
راولپنڈی میں جنرل راحیل شریف کی زیرصدارت کورکمانڈر کانفرنس میں ملک کی داخلی سکیورٹی اور آپریشن ضرب عضب پر ہونیوالی پیشرفت کا جائزہ لیا گیا۔ کانفرنس کے اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ ملک میں دہشتگردی کے خاتمہ کیلئے جاری آپریشن کے نتائج حاصل کرنے اور ملک میں قیام امن کیلئے ضروری ہے کہ حکومت انتظامی امور کو بہتر کرے۔ اس موقع پر جنرل راحیل شریف نے کہا کہ قومی ایکشن پلان پر عمل درآمد سمیت دوسرے آپریشنز میں ممکنہ رکاوٹوں، فاٹا اصلاحات اور تمام جاری مشترکہ تحقیقاتی ٹیموں کے کام کو ترجیحی بنیادوں پر منطقی انجام تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے شرکاء کو یقین دلایا کہ دہشتگردی کیخلاف جاری آپریشن کو قوم کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ جنرل راحیل شریف نے ہدایت کی کہ آپریشنز کی وجہ سے عارضی طور پر نقل مکانی کرنیوالے افراد کی جلد اپنے علاقوں کو واپسی کو یقینی بنایا جائے اور متاثرہ علاقوں میں تعمیر نوء کا کام تیز کیا جائے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی زیر صدارت کورکمانڈر کانفرنس ہوئی جس میں ملک کی داخلی صورتحال کا جائزہ لینے کیساتھ ساتھ آرمی چیف کے دورہ امریکہ پر بھی غور کیا گیا۔ عسکری قیادت کا کہنا تھا کہ ان معاملات سے صرف نظر آپریشنز کے نتائج پر اثرانداز ہو سکتا ہے، جس سے آپریشنز کے مثبت اثرات متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔
عسکری قیادت کا یہ بیان اس دن آیا جس دن وزیراعظم نواز شریف بلوکی میں 1223 میگا واٹ کے بجلی کے منصوبے کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب سے خطاب میں اپنی حکومت اور بھائی کی حکومت کی تعریفوں کے پل باندھ رہے تھے۔ وزیراعظم نے دعویٰ کیا کہ موجودہ ترقیاتی منصوبوں میں شفافیت یقینی بنا کر انہوں نے پاکستان کی تاریخ میں انوکھی مثال قائم کی ہے۔ گیس سے توانائی پیدا کرنے کے منصوبوں میں شفافیت سے بچائی گئی 110 ارب روپے کی رقم سے نئے منصوبے شروع کئے جائیں گے۔ انہوں نے اپنے بھائی شہباز شریف کی کارکردگی کو سراہا جبکہ موصوف نے وزیراعظم کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کے وزیراعظم ہوتے ہوئے کسی بھی سیاستدان یا بیوروکریٹ کی جرات نہیں کہ وہ بددیانتی سے اپنی جیبیں بھر سکے۔ کورکمانڈر کانفرنس کا علامیہ ایک طرح کا انتباہ ہے۔ یہ اعلامیہ غیر معمولی حالات کا عکاس ہے۔ اعلامیہ میں عسکری قیادت کا سول انتظامیہ پر عدم اعتماد چھلکتا دکھائی دیتا ہے۔ عسکری قیادت کی جانب سے قومی ایکشن پلان کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرنے کی نشاندہی کرنا اس بات کی علامت ہے کہ دہشتگردی کے خاتمہ کیلئے سول حکومت وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ اقدامات کرنے سے قاصر رہی ہے۔ خاص طور پر کراچی آپریشن کے ضمن میں سندھ حکومت کی طرف سے حیلے بہانوں سے رینجرز کے آپریشن کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنا عسکری قیادت کو کسی طور گوارا نہیں۔ بالخصوص سندھ پولیس کی طرف سے رینجرز اہلکاروں کیخلاف اشتہاری مہم اعلیٰ عسکری قیادت کو سخت بیزاری سے دوچار کر گئی۔
