مجھے نہایت افسوس ہوتا ہے جب میں ان آخری سالوں میں ماہ محرم کی عزاداری میں کچھ نامناسب کاموں کو دیکھتا ہوں جو استعمار کے ہاتھوں ہمارے سماج میں رائج کئے جا رہے ہیں۔ نئی نئی بدعتوں کو ایجاد کرتے ہیں انہیں رواج دیتے ہیں جن سے ہر دیکھنے والے کے ذہن میں سوال پیدا ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر قدیم الایام میں کچھ لوگوں کے درمیان یہ مرسوم تھا کہ ایام عزاداری میں اپنے بدن پر تالے باندھتے تھے۔ البتہ ایک مدت کے بعد علماء اور بزرگان کے منع کرنے سے یہ غلط رسم ختم ہو گئی۔ ۔۔۔ قمہ زنی بھی ایسی ہی رسم ہے۔ قمہ زنی بھی شریعت کے خلاف کاموں میں سے ہے۔۱

۱: قمہ زنی کی حقیقت

الف: جعلی ہونا

قمہ زنی ایک جعلی سنت ہے۔ ان امور میں سے ہے جو دین سے مربوط نہیں ہیں۔ اور بغیر کسی شک و شبہہ کے، خدا اس طرح کے کام انجام دینے سے راضی نہیں ہے۔ ۲

ب: بدعت ہونا

میں نے جتنا بھی غور و فکر کیا اس نتیجہ پر پہنچا کہ قمہ زنی کے مسئلہ کو جو خلاف شریعت ہے اور دین میں بدعت ہے، ممکن نہیں ہے لوگوں تک نہ پہنچاوں ۔ اس کام کو چھوڑ دیں، میں ہر گز راضی نہیں ہوں۔۳

ج: مذہب تشیع کی توہین کا سبب

میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ کس طرح سے لوگوں کا حضرت ابا عبد اللہ الحسین علیہ السلام کی نسبت محبت اور خلوص عالمی پیمانے پر غلط فیصلوں کا شکار ہو رہا ہے۔ کس طریقے سے  ولایتِ اہل بیت علیہم السلام کے عقیدہ میں ان کی روشن فکری صرف چند جاہلانہ اعمال کی وجہ سے ایسے امور پر حمل کی جا رہی ہے کہ جو مقام تشیع اور آئمہ معصومین [ع] سے کوسوں دور ہیں۔ ۔۔۔ میں دیکھ رہا ہوں کچھ ایسے اعمال جو کسی بھی عنوان سے شرعی اور دینی رنگ و بو نہیں رکھتے دشمن کے ہاتھ میں بہانہ دیتے ہیں کہ وہ ان کے ذریعے اسلام اور شیعت کو العیاذ باللہ ایک خرافات کا مذہب سمجھیں۔ ۴

د: قمہ زنی کا خرافات ہونا

یہ غلط کام ہے کہ ایک گروہ قمہ اٹھا لیتا ہے اور اسے اپنے سروں پر مارنا شروع کر دیتا ہے اور خون بہانے لگتا ہے۔ اس کام کو کرتے ہیں تاکہ کیا ملے؟ کہاں یہ کام عزاداری ہے؟ البتہ ہاتھ کو سر پر مارنا پھر عزاداری کی ایک قسم ہے۔ آپ نے بارہا دیکھا ہے وہ لوگ جن پر کوئی مصیبت پڑتی ہے وہ اپنا سر و سینہ پیٹتے ہیں۔ یہ عزاداری کی علامت ہے۔ لیکن آپ نے یہ کہاں دیکھا ہے کہ کوئی شخص اپنے کسی عزیز کے غم میں اٹھ کر تلوار اپنے سر پر مارے اور سر کو پھاڑ کر خون نکالے؟ کہاں یہ کام عزاداری ہے؟ ۵

۲: قمہ زنی کے منفی آثار

الف: شیعت کے چہرے کا مسخ ہونا۔

ایسا کام نہیں کرنا چاہیے کہ جس سے اسلامی معاشرہ اور اس سے بالاتر محبین اہلبیت علیہم السلام کہ جو امام زمانہ [ع] امام حسین بن علی [ع] اور امیر المومنین [ع] کے نام سے منسوب ہونے کا افتخار رکھتے ہیں اس کام سے مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کی نظر میں ایک بے عقل و منطق اور احمق انسان سمجھے جائیں۔ ۶

