اپنے خصوصی انٹرویو میں حزب اللہ کے رکن پارلیمان کا کہنا تھا کہ ایران ہمارا اتحادی ہے، ہمارے لوگوں کی مدد کر رہا ہے، ایران ہمارا دوست ملک ہے، نہ کہ دشمن، جبکہ اسرائیل ہمارا حقیقی دشمن ہے۔ دشمن اس پورے خطے کو تباہ کرنا چاہتا ہے،
داعش کی کارروائیوں میں شیعوں سے زیادہ اہل سنت بھائیوں کا نقصان ہوا ہے۔
نوار ساحلی کا تعلق حزب اللہ سے ہے اور وہ لبنان کی پارلیمنٹ کے رکن ہیں، لبنان میں شام کے بارڈر کے نزدیکی علاقے میں رہتے ہیں جو غربت زدہ ہے، نوار ساحلی چند روز پہلے قومی اسمبلی آف پاکستان کی دعوت پر لبنان کی پارلیمنٹ کی طرف سے او آئی سی کے رکن ممالک کے اجلاس میں شرکت کیلئے اسلام آباد تشریف لائے تھے، اس موقع پر اسلام ٹائمز نے ان سے ایک تفصیلی انٹرویو کیا ہے، جو پیش خدمت ہے۔ ادارہ
اسلام ٹائمز: سب پہلے تو ہم اپنے ادارے کیجانب سے آپکو پاکستان میں خوش آمدید کہتے ہیں اور ساتھ ہی وقت دینے پر شکریہ ادا کرتے ہیں۔ نوار ساحلی صاحب داعش کے شام اور عراق میں پننے کی کیا وجوہات دیکھتے ہیں۔ اس ساری صورتحال کے پیچھے آپکو کیا نظر آتا ہے۔؟
نوار ساحلی: سب سے پہلے یہ واضح ہے کہ داعش ایک دہشتگرد تنظیم ہے، اس سے پہلے 70ء اور 1980ء کی دہائی میں القاعدہ کو وجود میں لایا گیا اور القاعدہ ہی داعش کی ماں ہے، جس سے اس نے جنم لیا ہے۔ القاعدہ جس کو مجاہدین کا نام دیا گیا، ان کو سویت یونین کیخلاف امریکہ نے وجود بخشا۔ سویت یونین ٹوٹی اور افغانستان سے واپس چلی گئی، لیکن آپ دیکھیں کہ مشرق وسطٰی، سعودی عرب اور عرب ممالک سے جہادیوں کو افغانستان میں اکٹھا کیا گیا، آپ غور کریں کہ جتنے بھی جہادیوں کو اکٹھا کیا گیا، وہ سب کے سب تکفیری سوچ کے مالک تھے۔ نائن الیون کے بعد دنیا کو پیغام دیا گیا کہ اسلام کے نام پر لڑنے والوں نے کیسا ظلم کیا ہے اور یوں ایک خاص سوچ چل پڑی، جبکہ ہم سمجھتے ہیں کہ اسلام امن اور آشتی کا دین ہے، اللہ کے رسول کی حدیث مبارکہ ہے کہ میں دنیا کیلئے رحمت بناکر مبعوث کیا گیا ہوں۔ اللہ کے رسول کا دین امن ہے، سلامتی ہے، نہ کہ لوگوں کو قتل کرنا ہے۔ یہ جو لوگوں کو بےدردی سے قتل کر رہے ہیں، گردنیں اڑا رہے ہیں، اذیت ناک انداز میں بےگناہوں کو قتل کر رہے ہیں اور چرچوں پر حملے کر رہے ہیں، یہ اسلام نہیں ہے۔
جہاں تک آپ نے شام اور عراق میں داعش کے وجود کی بات ہے کہ تو یہ دونوں ملکوں میں اصل میں اسرائیل کے دفاع کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ داعش کے وجود کا مقصد شام اور عراق کی فوجوں کو تباہ کرنا ہے، اب یہ مصر میں بھی داخل ہونے کی کوشش کر رہے ہیں، مصر کی آرمی عرب ملکوں سے سب سے بڑی آرمی ہے، لیکن وہ بھی ان دہشتگردوں کے نرغے میں آچکی ہے۔ وہاں بھی اب دہشتگردی کی کارروائیاں شروع کر دی گئی ہیں۔ اس سب کا مقصد امت مسلمہ کی طاقت کو ختم کرنا ہے اور اس ریجن میں شیعہ سنی مسئلہ پیدا کرنا ہے۔ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو ختم کرنا ہے۔ ایک تاثر یہ دیا جا رہا ہے کہ داعش کے فقط ہم شیعہ ہی متاثر ہیں جبکہ یہ حقیقت نہیں ہے، شام، عراق، تنزانیہ، افریقہ، نائجیریا، لیبیا میں داعش کی کارروائیوں کا شکار بننے والے 95فیصد افراد کا تعلق اہل سنت سے ہے۔ اس سے ثابت ہے کہ شیعہ سنی مسئلہ نہیں ہے کہ بلکہ شیعہ اور سنی کو دہشتگردی کا سامنا ہے۔ اس لئے اسے فرقہ وارانہ بنانا غلط ہے۔ تکفیری اسلام کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔
اسلام ٹائمز: یہ ایک الزام لگایا جاتا ہے کہ حزب اللہ بشارالاسد کے تحفظ کیلئے لڑی جانیوالی جنگ اور شام میں ہونیوالی قتل و غارت گری میں برابر کی شریک ہے۔ آپ اس الزام پر کیا کہتے ہیں۔؟
نوار ساحلی: اس الزام میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ یاد رہے کہ ہم آخری گروپ تھے جو شام کی جنگ میں وارد ہوا، شام کی جنگ کا آغاز 2011ء میں ہوا ہے اور ہم 2013ء کے وسط میں اس جنگ میں وارد ہوئے ہیں۔ ہمیں اس جنگ میں شامل ہونے کیلئے پکارا گیا تھا، دوسرا ہم نے نارتھ لبنان کا دفاع کیا ہے۔ نارتھ لبنان شام کی سرحد کے قریب ہے۔ شام کی سرحد کے قریب تقریباً 16 گاوں ہیں، جہاں پر لبنانیوں کا قبضہ ہے یا کہہ لیجیئے کہ رہائش پذیر ہیں۔ آپ دیکھیں کہ مسلح گروہوں نے ان علاقوں میں آکر جنگ شروع کی اور قتل و قتال شروع کر دیا۔ ان علاقوں میں عجیب صورتحال بنی ہوئی تھی کہ شام کی فوج کچھ کر نہیں سکتی تھی اور لبنان کی فوج خاموش تھی۔ اس صورتحال میں کہ جب ان علاقوں میں قتل عام کیا جا رہا تھا تو ضروری تھا کہ مزاحمت فورس جائے اور ان کا تحفظ کرے اور انہیں دہشتگردوں سے نجات دلائے۔ یہ وہ وجہ تھی جس کی وجہ سے ہم شام میں داخل ہوئے اور دہشتگردوں کو ان علاقوں سے مار بھگایا۔
دوسری بات یہ ہے کہ 2013ء میں جب دہشتگردوں نے مقام زینب سلام اللہ علھیا کے روضے پر حملے شروع کئے تو وہاں پر مقاومت کے کل پندرہ سے بیس افراد گئے، جنہوں نے حرم کے دفاع کا فریضہ انجام دیا۔ حزب اللہ نے اسد رجیم کا نہیں بلکہ دراصل لبنان کا دفاع کیا ہے، کیونکہ دنیا جانتی ہے کہ اگر داعش اور دیگر دہشتگرد گروہ شام میں فتیح یاب ہوجاتے ہیں تو ان کا اگلا ٹارگٹ لبنان ہے۔ لبنان ایک چھوٹا سا ملک ہے جبکہ شام ایک بڑا ملک ہے، لبنان شام کے مقابلہ میں اٹھارہ گنا چھوٹا ملک ہے۔ یہ بات طے ہے کہ اگر یہ شام میں جنگ جیتے تو ان کا اگلا ٹارگٹ لبنان تھا، جہاں آکر یہ جنگ و جدل کرتے۔ ہم نے کسی سنی علاقے یا گروپ کیخلاف جنگ نہیں لڑی بلکہ ہم نے ایک دہشتگرد گروپ کیخلاف جنگ لڑی ہے، جس نے شیعہ سنی دونوں کو مارا ہے۔ جیسے اوپر بیان کرچکا ہوں کہ داعش نے شیعوں سے زیادہ سنیوں کا قتل عام کیا ہے۔ میں اپیل کروں گا کہ داعش کو سنی نہ کہا کریں، حتیٰ یہ لوگ مسلمان تو درکنار یہ لوگ انسان کہلانے کے بھی روا دار نہیں۔
اسلام ٹائمز: کہا جاتا ہے کہ لبنان میں سیاسی بحران حزب اللہ کا پیدا کیا ہوا ہے۔ اس پر کیا کہیں گے۔؟
نوار ساحلی: آپ جانتے ہیں کہ حزب اللہ وہ جماعت ہے، جس نے اسرائیل کو ناکوں چنے چبوائے ہیں اور بدترین شکست سے دوچار کیا ہے، آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ اسرائیل مغرب کا پیدا کردہ ناجائزہ بچہ ہے، جسے امریکہ اور مغرب نے ملکر جنم دیا۔ آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ اٹھارہ سال قبل اسرائیل لبنان چھوڑ کر بھاگا تھا اور وہ بھی بغیر کوئی معاہدہ کئے اسے لبنان چھوڑنا پڑا۔ عربوں کی اسرائیل کیخلاف مقاومت کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ لبنانیوں نے بغیر کوئی معاہدہ کئے اسرائیل کو لبنان چھورنے پر مجبور کیا اور وہ بھاگ کھڑا ہوا۔ 2006ء میں امریکہ کے ایماء پر ہم پر جنگ مسلط کی گئی، حتیٰ اس جنگ مسلط کرانے میں بعض عرب ممالک بھی اسرائیل کے ساتھ تھے کہ اسلامی مقاومت کو ہمیشہ کیلئے ختم کر دیا جائے۔ ان کا پلان تھا کہ جب حزب اللہ ختم ہوجائیگی تو اس کے ساتھ ہی حماس کو بھی ختم کر دیں گے۔
