1)۔ سعودی حکومت نے فوجی طاقت کے بل بوتے پر جنوبی یمن کے گذشتہ دارالحکومت “عدن” پر قابض ہونے کیلئے کئی ماہ سرتوڑ کوشش کی اور مستعفی یمنی صدر ہادی بحاح کے حامی افراد کو وہاں بٹھا کر یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ اس کی فوجی کاروائی کو یمن کے اندر بھی حمایت اور قانونی جواز حاصل ہے اور یہ کہ ہادی بحاح کی کٹھ پتلی حکومت ایک قانونی حکومت ہے جسے سب کو قبول کرنا چاہئے۔ لیکن جب عدن کا شہر شدید جھڑپوں کے بعد ہادی کے کنٹرول سے نکل گیا تو اس بندرگاہ پر القاعدہ کا قبضہ ہو گیا اور سعودی نواز وزیراعظم خالد بحاح کچھ دن بعد اس شہر سے بھاگنے پر مجبور ہو گیا۔ اس وقت عدن تین متحارب گروہوں، القاعدہ سے وابستہ انصار الشریعہ، ہادی بحاح کی ملیشیا اور جنوبی حراک کے درمیان لڑائی کا مرکز بنا ہوا ہے۔ جنوبی حراک جس نے عدن سے انصاراللہ یمن کا قبضہ چھڑوانے میں اہم کردار ادا کیا ہے سعودی عرب اور ہادی بحاح کی حامی فورسز پر یہ الزام عائد کرتے آئے ہیں کہ انہوں نے عدن میں القاعدہ کی سرگرمیوں کا زمینہ فراہم کیا ہے۔ القاعدہ سے وابستہ عناصر عدن اور مکلا پر قابض ہیں۔ سعودی عرب بھی القاعدہ سے وابستہ عناصر سے یہ شکوہ کرتا آیا ہے کہ ہم نے مکلا پر تمہارے قبضے پر خاموشی اختیار کر رکھی تھی جس کے بدلے تمہیں چاہئے تھا کہ عدن ہمارے ہاتھ میں رہنے دیتے۔
2)۔ سعودی حکومت نے عدن میں شکست کھانے کے بعد صنعا پر قابض ہونے کی کوشش کی۔ اس مقصد کیلئے سعودی عرب نے متحدہ عرب امارات اور قطر کی مدد سے مارب میں بڑے پیمانے پر فوجی سازوسامان اور مسلح آرمی بھیجی تاکہ اس طرح مشرق اور جنوب سے یمن کے دارالحکومت پر قبضہ کرنے کیلئے بڑا فوجی آپریشن انجام دے۔ لیکن ستمبر کے وسط میں انصاراللہ یمن کی جانب سے مارب میں موجود عربی ممالک کے فوجی اڈے پر ہونے والے میزائل حملے کے نتیجے میں 1 ہزار فوجی ہلاک اور زخمی ہو گئے اور سعودی محاذ میں زلزلہ برپا ہو گیا۔ متحدہ عرب امارات جس کے تقریبا 100 فوجی ہلاک ہو چکے تھے نے سعودی اتحاد کو خیرباد کہنے میں ہی اپنی عافیت جانی۔ خود سعودی عرب کے فوجیوں میں بھی شدید خوف و ہراس کی لہر دوڑ گئی اور مارب کے راستے صنعا پر قبضہ کرنے کا منصوبہ ادھورا رہ گیا۔ اس ناکامی کے بعد سعودی حکومت نے یمن کے شمالی صوبے “جوف” کے ذریعے صنعا کی طرف پیش قدمی کرنے کی کوشش کی۔ دوسری طرف آل سعود رژیم نے یمن کے مختلف قبائل کو انصاراللہ کے خلاف اپنے ساتھ ملانے کی بھرپور کوششوں کا آغاز کر دیا۔ لیکن سعودی عرب کا یہ منصوبہ بھی ناکامی کا شکار ہو گیا۔ جوف کا علاقہ صحرائی نوعیت کا ہونے اور سعودی عرب کے ساتھ طویل سرحدی لائن کے باعث صنعا کو تسخیر کرنے کا بہترین راستہ سمجھا جا رہا تھا۔
