انتفاضہ کی مانند ہر سیاسی عمل کو اپنی حرکت جاری رکھنے اور اسے نتیجہ خیز بنانے کیلئے ایک واحد اور واضح اسٹریٹجی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگرچہ بعض جہادی گروہوں جیسے حماس اور اسلامک جہاد نے اپنی اسٹریٹجی کی بنیاد مزاحمتی تحریک کو پھیلانے اور انتفاضہ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے پر استوار کر رکھی ہے اور اسلامی مزاحمت سے وابستہ ذرائع ابلاغ نے بھی یہی حکمت عملی اپنا رکھی ہے لیکن تمام جہادی گروہوں کی جانب سے واحد اور واضح اسٹریٹجی پر اتفاق رائے نہیں پایا جاتا۔ گذشتہ ایک برس کے دوران غاصب صیہونیوں نے بارہا مسجد اقصی پر حملہ کیا ہے اور فلسطینی نمازیوں سے گتھم گتھا ہوئے ہیں اور مسجد کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔ یہی امر مقبوضہ فلسطین میں فلسطینیوں کی بیداری اور انتفاضہ کے آغاز کا باعث بھی بنا ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس تیسرے انتفاضہ کے تسلسل کیلئے کیا ضروری عوامل ہیں اور اسے درپیش چیلنجز کون کون سے ہیں؟
فلسطین میں “انتفاضہ” ایسی تحریک کو کہا جاتا ہے جو عوامی ہو اور غاصب عناصر کے خلاف وسیع پیمانے پر شروع ہو جائے۔ فلسطینی گروہ اور جماعتیں بھی ایسے موقع پر عوام کا ساتھ دینے لگیں اور غاصب صیہونیوں کی سلامتی شدید خطرے میں پڑ جائے۔ اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم انتفاضہ کے دنوں میں شدید سیکورٹی، سیاسی اور اقتصادی بحران سے روبرو ہو جاتی ہے اور بین الاقوامی سطح پر بھی اس پر دباو بڑھ جاتا ہے اور وہ انتفاضہ کے خاتمے کیلئے فلسطینیوں کے بعض مطالبات ماننے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ اب تک مقبوضہ فلسطین میں ایسے دو انتفاضے وقوع پذیر ہو چکے ہیں۔ پہلا انتفاضہ 1987ء میں شروع ہوا جس میں اسرائیلی فورسز کی جانب سے بڑے پیمانے پر قتل و غارت کے نتیجے میں فلسطینیوں کی بڑی تعداد غزہ اور دیگر علاقوں میں نقل مکانی کر گئی جبکہ دوسرا انتفاضہ 2000ء میں اس وقت شروع ہوا جب سابق اسرائیلی وزیراعظم ایریل شیرون مسجد اقصی میں داخل ہو گیا۔
1987ء میں شروع ہونے والا فلسطین کا پہلا انتفاضہ جو “پتھر کا انتفاضہ” کے نام سے مشہور ہے فلسطینی معاشرے کے تمام طبقات پر مشتمل تھا اور اس انتفاضہ نے غاصب صیہونیوں کا جینا حرام کر دیا۔ غاصب اسرائیلی حکام اس قدر مشکلات کا شکار ہو گئے کہ انہوں نے صورتحال پر قابو پانے کیلئے فلسطینیوں کو صلح کی دعوت دے دی۔ اس دوران سرگرم جہادی گروہوں نے اسرائیلی دعوت کو قبول کر لیا اور 1988ء سے فلسطینی گروہوں اور اسرائیل کے درمیان مذاکرات کا آغاز ہو گیا اور 1993ء میں اوسلو معاہدے کے نتیجے میں فلسطین اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ یہاں یہ نکتہ قابل ذکر ہے کہ اس وقت بھی کئی فلسطینی گروہوں جیسے حماس، اسلامک جہاد اور آزادی فلسطین کیلئے عوامی محاذ نے اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کو ٹھکرا دیا اور غاصب صیہونی حکومت کے خلاف اپنی جدوجہد کو جاری رکھا۔