اس کے بعد ان کا ٹارگٹ شام اور عراق تھا، بعد میں یہ ایران کے ساتھ جنگ کرتے۔ لیکن تاریخ نے دیکھا کہ 33 روزہ جنگ میں حزب اللہ نے اسرائیل کو شکست سے دوچار کیا اور اسے شکست کھانی پڑ گئی۔ اب شام اور عراق میں جو ہو رہا ہے اسے اب نہ دیکھیں، اس کی حکمت عملی پہلے سے طے کی گئی تھی، لیکن حزب اللہ اور اسلامی مقاومت نے دشمن کو اس کے ارادوں میں ناکام بنایا ہے۔ دشمن کا مقصد اس پورے ریجن کو تباہ کرنا ہے۔ یہ کہنا کہ مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان کوئی جنگ ہے، اس میں بھی کوئی صداقت نہیں ہے۔ سارے فساد کی جڑ صہیونی حکومت ہے، جو اس خطے کو تباہ کرنا چاہتی ہے۔ آپ دیکھیں کہ شام اور لبنان میں عیسائی بھی رہتے ہیں، کبھی مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوا۔ اب آپ کو سوال کا جواب مل گیا ہوگا کہ سیاسی مسائل حزب اللہ کے پیدا کردہ نہیں ہیں بلکہ اس کے پیچھے امریکہ اور اسرائیل ہے، جو لبنان کو پرامن نہیں دیکھنا چاہتا۔ اگر لبنان پرامن ہوگا تو اس کیخلاف بات جائیگی۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر مقاومت یہ اعلان کر دے کہ اسرائیل کیخلاف اب کوئی جنگ نہیں لڑی جائیگی تو آپ دیکھیں گے کہ لبنان میں 24گھنٹوں کے اندر اندر سکون اور امن قائم ہوجائیگا۔
اسلام ٹائمز: بعض مغربی اور عرب ممالک الزام عائد کرتے ہیں کہ حزب اللہ دراصل ایران کی پراکسی وار لڑ رہی ہے۔ اس میں کتنی صداقت ہے۔؟
نوار ساحلی: ایران ہمارا اتحادی ہے اور ہم ایران کے اتحادی ہیں، ایران ہمارے لوگوں کی مدد کر رہا ہے، وہ ہمارا دوست ملک ہے نہ کہ دشمن، جبکہ اسرائیل ہمارا حقیقی دشمن ہے۔ ایران مظلوموں کی مدد کر رہا ہے، کیا یہ غلط ہے؟، مجھے بتائیں کہ پورے عرب میں ایران کیا غلط کر رہا ہے۔؟ کیا اسرائیل کیخلاف لڑنا اور مقاومت کرنا پراکسی وار ہے۔ جس ریاست کا وجود ہی غیر قانونی ہے اور اسے ناجائز طریقہ مسلمانوں کے قلب میں بسایا گیا ہے۔ آپ دیکھیں کہ ایران دشمن کے مقابلے میں ہمارے ساتھ کھڑا ہے جبکہ دوسرے عرب ممالک تو ہاتھ تک ملانا گوارا نہیں کرتے۔ کتنا خوبصورت منظر تھا، جب ایک طرف چھ عالمی طاقتیں بیٹھی ہوئی تھیں اور دوسری جانب ایران کے وزیر خارجہ مذاکرات کر رہے تھے۔ اس پر امت کو فخر کرنا چاہیے کہ ایک اسلامی ملک عالمی طاقتوں کے ساتھ برابری کی سطح پر مذاکرات رہا ہے۔
اس بات کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ انقلاب اسلامی سے پہلے ایران اسرائیل کا دوست ملک تھا، اسرائیل کا تہران میں سفارتخانہ تھا، لیکن انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد تہران سے اسرائیل کا سفارتخانہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بند ہوا اور فلسطین کا سفارت خانہ کھولا گیا۔ میرے خیال میں اب دنیا میں ایران کا اصل خوشنما چہرہ سامنے آرہا ہے، دنیا کو ایران کا ایک خوف ناک چہرہ دکھایا گیا جو کہ غلط تھا۔ ایران مسلمان ملکوں کیساتھ محبت کرتا ہے اور تعلقات بڑھانے کا خواہاں ہے، حتیٰ پاکستان کے ساتھ ایران اچھے تعلقات کو مستحکم کرنا چاہتا ہے۔
