
علامہ ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی نے اپنی تنظيمی زندگی كا آغاز 1983ء میں گورنمنٹ كالج آف كامرس سرگودھا سے كيا۔ اسوقت كامرس كالج ميں آئی ايس او كا يونٹ نہیں تها۔ انہوں نے یونٹ کی تشکیل کیلئے خود ڈویژن اور شہر کے دیگر سینیئر دوستوں کے توسط سے آرگنائزنگ کمیٹی تشکیل دی، پہلے یونٹ جنرل سیکرٹری اور پھر صدر کی حیثیت سے ذمہ داری ادا کرتے رہے۔ اسکے بعد حالیہ سرگودھا ڈویژن کے ڈویژنل مسئول کی حیثیت سے بھی ذمہ داری انجام دی۔ اس زمانے میں سرگودھا اور فیصل آباد ڈویژن اکٹھا ہوا کرتا تھا۔ وہ دور قائد شہید علامہ عارف الحسینی کی قیادت کا زمانہ تھا، آئی ایس او کا ہر کارکن انکی تحریک کا بھی رکن ہوتا تھا۔ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی تحریک، آئی ایس او اور دیگر تمام قومی نہضتوں کے روح رواں تھے اور سرگودھا کے کارکنان سے انکا قریبی تعلق تھا۔ سجاد میکن صاحب کے گھر (خمینی ہاوس ممتاز کالونی) پر انکی کارکنان سے مسلسل نشستیں ہوا کرتی تھیں۔ علامہ شفقت شیرازی 1987ء میں بی کام کرنے کے بعد تحریک اور ڈاکٹر شہید سے مربوط ہوگئے، ایک سال تک تحریک نفاذ فقہ جعفریہ ضلع سرگودھا کے جنرل سیکرٹری کی ذمہ داری ادا کی۔ قائد شہید کے آخری دو تنظیمی کنونشنز ٹنڈو تھورو حیدر آباد سندھ اور کوئٹہ میں تحریک نفاذ فقہ جعفریہ ضلع سرگودھا کی نمائندگی کی۔
شہید قائد کا آخری بیرونی دورہ شام و لبنان کا تھا، واپسی پر انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ شام و لبنان میں مسلسل رابطہ کیلئے کسی شخص کا انتخاب کیا جائے، جو کہ دینی تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ وہاں پر تحریک کی نمائندگی بھی کرے اور تحریک سے مربوط رہے۔ ڈاکٹر شہید اور علامہ افتخار نقوی جیسے قریبی ساتھیوں نے سجاد میکن صاحب کے توسط سے علامہ عارف الحسینی کی اس خواہش اور اس مسئولیت کیلئے ان کے انتخاب کا پیغام بھیجا۔ علامہ شفقت شیرازی قائد محترم کی خواہش کی تکمیل اور حکم کی تعمیل کرتے ہوئے ان کی شہادت کے دن 5 اگست 1988ء کو نمائندہ امام خمینی برای سوریہ و لبنان آیت اللہ السید احمد الفھری مرحوم کے نام اپنے قائد کا تعارفی اور تائیدی خط لے کر دمشق روانہ ہوگئے، یہ تعارفی اور تائیدی خط علامہ شہید عارف الحسینی نے اپنی شہادت سے چند روز پہلے مدرسہ جعفریہ پارا چنار میں تحریر فرما کر انہیں دیا تھا۔ علامہ شفقت شیرازی نے قائد شہید کی آخری زیارت کے شرف کے ساتھ ساتھ ان سے دعائیں، راہنمائی اور نصیحتیں بھی حاصل کی تھیں۔ علامہ شفقت شیرازی نے تعلیمی، تدریسی و تبلیغی عمل کے ساتھ ساتھ سوریہ و لبنان میں تحریک جعفریہ اور بعد میں شوریٰ کی نمائندگی کے فرائض سرانجام دیئے۔ مجلس وحدت مسلمین کے بعض تاسیسی اجلاسوں میں بھی شرکت کی اور 2010ء سے اب تک ایم ڈبلیو ایم پاکستان کے مرکزی سیکرٹری امور خارجہ کی چیثیت سے ذمہ داری انجام دے رہے ہیں۔