2000ء میں کیمپ ڈیوڈ دوم مذاکرات کی ناکامی، اسرائیل کی نسل پرستانہ پالیسیاں، فلسطینی شہریوں کو مغربی کنارے سے نکال باہر کرنا، یہودی بستیوں کی تعمیر میں پھیلاو، آزاد فلسطینی ریاست کے اعلان میں تاخیر اور فلسطینیوں کی تحقیر کی غرض سے ایریل شیرون کا مسجد اقصی میں داخل ہونے جیسی وجوہات کی بنا پر دوسرے انتفاضہ یا “انتفاضہ الاقصی” کا آغاز ہو گیا۔ البتہ فلسطینی عوام کی اپنے جائز حقوق کے حصول میں فلسطین اتھارٹی اور امن مذاکرات سے مایوسی اور لبنان اور فلسطین میں اسلامی مزاحمتی گروہوں کی کچھ حد تک کامیابی بھی اس انتفاضہ کے آغاز میں موثر ثابت ہوئیں۔ دوسرے انتفاضہ کے بعد اسرائیل شدید سیکورٹی بحران کا شکار ہو گیا اور فلسطینی مجاہدین کی مسلح کاروائیوں میں خاطر خواہ اضافہ ہو گیا جس کے نتیجے میں اسرائیل کی معیشت بھی شدید بحران کا شکار ہو گئی۔ اسرائیل کی تاریخ میں پہلی بار دوسرے انتفاضہ کے بعد یہودی اسرائیل کو ترک کرنا شروع ہو گئے جس کے نتیجے میں 2005ء میں غزہ کی پٹی سے تمام یہودی نقل مکانی کر کے چلے گئے۔
گذشتہ ایک برس سے غاصب صیہونی رژیم اور یہودی مکینوں کی جانب سے مسجد اقصی کو حملوں کا نشانہ بنایا جا رہا تھا اور بیت المقدس کو یہودیانے کی کوششیں ہو رہی تھیں۔ شائع ہونے والی غیر سرکاری رپورٹس کے مطابق 2014ء میں مسجد اقصی پر 8100 حملے کئے گئے۔ اس کے علاوہ اسرائیلی سیکورٹی فورسز کئی بہانوں سے فلسطینیوں پر مسجد اقصی میں آمدورفت پر پابندی عائد کرتے رہتے تھے۔ کئی بار یہودیوں کی جانب سے مسجد اقصی پر آتش گیر مادہ پھینکا گیا اور اسے نقصان پہنچایا گیا۔ آخر میں اسرائیل کا وزیر زراعت یوری ایریل جو دائیں بازو کی جماعت یہود سنٹر سے تعلق رکھتا ہے، بڑی تعداد میں یہودی مکینوں کے ساتھ مسجد اقصی میں داخل ہو گیا جس کے نتیجے میں تیسرے انتفاضے کا آغاز ہو گیا۔ تیسرے انفاضہ کے تسلسل کیلئے بعض عوامل ضروری ہیں۔
تیسرے انتفاضہ کی پیدائش میں کارفرما اہم عوامل:
1)۔ فلسطینی عوام کی بھرپور حمایت: ہر سماجی تحریک بشمول جہادی تحریک کی بقا اور تسلسل کیلئے ایک اہم بنیادی شرط عوام کی جانب سے بھرپور اور ہمہ جہت حمایت ہے۔ یہ ایسا قانون ہے جو ہر ہدف کے حصول میں جاری و ساری ہے۔ مظلوم فلسطینی عوام کی جانب سے حالیہ انتفاضہ کی بھرپور حمایت کے پیش نظر اسے ایک اہم سنگ میل قرار دیا جا سکتا ہے۔
2)۔ عوامی سطح پر بھرپور شرکت: سیاسی میدان میں انتفاضہ کی مانند ہر تحریک کی بقا اور تسلسل کی دوسری شرط عوامی حمایت کے علاوہ عوام کی بھرپور شرکت اور مجاہدانہ سرگرمیوں میں حصہ لینا ہے۔ عمومی شرکت سے مراد عام لوگوں کی اپنے سے مربوط مسائل میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا ہے۔ یہ شرکت دو انداز میں انجام پاتی ہے۔ ایک عوام کا اپنے طور پر بے ساختہ شرکت کرنا اور دوسرا منظم طریقے سے منصوبہ بندی کے تحت عوام کو سیاسی تحریک کا حصہ بنانا ہے۔ انتفاضہ کے تسلسل کیلئے دونوں قسم کی عوامی شرکت ضروری ہے۔ اس وقت بھی مقبوضہ کشمیر میں جنم لینے والی انتفاضہ میں عوام بھرپور حصہ لیتے ہوئے نظر آ رہے ہیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ خواتین، بوڑھے، بچے، جوان، تاجر، علماء، ورکرز غرض سب کے سب تحریک کا حصہ بن چکے ہیں۔
