
تحریر: سید اسد عباس
فلسطین کے مغربی کنارے میں اسرائیلی افواج کی بربریت کے مناظر آئے روز میڈیا اور سوشل میڈیا پر دیکھتے جا سکتے ہیں، کبھی کسی نونہال کو اسرائیلی فوجی زدو کوب کر رہے ہیں، کبھی کوئی نوجوان بیچ سڑک کے زمین پر خون آلود پڑا ہے اور اس کی آہ و بکا سننے والا کوئی نہیں۔ کہیں نوجوان لڑکیوں کو گولیوں سے چھلنی کیا جا رہا ہے، کہیں بچوں کو گاڑیوں سے روندا جا رہا ہے۔ یہ مناظر دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے کہ کیسی بے وارث قوم ہے کہ جس پر ہونے والے ظلم پر کوئی آواز اٹھانے والے نہیں۔ کوئی نہیں جو ان تصاویر اور مناظر کو دیکھے اور اسرائیل کو متنبہ کرے کہ تمہارا یہ عمل انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور ننگی جارحیت ہے۔ اسرائیلی فوجی بھی پریس کے کیمروں اور رپورٹروں کے سامنے یہ سب کچھ کر رہے ہیں۔ شرم، حیا، ندامت جیسے مرگئی ہو، جیسے انہیں یقین ہو کہ ہماری اس بربریت پر دنیا کے کسی کونے سے کوئی آواز نہیں اٹھے گی۔ یہ سب مناظر آئے روز عالمی میڈیا میں آرہے ہیں اور دنیا میں ہو کا عالم ہے۔ غیرت مند مسلمان اور عرب ان بچوں کا بہتا ہوا خون، باحجاب خواتین کی توہین اور قتل کو دیکھ کر خاموش ہیں۔ کچھ بولتے ہیں تو بجائے ان مظلومین کے زخموں پر مرہم رکھنے کے ان پر نمک پاشی کرتے ہیں۔ سعودی شہزادہ طلال کہتا ہے کہ اگر فلسطین اور اسرائیل کے مابین جنگ ہوتی ہے تو میں اسرائیل کا ساتھ دوں گا۔ ان سے اور کیا توقع کی جاسکتی ہے، جبکہ یمن میں وہ خود اسرائیل کی شبیہ بنے ہوئے ہیں۔ سعودی وزیر خارجہ کہتا ہے کہ فلسطین ہماری ترجیح ہی نہیں، ہمیں تو مسئلہ شام کے حل سے غرض ہے۔
یہ امت مظلوم کس سے فریاد کرے؟ یہی خاموشی ہے جس نے اسرائیلی فوجیوں کو حوصلہ دیا کہ وہ پریس کے کیمروں کے سامنے بچوں کو گاڑیوں سے روندیں اور زخمی بچوں کو بندوقوں کے بٹ ماریں۔ اسی خاموشی نے انہیں جرات دی کہ وہ نوجوانوں کو بھرے بازاروں میں گولیاں ماریں اور پھر ان کے مرنے کا کھڑے ہو کر تماشا دیکھیں۔ احتجاج کرنے والی فلسطینی لڑکیوں کو زدو کوب کریں، حتی ان کے خون سے ہولی کھیلیں۔ عالمی اداروں پر بھی حیرت ہے۔ بان کی مون، سکیورٹی کونسل، ہیومن رائٹس کی تنظیمیں جو مغرب میں تنکا ہلے تو بلبلا اٹھتے ہیں، اس بربریت پر اس مجرمانہ انداز سے خاموش ہیں، جیسے کچھ ہو ہی نہ رہا ہو۔ داعش کا مسئلہ یقیناً اہم ہے، عالمی طاقتیں اور خطے کے ممالک اس مسئلے پر ویانا میں جمع ہیں اور شام کی صورتحال پر غور و فکر کر رہے ہیں، تاہم کوئی نہیں جو فلسطین کے مسئلے کو عالمی سطح پر اٹھائے اور اسرائیل کو لگام ڈالے۔
او آئی سی جو متعدد بار یمن اور شام کے مسائل کو زیر بحث لانے کے لئے اکٹھی ہوئی، اب اسے کچھ نظر نہیں آتا۔ اس سب کے باوجود سلام ہے ان فلسطینی بچوں پر جو حق و صداقت کا علم بلند کئے ہوئے ہیں۔ ان سے نہ برداشت ہوا کہ صہیونی فوجی اور یہودی آبادکار مسجد اقصٰی کی توہین کریں یا اس کو کوئی نقصان پہنچا سکیں۔ یہ بچے اپنی جانوں سے گزر گئے لیکن انہوں نے ظالم کی اطاعت کو قبول نہ کیا۔ حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ دنیا میں معدودے چند آوازوں کے ان کا کوئی حامی و مددگار نہیں ہے، لیکن اس کے باوجود وہ اپنے حق کے لئے میدان میں موجود ہیں۔ طرفہ تماشہ یہ کہ عباس ملائشیا بھی اسرائیل کے ان مظالم میں شریک ہے اور فلسطینی طالب علموں کو گرفتار کرنے اور انتفاضہ القدس کو کچلنے کے لئے سرگرم عمل ہے۔