چونکہ وہ ایک لمبا عرصہ تک وطن عزیز پاکستان سے باہر دینی علوم کے حصول میں مشغول رہے، لہذا اس عرصہ میں پاکستان کے تنظیمی حلقوں میں ان کی حاضری اور فعالیت نسبتاً کم رہی۔ نئی جنریشن اور مذہبی و تنظیمی حلقوں میں تازہ فعال افراد کیلئے وہ قومی و مذہبی حلقے میں ایک نئے انٹری سمجھے جاتے ہیں۔ اسلام ٹائمز کو مسلسل ایسے فیڈ بیک موصول ہو رہے تھے، جن میں مذکورہ بالا افراد علامہ ڈاکٹر شفقت حسین شیرازی کے ماضی، ان کے اکیڈمیک اور حوزوی کیرئیر کے بارے میں تفصیل سے جاننا چاہتے تھے۔ اسلام ٹائمز نے انہی قارئین محترم کی فرمائش کو مدںظر رکھتے ہوئے اسلامی جمہوری ایران کے مقدس شہر قم میں علامہ ڈاکٹر شفقت حسین شیرازی کیساتھ ان کے تعلیمی و حوزوی کیرئیر کے حوالے سے ایک انٹرویو کا اہتمام کیا ہے، جو قارئین کے استفادے کیلئے پیش خدمت ہے۔ ادارہ
اسلام ٹائمز: اپنے اکیڈمک کیرئیر کے بارے میں آگاہ فرمائیں۔؟
علامہ شفقت شیرازی: میرا تعلیمی کیرئیر مختلف اوقات اور ڈگریز پر مشتمل ہے، جس کی تفصیل کچھ یہ ہے کہ میں نے 1981ء ميں سرگودها بورڈ سے سائنس مضامين كے ساتهـ ميٹرک کیا۔ 1983ء ميں گورنمنٹ كالج آف كامرس سرگودها سے ڈی كام كی سند حاصل كی۔ 1987ء میں پنجاب يونيورسٹی سے بی كام كی ڈگری حاصل كی۔ 2006ء میں دانشگاه آزاد اسلامی ايران کی بيروت لبنان شاخ سے اقتصاد اسلامی ميں ايم فل كيا۔ 2014ء الجامعہ العالمية للعلوم الاسلامية لندن سے اقتصاد اسلامی ميں پی ايچ ڈی كی۔
اسلام ٹائمز: بیرون ممالک کی جن یونیورسٹیز سے آپ نے ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے، ان یونیورسٹیز کا تعارف اور سٹیٹس کیا ہے۔؟
علامہ شفقت شیرازی: میں نے ایم فل دانشگاہ آزاد اسلامی ایران سے کیا۔ یہ دانشگاه 1982ء ميں تاسيس ہوئی، 2015ء تک اس دانشگاہ کے طلبہ كی تعداد ايک ملين چھ لاکھ ہے، جن ميں سے پوسٹ گريجويشن كی تعداد پانچ لاکھ اور پی ايچ ڈی كی تعداد 22000 ہے۔ اس یونیورسٹی کی ايران میں تقريباً 100 اور بيرون ملک بھی كئی ايک شاخيں ہیں۔ ايم فل كے تهيسسز كے استاد راہنما اور مشرف لبنان كی معروف علمی شخصيت ڈاکٹر محمد شقير اور باحثين و قارئين ميں ڈاکٹر خنجر هنيئہ اور ڈاكٹر علی طالب تهے۔ يونيورسٹی كا سائٹ ایڈریس یہ ہے http://www.intl.iau.ir/۔ پی ایچ ڈی کی ڈگری میں نے اسلامی یونیورسٹی لندن سے حاصل کی۔ الجامعۃ العالمية للعلوم الاسلاميہ لندن كی تاسيس 1989ء لندن ميں ہوئی۔ يہ یونیورسٹی برطانوی حكومت اور اقوام متحدہ كے ادارہ يونيسكو كی رجسٹرڈ اور اتحاد جامعات العالم اسلامی كی ممبر یونیورسٹی ہے۔ اس یونیورسٹی کے مصر، شام، الجزائر اور عراق كی کئی يونيورسٹيوں كے ساتھ دوطرفہ معاہدے ہیں۔ میں نے 2010ء ميں پی ايچ ڈی ميں داخلہ ليا۔ جامعہ دمشق شعبہ اقتصاد كے معروف پروفيسر ڈاکٹر عفيف صندوق اور عراق كے معروف ڈاکٹر اور پوسٹ گريجويشن كے چانسلر ڈاکٹر ابراہیم العاتی كی رہنمائی ميں تهيسسز لكهے۔ نومبر 2014ء كو كليہ اقتصاد جامعہ دمشق كے تين ڈاکٹرز، ڈاكٹر عفيف صندوق مشرف، ڈاكٹر مظہر يوسف باحث وقاری اور ڈاكٹر باسل اسعد باحث وقاری پر مشتمل بين مناقشہ كے بعد ڈگری اتهرائيز کی۔ ياد رہے كہ ڈاكٹر مظہر يوسف اقتصادی امور ميں شام كے صدر ڈاكٹر بشار الاسد كے مشير بهی ہیں۔ http://www.kolieh.com
اسلام ٹائمز: اپنی دینی و حوزوی تعلیم کی تفصیل سے آگاہ فرمائیں۔؟
