ڈی جی رینجرز کی یقین دہانی کے باوجود رینجرز نے کوئی سنجیدہ کارروائی نہیں کی، علامہ مقصود ڈومکی
 
اسلام ٹائمز: سانحہ جیکب آباد کے بعد احتجاجی تحریک چلائی گئی، بتایئے گا کہ حکومتی پالیسیوں پر اس تحریک کے کیا اثرات مرتب ہوئے۔؟

علامہ مقصود علی ڈومکی:
سانحہ شکار پور کے بعد رونما ہونے والے بڑے سانحہ، سانحہ جیکب آباد پر ہم نے مسلسل حکومت کے ساتھ مذاکرات جاری رکھے، جن میں ہم نے اس بات کی نشاندہی کی کہ دہشت گردوں نے پرامن خطے کا رخ کر لیا ہے، اور شکارپور میں دہشت گردوں کے کیمپس اور اڈے قائم ہیں، یہاں انہوں نے بارود کی فیکٹریاں بنا لی ہیں، جیکب آباد، قمبر شہداد کوٹ اور لاڑکانہ میں دہشت گردوں نے اپنے اڈے قائم کر رکھے ہیں۔ ہم نے ان تمام اڈوں کی نشاندہی کی ہے، اور ساتھ ساتھ نصیر آباد ڈویژن کی سرحدی پٹی پر بھی عرصہ دراز سے دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے اور اڈے قائم ہیں۔ یہاں بالان شاہ، اوستہ محمد، درگاہ فتح پور شریف اور دیگر مختلف علاقوں میں دہشت گردوں کی سرگرمیاں دیکھنے میں آئی ہیں۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہماری مسلسل نشاندہی کے باوجود ریاستی ادارے صرف تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ دہشت گردوں کے خلاف کوئی سنجیدہ کارروائی نہیں کی گئی، جس کے نتیجے میں 8 محرم کو چھلگری کے مقام پر بم دھماکہ ہوا، جس میں دس لوگ حالت نماز میں شہید ہوئے، جن میں معصوم بچے بھی شامل تھے۔ اور اس سے اگلے دن شب عاشور کو جیکب آباد میں بھی المناک سانحہ ہوا، جس میں اب تک 29 افراد شہید ہوچکے ہیں، جن میں 19 معصوم بچے اور بچیاں شامل ہیں، یہ عزادار تھے، جنہیں بے جرم و خطا شہید کیا گیا، ان المناک سانحات کے باوجود ریاستی اداروں میں وہ سنجیدگی نظر نہیں آتی، جو ایسے سانحات کے بعد نظر آنی چاہیئے، ان کی توجہ صرف اس طرف ہے کہ کسی طرح لوگوں کے جذبات کو ٹھنڈا کیا جائے اور لوگوں کو خاموش کرایا جائے، تاکہ کوئی احتجاج نہ ہو۔ لیکن دہشت گرد کون ہیں، کہاں ہیں، ان کے خلاف کیا کارروائی ہونی چاہیئے، ان تمام معاملات کے بارے میں انہیں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ اگرچہ اس سانحہ کو دو ہفتے ہونے کو ہیں، لیکن کوئی سنجیدہ اقدام نظر نہیں آرہا۔

اسلام ٹائمز: شنید ہے کہ سانحہ جیکب آباد میں اہل سنت اور ہندو برادری کے افراد بھی شہید ہوئے، اس حوالہ سے بتائیں۔؟
علامہ مقصود علی ڈومکی: اس علاقے (جیکب آباد) میں سنی اور شیعہ کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں ہے، اہل سنت اور اہل تشیع ملکر عزاداری کرتے ہیں، غیر مسلم بھی عزاداری میں شریک ہوتے ہیں، یہاں ایک سکھ ہیں اور ذاکر اہل بیت (ع) ہیں۔ اسی طرح ہندو نذر و نیاز اور دیگر معاملات میں ساتھ ساتھ رہتے ہیں، یہاں بنیادی تفریق حسینیت اور یزیدیت کی ہے۔ حسینیوں میں شیعہ کے ساتھ ساتھ سنی اور ہندو، سکھ اور مسیحی بھی شریک ہوتے ہیں۔ اس سانحہ میں موتی رام نامی ہندو عزادار بھی شہید ہوگئے، ان کے ساتھ ساتھ اہل سنت بچے اور بوڑھے بھی شہید ہوئے ہیں۔

اسلام ٹائمز: گذشتہ دنوں ڈی جی رینجر ز سے آپکی ملاقات ہوئی، ان سانحات کے حوالہ سے کیا بات ہوئی۔؟
علامہ مقصود علی ڈومکی: ڈی جی رینجرز سے یہ ہماری دوسری ملاقات تھی، اس سے قبل سانحہ شکار پور کے بعد ہونے والے مذاکرات کے موقع پر ان سے تفصیلی ملاقات ہوئی، ہم نے ان سے مطالبہ کیا کہ ان علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف فوجی آپریشن ہونا چاہیئے۔ جس طرح پاک فوج ملک کے دیگر حصوں میں دہشت گردوں کے خلاف فوجی آپریشن کر رہی ہے، اسی طرح جیکب آباد، قمبر شہداد کوٹ، لاڑکانہ ڈویژن اور نصیر آباد ڈویژن جہاں دہشت گردوں نے اپنی پناہ گاہیں بنا رکھی ہیں، وہاں آپریش ہونا چاہیئے، ڈی جی رینجرز کا کہنا تھا کہ پاک فوج یہاں نہیں آسکتی، رینجرز یہاں آپریشن کرے گی، لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ڈی جی رینجرز کی یقین دہانی کے باوجود رینجرز نے کوئی سنجیدہ آپریشن نہیں کئے۔ روایتی انداز میں پولیس نے دو چار بندوں کو گرفتار کرکے خانہ پری کی ہے اور 80 سے زائد شہداء کی فائل کو بند کر دیا ہے۔ شکار پور کے اندر دہشت گردی کے چھ بڑے واقعات ہوچکے ہیں۔ ہمارے خیال میں یہاں پانچ سے زیادہ دہشت گردوں کا نیٹ ورک موجود ہے، جو مدارس، ٹریننگ کیمپس اور دیگر شکلوں میں کئی دیہاتوں کے اندر موجود ہیں۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اتنے بڑے سانحہ کے بعد صرف پانچ بندوں کو گرفتار کیا گیا۔ ڈی رینجرز کو بھی یہی کہا کہ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ایک دو لوگوں کو گرفتار کرنے سے دہشت گردی ختم ہو جائے گی تو یہ آپ کی خام خیالی ہے۔ ضروری ہے کہ آپ تمام دہشت گردوں کا صفایا کریں۔