مشاہد حسین سید ملکی سیاست میں ایک جانی پہنچانی شخصیت ہیں، وہ اس وقت مسلم لیگ قاف کے سیکرٹری جنرل ہیں، اس کے علاوہ وہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کے چیئرمین بھی ہیں، چین اور مشرق وسطٰی کے امور کے حوالے سے ماہر جانے جاتے ہیں، ہمیشہ مسئلہ کشمیر اور فلسطین پر ان کا موقف بڑا واضح رہا ہے اور اس کاز کو سپورٹ کیا ہے۔ سیاست سے قبل وہ صحافت کے شعبے سے منسلک رہے۔ شیعت نیوز نے مشرق وسطٰی کے امور کے ماہرین کی ٹیم کے ہمراہ مشاہد حسین سید کے ساتھ ایک اہم ایک نشست کی ہے، جس کا احوال پیش خدمت ہے۔
سوال : آپریشن ضرب عضب کی کامیابیوں کو کیسے دیکھ رہے ہیں، بالخصوص آرمی چیف کے کردار پر کیا تبصرہ کریں گے۔؟
مشاہد حسین سید: الحمد اللہ! اللہ کے فضل و کرم سے آپریشن ضرب عضب کامیابی سے اپنے اہداف کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے، پوری سیاسی و عسکری قیادت اس بات پر متفق ہے کہ دہشتگردی کا ملک سے ہمیشہ کیلئے خاتمہ ہو، اسی لئے نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا، جس پر عمل درآمد ہو رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس وقت ملک میں امن و امن کی صورتحال میں بہت بہتری آچکی ہے، پوری دنیا اس وقت پاکستان کے حوالے سے کہہ رہی ہے کہ پاکستان میں حالات تیزی کیساتھ بہتر ہو رہے ہیں۔ عالمی سطح پر ہونے والے سروے میں بھی یہی کہا جا رہا ہے کہ دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلہ میں پاکستان میں اس سال امن و امان کی صورت حال میں متاثر کن بہتری آئی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ تمام کریڈٹ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو جاتا ہے، پوری پاکستانی قوم میں اس وقت وہ تیزی کیساتھ مقبول ہو رہے ہیں اور ریاست کی عمل داری کو یقینی بنانے میں جنرل راحیل شریف کا اہم کردار ہے۔
سوال : کیا مستقبل قریب میں آپ آرمی چیف کا کوئی سیاسی کردار بھی دیکھ رہے ہیں۔؟
مشاہد حسین سید: میرا نہیں خیال کہ وہ سیاست میں قدم رکھیں، سیاست ایک بہت ہی پیچیدہ معاملہ ہے، اس میں قدم رکھنے سے انسان متنازع ہو جاتا ہے اور خاص طور پر جب آپ ملک کے اہم عہدے سے فارغ ہو رہے ہوں۔ مجھے نہیں لگتا کہ جنرل راحیل ایسا کریں گے۔ اس وقت ان کا کردار بہت ہی بےباک ہے اور یہی پاکستان کی ضرورت ہے۔
سوال : آپکو پاکستان کا مستقبل کیا نظر آرہا ہے۔؟
مشاہد حسین سید: جی مجھے پاکستان کا مستقبل انتہائی روشن نظر آرہا ہے، پاکستان میں امن و امان کی بہتری کے ساتھ ہی ملک میں تجارت اور سرمایہ کاری میں اضافہ ہوگا، خاص طور پر پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے کی تکمیل پاکستان کی معاشی شہ رگ بن جائے گی۔ پورا مڈل ایسٹ سے لیکر وسط ایشیائی ممالک تک ہماری گوادر پورٹ کے اثرات دیکھنے کو ملیں گے۔ اس منصوبے سے پاکستان کے حالات یکسر بدل جائیں گے۔ اسی لئے عسکری قیادت ملک میں امن و امان قائم کرنے کیلئے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔
سوال : ایران امریکہ مذاکرات کو کس نگاہ سے دیکھ رہے ہیں، اسکے خطے پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔؟
مشاہد حسین سید: دیکھیں میں ایران سے زیادہ اس معاہدے کو پاکستان کی فیور میں زیادہ دیکھتا ہوں، یقیناً ایران کو بھی بے پناہ فوائد ملیں گے، لیکن ان فوائد سے پاکستان بھی فیضیاب ہوگا۔ مثال کے طور پر ہماری گیس پائپ لائن مکمل ہو جائیگی، اس کے علاوہ ہماری ایران کیساتھ تجارت کے حجم مین اضافہ ہوگا۔ اس کے علاوہ خطے میں جاری خون ریزی رک جائیگی۔ ہم نے اس معاہدہ کو ویلکم کہا ہے۔ ابھی حال ہی میں ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف پاکستان کے دورے پر آئے تھے تو ہم نے انہیں ان مذاکرات کی کامیابی پر مبارکباد پیش کی تھی، کیونکہ امریکہ کی وجہ سے ہمارے اُوپر کافی دباو تھا، ہم اپنے ہمسایہ ملک کے ساتھ تجارت نہیں کرسکتے تھے، وہ گیس پائپ لائن مکمل کرچکے تھے تو ہم اپنے ملک میں اس پائپ لائن پر کام نہیں کرسکتے تھے۔ اب اس معاہدے سے یہ تمام مشکلات برطرف ہوجائیں گی۔
سوال : داعش اور مقاومتی تحریکوں کے مابین کیا فرق دیکھتے ہیں۔؟
مشاہد حسین سید: بہت بنیادی فرق ہے، مقاومتی تحریکیں خاص طور پر حزب اللہ کی مثال لیں تو یہ ایک جنوئن تحریک ہے، ایک حقیقی جماعت ہے، جس کا نام بھی اللہ کی جماعت ہے۔ اس نے ہمیشہ اسرائیل کیخلاف جہاد کیا ہے، سید حسن نصراللہ مسلمانوں کے ہیرو ہیں۔ اسی طرح آپ حماس کی مثال لیں، جنہوں نے ہمیشہ اسرائیل کیخلاف جہاد کیا ہے، اسی طرح آپ کشمیریوں کو دیکھ لیں، جو اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں، لیکن دوسری جانب داعش جیسے گروہ ہیں یا اسی طرح جھبۃ النصرہ جیسے گروپس ہیں، جنہوں نے فقط اور فقط مسلمانوں کیخلاف جہاد کیا ہے، انہوں نے مسلمانوں کا ناحق خون بہایا ہے، انہوں نے مساجد اور اللہ کے گھروں میں اسلام کی حرمت کو پامال کیا ہے، ان کی اسلام سے کیا نسبت ہوسکتی ہے۔؟ یہ دراصل اسرائیل کے دفاع کیلئے کام کر رہے ہیں۔ شام کے یہ حالات اس وجہ سے ہیں کہ اس نے ہمیشہ حماس اور حزب اللہ کو سپورٹ کیا ہے اور دونوں جہادی گروپوں نے اسرائیل کیخلاف جنگیں لڑی ہیں، ورنہ آج اسرائیل کی سرحدیں کہیں اور ہوتیں، جبکہ دوسری جانب یہ دہشتگرد گروہ ہیں جو فقط مسلمانوں کا ناحق خون بہا رہے ہیں۔ ان کی درندگی اب پوری دنیا پر واضح ہوچکی ہے۔ ان کو کون فنڈز اور سپورٹ کر رہا ہے، پوری دنیا کو پتہ ہے۔