ب: شیعت کے خلاف تبلیغ میں دشمن کا سوء استفادہ ۔

میں دیکھ رہا ہوں کہ کس طرح زہراء مرضیہ [س] کے دلبند پر عزاداری شیعت کے خلاف متعصب دشمنوں کی طرف سے سوء تبلیغ کا سامان فراہم کر رہی ہے اور استعماری شیاطین کے ہاتھوں اسلام کے خلاف پروپگنڈوں کا ذریعہ بن رہی ہے۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ بعض اعمال جو بالکل دینی رنگ و بو نہیں رکھتے دشمن کے ہاتھ میں یہ بہانہ دیتے ہیں کہ وہ اسلام اور تشیع کو ایک خرافاتی مذہب کے عنوان سے پہچنوائیں اور ساتھ ہی ساتھ اسلامی جمہوریہ ایران کی نسبت اپنے بغض و نفرت کو آشکارا کریں۔ ۷

میں نے دو تین سال پہلے قمہ زنی کے بارے میں ایک بات کہی تھی الحمد للہ ہماری عزیز قوم نے اسے قبول کر لیا اور اس پر عمل پیرا ہوئے۔ حال ہی میں ایک آدمی نے مجھے ایک بات بتائی جو میرے لیے بہت تعجب آور تھی۔ آپ کے لیے بھی میں اس کو نقل کرتا ہوں۔ایک شخص جو سابقہ سوویت ممالک مخصوصا جمہوریہ آذربائجان کے شیعہ نشین علاقوں کے حالات سے واقف تھا اس نے مجھے بتایا کہ اس وقت جب کمونسٹ سابقہ سوویت آذربائجان پر حاکم تھے انہوں نے تمام اسلامی آثار کو محو کر دیا مساجد کو انباریوں می بدل دیا امام بارگاہوں کو ورزشی حال وغیرہ میں تبدیل کر دیا اسلام اور شیعت کی کوئی بھی نشانی اور علامت باقی نہیں چھوڑی۔ صرف ایک چیز کو انہوں نے نہیں چھیڑا اور اس کی اجازت دی  وہ تھی قمہ زنی۔

کمونیسٹ کے سربراہان نے اپنے ماتحت افراد کو یہ حکم دیا کہ مسلمان نماز پڑھنے کا حق نہیں رکھتے انہیں جماعت سے نماز نہ پڑھنے دیا جائے انہیں قرآن کی تلاوت نہ کرنے دیا جائے انہیں عزاداری کرنے سے روکا جائے انہیں کسی بھی دینی کام کو انجام دینے کی اجازت نہ دی جائے۔ لیکن صرف انہیں قمہ زنی کی اجازت دی جائے۔ کیوں؟ اس لیے کہ قمہ اور زنجیر مارنا ان کے لیے دین اور شیعت کے خلاف تبلیغ کرنے کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ اس بنا پر کبھی کبھی دشمن اس طریقہ سے بعض چیزوں سے سوء استفادہ کرتا ہے۔ جہاں بھی خرافات نے سر نکالا دین بدنام ہو جائے گا۔۸

ج؛ اپنے ایک عمل سے گزشتہ بزرگان کی فداکاریوں کو ضایع کرنا

ایک محب اور مخلص شیعہ کہ جو عاشور کے دن اپنے سر و سینہ پر قمہ لگا کر یا اپنے بچوں کے سروں میں زنجیر مار کر انہیں خون میں رنگین کرتا  ہے، کیا وہ راضی ہے کہ اپنے اس عمل سے اس زمانے میں جب عیب تلاش کرنے والی ہزاروں زبانیں اسلام اور شیعت کو بدنام کر رہی ہوں، ان کے لیے زمینہ فراہم کرے؟ کیا وہ راضی ہے اپنے اس عمل سے ان ہزاروں شہداء کی قربانیوں کو ضایع کرے جنہوں نے اسلام اور شیعت کے لیے اپنا خون دیا اور اسلام اور شیعت کی آبرو بچائی؟ ۹

۳: قمہ زنی کے ساتھ مقابلہ کرنے کی ضرورت

میں جانتا ہوں کہ کچھ لوگ یہ کہیں گے:” حق یہ تھا کہ فلاں کو قمہ کا مسئلہ نہیں چھیڑنا چاہیے تھا” ” آپ کو قمہ زنی سے کیا مطلب؟” کچھ کہیں گے” چھوڑو انہیں مارنے دو ہم سے کیا مطلب”۔ نہیں، نہیں ہو سکتا ہم اس غلط کام کے سامنے خاموش رہیں۔ اگر جس طریقے سے ان آخری سالوں میں قمہ زنی کی ترویج کی جا رہی ہے، امام رضوان اللہ علیہ کے زمانے میں کرتے تو قطعا آپ بھی اس مسئلہ میں سختی سے کام لیتے اور منع کرتے۔ ۱۰

