اسلام ٹائمز: ایم ڈبلیو ایم ملتان کے سیکرٹری جنرل اور معروف عالم دین کا ”اسلام ٹائمز” کو دیئے گئے انٹرویو میں کہنا تھا کہ جب یمن پر سعودی عرب جارحیت کرنے لگا تھا تو عرب لیگ کا سربراہی اجلاس بھی بلایا گیا، کیونکہ اُس میں سعودی بادشاہت کی انانیت کا مسئلہ تھا، لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ صیہونی فورسز کی جانب سے کئے گئے ظالمانہ اقدامات کے خلاف ابھی تک نہ عرب لیگ بولی ہے اور نہ ہی سعودی عرب۔
علامہ قاضی نادر حسین علوی ملتان میں پیدا ہوئے، ان کے والد قاضی بشیر حسین (مرحوم) نے زندگی کا ایک بڑا حصہ دربار حضرت شاہ شمس تبریز میں موجود مسجد کی خدمت میں گزارا اور اپنے فرائض انجام دیئے، ابتدائی تعلیم گورنمنٹ ہائی سکول عام خاص باغ سے حاصل کی، ایف اے کا امتحان ولایت حسین کالج سے پاس کیا، گریجوایشن اور ماسٹر بہائوالدین زکریا یونیورسٹی سے کیا۔ ابتدائی دینی تعلیم جامعہ شہید مطہری ملتان، جامعہ مخزن العلوم الجعفریہ سورج میانی اور جامعۃ المنتظر ماڈل ٹائون لاہور سے حاصل کی، جبکہ اعلٰی تعلیم حوزہ علمیہ قم المقدسہ سے حاصل کی، زمانہ طالبعلمی میں امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان سے وابستہ رہے اور مختلف ذمہ داریوں پر کام کیا۔ اعلٰی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ملتان میں قائم مدرسہ جامعۃ الشہید مطہری کی بطور پرنسپل ذمہ داری سنبھالی جو کہ بخوبی اور احسن طریقے سے ادا کر رہے ہیں، مجلس وحدت مسلمین کے ساتھ مربوط رہے اور مختلف ذمہ داریوں پر کام کیا، آج کل ایم ڈبلیو ایم ملتان کی سیکرٹری جنرل کی ذمہ داری پر کام کر رہے ہیں۔ گذشتہ روز ”اسلام ٹائمز” نے اُن کے ساتھ ایک نشست کی، جس کا احوال قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ ادارہ
اسلام ٹائمز: سعودی عرب میں ہونیوالے کرین حادثے کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
علامہ قاضی نادر حسین علوی: بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ سعودی عرب مکہ مکرمہ میں کرین کے حادثے میں پاکستانیوں سمیت 100 سے زائد مسلمانوں کا جاں بحق ہونا ایک افسوسناک امر ہے، ہم اس غم میں جاں بحق افراد کے لواحقین کے ساتھ برابر کے شریک ہیں اور زخمیوں کی صحت یابی کے لئے دعاگو ہیں۔ رہی بات حادثے کی تو یہ حج کے موقع پر ہونے والا کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے، اس سے پہلے بھی کئی واقعے پیش آچکے ہیں، جن میں سعودی حکومت کی جانب سے انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے کئی مسلمانوں کو جان سے دھونا پڑا، چاہے وہ منٰی کا واقعہ ہو یا شیطان کو کنکریاں مارنے کا واقعہ، ان واقعات کے ہونے سے سعودی حکومت کے انتظامات کی قلعی کھل گئی ہے، اگر حکومت حج سے پہلے ان انتظامات کو بہتر طریقے سے انجام دیتی تو اتنا بڑا سانحہ رونما نہ ہوتا۔ ان واقعات سے واضح ہوتا ہے کہ سعودی حکومت حج جیسے بڑے اجتماع کے انتظامات میں ناکام ہوگئی ہے۔
اسلام ٹائمز: بعض ممالک کے مسلمانوں کو سعودی حکومت کیجانب سے حج سے روکنے کے عمل کے بارے میں کیا کہیں گے۔؟