3)۔ صیہونیوں کی جانب سے شدت پسندانہ رویوں کا اظہار: گذشتہ چند برس کے دوران مختلف وجوہات جیسے مسلسل بدامنی، اقتصادی بحران کا تسلسل اور صیہونی شدت پسند گروہوں کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کے باعث اسرائیلی شہریوں اور یہودی بستیوں کے مکینوں خاص طور پر فلسطینی باشندوں کی ہمسائیگی میں رہنے والے یہودی افراد میں شدت پسندانہ رویوں میں خاطرخواہ اضافہ ہو گیا ہے۔ اس بات کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ گذشتہ چند برس کے دوران اسرائیلی معاشرے میں دائیں بازو کی شدت پسندانہ سیاسی جماعتوں کی محبوبیت میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔ یہ امر مقبوضہ فلسطین میں مسلمان اور صیہونی شہریوں کے درمیان بڑھتے ہوئے تناو اور ٹکراو کا باعث بنا ہے اور تیسرے انتفاضہ کے آغاز میں بھی اہم عامل ثابت ہوا ہے۔
4)۔ صیہونی شدت پسندانہ اقدامات میں اضافہ: حالیہ انتفاضہ کی پیدائش میں کارفرما ایک اور اہم عامل فلسطینیوں کے مقابلے میں صیہونیوں کے بے سابقہ شدت پسندانہ اقدامات ہیں۔ اگرچہ غاصب یہودی ہمیشہ سے مظلوم فلسطینیوں کے خلاف شدت پسندانہ اقدامات انجام دیتے آئے ہیں لیکن بعض اوقات ان شدت پسندانہ اقدامات میں بہت تیزی آ جاتی ہے۔ جیسا کہ ہر روز میڈیا میں دیکھنے میں آتا ہے اسرائیلی سیکورٹی فورسز نہتے فلسطینی مظاہرین کو سیدھی گولیوں کا نشانہ بناتے ہیں اور میڈیا کی آنکھوں کے سامنے ان پر بے رحمانہ طریقے سے طاقت کا استعمال کرتے ہیں۔
دوسری طرف مقبوضہ فلسطین میں آغاز ہونے والے تیسرے انتفاضہ کو کئی چیلنجز بھی درپیش ہیں جو اس کے تسلسل اور بقاء میں رکاوٹ ثابت ہو سکتے ہیں۔ انتفاضہ کے تسلسل اور بقا کیلئے ان رکاوٹوں کو بھی دور کرنے کی ضرورت ہے:
انتفاضہ کو درپیش چیلنجز:
1)۔ فلسطینی گروہوں کے اندرونی اختلافات: ایک اہم مسئلہ جو ہمیشہ سے فلسطین میں بھرپور انتفاضہ کی تشکیل میں رکاوٹ ثابت ہوا ہے وہ فلسطینی رہنماوں اور گروہوں کے درمیان پائے جانے والے آپس کے اختلافات ہیں۔ خاص طور پر یہ کہ فلسطینیوں کے اندر ایک ایسا طبقہ موجود ہے جو مغرب اور غاصب صیہونیوں کے ساتھ گہرے تعلقات ہونے کے ناطے ابتدا میں تو عوامی تحریک کا ساتھ دیتا ہے تاکہ اس طرح سے اپنے مدمقابل اسرائیلی حکام سے زیادہ سے زیادہ مراعات حاصل کر سکے اور جب اپنا مقصود پا لیتا ہے تو عوام کے درمیان تفرقہ انگیزی شروع کر دیتا ہے اور نتیجتاً عوام بھی جب اپنے رہنماوں کو اختلافات کا شکار پاتے ہیں تو مایوس ہو کر پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ لہذا انتفاضہ کی مضبوطی اور تسلسل کیلئے فلسطینی رہنماوں اور گروہوں کا آپس کا اتحاد بہت ضروری ہے۔
2)۔ واحد اور واضح اسٹریٹجی کا نہ ہونا: انتفاضہ اور اس جیسی ہر سیاسی تحریک کے باقی رہنے اور نتیجہ خیز ثابت ہونے کیلئے ایک واحد اور واضح اسٹریٹجی کا ہونا انتہائی ضروری ہے۔ اگرچہ حماس اور اسلامک جہاد جیسے بعض گروہوں نے اپنی حکمت عملی کی بنیاد اسلامی مزاحمت کی وسعت اور شدت میں اضافے اور انتفاضہ میں بھرپور شرکت پر استوار کر رکھی ہے اور اسلامی مزاحمت سے وابستہ ذرائع ابلاغ بھی اس ضمن میں کوشاں ہیں، لیکن تمام فلسطینی گروہ ایک واحد اور واضح اسٹریٹجی سے محروم ہیں۔ لہذا انتفاضہ کو زیادہ سے زیادہ موثر ثابت کرنے کیلئے ضروری ہے کہ تمام فلسطینی گروہ ایک واحد اور واضح اسٹریٹجی اپنائیں۔