الف: قمہ زنی کے عوامل کی طرف توجہ

یہ کام یقینا نادرست ہے۔ امام حسین علیہ السلام بالکل اس کام پر راضی نہیں ہیں۔ میں جانتا ہوں کہاں سے ان نئی نئی بدعتوں اور خلاف شریعت کاموں کو دین میں داخل کیا جا رہا ہے۔۱۱

ب: گزشتہ علماء کے منع نہ کرنے کی وجہ

گزشتہ علماء کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے وہ نہیں کہہ سکتے تھے: ” یہ کام غلط ہے خلاف شریعت ہے” آج اسلام کی حاکمیت کا دور ہے اسلام کی جلوہ نمائی کا دور ہے۔ ۱۲

ج: قمہ زنی کے سماجی نقصانات

گزشتہ علماء اور مراجع سے جو کچھ نقل ہوا ہے صرف اس حد تک ہے کہ اگر یہ کام قابل توجہ ضرر کا باعث نہیں ہے تو جائز ہے۔ کیا شیعت کو عالمی افکار کے سامنے ہلکا اور پست پیش کرنا قابل توجہ ضرر نہیں ہے؟ کیا خاندان اہلبیت علیہم السلام مخصوصا سید الشہداء [ع]  کی نسبت شیعوں کے عشق و محبت کو خدشہ دار کرنا اور اسے برے انداز سے پیش کرنا ضرر نہیں ہے؟ اس سے بالاتر کون سا ضرر ہے؟ ۱۳

د:عصر حاضر میں قمہ زنی کی عمومیت

اگر کوئی شخص یہ ظاہر کرے کہ وہ قمہ زنی کرنا چاہتا ہے، میں دل سے اس سے راضی نہیں ہوں۔ میں اس بات کو سچ مچ میں کہہ رہا ہوں۔ ایک زمانہ تھا کسی گوشہ و کنارے میں کچھ ٹولیاں مل جھل کر عام لوگوں کی نظروں سے دور قمہ زنی [زنجیر زنی] کیا کرتے تھےاور ان کا یہ عمل اس طریقے سے منعکس نہیں ہوتا تھا جیسا کہ آج ہوتا ہے۔ تو کوئی ان کے اس اچھے یا برے عمل سے مطلب نہیں رکھتا تھا۔ اس لیے ایک محدود دائرہ میں انجام پاتا تھا۔ لیکن اگر کچھ لوگ بڑے بڑے شہروں جیسے تہران، قم، مشہد وغیرہ کی سڑکوں پر نلکیں اور قمہ و زنجیر زنی سے ماتم کرنا شروع کر دیں یہ کام قطعا خلاف شریعت ہے۔ امام حسین علیہ السلام بالکل اس طریقہ کار سے راضی نہیں ہیں۔ ۱۴

اگر قمہ لگانا چار دیواری کے اندر ہو تو جو ضرر یہاں پر مورد نظر اور معیار ہو گا وہ صرف بدنی ضرر ہے لیکن اگر یہ کام ملاء عام میں انجام پانے لگے کیمروں اور دشمنوں کی آنکھوں کے سامنے انجام پانے لگے بلکہ خود ہمارے جوانوں کی نظروں کے سامنے انجام پائے اس وقت جو ضرر حرمت کا معیار ہو گا وہ صرف بدنی اور جسمی ضرر نہیں ہے بلکہ عظیم تبلیغی ضرر جو اسلام اور شیعت کی آبرو سے سروکار رکھتا ہے مورد توجہ قرار پائے گا۔ آج یہ ضرر بہت بڑے پیمانے پر اسلام کو پہنچ رہا ہے۔ لہذا ملاء عام میں قمہ زنی کرنا حرام اور قطعا ممنوع ہے۔ ۱۵

جب  میں نے سڑکوں پر قمہ زنی کے بارے میں گفتگو کی تھی تو چاروں طرف سے چہ مہ گوئیاں ہونے لگیں کہ یہ تو امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کے مخالفت ہے۔ نہیں، کس نے کہا یہ مخالفت ہے، یہ ہرگز عزاداری کی مخالفت نہیں ہے۔ بلکہ امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کو مجروح کرنے والوں کے ساتھ مخالفت ہے۔

