دہشتگردوں کے سہولت کاروں اور کالعدم جماعتوں پر ہاتھ ڈالے بغیر دہشتگردی پر قابو نہیں پایا جاسکتا، علامہ ناصر عباس جعفری
 
علامہ ناصر عباس جعفری مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل ہیں، اپنی شجاعت، اخلاص اور بروقت فیصلہ کرنے میں ملت میں مشہور ہیں، قوم پر ہونے والے مظالم کیخلاف ہمیشہ آواز اٹھاتے ہیں اور اس بار بھی جب بولان اور جیکب آباد میں خودکش حملے ہوئے تو آپ اگلے ہی دن ان علاقوں میں پہنچے اور عزاداروں کی ڈھارس بندھائی۔ اسلام ٹائمز نے علامہ ناصر عباس سے دونوں سانحات اور ضرب عضب سے متعلق اہم انٹرویو کیا ہے، جو پیش خدمت ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: سانحہ بولان اور سانحہ جیکب آباد کا پیش آنا اور حکومت کا آپریشن ضرب عضب کی کامیابی کے دعوے کرنا، کیا کہیں گے اس پر۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: دیکھیں ضرب عضب کی کامیابی کا دارو و مدار کچھ چیزوں پر ہے، اگر وہ نہیں کریں گے تو اس طرح کے سانحات کا ہونا کوئی مشکل نہیں ہے اور دہشت گرد آرام سے ٹارگٹ بنا سکتے ہیں، دونوں سانحات میں خودکش بمبار کے استعمال ہونے کی باتیں ہو رہی ہیں، لیکن اصل بات ہے کہ ضرب عضب کو ایک سال سے زائد کا عرصہ ہوگیا ہے، پوری قوم فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پیچھے کھڑی ہے، پھر کیا وجہ ہے کہ دہشت گردی کی اتنی سنگین وارداتیں ہو رہی ہیں۔ ہم شروع دن سے کہہ رہے ہیں کہ جب تک آپ دہشت گردوں کے سہولت کاروں پر ہاتھ نہیں ڈالتے اور انہیں اپنے منطقی انجام تک نہیں پہنچاتے، اس وقت دہشتگردی کا خاتمہ ممکن نہیں، وہ مدارس جو ان کو پناہ گاہیں اور فکری بنیادیں فراہم کر رہے ہیں، انہیں بند نہیں کریں گے تو اس ملک میں امن ناممکن ہے۔ آپ دیکھیں کہ نیشنل ایکشن پلان میں واضح لکھا ہوا ہے کہ کالعدم جماعتوں کو کسی صورت کام نہیں کرنے دیا جائیگا، لیکن آپ دیکھیں کہ یکم محرم الحرام اور دس محرم الحرام کو کالعدم جماعتوں نے جلوس نکال کر بتا دیا ہے کہ وہ آزاد ہیں، جو چاہیں کرسکتے ہیں، انہیں کوئی روکنے والا نہیں، مجھے بتائیں کہ ان کالعدم جماعتوں کے جلوسوں کے وقت نیشنل ایکشن پلان کہاں گیا۔؟ اہم بات یہ ہے کہ ان نام نہاد حکمرانوں کو فقط عزاداری ہی نظر آتی ہے، انہیں یہ نظر نہیں آتا، جہاں جہاں مسلم لیگ نون کی حکومت رہی، وہاں مقررین اور ذاکرین کو گرفتار کیا گیا، عزاداری کو محدود کرنے کیلئے مختلف حربے استعمال کئے گئے، حتیٰ اس بار پیمرا کی جانب سے اندر کھاتے کیبل آپریٹرز کو کہا گیا کہ آپ مجالس اور نوحے کیبل پر نہیں چلائیں گے، میں پوچھتا ہوں کہ یہ کیا ہے۔؟ مسلم لیگ نون کی حکومت ہو یا قائم علی شاہ، ان کے کالعدم جماعتوں سے اعلانیہ تعلقات ہیں اور یہ انہیں شلٹر فراہم کرتے ہیں۔ زرداری صاحب کے وزراء کالعدم جماعتوں کے رہنماوں سے کھلے عام ملاقاتیں کرتے ہیں۔ یہ واضح کریں کہ یہ لوگ کن کے ساتھ ہیں۔؟

اسلام ٹائمز: تو کیا یہ واقعات عزاداری کیخلاف سازش ہیں۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری:
میں سمجھتا ہوں کہ جیکب آباد میں ماتمی جلوس پر حملہ کرنے سے یا بولان جیسے واقعات سے عزاداری سیدالشہداء کو روکا نہیں جاسکتا، ہم اہلبیت علیہ السلام کے ماننے والے ہیں، اسلام کے نام پر گلے کاٹنے والے اور بیگناہ عزاداران کو دہشتگردی کا نشانہ بنانے والے ملت پاکستان بالخصوص اسلام کے دشمن ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جیکب آباد کا سانحہ سندھ حکومت کی نااہلی کا نتیجہ ہے۔ آصف زرداری نے ایک ضیف العمر شخص کو اس صوبے کا وزیراعلٰی بنایا ہوا ہے، جو حکومت کرنے کا اہل نہیں ہے۔ سندھ کالعدم تکفیری جماعتوں کی آماجگاہ بنتا جا رہا ہے، ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ سندھ میں موجود مذہبی منافرت پھیلانے والے مدارس سمیت کالعدم دہشتگرد جماعتوں کے خلاف فوجی آپریشن کیا جائے، تاکہ سندھ دھرتی سے دہشتگردی کا مکمل خاتمہ کیا جاسکے۔

