سانحہ منیٰ کے عینی شاہدین کے تاثرات
۔ کی رپورٹ کے مطابق سانحہ منیٰ میں زخمیوں کی مدد کرنے والے ایک عینی شاہد کا کہنا ہے کہ، پولیس والے حجاج کو اخراج کے صرف ایک راستے کی جانب جانے کی ہدایت کر رہے تھے اور اسی وجہ سے اتنا بڑا سانحہ پیش آیا جو سیکڑوں لوگوں کی موت پر منتج ہوا۔
آئیوری کوسٹ سے تعلق رکھنے والے عینی شاہد والتارا موسی کا کہنا تھا کہ منیٰ میں سعودی پولیس، امدادی کارکنوں اور دیگر سیکورٹی اہلکاروں کی موجودگی کے باوجود سانحے کی روک تھام کے لئے کچھ نہیں کیا گیا۔
آئیوری کوسٹ سے تعلق رکھنے والے ایک اور حاجی، یعقوب نے بتایا ہے کہ سانحہ منیٰ ناقابل برداشت سانحہ کیونکہ سعودی فورسز نے کوئی خاص مدد نہیں کی۔
آئیوری کوسٹ کے ہی کلی بالی عثمان کا کہنا تھا کہ، رمی جمرات کے رسم میں بدنظمی پہلے ہی سے واضح تھی۔ انتظامی خرابیاں بہت تھیں، یہ بات کسی طور منطقی نہیں کہ حاجیوں کا بڑا گروپ ایک سمت میں حرکت کر رہا ہو اور اس کا راستہ بند کردیا جائے جبکہ پیچھے سے بھی حاجیوں کا ریلا چلتا چلا آرہا ہو۔
ایک افغان عینی شاہد کے مطابق، سانحہ کے روز کچھ ایرانی جو اس کے آگے تھے، مدد کی درخواست کر رہے تھے لیکن سعودی پولیس والے عربی میں کہہ رہے تھے کہ اگر ایرانی ہیں تو چھوڑ دو ، انہیں مرنے دو، بہت سے لوگ لاشوں کے نیچے دبے ہوئے تھے اور زندہ تھے لیکن سعودی پولیس نے ان کی کوئی مدد نہیں کی۔
سانحہ منیٰ میں متاثر ہونے والی ایک ایرانی خاتون کا کہنا ہے کہ پولیس والے سانحہ منیٰ کے دوران کوئی مدد نہیں کر رہے تھے، بہت سے لوگ لاشوں تلے زندہ تھے اور جب ہم ان سے مدد کی درخواست کرتے تو کہتے کہ ابھی ہمارے لنچ کا وقت ہے۔
ایرانی حج قافلے ایک ڈاکٹر حسین حقیقی نے بتایا کہ میں نے سعودی پولیس والوں کو دیکھا جو سو میٹر کے فاصلے پر گاڑیوں کے ذریعے ایک ایسے راستے کو بند کرر ہے تھے جس پر ایک لاکھ سے زیادہ حجاج کرام چلتے چلے جارہے تھے۔ جب راستہ نہ ملا تو حاجی ایک دوسرے پر گرتے چلے گئے۔
انہوں نے بتایا کہ موقع پر موجود اہلکاروں نے کوئی مدد نہیں کی اور وہاں سے گزرنے والے ہیلی کوپٹر بھی لوگوں کو بچانے کے بجائے محض پرواز کرتے رہے۔
مذکورہ ایرانی ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ لوگ دھوپ اور پیاس کی شدت دم توڑ رہے تھے اور یہ کوئی حادثہ نہیں بلکہ ایک جرم ہے ، کیونکہ راستے کو بند کرنا اور مدد فراہم نہ کرنا، ڈاکٹروں کا نہ آنا سب طے شدہ تھا، حتی تین گھنٹے بعد جب وہ امداد کے لئے آئے، تب بھی راستوں کو نہیں کھولا گیا۔
قابل ذکر ہے کہ جمعرات کے روز منیٰ میں رمی جمعرات کے موقع پر پیش آنے والے سانحے میں سیکڑوں کی تعداد میں حجاج کرام جاں بحق ہوئے ہیں، اس سانحے میں اب تک کی اطلاعات کے مطابق ایک سو انسٹھ ایرانی حاجیوں کے جاں بحق ہونے کی تصدیق ہوچکی ہے، پاکستان کے چوبییں جبکہ انتیس ہندوستانی حاجیوں کے جاں بحق ہونے کی خبر ہے۔اخبار الشرق الاوسط کے بے بنیاد دعوؤں کا جواب
کیا ایرانی حجاج سانحہ منیٰ کا باعث بنے؟ کیا ایرانی حجاج مخالف سمت حرکت کر رہے تھے؟
