بلتستان میں عزاداری کی تاریخ (2)
  شمسی مہینہ اسد میں اسکردو میں خصوصی عاشورہ منایا جاتا ہے، جس میں ملک بھر سے کم و بیش ایک لاکھ سے زائد عزادار شرکت کرتے ہیں اور اس ماتمی اجتماع کو جنوبی ایشیاء کا سب سے بڑا ماتمی اجتماع قرار دیا جاتا ہے۔ بلتستان میں شروع میں آداب مجالس ایرانی طرز کے تھے، بعد میں ان میں کشمیری روایات بھی شامل ہو گئیں۔
 

رپورٹ: میثم بلتی

1948ء میں اہلیان بلتستان نے ڈوگرہ فوج سے آزادی حاصل کرلی اور بلتی شاعری کے ساتھ ساتھ رسوم و رواج نے ایک اور کروٹ لی۔ جنگ آزادی کے دوران بلتیوں کی بڑی تعداد ہندوستان کے کئی شہروں سے ہجرت کرکے بلتستان آئی۔ ان میں بعض نے اسکردو میں عَلم، تعزیے اور ذوالجناح کے ماتمی دستے نکالنے کا سلسلہ شروع کیا۔ بعض بزرگوں کے مطابق موضع سکمیدان کے سید محمد اور محمد جو ڈار و دیگر وہ ابتدائی لوگ تھے، جنہوں نے بہت چھوٹی عمر میں 1951ء، 1952ء میں اردو نوحہ خوانی شروع کی، تاہم بعض اس سے اختلاف کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یولتر کے غلام مہدی مرغوب وہ پہلے شخص تھے، جنہوں نے 1951ء میں اردو ماتم کا سلسلہ شروع کیا۔ مرغوب بلتستان میں غزل گو شاعر کی حیثیت سے مشہور ہیں، تاہم انہوں نے نوحے بھی لکھے، جن میں سے بعض کو بڑی شہرت ملی۔ بعد میں سندوس کے محمد حسین شملوی نے بھی اردو نوحہ خوانی شروع کی۔

جنگ آزادی کے بعد موضع سکمیدان سے تعلق رکھنے والے ایک شخص ذاکر علی جو ملک، جو کہ کافی عرصہ قبل اسکردو سے شملہ جا چکے تھے، واپس آئے۔ پہلے انہوں نے بری ہاتو نامی جگہ پر ایک امام بارگاہ کی بنیاد رکھی اور مجلس کا سلسلہ شروع کیا۔ بعد میں 1952ء میں انہوں نے محلہ سکمیدان میں باقاعدہ اردو نوحہ خوانی شروع کی۔ ان کی اہلیہ بھی نوحہ خواں تھیں۔ ذاکر علی جو ملک کو بلتستان میں اردو ماتمی سلسلہ اور جدید ماتمی روایات کے بانی کا درجہ حاصل ہے۔ انہوں نے دستہ آل عباء کے نام سے اردو ماتمی دستہ نکالنے کا سلسلہ شروع کیا۔ اس دور میں ان کے پڑھے ہوئے نوحے ”دین محمدی کے وارث واری ترے ہم جائیں، اولاد پیغمبر کا دشمن زمانہ سارا“ سمیت کئی دیگر نوحے بہت معروف ہوئے، جو آج تک لوگوں کو یاد ہیں۔

ان کے گھر میں یکم محرم سے عاشورا تک خواتین کی، جبکہ 14 محرم سے چہلم امام حسین (ع) تک مردانہ مجالس منعقد کی جانے لگیں، یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ عابد ملک کے دور میں مقامی شعراء نے نوحے میں نئے تجربات کئے اور آج نوحے کی شاعری کے حوالے سے بلتستان کو خاص مقام حاصل ہے۔ بعض ناقدین کے مطابق بلتستان میں اہل زبان کے پائے کے اردو نوحے تخلیق ہو رہے ہیں۔ آج اسکردو کی تمام ماتمی انجمنیں اپنی کیسٹیں اور سی ڈیز ریلیز کرتی ہیں، جن میں سال بہ سال نئے اور منفرد نوحے شامل کئے جاتے ہیں۔ عابد ملک کے بیٹے الطاف ملک ان دنوں نو عمر ہیں، لیکن اپنی خاندانی راویت کو زندہ رکھنے کے لئے دستہ آل عباء میں نوحہ خوانی کرتے ہیں۔ ذاکر علی جو مرحوم کی دونوں بیٹیاں بھی نوحہ خواں ہیں۔ ایک عرصے تک دونوں بہنیں اپنے گھر میں ہونے والی مجالس میں اردو بلتی نوحے پڑھتی تھیں اور آج ان کی دیکھا دیکھی بہت ساری خواتین اس میدان میں آگئی ہیں۔