اسلام ٹائمز: اگر سندھ حکومت مطالبات پورے نہیں کرتی تو پھر آپکی اگلی حکمت عملی کیا ہوگی۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: ہم نے جیکب آباد میں شہداء کے سوئم کے جلسے میں حکومت سندھ کو 20 محرم الحرام تک کا الٹی میٹم دیا ہے، اگر حکومت ہمارے مطالبات تسلیم نہیں کرتی تو پھر 20 محرم الحرام کو ملک بھر میں دہشتگردی اور نااہل حکمرانوں کے خلاف سندھ کے عوام اپنے جائز مطالبات کیلئے سڑکوں پر نکل آئیں گے۔

اسلام ٹائمز: ایسے کیا اقدامات ہوں، جن سے آپ لوگ مطئمن ہوں گے۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: دیکھیں میں واضح کرچکا ہوں کہ نیشنل ایکشن پلان پر اس کی روح کے مطابق عمل کریں، کالعدم جماعتوں کو جب آپ کھلی چھوٹ دیں گے، سہولت کاروں کو سزائیں نہیں دیں گے، جب تک فکری بنیادیں فراہم کرنے اور تکفیر کے فتوے جاری کرنے والے مدارس پر ہاتھ نہیں ڈالیں گے، اس وقت یہ کام رکنے والا نہیں ہے۔ ہمیں چیزیں عملی طور پر نظر آنی چاہیئں۔ جنرل راحیل شریف سے کہتا ہوں کہ اگر آپ کی نگاہوں کے سامنے یہ ہو رہا ہے تو پھر آپ چپ کیوں ہیں؟، آرمی چیف کو چاہیئے کہ ان کالعدم جماعتوں، سہولت کاروں اور مدارس کیخلاف ایسی کارروائی کریں، جو سب کو نظر آئے اور ملک سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے دہشتگردی کا خاتمہ ہو۔ میں پوچھتا ہوں کہ کیا فقط آرمی پبلک اسکول پر حملہ کرنے والے ہی دہشتگرد ہیں؟، ہم بھی اس ملک کے باسی ہیں، ٹیکس دیتے ہیں، ہمارے آباو اجداد کی اس ملک کیلئے قربانیاں ہیں، ہمیں نظر انداز کرتے ہیں، آخر کیوں۔؟ انصاف ہوتا نظر آنا چاہیئے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر یہ لوگ سانحہ شکار پور کے ذمہ داران کو کٹہرے میں لاتے تو آج یہ سانحہ رونما نہ ہوتا، اگر ان سہولت کاروں  کو عبرت کا نشانہ بنایا جاتا تو کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ سہولت کار بنے، ہر شہر میں چھوٹے چھوٹے وزیرستان بنے ہوئے ہیں، ان کیخلاف کارروائی ہونی چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: کیا عزاداروں اور جلوس برپا کرنیوالوں کو خود سکیورٹی کا اہتمام نہیں کرنا چاہیئے۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: دیکھیں ہم لوگ خود بھی کرتے ہیں اور ہر جگہ پر آپ کو نظر بھی آتا ہے، یہ اسکاوٹس اور یہ رضا کار سکیورٹی ہی کا کام تو کرتے ہیں، لیکن جب مخالف بارود سے بھری گاڑی ہو، جدید اسلحہ ہو، اس کی پناہ گاہیں موجود ہوں اور ان پر کوئی ہاتھ تک نہ ڈالے تو اس کا مقابلے تو ریاست ہی کرسکتی ہے۔ ریاست جب تک ان عناصر کا خاتمہ نہیں کرتی، تو اس وقت دہشتگردی کا خاتمہ ناممکن ہے۔

اسلام ٹائمز: آپ حکومت سے کیا چاہتے ہیں۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: ہم چاہتے ہیں کہ ریاست کے مفادات کے محافظ بنو، چند ووٹوں کی خاطر ملک کی سلامتی کو داو پر نہ لگاو، جو فیصلے کرو، اس پر پورا اترو، ریاست ماں جیسی ہوتی ہے، اس کی نگاہ میں سب برابر ہوتے ہیں اور ظاہر ہے ریاست کو حکومتیں ہی چلاتی ہیں اور جب تک یہ مخلص نہ ہوں، اس وقت کوئی تبدیلی نہیں آسکتی۔ اگر عوام کو مجبور کیا گیا تو سب خس و خاشاک کی طرح بہہ جائیں گے۔ ان کے دہرے معیار نے عوام کو مایوس کیا ہے۔ جب عوام اپنے نمائندوں کو وطن دشمن اور قاتلوں کے ساتھ بیٹھے دیکھیں گے تو کیا سوچیں گے۔ پیپلزپارٹی جیسی جماعت بھی کالعدم جماعتوں کی محافظ بن جائے پھر کیا کہہ سکتے ہیں۔