ہرگز یہ خبر درست نہیں ہے۔ جو لوگ حالیہ سالوں حج تمتع میں موجود رہے ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ بالکل واپس پلٹنے کا امکان نہیں ہوتا۔ لہذا ممکن نہیں ہے کہ ۳۰۰ ایرانی زائر الٹی سمت حرکت کرنے لگیں۔ علاوہ از ایں، یہ سانحہ عید قربان کی صبح کو رونما ہوا ہے یعنی ابھی کسی نے رمی جمرات کیا ہی نہیں کہ کوئی واپس پلٹے گا۔
اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ ایسے حال میں کہ عالم اسلام اپنے اپنے حجاج کے سوگ میں عزادار ہے اور آل سعود کی حکومت بجائے اس کے کہ معذرت خواہی کر کے اور کسی نہ کسی طریقے سے اس واقعے کا جبران کر کے امت مسلمہ کو تسلی دے، دوسروں پر الزام تراشی کر کے خود کو بری الذمہ قرار دیتی اور غمزدہ لوگوں کے زخموں پر نمک چھڑک رہی ہے۔
اس کے بعد سعودی عہدہ داروں نے’’ حجاج کی بد نظمی‘‘ اور ’’قضا و قدر‘‘ کو اس سانحے کا قصور وار ٹھہرایا اب اسلامی جمہوریہ ایران کو نشانہ بناتے ہوئے اس بات کا الزام لگایا ہے کہ اس واقعے کے اصلی قصور وار ایرانی تھے جنہوں نے اتنے حاجیوں کو قتل کیا ہے۔
ایران کے خلاف عالمی سطح پر پروپیگنڈا کرنے کے لیے کئی ایجنسیاں وجود میں لائی گئی ہیں جو ’’ ایران تقتل الحجاج‘‘ (ایران حاجیوں کا قاتل ہے) کے عنوان سے دنیا کے مسلمانوں کے ذہنوں کو دوسری طرف موڑنے میں مصروف عمل ہیں۔
اخبار الشرق الاوسط جو آل سعود سے وابستہ ہے نے آج کی خبر میں شائع کیا ہے کہ حج کمیٹی کے ایک نامعلوم عہدہ دار نے کہا ہے کہ ایرانی حاجی منیٰ کے سانحے کا سبب بنے ہیں!
اس اخبار نے لکھا ہے: ایرانی کاروانوں کے رہنماوں نے ان احکامات کے خلاف جو منیٰ میں حجاج کے درمیان نظم و ضبط پیدا کرنے کے لیے صادر کئے جاتے ہیں عمل کیا اور تین سو ایرانی حجاج نے باقی زائرین کے مخالف سمت حرکت کرنا شروع کر دی جس کی وجہ سے یہ واقعہ رونما ہوا!
اس خبر کی چھان بین کے لیے اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی نے ایران کی حج کمیٹی کے ایک عہدہ دار جو ابھی مکہ میں موجود ہیں سے ٹیلیفون پر گفتگو کی ہے۔ اس وضاحت کے ساتھ کہ اس عہدہ دار کا نام ان کی جان کی حفاظت کی خاطر شائع نہیں کیا جائے گا سے کی گئی گفتگو کا مکمل ترجمہ حاضر خدمت ہے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ابـنا: اخبار الشرق الاوسط نے دعویٰ کیا ہے کہ تین سو ایرانی حجاج جو مخالف سمت جا رہے تھے وہ منیٰ میں اس سانحے کا باعث بنے ہیں۔ آپ کی نگاہ میں کیا یہ خبر صحیح ہے چونکہ آپ موقع پر موجود تھے؟
۔ ہرگز یہ خبر درست نہیں ہے۔ جو لوگ حالیہ سالوں حج تمتع میں موجود رہے ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ بالکل واپس پلٹنے کا امکان نہیں ہوتا۔ لہذا ممکن نہیں ہے کہ ۳۰۰ ایرانی زائر الٹی سمت حرکت کرنے لگیں۔ علاوہ از ایں، یہ سانحہ عید قربان کی صبح کو رونما ہوا ہے یعنی ابھی کسی نے رمی جمرات کیا ہی نہیں کہ کوئی واپس پلٹے گا۔ کیوں ایرانی حجاج الٹی سمت حرکت کرنے لگیں گے بغیر رمی جمرات کئے؟!