ھ؛ قمہ زنی کی حرمت کے اعلان پر عکس العمل

ہماری نظر میں قمہ زنی ہمیشہ سے ایک غیر شرعی عمل تھا اور ہے۔ ہم نے یہ اعلان کر دیا اور بزرگان نے بھی ہماری حمایت کی۔ لیکن بعد میں دیکھا گیا کہ کہیں کہیں سے کچھ لوگ اس کے برخلاف عمل کرنے لگے۔ اگر قمہ زنی کوئی اشکال نہ رکھتی ہو حرام بھی نہ ہو تو واجب بھی تو نہیں ہے۔ کیوں بعض جگہوں پر اس طرح کے خرافات کو تحریک کیا جاتا ہے؟ وہ لوگ جو خرافات ترویج کرنے کا قصد نہیں رکھتے کم سے کم اس حد تک سہیم تو ہیں کہ آج کی دنیا میں، موجودہ رائج ثقافت میں عقلاء عالم یا ہمارے گھروں میں پلنے والے ہمارے نوجوانوں اور بچوں کے نزدیک ان کے اس عمل سے غلط اور نامناسبت پیغام پہنچے گا۔ یہ شریعت کی ضروریات میں سے نہیں ہے کہ ہم کہیں دنیا پسند کرے یا نہ کرے ہم اسے انجام دیں۔ یہ مشکوک فیہ [۱۶] اعمال ہیں ۱۷[کم سے کم ایسا کام انجام دیں جس سے دوسرے اسلام کے گرویدہ ہوں اسلام کے نزدیک ہوں نہ یہ کہ مسلمانوں کو یا شیعوں کو وحشی قوم دیکھ کر میلوں دور بھاگیں]۔

حوالہ جات


1- بيانات در جمع روحانيون استان «کهگيلويه و بويراحمد» در آستانه‌ ماه محرم 17/03/1373 .[ شہر کہگیلویہ و بویر احمد کے علماء کے مجمع میں خطاب میں]
 
 
2- وہی.
 
 
3-وہی  .
 
 
4- پاسخ به نامه‌ امام جمعه‌ اردبيل حجة‌الاسلام والمسلمين آقاي مروج، 27/03/1373.[ اردبیل کے امام جمعہ کے جواب میں]
 
 
5- بيانات در جمع روحانيون استان «کهگيلويه و بويراحمد» در آستانه‌ ماه محرم 17/03/1373 . .[ شہر کہگیلویہ و بویر احمد کے علماء کے مجمع میں خطاب میں]

  
6- وہی .
 
 
7- پاسخ به نامه‌ امام جمعه‌ اردبيل حجة‌الاسلام والمسلمين آقاي مروج 27/03/1373  .[ اردبیل کے امام جمعہ کے جواب میں]

8- بيانات در اجتماع بزرگ مردم در صحن امام خميني(ره) مشهد مقدس رضوي 01/01/1376 .[ مشہد میں صحن امام خمینی میں لوگوں سے خطاب کے دوران]
  
9- پاسخ رهبر معظم انقلاب به نامه‌ امام جمعه‌ اردبيل حجة‌الاسلام والمسلمين آقاي مروج 27/03/1378 .[ اردبیل کے امام جمعہ کے جواب میں]

    
10- بيانات در جمع روحانيون استان «کهگيلويه و بويراحمد» در آستانه‌ ماه محرم 17/03/1373 .[ شہر کہگیلویہ و بویر احمد کے علماء کے مجمع میں خطاب میں]

  
12- وہی  .
 
 
13- وہی .
 
 
14- پاسخ به نامه‌ امام جمعه‌ اردبيل حجة‌الاسلام والمسلمين آقاي مروج 27/03/1373 . [ اردبیل کے امام جمعہ کے جواب میں]

  
15- بيانات در جمع روحانيون استان «کهگيلويه و بويراحمد» در آستانه‌ ماه محرم 17/03/1373 .[ شہر کہگیلویہ و بویر احمد کے علماء کے مجمع میں خطاب میں]

  
16- جس میں شک کیا جا سکے .
 
 
17- بيانات در جمع روحانيون استان «کهگيلويه و بويراحمد» در آستانه‌ ماه محرم 17/03/1373 .[ شہر کہگیلویہ و بویر احمد کے علماء کے مجمع میں خطاب میں]