پیرس میں فائرنگ اور دھماکے، 160 سے زائد افراد ہلاک، عالمی رہنماوں کیجانب سے شدید مذمت
 
 فرانس کے دارالحکومت پیرس میں متعدد دھماکوں اور فائرنگ کے پے در پے واقعات میں ہلاکتیں 160 سے تجاوز کرگئی ہیں۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق پولیس کا کہنا ہے کہ پہلا واقعہ پیرس کے مشرقی حصے میں بٹاکلان کنسرٹ ہال میں پیش آیا، جہاں حملہ آوروں نے فائرنگ کرکے متعدد افراد کو ہلاک کر دیا اور سینکٹروں فرانسیسی شہریوں کو یرغمال بنایا۔ پولیس کا کہنا تھا کہ بٹاکلان کنسرٹ ہال میں یرغمال بنائے جانے والے شہریوں کو بازیاب کرانے کے لئے پولیس کی بھاری نفری موقع پر پہنچی اور علاقے کو گھیرے میں لے لیا۔ فرانسیسی پولیس کا کہنا ہے کہ شہریوں کی بازیابی کے لئے کئے جانے والے ریسکیو آپریشن کے دوران بٹاکلان کنسرٹ ہال میں مسلح افراد نے فائرنگ کی، جس سے 100 سے زائد افراد ہلاک ہوگئے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ پولیس کی جوابی کارروائی میں 3 حملہ آور بھی ہلاک ہوئے۔ دوسری جانب پیرس کے شمالی حصے میں قائم فٹبال اسٹیڈیم کے باہر ایک خودکش بمبار نے خود کو زور دار دھماکے سے اڑا لیا، جس کے نتیجے میں کم از کم 5 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ فٹبال اسٹیڈیم کے باہر دو دھماکے سنے گئے، تاہم سکیورٹی ذرائع کے مطابق یہاں 3 بم دھماکے ہوئے، جن میں سے ایک مبینہ طور پر خودکش تھا۔ پولیس نے بتایا کہ جس وقت اسٹیڈیم کے باہر دھماکے ہوئے یہاں فرانس اور جرمنی کی فٹبال ٹیموں کے درمیان دوستانہ میچ جاری تھا، جبکہ فرانسیسی صدر فانسو اولاندے جو اسٹیڈیم میں میچ دیکھنے کے لئے موجود تھے، میچ کے اختتام اور دھماکوں سے کچھ دیر قبل ہی اسٹیڈیم سے گئے تھے۔

تیسرا حملہ پیرس کے شمالی حصے میں قائم ایک ہوٹل کے قریب ہوا۔ ذرائع کے مطابق حملے کے بعد پولیس کی بھاری نفری نے موقع پر پہنچ کر ہوٹل جانے والے تمام راستوں کو بند کرکے اطراف کے علاقوں کو گھیرے میں لے لیا۔ فرانس کے کاؤنٹر ٹیرارزم پراسیکیوٹر کا کہنا ہے کہ پیرس میں پیش آنے والے واقعات کے حوالے سے تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ سکیورٹی ذرائع نے ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ ایک سکیورٹی ذرائع کا کہنا تھا کہ میں صرف اتنا ہی بتا سکتا ہوں کہ یہ چارلی ہیبدو سے بڑا حملہ ہے۔ دیگر خبر رساں اداروں کے مطابق پیرس میں متعدد مقامات پر ہونے والے فائرنگ کے واقعات اور دھماکوں میں ہلاکتیں 160 سے تجاوز کرچکی ہیں۔ ان غیر ملکی خبر رساں اداروں کے مطابق فرانسیسی حکومت نے پیرس میں کرفیو نافذ کر دیا ہے۔ صدر فرانسو اولاندے نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے ملک کے تمام داخلی اور خارجی راستوں کو بند کرنے کا حکم دیا ہے، یہ ایمرجنسی ملک میں 70 سال بعد دوبارہ لگائی گئی ہے۔ سرکاری طور پر جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ پیرس میں مزید 1500 فوجیوں کو تعینات کر دیا گیا ہے۔ پیرس حملوں کے بعد صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے فرانس کی وزارت داخلہ کے دفتر میں ایک ہنگامی اجلاس منعقد ہوا، جس میں فرانس کے صدر، وزیراعظم اور وزیر داخلہ موجود تھے۔ سرکاری بیان کے مطابق فرانسیسی صدر نے ترکی میں ہونے والی جی 20 سربراہی کانفرنس میں اپنی شرکت کو ملتوی کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔

دوسری جانب پیرس حملوں میں ہلاک ہونے والے افراد کے لواحقین سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے امریکی صدر باراک اوباما، روس کے صدر ولادی میر پیوٹن، برطانیہ کے وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون، اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری بانکی مون سمیت دیگر ممالک کے سربراہان نے حملوں کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ مشکل کی اس گھڑی میں فرانسیسی عوام کے ساتھ کھڑے ہیں۔ پیرس حملوں میں 160 افراد کی ہلاکت کے بعد امریکی پولیس نے نیویارک شہر میں ہائی الرٹ جاری کر دیا، جبکہ بیلجیئم حکام نے اعلان کیا ہے کہ فرانس سے منسلک سرحد پر سرویلنس بڑھا دی گئی ہے۔ خیال رہے کہ رواں سال جنوری میں پیرس ہی میں شدت پسندوں کی جانب سے گستاخانہ خاکوں کی اشاعت پر چارلی ہیبڈو نامی میگزین کے دفتر اور ایک یہودی سپر مارکیٹ کو نشانہ بنایا گیا تھا، ان واقعات میں 17 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ فرانسیسی پولیس نے مذکورہ حملے کے بعد کارروائی کرتے ہوئے متعدد حملہ آوروں کو ہلاک اور گرفتار کرلیا تھا۔ ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق گذشتہ کچھ ماہ میں داعش میں شمولیت اختیار کرنے کے لئے فرانس سے 500 سے زائد افراد نے شام اور عراق کا سفر کیا ہے، جبکہ حال ہی میں ان میں سے 250 افراد فرانس واپس لوٹے ہیں اور مزید 750 افراد داعش میں شمولیت کے خواہاں ہیں۔