ابـنا: گزشتہ سالوں میں الٹی سمت حرکت کرنے کا امکان نہیں پایا جاتا تھا اور جانے آنے کے راستے بالکل الگ الگ ہوتے تھے۔ کیا اس سال یہ سہولت نہیں تھی؟
۔ اس سال بھی یہ سہولت اپنی جگہ موجود تھی اور بالکل اس راستے سے واپسی کا امکان نہیں تھا جس راستے سے حاجی رمی جمرات کے لیے جا رہے تھے جبکہ ابھی واپسی والے راستے سے واپسی کی نوبت ہی نہیں آئی تھی چونکہ ابھی رمی جمرہ انجام ہی نہیں پایا تھا۔ اور توجہ کی بات یہ ہے کہ یہ سانحہ تقریبا منیٰ کے آخر میں رونما ہوا ہے اور وہاں سے کسی کے واپس لوٹنے کی کوئی صورت ہی نہیں بنتی۔ اس لیے کہ سب رمی جمرات کے لیے ہی جا رہے تھے۔
ابـنا: اس اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ ۳۰۰ حاجی مزدلفہ سے منیٰ میں داخل ہوئے جو خیموں میں نہیں گئے تھے۔
۔ ہم خود اسی کاروان کے ساتھ تھے ہم مزدلفہ سے منی میں گئے اور وہاں ناشتہ کیا اس کے بعد رمی جمرات کے لیے نکلے۔ جیسا کہ ہم نے کہا یہ واقعہ جمرات کے نزدیک رونما ہوا نہ کہ مزدلفہ سے داخل ہوتے وقت۔ وہاں بھی راستہ یکطرفہ تھا علاوہ از ایں، لاکھوں افراد کا مجمع ایک راستے پر ایک سمت جا رہا ہو وہاں سے مخالف سمت حرکت کرنا، بالکل ناممکن بات ہے۔
ابـنا: پس اس وضاحت کے بعد، لوگوں کے ایک دوسرے پر گرنے اور اس حادثے کے رونما ہونے کی وجہ کیا تھی؟
۔ افسوس سے سعودی پولیس نے راستہ بند کر دیا۔ انہوں نے اکثر حاجیوں کو سڑک نمبر ۲۰۴ کی طرف رہنمائی کی لیکن اچانک پولیس نے سڑک کو بند کر دیا۔ جب لوگوں کی تعداد بڑھتی گئی پیچھے سے لوگ آگے جا رہے تھے اور آگے والے کھڑے ہوئے تھے تو پولیس نے لوگوں کو سڑک پر بٹھانا شروع کر دیا جب لوگ زمین پر بیٹھنا شروع ہو گئے تو پیچھے والوں نے سوچا کہ راستہ کھل گیا ہے لہذا انہوں نے لوگوں کو آگے دبانا شروع کر دیا۔ نتیجہ میں لوگ ایک دوسرے کے اوپر گرنا شروع ہو گئے اور یہ درد ناک سانحہ وجود میں آیا۔
ابـنا: سڑک نمبر ۲۰۴ کو بند کرنے کی وجہ کیا تھی اس کے بارے میں مختلف احتمالات دئے جا رہے ہیں۔ سعودی حکومت بھی اس کا کوئی معقول جواب نہیں دے رہی ہے اور اس کی کوئی معقول وجہ نہیں بتا رہی ہے۔ کیا آپ کی نظر میں اس کی کوئی خاص وجہ تھی؟
۔ ابھی تک اس کی وجہ سامنے نہیں آئی ہے شاید وہ چاہتے تھے کہ خود جمرات پر زیادہ بھیڑ بھاڑ نہ ہو، پل کے اوپر ازدحام زیادہ نہ بڑھے تاکہ گزشتہ سالوں کی طرح پل نہ گر جائے۔ لیکن یہ کام انتہائی بے نظمی اور اس کے نتائج کی طرف توجہ کئے بغیر انجام دیا۔
ابـنا: با فرض محال، اگر کسی بھی وجہ سے، کسی ملک کے حجاج اسی راستے سے واپس پلٹنا چاہیں تو پولیس اس میں کیا رول ادا کرے گی؟
۔ حقیقت یہ ہے کہ پولیس نے کوئی بھی مثبت کردار ادا نہیں کیا۔ جب لوگ ایک دوسرے پر گرنا شروع ہوئے اور گھٹ گھٹ کر جانیں دینے لگے پولیس صرف تماشا دیکھ رہی تھی اور کوئی ان کی مدد نہیں کر رہی تھی پانی کی گھونٹ انہیں نہیں دے رہی تھی۔ ان کی تعداد بھی بہت کم تھی۔ بلکہ یوں کہا جائے کہ خود پولیس اس سانحے کا سبب بنی۔ یعنی بجائے اس کہ ورودی راستے(Entrance) کو بند کرے تاکہ پیچھے سے لوگ زیادہ نہ آئیں باہر نکلنے والا راستہ ( exit) بند کر دیا!