دوسری جانب مسلمان عوام ہے، جو مختلف گروہوں میں تقسیم ہے اور بعض مقامات پر اپنی توانائیاں ایک دوسرے کے خلاف صرف کر رہی ہے۔ ہمیں ایک ہی سودا ہے کہ کس طرح اپنے مسلک و مکتب کا علم اونچا کیا جائے اور دوسرے کو نیچا دکھایا جائے۔ فلسطین ہی پر کیا بس ہے، ہماری اسی بے اتفاقی اور باہمی مخاصمت نے ہر جارح کو یہ حوصلہ بخشا ہے کہ وہ مستضعفین کو کچلے۔ کشمیر اور ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے مظالم ہم سے چھپے ہوئے نہیں ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں عاشور کے جلوسوں پر پابندی اور جلوس کے لئے نکلنے والے عزاداروں پر بے پناہ تشدد ملکی و عالمی میڈیا پر دکھایا گیا۔ کیا فائدہ ہمارے لاکھوں اور کروڑوں کے اجتماعات کا جب کہ یہ اجتماعات دنیا کے مظلومین جو نہایت افسوس کے ساتھ زیادہ تر مسلمان ہی ہیں، کے لئے موثر آواز نہ بلند کرسکیں۔ ان کے لئے کوئی مفید اقدام نہ کرسکیں۔ کیا فائدہ تیل کے ذخائر اور بے پناہ وسائل کا جب یہ کسی بے گناہ مسلمان کے تحفظ کے بجائے اس کے قتل کا باعث بنیں۔
ایسا بھی نہیں کہ مسلمانوں کے تمام تر گروہ جو اس وقت باہم دست و گریباں ہیں، سبھی غلط ہیں یا سبھی درست۔ ہمیں تاریخ، حقائق اور مسائل کا بہت باریک بینی سے مطالعہ کرنا ہوگا۔ ہمیں یہ مطالعہ تعصبات کی عینک اتار کر کرنا ہوگا، تاکہ ہم امت مسلمہ کو درپیش مسائل کی حقیقت تک پہنچ سکیں اور ان کے حقیقی اسباب کو دیکھ سکیں۔ عام مسلمانوں کا ایسا کرنا اور ان حقائق سے آگاہ ہونا ازحد ضروری ہے، کیونکہ وہ گروہ جو ہم میں سے غلط ہے، ہمارے تعصب پر مبنی فہم سے استفادہ کرتا ہے، وہ اس طرح اپنے حامی پیدا کرتا ہے، جو اس کے ہر اقدام کی خواہ وہ غلط ہو یا درست حمایت کرتے ہیں، یوں اس کے کھیل کو مزید تقویت ملتی ہے۔ اگر یہ غلط گروہ آگہی اور شعور کی بناء پر آشکار ہو جائے اور لوگ تعصب کے تحت اس کی حمایت ترک کر دیں تو یقیناً اسے اپنے غلط منصوبوں کو جاری رکھنے میں مشکل درپیش ہوگی اور امت کے باہمی مسائل خود بخود ختم نہ بھی ہوں کم ضرور ہو جائیں گے۔
میں نے جان بوجھ کر اشاروں میں بات کی کیونکہ سمجھدار کے لئے اشارہ کافی ہے۔ اگر کسی مسلمان کو یہ نہ سمجھ آتا ہو کہ غلط اور صحیح میں تمیز کا معیار کیا ہے تو اس کے لئے آسان حل ہے کہ وہ امت کو درپیش بڑے مسائل کو دیکھے اور پھر ان مسائل کے حوالے سے مختلف گرہوں کے عمل کا مشاہدہ کرے، یقیناً اسے اس کی منزل مل جائے گی۔ آج فلسطین اور کشمیر امت مسلمہ کو درپیش بڑے مسائل ہیں، جو تقریباً نصف صدی سے زیادہ عرصے سے تشنہ حل ہیں۔ مسائل کے حوالے سے مسلمانوں کی روش کا مشاہدہ کرکے بہت آسانی سے فیصلہ تک پہنچا جا سکتا ہے۔
امیدوار ہوں کہ خداوند کریم ہم سب کے فہم و شعور میں اضافہ فرمائے گا، تاکہ ہم غلط و صحیح میں تمیز کرسکیں اور کسی غلط روش کا حصہ نہ بنیں۔ رب کریم سے یہ بھی استدعا ہے کہ وہ ہمیں اس فہم کے بعد غلط کو غلط کہنے اور اس کے خلاف آواز بلند کرنے کی توفیق دے، تاکہ اس اندرونی ناسور کا خاتمہ ہو۔ اندرونی ناسور کا خاتمہ ہی ہمارے ان مسائل کا حل ہے، جن کا تعلق خارج سے ہے۔ وہ قوم کبھی بھی عزت سے نہیں جی سکتی، جو اندرونی طور پر کھوکھلی اور غیر مستحکم ہو۔ ہم اس وقت تک اپنے وجود کے دشمنوں اور دنیا میں ظلم روا رکھنے والوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات نہیں کرسکتے، جب تک اندرونی طور پر مستحکم اور متحد نہیں ہیں۔ خداوند کریم ہمیں ہمیشہ مظلومین کا حامی اور ناصر بنائے اور فلسطین کے غیرت مند بچوں کو حوصلہ اور ہمت دے کہ وہ اپنے حق آزادی کے لئے اپنی جدوجہد کو جاری و ساری رکھ سکیں۔ (آمین)