علامہ قاضی نادر حسین علوی: جیسا کہ سننے میں آیا ہے کہ سعودی عرب کی حکومت کا پہلے شام اور اب یمن کی عوام کو حج جیسے مقدس اور واجب عمل سے روکنا اُس کے کردار کو واضح کرتا ہے، جیسا کہ آپ بھی جانتے ہیں کہ گذشتہ چار سال سے سعودی حکومت نے شام کے شہریوں کو حج کی اجازت نہیں دی، جبکہ شام میں حکومت اور عوام کے خلاف لڑنے والے تکفیریوں اور خارجیوں کے لئے کوئی پابندی نہیں بلکہ اُن کی ہر قسم کی معاونت کی جا رہی ہے، جو کہ آل سعود حکومت کی اسلام دشمنی کا واضح ثبوت ہے، شام کے بعد یمن میں بھی یمنی قبائل اور عوام کے لئے حج ادا کرنے سے متعلق اقدامات قابل مذمت ہیں۔ جن مہینوں میں جنگ کرنا اسلام میں جائز نہیں ہے، سعودی عرب انہی مہنیوں اور ایام میں بے گناہ یمنیوں پر آگ برسا رہا ہے، کوئی دن ایسا نہیں گزرا، جس دن سعودی لڑاکا طیاروں نے یمن کے عوام پر حملہ نہ کیا ہو۔
اسلام ٹائمز: صیہونی حکومت کیجانب سے مسجد اقصٰی پر دو بار حملے کئے گئے، لیکن عالم اسلام خاموش ہے۔؟
علامہ قاضی نادر حسین علوی: مسجد اقصٰی یعنی بیت المقدس جو اس وقت عالم اسلام کے لئے تیسرے بڑی مقدس مقام کا درجہ رکھتی ہے، جس پر صیہونی حکومت اپنا قبضہ جمائے بیٹھی ہے، ابھی گذشتہ ایک ہفتے میں دو بار صیہونی فورسز کی جانب سے بیت المقدس کی توہین کی گئی، صیہونی فورسز مسجد اقصٰی میں داخل ہوئیں، جائے نماز اور مسجد کے ایک حصے کو نقصان پہنچایا، کئی جوانوں کو گرفتار کیا، آنسو گیس کے شیل فائر کئے، فائرنگ کی اور نہتے مسلمانوں پر لاٹھی چارج کیا، عالمی میڈیا نے اسے کور کیا، لیکن نام نہاد اسلام کے ٹھیکیداروں اور عرب ممالک کی جانب سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا، سوائے ایک ملک اُردن کے۔ آپ کو یاد ہوگا جب یمن پر سعودی عرب جارحیت کرنے لگا تھا تو عرب لیگ کا سربراہی اجلاس بھی بلایا گیا، کیونکہ اُس میں سعودی بادشاہت کی انانیت کا مسئلہ تھا لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ صیہونی فورسز کی جانب سے کیے گئے ان ظالمانہ اقدامات کے خلاف ابھی تک نہ عرب لیگ بولا ہے اور نہ ہی سعودی عرب۔ یمن کے بے گناہ عوام پر جارحیت کرنے والے ممالک قطر، کویت، متحدہ عرب امارات، ترکی کو اسلام کے شعائر کا کوئی خیال نہیں۔ یہ ممالک یمن، شام، عراق اور بحرین کے مسلمانوں پر تو جنگ مسلط کر سکتے ہیں، لیکن اسلام کا دفاع اور اسلام کے مقدس مقامات کی حفاظت نہیں کرسکتے۔
اسلام ٹائمز: صیہونی فورسز کیجانب سے کئے گئے ظالمانہ اقدامات کیخلاف آواز کیوں نہیں بلند کی جا رہی۔؟
علامہ قاضی نادر حسین علوی: ایسا ہرگز نہیں ہے کہ صیہونی فورسز کی کارروائی کے خلاف آواز نہیں اُٹھائی جا رہی، آواز تو اُٹھائی جا رہی ہے لیکن ان نام نہاد قوتوں کی جانب سے نہیں بلکہ اُن مزاحمتی تحریکوں کی جانب سے جنہوں نے آج تک مسئلہ فلسطین کو اپنا مسئلہ سمجھا، میں یہاں پر اسلامی مزاحمتی تحریک حماس، حزب اللہ، ایران اور اُردن کا ذکر کرنا چاہوں گا کہ جنہوں نے اس ناجائز اولاد (اسرائیل) کے مظالم کی مذمت کی ہے اور اُسے متنبہ کیا ہے کہ اگر وہ ان اقدامات سے باز نہ آیا تو حالات کی ذمہ داری اسرائیل اور اُس کے سربرست امریکہ پر عائد ہوگی۔ ابھی گذشتہ دنوں اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے انسانیت مخالف کردار اور اقدامات کے خلاف برطانیہ میں ایک مہم چلائی گئی، اس مہم کا آغاز ایک پیٹیشن سے ہوا، جو کہ صیہونی وزیراعظم کے خلاف دائر کی گئی اور برطانوی حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ نیتن یاہو کے دورہ باطانیہ کے موقع پر انسانیت سوز اقدامات کرنے جرم میں گرفتار کیا جائے۔ اس مہم میں برطانوی عوام نے بھرپور شرکت کی اور ایک لاکھ سے زائد افراد نے اس پیٹیشن پر دستخط کئے اور نیتن یاہو کے دورہ باطانیہ کے موقع پر نہ صرف مسلمانوں بلکہ اعتدال پسند یہودیوں نے بھی برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کے گھر کے سامنے مظاہرہ کیا اور نیتن یاہو کی گرفتاری کا مطالبہ کیا۔
اسلام ٹائمز: پاکستان میں ایک بار پھر خودکش اور دہشتگردانہ حملے شروع ہوچکے ہیں، اس حوالے سے کیا کہیں گے۔؟
علامہ قاضی نادر حسین علوی: ماضی کی نسبت موجودہ دور میں دہشت گردانہ اور خودکش حملوں میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے، حال ہی میں جو بڑے دہشت گردی کے واقعے ہوئے، اُن میں ایک صوبائی وزیر داخلہ کرنل ریٹائرڈ شجاع خانزادہ پر حملہ تھا، جس میں صوبائی وزیر سمیت درجن سے زائد افراد جاں بحق ہوئے، جیوانی ایئر بیس پر حملہ کیا گیا، وزیرستان میں دہشت گردوں کی جانب سے دو دہشت گردی کے واقعات سامنے آئے اور ایک واقعہ گذشتہ روز ملتان میں ہوا، اس کے علاوہ دیگر فائرنگ اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات ہوئے، جن میں درجن سے زائد افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ یہ دہشت گردانہ حملے دہشت گردی کے خلاف جاری آپریشن کا ردعمل ہیں۔ دو ماہ قبل جنوبی پنجاب میں عالمی دہشت گرد اور کالعدم تنظیم کے سربراہ کی اپنے ساتھیوں سمیت ہلاکت کے بعد اٹک میں صوبائی وزیر داخلہ کرنل ریٹائرڈ شجاع خانزادہ کے ڈیرے پر حملہ کیا گیا اور اُنہیں دہشت گردی کے خلاف اقدامات کرنے کی پاداش میں شہید کیا گیا، اور اس واقعے کی ذمہ داری بھی اسی کالعدم تنظیم نے قبول کی۔ جیوانی ایئر بیس پر حملہ کیا گیا، جس کی ذمہ داری بھی اسی کالعدم تنظیم نے قبول کی، کراچی میں ایک سید وکیل کو شہید کیا گیا اور اب ملتان میں ہونے والا خودکش حملہ جو کہ ٹارگٹ سے پہلے بلاسٹ ہوگیا، یہ اُنہی ملک دشمن قوتوں کی کارروائی ہے، جن کے خلاف ہماری پاک فوج کارروائیاں کر رہی ہے۔
اسلام ٹائمز: دہشتگردوں کیخلاف آپریشن کے بعد سے تخریب کاری کے واقعات میں کس حد تک کمی واقع ہوئی ہے۔؟
علامہ قاضی نادر حسین علوی: پاک فوج اور عسکری اداروں کی کامیاب کارروائی کے بعد دہشتگرد بوکھلاہٹ کا شکار ہیں، پنجاب حکومت کہ جو دہشتگردوں کی سرپرست اور ان کی معاون رہی ہے اور اس حکومت کے بیان میڈیا پر موجود ہیں کہ ”پنجاب میں کارروائی نہ کی جائے، ہمارا موقف آپ سے ملتا ہے۔” اس سے واضح ہے کہ پنجاب میں دہشتگردوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے، جن کے خلاف کارروائی کرنے کی ضرورت ہے، ہمارا پاک فوج سے مطالبہ ہے کہ وزیرستان کی طرز پر پنجاب میں بھی دہشتگردوں اور اُن کے سرپرستوں کے خلاف بھرپور آپریشن کیا جائے اور خاص طور پر جنوبی پنجاب میں دہشت گردوں کی آماجگاہوں کو ختم کیا جائے۔