ابـنا: یعنی اگر سڑک آخر سے کھلی ہوتی تو یہ سانحہ رونما نہ ہوتا؟
۔ اگر راستہ کھلا ہوتا یقینا یہ حادثہ رونما نہ ہوتا۔ حتی اگر تھوری دیر بعد بھی کوئی راستہ کھول دیا ہوتا تو یہ سانحہ رونما نہ ہوتا۔ اس لیے کہ لمحہ بہ لمحہ بھیڑ میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا اور گرمی بھی شدید ہوتی جا رہی تھی۔ لہذا گرمی کی شدت اور راستہ کا بند کیا جانا اس حادثے کا باعث بنا۔
ابـنا: اخبار الشرق الاوسط نے ایک اور دعویٰ بھی کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ منیٰ کے منیجمنٹ ادارے نے اعلان کیا تھا کہ ایرانی حجاج ترکی کے حجاج کے ساتھ اس وقت رمی جمرات کرنے جائیں جو ان کے لیے معین کیا ہوا ہے لیکن ایرانی کاروانوں کے رہنما اس اعلان کی طرف توجہ کئے بغیر ۳۰۰ ایرانیوں کو لے کر بھیڑ میں گھس گئے۔!
۔ یہ بات بھی جھوٹ پر مبنی ہے۔ ایسا کوئی دستور اور اعلان ہمیں نہیں ملا تھا۔ بالکل ممالک کے تقسیم بندی ہمیں نہیں بتائی گئی۔ ہرسال ایرانی زائر اسی وقت اور اسی راستے سے رمی جمرات کے لیے جاتے تھے اور یہ راستہ ایران یا کسی اور ملک سے مخصوص نہیں تھا۔
ابـنا: ان حقائق کے باوجود کیوں سعودی میڈیا اس طرح کی نادرست اور غلط توجیہات پیش کر رہا ہے؟
۔ یہ سب توجیہات، منیٰ میں اپنی کوتاہیوں کا اقرار کرنے اور اس سانحے کی ذمہ داری قبول کرنے سے فرار کی بنا پر ہیں۔
ابـنا: الاشرق الاوسط نے ان بے بنیاد دعوؤں کو ایرانی حج کمیٹی کے ایک عہدہ دار کی طرف نسبت دی ہے جبکہ اس کا نام بھی ذکر نہیں کیا۔
۔ نہ ایسا کوئی شخص ہے اور نہ یہ باتیں حقیقت رکھتی ہیں۔ یہ باتیں ایرانی حج کمیٹی کے عہدہ داروں کی جانب سے ناممکن ہیں۔
ابـنا: سعودی عرب سے وابستہ بعض ذرائع ابلاغ نے دعویٰ کیا ہے کہ اس سانحے کے اصلی قصور وار چونکہ ایرانی تھے لہذا بعض ایرانیوں کو پکڑ کر جیل میں بھی دیا گیا ہے کیا یہ خبر درست ہے؟
۔ یہ خبر بھی محض ایک جھوٹ ہے۔ بالکل ایسی کوئی بات نہیں۔ کوئی ایرانی اس سلسلے میں گرفتار نہیں ہوا نہ ہی جیل میں ہے۔
ابـنا: کیوں مرنے والوں میں زیادہ تعداد ایرانیوں کی ہے؟
۔ اس لیے کہ جس راستے میں یہ حادثہ رونما ہوا ہے اس راستے میں زیادہ خیمے ایرانیوں اور افریقیوں کے تھے۔ دوسرے راستے ہمارے لیے بند کئے ہوئے تھے البتہ مرنے والوں میں سب سے زیادہ تعداد ایرانیوں کی نہیں ہے لیکن ایرانی بھی کافی زیادہ جانبحق ہوئے ہیں۔ سب سے زیادہ اس سانحے میں مرنے والوں کی تعداد افریقی ممالک سے تعلق رکھتی ہے۔
ابـنا: سانحے کے بعد دو تین گھنٹے تک امداد رسانی نہیں ہوئی۔ ایسا کیوں ہوا؟
۔ افسوس سے میزبان حکومت اس حادثے کو سنبھالنے کے لیے پہلے سے کوئی آمادگی نہیں رکھتی تھی۔ مسجد الحرام میں کرین حادثے میں بھی ایسا ہی ہوا امداد رسانی وقت پر نہیں ہوئی۔
