلطی قرار دیتے ہوئے نتائج کیلئے تیار رہنے کی بھی دھمکی دی، اسرائیلی وزیراعظم کی دھمکی کے بعد فرانس مسلسل دہشتگردی کا شکار ہے۔ اس وقت یہاں پر یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ فرانس نے ہمیشہ مسئلہ فلسطین کا حل ایک خود مختار، جمہوری ریاست قرار دیا ہے، فرانسیسی صدر فرانسواں میٹرینڈ François Mitterrand پہلے صدر تھے جنہوں نے انیس سو بیاسی میں اسرائیلی پارلیمنٹ میں فلسطین کی حمایت میں بیان دیا جبکہ فرانس ہی وہ پہلا ملک تھا، جس نے یہودی بستیوں کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا، دو ہزار آٹھ میں فرانس نے فلسطینی عوام کیلئے چار سو ملین یوروز امداد بھی دی ہے۔“ [3]
اب گذشتہ نومبر میں نیتن یاہو کی فرانس کو دھمکی، اس نومبر میں فرانس میں دہشت گردی کی وحشتناک کارروائی، پھر اس کارروائی کی ذمہ داری داعش کی طرف سے قبول کرنا اور پھر یورپی میڈیا کا اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی کرنا ۔۔۔ ان ساری چیزوں سے بخوبی پتہ چلتا ہے کہ دہشت گرد گروہ کس کے ایجنٹ ہیں! داعش والے کس کے مقاصد کی تکمیل کر رہے ہیں! سب سے بڑھ کر ہمیں اس سلسلے میں بولنا ہوگا کہ سعودی عرب اور امریکہ داعش کی پشت پناہی کرکے دنیا میں کونسا اسلام نافذ کرنا چاہتے ہیں؟ ہم فرانس میں بے گناہ انسانوں کے مارے جانے پر جہاں اہلِ فرانس کے ساتھ اظہارِ ہمدردی کرتے ہیں، وہیں پر اہلِ مغرب کو یہ پیغام بھی دیتے ہیں کہ اہلِ مشرق کے سکوت سے عبرت حاصل کریں، داعش کی پشت پر موجود امریکی و یورپی طاقتوں اور سعودی عرب جیسے ممالک کے خلاف متحد ہوکر اپنی زبان کھولیں، بصورتِ دیگر عالمِ اسلام کی طرح دہشت گردی کے بڑے بڑے واقعات کے لئے اب تیار ہوجائیں، چونکہ یورپ، امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب کا پالا ہوا ناگ اب یورپ میں بھی پھنکارنے لگا ہے۔ اگر اس ناگ سے اپنی آئندہ نسلوں، شہروں، باغات، لوک ورثے اور ممالک کو بچانا ہے تو پھر جان لیجئے کہ خاموش اکثریت اور گنگ زبانیں بڑے بڑے حادثات کو جنم دیتی ہیں۔
[1] بی بی سی، اے ایف پی، سی این این۔۔۔
[2] عالمی میڈیا
[3] استفادہ از:۔ http://www.nawaiwaqt.com.pk/national/15-Nov-2015/429727