3)۔ سعودی حکام نے یمن کے دارالحکومت صنعا پر قبضے کی ناکام کوششوں کے بعد اپنی مسلح افواج اور فوجی سازوسامان کو یمن کے جنوب کی طرف منتقل کرنا شروع کر دیا تاکہ صوبہ تعز اور اس کے جزیروں پر قبضہ کر سکیں۔ آل سعود رژیم کا گمان تھا کہ چونکہ یمن کا صوبہ تعز روایتی طور پر اخوان المسلمین سے وابستہ وہابی جماعت “اصلاح” کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے لہذا وہاں سے انصاراللہ یمن کے خلاف موثر اقدامات انجام دیے جا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ آبنائے باب المندب اور اس آبنائے کے قریب واقع اسٹریٹجک اہمیت کے حامل جزیروں سے قریب ہونے کے باعث بھی تعز ایک خاص اسٹریٹجک اہمیت اختیار کر چکا تھا۔ دوسری طرف خلیج عدن اور بحیرہ احمر میں سعودی اتحادیوں کی بڑی تعداد میں جنگی کشتیاں اور فوجی سازوسامان کی موجودگی کے باعث سعودی عرب اس علاقے میں بڑا فوجی آپریشن انجام دینے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ سعودی عرب نے اس آپریشن میں سوڈان، مصر اور بعض دیگر افریقی عرب ممالک کی ایئرفورس سے بھی مدد حاصل کرنے کی کوشش کی۔ سوڈان نے سعودی عرب کو تعز پر قبضہ کرنے کیلئے 1500 فوجی دیے۔ لیکن اب تک سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کی تمامتر کوششیں بے نتیجہ ثابت ہوئی ہیں۔ انصاراللہ یمن اب تک سعودی عرب کی تین جنگی کشتیاں تباہ کر چکی ہے اور سوڈان کے بھی دسیوں فوجی مارے جا چکے ہیں۔ یہ نکتہ بھی قابل ذکر ہے کہ مصری حکام نے سعودی فرمانروا کو وعدہ دینے کے باوجود اب تک عملی طور پر کوئی مدد نہیں کی۔ انہوں نے اعلان کیا ہے کہ صوبہ تعز پر سعودی عرب کا قبضہ ہو جانے کے بعد وہ اپنی فوجیں اس علاقے میں بھیجنے کو تیار ہیں۔ صوبہ تعز میں جاری آپریشن اب تک انصاراللہ پر کوئی کاری ضرب لگانے میں ناکام رہا ہے اور سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کے فوجیوں کا مورال روز بروز گرتا جا رہا ہے۔
4)۔ اس وقت سعودی حکومت یمن میں مزید فوج بھیجنے میں مصروف ہے تاکہ 15 نومبر سے پہلے پہلے عملی میدان میں کوئی اہم کامیابی حاصل کر کے مذاکرات کی میز پر اپنی پوزیشن کو بہتر بنا سکے۔ لیکن اگر سعودی عرب اگلے چند ہفتوں کے دوران تعز پر قبضہ کرنے میں کامیاب بھی ہو جاتا ہے تو اس سے اس کی پوزیشن زیادہ مضبوط نہیں ہو گی کیونکہ انصاراللہ یمن نے بحیرہ احمر، دارالحکومت، شمالی علاقوں اور اکثر اسٹریٹجک علاقوں پر قبضہ کر رکھا ہے اور صرف تعز پر قبضہ نہ ہونے سے اسے کوئی زیادہ فرق نہیں پڑے گا۔ سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگر سوڈانی اور دیگر عرب ممالک کے فوجی تعز پر قبضہ کرنے میں سعودی عرب کا ساتھ بھی دیں تب بھی وہ زیادہ عرصے کیلئے تعز میں نہیں رہ سکتے اور جب بھی وہ تعز سے نکلیں گے انصاراللہ یمن کی فورسز دوبارہ حملہ کر کے یہ علاقہ سعودی فورسز سے واپس لے لیں گی۔ لہذا واضح ہے کہ سعودی عرب 15 نومبر تک مذاکرات میں اپنی پوزیشن کو بہتر نہیں بنا سکتا کیونکہ سعودی منصوبوں کی کامیابی کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ انصاراللہ یمن کی موافقت ہے۔ اس جنگ میں انصاراللہ اور اس کے حامیوں کا موقف انتہائی واضح ہے جو انصاراللہ کے سربراہ سید عبدالملک بدرالدین حوثی کی روز عاشور کی تقریر میں بھی واضح طور پر بیان کر دیا گیا ہے۔ انصاراللہ یمن کا موقف یہ ہے کہ مذاکرات میں صرف اور صرف یمنی گروہ شامل ہونے چاہئیں اور کسی قسم کا بیرونی دباو کا مداخلت برداشت نہیں کی جائے گی۔ یوں یمن میں سعودی عرب کی سیاسی پوزیشن بھی اس کی فوجی اور سیکورٹی پوزیشن کی طرح انتہائی متزلزل نظر آتی ہے۔
5)۔ اس وقت سعودی عرب پر یمن کی جنگ کا دباو ہر وقت سے زیادہ ہے۔ سعودی حکومت ایک طرف عوامی دباو کا شکار ہے کیونکہ سعودی عوام نے گذشتہ سو برس میں جنگ کا مشاہدہ نہیں کیا لہذا وہ یمن کے خلاف جنگ کو ایک بیہودہ جنگ قرار دیتے ہیں اور اس پر شرمساری محسوس کرتے ہیں۔ اسی طرح آل سعود خاندان کے اندر ملک سلمان کے مخالفین کو بھی موقع میسر آ گیا ہے کہ وہ ملک سلمان اور اس کے بیٹے نائب ولیعہد محمد بن سلمان کو تنقید کا نشانہ بنائیں اور ان کی پالیسیوں کو خطرناک قرار دیتے ہوئے ان کی معزولی کا مطالبہ کریں۔ دوسری طرف بین الاقوامی سطح پر بھی یہ امید ماند پڑتی جا رہی ہے کہ سعودی رژیم اور اس کے اتحاد آئندہ چند ماہ میں یمن کے مسئلے کو ایسے انداز میں حل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے جیسا کہ ان کے مغربی آقا چاہتے ہیں۔ امریکی حکام کی نظر میں بھی یمن کے خلاف سعودی جارحیت، خطے میں زیادہ اہم ایشوز کے پیچیدہ ہو جانے اور نتیجتاً مغربی طاقتوں کی مشکلات میں اضافہ ہو جانے کا باعث بنی ہے۔ مغربی حکام اور سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ سعودی عرب کا یمن میں مشغول ہو جانے اور اس کیلئے رسکی صورتحال پیدا ہو جانے کے نتیجے میں خطے میں ایران کا واحد عرب حریف گوشہ گیر ہو گیا ہے اور شام جیسے اہم ایشو میں ایران کو فائدہ پہنچ رہا ہے جبکہ مغربی حکام کی نظر میں یمن میں سابق صدر ہادی بحاح کو اقتدار میں واپس لانا تقریبا محال نظر آتا ہے کیونکہ اس کے سیاسی مخالفین اس کی ہر گز اجازت نہیں دیں گے۔ اس وقت بھی یمن میں ہادی بحاح کے مقابلے میں تین اہم طاقتیں موجود ہیں۔ انصاراللہ یمن، جنوبی حراک اور انصار الشریعہ۔ لہذا مغربی ممالک کی نظر میں یمن میں ہادی بحاح کی اقتدار میں واپسی اور سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 2216 پر عملدرآمد تقریبا ناممکن امر ہے۔
6)۔ جنگ کے میدان میں شکست نے سعودی جارح رژیم کو جنون میں مبتلا کر دیا ہے اور اس کی جانب سے ایک بڑے مجرمانہ اقدام کا امکان پایا جاتا ہے۔ لہذا عین ممکن ہے کہ سعودی رژیم بڑے پیمانے پر یمنی عوام کے خون سے ہولی کھیل کر انقلابی یمنی عوام سے انتقال لینے کی کوشش کرے۔ اس ممکنہ اقدام کو روکنے کیلئے انتہائی ہوشیاری اور موثر حکمت عملی کی ضرورت ہے اور اس بارے میں عالم اسلام پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