ابـنا: آپ کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ ان سخت حالات میں بھی آپ نے ہمارے ساتھ گفتگو کی اور ان مبہم مسائل کو واضح کیا۔
۔ میں بھی آپ کا شکریہ کرتا ہوں اور جانبحق ہوئے افراد کے پسماندگان کے لیے صبر و اجر کی دعا کرتا ہوں۔ ملت ایران سے گزارش کرتا ہوں کہ جو لوگ گم ہیں ان کے زندہ ملنے کی دعا کریں
سانحہ منیٰ کی مسلم عدالتوں کے ذریعے تحقیقات کی جائے گی: لبنان کے سنی عالم دین
اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ لبنان کے ایک اہلسنت عالم دین اور لبنانی امت تحریک کے سیکرٹری جنرل ’’شیخ عبدالناصر الجابری ‘‘نے حج کے انتظامات میں حکومت آل سعود کی کوتاہی کی مذمت کرتے ہوئے کہاکہ اس سانحہ کی تحقیقات مسلم عدالتوں کے ذریعے کرنی چاہئے ۔
انہوں نےکہا کہ ماضی میں بھی ہم نے سعودی حکام سے حج کے انتظامات وامورات میں مسلم ممالک سے تعاون لینے کا مشورہ دیاتھا لیکن بدقسمتی سے سعودی حکام نے آج تک ہماری بات کی طرح توجہ نہیں دی ۔
انہوں نےکہا کہ منیٰ حادثے میں جان بحق ہونے والے حاجی دنیا کے تمام ممالک سے تعلق رکھتے ہیں اور تمام ممالک کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان متاثرین کی مدد کریں ۔
انہوں نے حکومت آل سعود کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہاکہ اس طرح کے واقعات کرٔہ ارض پر شدید زلزلے کی وجہ سے رونما ہوتے ہیں لیکن حج جیسی تقریب میں ہزاروں حاجیوں کی موت سے اس بات کا واضح ثبوت ملتا ہے کہ حکومت آل سعود انتظامات حج سنبھالنے کے اہل نہیں ہے ۔
انہوں نے اس سانحہ میں جانبحق یا زخمی ہونے والے حاجیوں کے ساتھ آل سعود حکام کی بے توجہی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہاکہ حج کی تقریب کو کوئی بھی ملک اکیلے منظم نہیں کرسکتا ہے اور سعودی عرب کی طرف سے حج امورات میں دوسرے اسلامی ممالک سے مدد حاصل نہ کرنا آل سعود کی نااہلی کا ثبوت ہے ۔
انہوں نےکہاکہ دنیا بھر میں حج سے بھی بڑی تقریبات اوراجتماع منعقد ہوتے ہیں اور ان اجتماع میں کبھی بھی اسطرح کا سانحہ کوئی پیش نہیں آیا ہے ۔
موصوف اہلسنت عالم دین نے حکومت آل سعود کی طرف سے سانحہ منیٰ کی ذمہ داری حجاج کرام کے کندھوں پر ڈالنے کی مذمت کرتے ہوئےکہاکہ اس المناک سانحہ کی اصل ذمہ دار حکومت آل سعود ہے کیونکہ عازمین حج صرف مناسک حج کے فرائض انجام دینے کیلئے سعودی عرب کا رخ کرتے ہیں ۔
انہوں نے اسلامی ممالک کی عدالتوں اور تنظیموں کو اس سانحہ کی تحقیقات کرنے پر زوردیتے ہوئےکہاکہ اگراس سانحہ کی تحقیقات مغربی ممالک میں کی گئی تو ہمیں ان سے اس سانحہ کی صاف و شفاف تحقیقات کی امید نہیں رکھنی چاہئے ۔
شیخ الجابری نے مزید مسلم ممالک اور علماء کرام پر زور دیاہےکہ وہ مظلوم شامی ،لبنانی ،یمنی ،عراقی اور فلسطینی قوم کی حمایت میں استکباری طاقتوں کے خلاف صف آرا ہوجائیں ۔