سندھ حکومت کا یہ طرز عمل اس بات کا ثبوت ہے کہ وفاق اور صوبائی حکومت نیز سکیورٹی اداروں کے مابین ہم آہنگی کی کوئی نہ کوئی کڑی غائب ہے۔ جس سے باہم تعلقات میں رخنہ اندازی ہو رہی ہے۔ جس سے آپریشن کے متاثر ہونے کے خدشات واضح ہو رہے ہیں۔ دوسری طرف سے حکومت کی ہیت حاکمہ پر بھی بہت سے سوال انگشت نما ہیں۔ جن میں سے اہم ترین یہ کہ وزیراعظم کی کابینہ ہی نامکمل ہے، نہ کوئی ہمہ وقت وزیر خارجہ ہیں نہ وزیر داخلہ، نہ وزیر قانون، اتنی اہم وزارتیں کل وقتی نگرانوں کی عدم موجودگی میں مطلوبہ کارکردگی دکھانے سے عاجز ہیں۔ وزارت خارجہ کے نگران خود وزیراعظم ہیں۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کی انسانی حقوق کی نشست کیلئے انتخاب میں ناکامی کی ذمہ داری براہ راست ان پر عائد ہوتی ہے۔ خواجہ آصف کو تقرر بطور وزیر دفاع محض خانہ پری ہے۔ جبکہ پرویز رشید کی وزیرقانون کی اضافی ذمہ داریاں بھی اسی زمرے میں آتی ہیں۔ وزیردفاع کے سکیورٹی اداروں کے ساتھ اور وزیر داخلہ کیساتھ تعلقات کار درست نہیں، تو دوسری طرف ان کے وزیراعلیٰ پنجاب کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے۔ نتیجہ یہ کہ ہر طرح سے حساس ترین معاملات شخصی اناپرستی کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔
وزیراعظم کو اپنے 9 رتنوں کے درمیان توازن برقرار رکھنے میں مشکلات کا سامنا ہے جس سے براہ راست حکومتی کارکردگی متاثر ہورہی ہے۔ فوج کو اس پر تحفظات ظاہر کرنے میں تامل نہیں کرنا ہو گا تاکہ اس وقت ملک میں جاری ضرب عضب آپریشن اور نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد میں ذرہ سی غفلت بھی ہماری اب تک کی محنت پر پانی پھیر سکتی ہے۔ جس کا ملک متحمل نہیں ہو سکتا۔ عسکری قیادت کے تحفظ شاہد ہیں کہ اداروں کے درمیان ہم آہنگی اور ان کے ایک صفحے پر ہونے کے بارے میں دیا جانیوالا تاثر درست نہیں۔ وزراء کے آپسی اختلافات اور سکیورٹی اداروں سے شکررنجی کا اظہار خاص طور پر سندھ حکومت کی بیڈ کورننس سے پیدا ہونیوالے حالات جمہوری اداروں کیلئے نیک فال نہیں۔ دوسری طرف سے چیئرمین سینٹ سمیت اعلیٰ سیاسی شخصیات کی طرف سے جمہوری بچاؤ مہم کی آڑ میں حیلے بہانوں سے حساس اداروں پر جملے بازی بھی عسکری قیادت کے اضطراب کا باعث ہے۔ بے شک کہ فوج جمہوریت کے استحکام کیلئے کمیٹڈ ہے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اس کمٹمنٹ کو کمزوری پر محمول کر کے جس کے جو جی میں آئے کہتا رہے۔ قومی اداروں کا باہمی احترام سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔
تیسری بار وزیراعظم بننے والے سیاستدان نواز شریف کو اپنی حکمت عملی سے منجھا ہوا، زیرک اور تجربہ کار سیاست دان ثابت کرنے کیلئے ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے تاکہ ان کے اس دعوے کی عملی تائید سامنے آ سکے کہ وہ ایک عرصے سے کوچہ سیاست میں ہیں، اور ان کی عمر گزری ہے اسی دشت کی سیاحی میں۔ ووٹر لسٹوں سے لوگوں کے نام ایک حلقے سے دوسرے حلقے میں منتقل کرنا بلدیاتی اور ضمنی انتخابات میں مُردوں کے ووٹ بھی کاسٹ ہو جانا سنگین قسم کے مقدمات میں پولیس کی ناقص تفتیش سے مجرموں کی بریت اور ملزموں کا اپنا اثرورسوخ اور دولت کے استعمال سے گواہوں کا مقدمات کی سماعت پر اثرانداز ہونا دہشتگردی جیسے خوفناک مقدمات میں بااثر افراد کو پولیس کی طرف سے ایسا تحفظ فراہم کرنا کہ وہ باقاعدہ مقدمات کا سامنا کئے بغیر رہائی پا جائیں۔ سندر اسٹیٹ جیسے المناک حادثات کا رونما ہونا، سیاسی کارکنوں کے قتل جیسے افسوسناک واقعات پیش آنا سیاسی حکومت کی گڈ گورننس پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ بے شک نواز شریف کو سیاسی محاذ پر کسی طرف سے مزاحمت کا سامنا نہیں، قومی اسمبلی میں سپیکر کے انتخابی مرحلے میں ساری قیادت ان کیساتھ کھڑی نظر آئی مگر اس اتحاد واتفاق سے ایک دوسرے کے مفادات کا تحفظ کرنے کے بجائے ملک و قوم کو فائدہ پہنچنا چاہیے۔ سیاسی قیادت کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ یکجا ہو کرصرف جمہوریت مضبوط کرنے کی بات نہ کرے بلکہ اس کی مضبوطی سے قوم کی بھلائی کا بھی سوچے تبھی جمہوریت کے باثمر ہونے کا تاثر راسخ ہو سکتا ہے۔