علامہ شفقت شیرازی: میں نے دینی و حوزوی تعلیم بھی مختلف مدارس و حوزہ جات سے حاصل کی ہے، جس کی تفصیل کچھ یہ ہے کہ میں نے
1988ء ميں دمشق السيدة زينب (ع) حوزہ الامام الخمينی ميں داخلہ ليا۔
1992-1988ء میں مقدمات كا مرحلہ طے كيا۔
1998-1992ء ميں سطوح متوسطہ و سطوح عليا كا مرحلہ طے كيا۔
2003- 1998ء بحث خارج ميں شركت كی۔
عصر حاضر كے تقاضوں كے مطابق 2002ء كے بعد حوزہ علميہ قم كو المصطفٰى انٹرنيشنل يونيورسٹی ميں تبديل كر ديا گيا اور كورسسز كے اندر اكيڈمک تقاضوں كو پورا كرنے كيلئے تبديلیاں لائی گئيں اور نئے مضامين كا اضافہ كيا گيا۔ سابقہ طلبہ كو اختيار ديا گيا كہ وه نئے سليبس كے مطابق امتحان دے كر گريجويشن اور ايم فل كی ڈگرياں حاصل كرسكتے ہيں۔ ہمارا حوزہ امام خمينی بهی شام ميں المصطفٰى انٹرنيشنل يونيورسٹی قم ايران سے منسلک كر ديا گيا اور وہ اسی كی شاخ بن گيا۔ میں نے گريجويشن اور ايم فل كے امتحانات پاس کئے اور تهيسسز بهی لكهے۔ میں نے قم المقدسہ كی المصطفٰى انٹرنيشنل يونيورسٹی سے بهی يہ دونوں ڈگرياں حاصل كيں۔
اسلام ٹائمز: آپ نے کن کن اساتذہ و آیت عظام کے زیر سایہ تعلیم حاصل کی ہے۔؟
علامہ شفقت شیرازی: بندہ ناچیز نے مختلف مدارج میں مختلف اساتذہ کرام و آیت عظام سے فیض حاصل کیا، جس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ میں نے
مقدمات: الشيخ خدا يار ناصری، الشيخ نصرالله سرابی، الشيخ توسلی، الشيخ الاسدی
سطوح1: الشيخ محمد حسين حليمی، الشيخ ناظر اخلاقی، الشيخ ابوميثم الخفاجی
سطوح2: السيد عبدالله نظام، الشيخ ڈاکٹر نبيل حلباوی، آيت الله نورالدين الاشكوری، آيت الله يوسف الطباطبائی، آيت الله سلطان الفاضل
بحث خارج: آيت الله سلطان الفاضل، آيت الله يوسف الطباطبائی، آيت الله محمدی باميانی اور آيت الله ابراہيم انصاری سے استفادہ کیا۔
اسلام ٹائمز: آپ نے حوزوی و اکیڈمک تعلیم کے علاوہ غیر رسمی و غیر حضوری تعلیم بھی کہیں سے حاصل کی۔؟
علامہ شفقت شیرازی: جی بالکل، میں نے غیر حضوری تعلیم میں کچھ شخصیات کی تالیفات سے استفادہ کیا ہے، جن میں حوزہ علميہ قم كی معروف علمی شخصيت آيت الله السيد كمال حيدری كی ايک ہزار سے زيادہ حوزوي دروس پر مشتمل كيسٹیں اور سی ڈیز سنيں، لكهيں اور نوٹس بنائے جو اب بهی موجود ہیں۔
علامہ مظفر كی كتاب المنطق
آيت الله العظمٰى الشهيد باقر الصدر كی کتاب علم اصول ميں لکھے گئے تينوں حلقات
علم فلسفہ ميں نظريہ معرفت
علم الفقہ ميں كتاب اللمعہ الدمشقيہ كی كتاب طہارت اور كتاب الصلاۃ
اس کے علاوہ حوزة امام خمينی كے زير سايہ دو سالہ مبلغ کورس اور دفتر آيت الله العظمٰی امام الخامنہ ای كے زير اہتمام كئی ايک مبلغين كے تخصصی كورسسز ميں شركت كی۔ جس میں قرآنيات (تجويد، حفظ السور و اجزاء و تفسير مفردات قران مجيد) نہج البلاغہ، علم الحديث، علم اخلاق، عقائد وكلام، سيرت معصومين، قصص انبياء، الفقہ، فن تبليغ، فن خطابت، معارف و مفاہيم اسلامی، اسلوب تعليم جوانان جیسے عنوانات اور مضامین میں مہارت حاصل کی۔
اسلام ٹائمز: شیرازی صاحب اس پورے عرصے میں تعلیمی مصروفیات کے علاوہ دیگر کیا مصروفیات رہیں۔؟