ان کے چھوٹے فرزند عاشق ملک اسکردو میں ایک ماتمی دستہ ”دستہ حیدریہ“ میں نوحہ خوانی کرتے تھے، (جو چار سال قبل داعی اجل کو لبیک کہہ گئے)، جہاں ان کے بعض بیٹے بھی ان کے ہمراہ ہوتے ہیں۔ شمسی مہینہ “اسد” میں اسکردو میں خصوصی عاشورہ منایا جاتا ہے، جس میں ملک بھر سے کم و بیش ایک لاکھ سے زائد عزادار شرکت کرتے ہیں اور اس ماتمی اجتماع کو جنوبی ایشیاء کا سب سے بڑا ماتمی اجتماع قرار دیا جاتا ہے۔ بلتستان میں شروع میں آداب مجالس ایرانی طرز کے تھے، بعد میں ان میں کشمیری روایات بھی شامل ہو گئیں۔ بلتی مجالس کی روایات کے مطابق مجلس کے آغاز سے پہلے عزا خانے کے اوپر کی طرف ممبر کے گرد ایک دائرہ بنا کر علماء، ذاکرین اور نوحہ خوانوں کے علاوہ بزرگوں کو بٹھا دیا جاتا ہے۔ ان کے پیچھے باقی لوگ ترتیب وار بیٹھ جاتے ہیں۔ مجلس کے آغاز کے ساتھ ہی تمام شرکاء اپنی ٹوپیاں اتار دیتے ہیں۔ بعض لوگ اپنے سروں پر چادریں ڈال لیتے ہیں، جس کے بعد مرثیہ خوان (بلتی زبان میں) پہلے دو مصرے بیٹھ کر پھر کھڑے ہو کر مرثیہ کے باقی شعر مخصوص لے میں پڑھتا ہے۔

قدیم زمانہ میں یہ نوحے فارسی زبان میں تھے، بعد میں مقامی شعراء نے بلتی نوحے لکھے جبکہ کشمیری نوحے بھی پڑھے جاتے تھے۔ بعض مقامات پر آج بھی کشمیری نوحے پڑھے جاتے ہیں۔ مجلس کے اختتام پر تبرک کا اہتمام کیا جاتا ہے، جس میں عام طور پر پتلی روٹیوں (چپاتی) کے ساتھ حلوہ، گوشت اور مقامی روٹیاں کلچہ، اذق وغیرہ پیش کئے جاتے ہیں، ان کے ساتھ مقامی نمکین چائے بھی پیش کی جاتی ہے۔ نویں محرم کو حضرت عباس (ع) کی مجلس خصوصیت کے ساتھ منعقد کی جاتی ہے، اس رات مختلف امام بارگاہوں میں شب عاشور کی مجالس منعقد کی جاتی ہیں اور بعد میں ماتمی جلوس برآمد کئے جاتے ہیں اور یوں رات بھر ماتم کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ بعد میں کم و بیش تمام لوگ کالے لباس میں ملبوس ہو کر امام بارگاہوں کا رُخ کرتے ہیں، جہاں مجالس کے بعد تعزیہ، عَلم اور ذوالجناح کے جلوس نکالے جاتے ہیں، جلوس کے ہمراہ نوحہ خوانی اور سینہ زنی کرتے ہوئے سکردو شہر میں قائم شبیہ زیارت گاہ امام حسین (قتل گاہ شریف) کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔

شہر کی مختلف امام بارگاہوں سے نکلنے والے جلوس کے شرکاء نماز ظہرین کی ادائیگی کے بعد دوبارہ ماتم کا سلسلہ شروع کرتے ہیں۔ جلوس کے شرکاء قتل گاہ شریف کی زیارت کے بعد واپس اپنی اپنی امام بارگاہوں کی طرف لوٹ جاتے ہیں، جہاں مجالس شام غریباں منعقد کی جاتی ہیں۔ شام غریباں کی مجالس میں معروف بلتی شاعر بوا محب کا لکھا ہوا نوحہ ”دنیا دی کھڑم ان پا بیا چس چی بیو“ خصوصیت کے ساتھ پڑھا جاتا ہے۔ جلوس کے دوران اہل سنت مسلک سے تعلق رکھنے والے بعض لوگ راستوں میں تبرکات کا اہتمام کرتے ہیں۔ اسی سبب بلتستان کا پرامن معاشرہ پورے ملک کے لئے مثال ہے۔ بلتستان میں پورے ملک کے برعکس سال میں دو دفعہ عاشورہ منایا جاتا ہے۔ پہلا محرم میں منایا جاتا ہے جبکہ دوسرا عاشورہ شمسی حساب سے ماہ اسد میں منایا جاتا ہے۔ اس میں بعض مقامات پر دس دن جبکہ بعض مقامات پر پانچ دن کی مجالس کا اہتمام کیا جاتا ہے اور ہر سال اگست کی پہلی تاریخ یا اسی کے آس پاس عاشورہ منایا جاتا ہے۔ اس حوالے سے کہا جاتا ہے کہ واقعہ کربلا اسی موسم میں رونما ہوا تھا۔ اسد میں سکردو شہر میں 25 کے قریب ماتمی دستے برآمد ہوتے ہیں۔