مشکات نیوز ایجنسی کی رپورٹ مطابق تکفیریوں سے اس ملک کو جو خطرہ ہے

، اس کا تقاضا ہے کہ شیعہ قائدین کے خلاف متعصبانہ زاویہ نگاہ کو صاحبان اقتدار کی بالا ترین سطح سے نچلی ترین سطح تک ختم کر دیا جائے۔ شیعہ قائدین کے لئے نائن الیون سے پہلے بھی اور اس کے بعد بھی پاکستان کی ہیئت مقتدرہ کی پالیسی مخاصمانہ ہی دکھائی دیتی ہے۔ جنرل ضیاء ہوں یا دو اڑھائی سالہ بے نظیر نواز حکومتیں، پرویز مشرف کے دور حکومت سے نواز شریف کی تیسری مرکزی حکومت تک پاکستان کے شیعہ مسلمانوں اور ان کے قائدین کے خلاف تکفیریوں کی سرپرستی صاف دکھائی دیتی ہے۔ مجھے یاد ہے علامہ حسن ظفر نقوی اور علامہ حسن ترابی پر بھی قتل کے جھوٹے مقدمات قائم کئے گئے تھے، حالانکہ اس وقت ان کی جماعت تحریک جعفریہ پر پابندی نہیں لگی تھی۔ علامہ ساجد نقوی کو بھی پابند سلاسل کیا گیا اور اب علامہ امین شہیدی کے خلاف جھوٹا مقدمہ۔

 سال 2004ء سے ماہ ستمبر میں یہ ناچیز اس مہینے کی مناسبت سے کوئی ایک تحریر ضرور لکھتا رہا ہے۔ آج جب ماضی کی طرف نظر دوڑاتا ہوں تو آج کچھ معمولی تبدیلیاں نظر آتی ہیں۔ چاہتا ہوں کہ ماضی کے اوراق سے کچھ عرض کروں اور پھر حال پر بات ہوجائے۔ 2004ء ماہ ستمبر ماہنامہ منتظر سحر کا اپنا تحریر کردہ اداریہ دیکھتا ہوں تو وہاں یہ لکھا کھائی دیتا کہ ’’ایک طرف ستمبر قائد اعظم کی ہم سے جدائی کا زخم تازہ کرتا ہے تو دوسری جانب ستمبر 1965ء کے واقعات ہمارے سارے زخم مندمل کر دیتے ہیں۔ جب یہ قوم فوج سے دو قدم آگے بڑھ کر دشمن کے ٹینکوں کے آگے لیٹ کر مادر وطن کا دفاع کر رہی تھی۔ ستمبر 1965ء ۔۔۔۔کہ جب بھارتی فوجی جنرل دن میں لاہور فتح کرنے کے خواب دیکھ رہا تھا، مگر جب اس کی آنکھ کھلی تو اسے اپنی فوج کی پسپائی دکھائی دی (کیونکہ) قوم متحد تھی۔‘‘

 

اسی ماہنامہ جریدہ کے شمارہ ستمبر 2006ء کے اداریہ میں بندہ عرض کرچکا تھا کہ : ’’یقیناً دفاع وطن ایسا فریضہ ہے کہ اگر اس میں ہم کامیاب رہیں تو جشن منانا ہمارا حق بنتا ہے۔‘‘ مزید لکھا تھا کہ: ہم اس دن کے حوالے سے ایک نکتہ عرض کریں گے کہ پاکستان کی دفاعی حکمت عملی میں جو تبدیلیاں ضروری ہیں، ان کی نشاندہی اب تک نہیں کی گئی۔ اس ضمن میں سابق فوجی افسران کی جانب سے بعض تجاویز پیش کی گئی ہیں۔ بعض نے عالمی جہادی قوتوں کی اصطلاح استعمال کرکے تجاویز پیش کی ہیں جو کہ لبنان کی حزب اللہ نامی تنظیم و تحریک کی جانب سے صہیونی اسرائیلی افواج کو شکست دینے کے بعد اخبارات کے ذریعے ہم تک پہنچی ہیں۔‘‘

 

’’یہ عالمی جہادی قوتیں جو 5 سال میں افغانستان اور افغان عوام کا دفاع نہ کرسکیں۔ 3 سال سے عراق میں مسلمانوں ہی کی اکثریت پر حملہ ہو رہا ہے۔ فلوجہ میں سنی مسلمان نشانہ تھے اور نجف، کربلا، کاظمین، بعقوبہ اور بصرہ سمیت دیگر علاقوں میں شیعہ مسلمان اب بھی دہشت گردی کا ہدف ہیں۔ ان عالمی جہادی قوتوں کی پاکستانی برانچ پر اس وقت اعتماد کیا جاسکے گا کہ جب یہ ملحدین و مشرکین کے ایجنڈے پر عمل کرنے کی بجائے اسلام و مسلمین کا دفاع کریں گے۔ جب تک عراق اور افغانستان میں مسلمانوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا جاتا رہے گا اور ان دونوں ممالک پر غیر ملکی استعماری و استکباری قبضہ برقرار رہے گا، ہم اس تجویز کو ناقابل عمل قرار دیتے رہیں گے۔‘‘ میرا زاویہ فکر 2006ء میں یہ تھا اور اس کے بعد راقم الحروف نے ایک معیار بتایا تھا کہ دفاعی حکمت عملی میں فوری طور پر جو تبدیلی لائی جاسکتی ہے، وہ ہے اس دفاعی حکمت عملی میں حزب اللہ لبنان کی فکر، فلسفے اور حکمت عملی کی شمولیت۔ (کیونکہ) اس فکر و فلسفے کے تحت وطن کا دفاع کیا جاسکتا ہے ورنہ ’’عالمی جہادی قوتیں‘‘ دشمنوں کی افواج کو میزبان ممالک میں قابض تو کروا دیتی ہیں مگر دفاعی جنگ نہیں لڑ سکتیں۔