اسلام ٹائمز: حزب اللہ ایران کے چھ عالمی طاقتوں سے ہونیوالے حالیہ مذاکرات کو کس نگاہ سے دیکھتی ہے۔؟
نوار ساحلی: ہم اسے ایران کی بڑی فتح سمجھتے ہیں، ایران سے ہٹ کر یہ عرب سمیت تمام مسلم امہ کی فتح ہے۔ جو لوگ آزادی چاہتے ہیں یہ ان کی فتح ہے۔ اس معاہدے سے ایران کی اقتصادیات مضبوط ہوگی، حتیٰ ایران کے ہمسائے ممالک کی اقتصادی حالت بہتر ہوگی، ایران کے ہمسایہ ممالک کون ہیں، عرب اور اسلامی ممالک ہیں، ایران کی خواہش ہے کہ وہ مغرب سے زیادہ اپنے ہمسایوں سے تعلقات کو بہتر بنائے، یہ ایران کی ترجیحات میں شامل ہے۔ اس معاہدے سے خود پاکستان کی اقتصادی حالت بہتر ہوگی، یہ آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں۔ خود عرب ممالک کی اقتصادی حالت میں بہتری آئے گی۔ ایٹمی مذاکرات کے اس خطے پر اقتصادی اور سیاسی حوالے سے بہت ہی اچھے اثرات پڑیں گے۔
اسلام ٹائمز: حزب اللہ کی نگاہ میں پاکستان کی کیا اہمیت ہے۔؟
نوار ساحلی: پاکستان آبادی کے لحاظ سے دوسرا بڑا اسلامی ملک ہے، پاکستان میں حالیہ تبدیلی انتہائی اہم ہے، پاکستان نے اپنی سمت کا تعین کر لیا ہے اور یہی وجہ ہے اس وقت یہاں کی سیاسی اور عسکری قیادت نے دہشتگردی کے خاتمے کیلئے آپریشن شروع کر رکھا ہے جو انتہائی اہم ہے۔ اس سے پاکستان کا امیج بہتر ہوگا اور اقتصادی ترقی بڑھے گی۔ یہ بات پاکستان کی قیادت کو سمجھ آگئی ہے کہ تکفیری عالم اسلام کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔ خود ریاست پاکستان کیلئے یہ ناسور ہیں، ان کیخلاف آپریشن کا فیصلہ بہت اچھا فیصلہ ہے۔ ان تکفیریوں نے بےگناہوں کا قتل عام کیا ہے، حتیٰ انہوں نے غیر مسلموں کو بھی نہیں چھوڑا، مساجد، امام بارگاہوں اور ریاست کے اہم اداروں کو انہوں نے پاکستان میں ںشانہ بنایا ہے۔ یہ تکفیری اپنے علاوہ سب کو کافر سمجھتے ہیں، ہم پاکستان کے اس فیصلے کو سراہتے ہیں اور انہیں یقین دہانی کراتے ہیں کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں اور انشاءاللہ اللہ تعالٰی آپ کے ساتھ ہے، ایک دن یہ تکفیری ختم ہوجائیں گے۔
اسلام ٹائمز: پاکستان نے یمن کے حوالے سے ایک اہم فیصلہ کیا ہے اور جنگ میں شریک نہیں ہوا، گو کہ سعودی عرب کیجانب سے پاکستان کو دباو کا سامنا کرنا پڑا۔ آپ اس فیصلے کو کیسے دیکھتے ہیں۔؟
نوار ساحلی: جی یہ بھی پاکستان کا ایک بہت بڑا فیصلہ ہے کہ یمن کے اندرونی معاملات میں خود کو نہ الجھایا جائے اور اپنے آپ کو اس جنگ سے الگ رکھا، مجھے امید ہے کہ یمن کا کوئی سیاسی حل نکل آئے گا، میں زیادہ تفصیل میں نہیں جانا چاہتا، لیکن اتنا کہتا ہوں کہ سعودی عرب نے یمن پر جنگ مسلط کرکے یمن کے لوگوں کے لئے مشکلات کھڑی کر دی ہیں، یہ بات اسے سمجھنی چاہیے کہ سیاسی حل کے علاوہ یمن کا کوئی دوسرا حل موجود نہیں ہے۔ پوری مسلم امہ چاہتی ہے کہ یمن کے مسئلہ کا پرامن حل تلاش کیا جائے۔