علامہ شفقت شیرازی: الحمدللہ اپنی تعلیمی مصروفیات کے باوجود میں نے علمی و تبلیغی خدمات بھی بڑے احسن انداز سے سرانجام دی ہیں، جن میں چند ایک کا ذکر کر دیتا ہوں۔
1997ء سے 2000ء تک تعليم كے حصول كے ساتھ ساتھ حوزہ امام خمينی ميں مدرس كی حيثيت سے فقہ و اصول ومنطق كی تدريس كی۔
1991ء سے 2003ء تک حوزہ امام خمينی اور دفتر رہبر معظم كی طرف سے شام كے مختلف علاقوں ميں تبليغ دين كی ذمہ داری ادا كی، جبكہ آخری 8 سال مختلف دور دراز علاقوں ميں ہفتہ وار امام جمعہ و جماعت كی ذمہ داری بهی ادا كی۔
2003ء سے 2006ء تک معاون مدير تبليغ دفتر رہبر معظم كی ذمہ داری ادا كی۔
2006ء سے 2012ء كے آخر تک بطور مدير اعلٰی تبليغات دفتر رہبر معظم کی ذمہ داری ادا كی۔
2013ء سے 2015ء تک مشير شعبہ تبليغات كی ذمہ داری ادا كی۔
اسلام ٹائمز: آپ نے تعلیمی و تبلیغی خدمات کے علاوہ بھی کسی اور شعبے میں کام کیا۔؟
علامہ شفقت شیرازی: جی الحمدللہ، بندہ ناچیز نے فلاحی شعبے میں مدارس، مساجد اور امام بارگاہوں کی تعمیرات اور ترمیم کے لئے بھی خاطر خواہ کام کیا ہے، جس میں دفتر رہبر معظم كے زير سرپرستی اور ذاتی تعلقات كی بنياد پر امام حسين (ع) ٹرسٹ كويت كے تعاون سے 100 سے زيادہ مساجد و امام بارگاہوں كی ترميم اور پچاس كے قريب نئی مساجد، دسیوں امام بارگاہ، قرآن سنٹرز، كتب خانے اور اسی طرح ہسپتال، ڈسپنسریاں اور اسكولز وغيره شام كے مختلف محروم شہروں اور ديہاتوں ميں تعمير كروائے۔
اسلام ٹائمز: آپ ایک لمبے عرصہ سے شام میں مقیم ہیں، وہاں پر اپنا کوئی ذاتی ادارہ بھی بنایا۔؟
علامہ شفقت شیرازی: ہاں جی، اس حوالے سے 2006ء میں جب علامہ راجہ ناصر عباس صاحب نے ذہين طلبہ كی ايک کھیپ كو دمشق تعليم حاصل كرنے كے لئے بهيجا، انكی خواہش تهی كہ عرب دنيا كی معروف دمشق يونيورسٹی ميں انكے طلبہ عربی ادب ميں ايم فل اور پی ايچ ڈی كريں اور عصر كے وقت يا رات كو حوزوی تعليم حاصل كريں۔ ان شرائط پر حوزات ميں تعليم ممكن نہ تهی، اس لئے ہميں اپنا حوزہ بنانے كی ضرورت محسوس ہوئی۔ ايک دو سال كی تگ دو كے بعد سوریہ ميں اپنا حوزہ رجسٹرڈ كروا ليا۔ اسكی اسناد وزارت اوقاف اور وزارت خارجہ تصدیق كرتی ہیں اور فارغ التحصیلان اپنی تعليم كو مكمل كرنے كے لئے دمشق يونيورسٹی يا ملک كی دوسری یونیورسٹی ميں داخلہ لے سكتے ہیں۔ 2012ء تک ہمارے طلبہ كی تعداد 20 اور طالبات كی تعداد 25 تهی۔ شام میں امن و امان کے مسائل كی وجہ سے تقريباً ايک سال حوزہ تعطل كا شكار رہا، 2014ء ميں دوبارہ اسلام شناسی كورسسز سے تعليمی سلسلہ كو جاری كر ديا گیا ہے۔ اس وقت تقريباً 30 طلبہ ہیں، اور حوزہ حسب توفيق وقتاً فوقتاً شام ميں مقيم پاكستانی طلبہ، جنہوں نے استقامت دكهائی اور مشكل حالات ميں بهی تعليمی سلسلہ جاری ركها اور جوار ثانی زہراء سلام الله عليها كو نہیں چھوڑا، انكی مختصر مدد كرتا رہتا ہے۔ ميری ذمہ داری مدير حوزہ كی ہے، جبكہ علامہ خدايار ناصری صاحب مشرف عام حوزہ ہیں۔ اس وقت نائب مدير مولانا سيد طلال سالم جنكا تعلق سوريہ سے ہے، داخلی اداری ذمہ داری ادا كر رہے ہیں اور ہمارے پاس چار اساتذه ہیں، جو اس وقت طلبہ کو زیور تعلیم سے آراستہ کر رہے ہیں۔