3)۔ اسرائیل کے سیکورٹی و انٹیلی جنس ادارے: فلسطین کے تیسرے انتفاضہ کے مقابلے میں ایک اور بڑی رکاوٹ اور چیلنج اسرائیل کے سیکورٹی اور انٹیلی جنس ادارے ہیں۔ شاباک اور موساد نامی اسرائیلی جاسوسی ادارے ایک عرصے سے سرگرم عمل ہیں اور جاسوسی کے میدان میں ان کا گہرا تجربہ ہونے کے ساتھ ساتھ وہ انتہائی ماہر اہلکاروں کے بھی حامل ہیں۔ ان انٹیلی جنس ایجنسیز نے کئی فلسطینی رہنماوں کے ساتھ اور گروہوں میں اپنے افراد گھسا رکھے ہیں جن کے ذریعے فلسطینیوں کی جدوجہد کے خلاف رکاوٹیں پیدا کرتے رہتے ہیں۔ لہذا انتفاضہ میں شریک مجاہدین کو غاصب صیہونی حکومت کے ان ہتھکنڈوں سے ہوشیار رہنا پڑے گا۔
4)۔ بیرونی حمایت کا فقدان: عام طور پر انتفاضہ جیسی بڑی سیاسی تحریک بیرونی حمایت کے بغیر آگے نہیں بڑھتی۔ یہ حمایت سیاسی میدان میں مدد اور اسی طرح بین الاقوامی اور علاقائی اداروں کی جانب سے مالی اور فوجی امداد کے علاوہ سرگرم گروہوں کو ضروری اور اسٹریٹجک وسائل مہیا کرنے پر مشتمل ہوتی ہے۔ اگرچہ فلسطین کی انتفاضہ کو اسلامی جمہوریہ ایران اور شام جیسی بعض خودمختار حکومتوں کی حمایت حاصل ہے لیکن یہ کافی نہیں اور انتفاضہ کے موثر اور کامیاب ہونے کیلئے ضروری ہے کہ تمام اسلامی ممالک خاص طور پر سعودی عرب، مصر اور اردن جیسے عرب ممالک اس کی کھل کر حمایت کریں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ان عرب ممالک نے گذشتہ چند برس کے دوران مسئلہ فلسطین کو پس پشت ڈال رکھا ہے۔
5)۔ تکفیری دہشت گرد گروہوں کا معرض وجود میں آنا: گذشتہ چند برس سے خطے میں تکفیری دہشت گرد گروہ زور پکڑ چکے ہیں۔ یہ دہشت گرد گروہ امریکہ اور اسرائیل کے اشاروں پر چل رہے ہیں اور انہوں نے فلسطین کاز کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ یہ تکفیری دہشت گروہ اپنی طاقت اور صلاحیتوں کو اسلام کے حقیقی دشمن اسرائیل کے خلاف صرف کرنے کی بجائے عالم اسلام کو نقصان پہنچانے میں لگا رہے ہیں۔ ان گروہوں نے حتی بعض فلسطینی شہریوں کو شام اور عراق میں دہشت گردانہ کاروائیوں میں مصروف کر دیا ہے۔
نتیجہ:
فلسطینی عوام اور گروہوں کی اکثریت اپنے جائز مطالبات کے حصول اور اپنی سرزمین کو غاصب صیہونی رژیم کے پنجوں سے آزاد کروانے کیلئے تمام سیاسی اور پرامن طریقے آزمانے کے بعد اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ اس مقصد کے حصول کا واحد راستہ مسلحانہ جدوجہد اور مزاحمت ہے۔ مزاحمت کی اسٹریٹجی اپنا لینے کے بعد انہیں اپنی محدودیتوں اور توانائیوں کے پیش نظر سب سے بہتر راستہ “انتفاضہ” کے ذریعے نظر آیا ہے۔ فلسطینی عوام بھرپور انداز میں انتفاضہ کا ساتھ دے رہے ہیں لیکن ان کو بعض رکاوٹوں اور چیلنجز کا سامنا ہے۔ فلسطینی رہنماوں اور گروہوں اور اسلامی ممالک کو چاہئے کہ وہ سب مل کر ان چیلنجز کا مقابلہ کرنے کی کوشش کریں تاکہ فلسطین کی سرزمین کو غاصب صیہونیوں کے قبضے سے آزادی دلوائی جا سکے۔