 

اس اداریہ میں یہ سوال بھی سبھی کی خدمت میں پیش کر دیا گیا تھا کہ ’’قیامت تک جہاد جاری رکھنے والی ان قوتوں کو معلوم بھی ہے کہ خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفٰی ﷺ نے 10سالہ مدنی زندگی میں کتنے غزوات حصہ لیا۔ کیا اپنی سرزمین پر قبضے کروائے، کیا تلوار کے زور پر غیر مسلموں کو مسلمان بننے پر مجبور کیا، ہرگز نہیں۔ کیا عالمی جہادی قوتوں کو قیامت تک کی مہلت دی جائے کہ وہ افغانستان اور عراق سے امریکی و اتحادی افواج کو انخلاء پر مجبور کرے۔ ان کھوکھلے اعلانات کا دور گذرچکا۔ اب دور ہے کہ پانچ ہزار مسلمانوں نے 34 دن تک جنگ میں ثابت قدم رہ کر 50 ہزار سے زائد صہیونی اسرائیلی افواج کو لبنان میں قابض نہیں ہونے دیا، جبکہ لبنان میں نہ تو حکومت ان کے پاس ہے اور نہ ہی سہولیات۔ ان کی کامیابی کا راز یہ تھا کہ وہ بھی سنی مسلمانوں کی فلسطینی تحریک کی طرح امام خمینی اور امام خامنہ ای کے سچے پیروکار ہیں۔‘‘

 

اس دور کی جرنیلی مشرف حکومت کے دور میں پاکستان کی دفاعی ڈاکٹرائن بنانے والوں کو اس اداریہ میں اس بندہ حقیر پر تقصیر نے متنبہ کیا تھا اور ایک مثال دی تھی کہ آج اسلامی جمہوریہ اپنی مدد آپ کے تحت ایف-18 جہاز بنا چکا ہے اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کی حکومت ذلت آمیز شرائط پر امریکا کے کھٹارے ایف16 خرید کر ہم پاکستانیوں کو یہ بتانا چاہ رہی ہے کہ انہوں نے بڑا کارنامہ انجام دیا ہے کہ ان کی شان میں تبصرے اور تجزیے کئے جائیں۔ یوم دفاع پاکستان پر ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ عراقی صدر صدام سمیت کئی امریکی اتحادی مسلم حکمرانوں نے فوجی ساز و سامان کے لئے امریکا اور اس کے اتحادیوں پر تکیہ کیا تو نتیجہ کیا نکلا؟ یہی کہ

باغباں نے آگ دی جب آشیانے کو میرے

جن پہ تھا تکیہ وہی پتے ہوا دینے لگے

 

ہمارے نظریہ ساز تاحال پاکستان کے زمینی حقائق کو سمجھنے میں ناکام رہے ہیں۔ جب وہ اسلام اسلام کھیل رہے ہوتے ہیں تو طالبان ان کا ماڈل ہوتا ہے اور جب طالبان کی مخالفت کا لبادہ اوڑھتے ہیں تو ایسے الٹرا ماڈرن، سیکولر لبرل بن جاتے ہیں کہ پھر غریدہ فاروقی کے ساتھ فوجیوں کا خٹک ڈانس کروا دیتے ہیں۔ بھائی! اگر مرد اینکر پرسن بھی مدعو تھے تو انہی سے یہ رقص کروالیا جاتا۔ پہلے پرویز مشرف کتے کے ساتھ تصویر کھنچوا کر ہاتھی کو گدھا بنا رہے تھے۔ (ری پبلکن پارٹی کا نشان ہاتھی ہے اور صدر بش کا تعلق اسی جماعت سے تھا اور ہے۔ گدھا، ڈیموکریٹک پارٹی کا نشان ہے جبکہ یہ بے وقوفی کی علامت بھی تصور کیا جاتا ہے۔)

 

عالمی جہادی قوتوں کے بارے میں زیادہ تر جنرل حمید گل بیان دیا کرتے تھے۔ اب وہ رحلت فرما چکے ہیں۔ اس لئے اب اس موضو ع پر مزید کیا بات کریں، بندہ بروقت اپنی رائے بیان کرچکا تھا کہ جب یہ پہلی مرتبہ کہی گئی تھی۔ یوم دفاع کے خصوصی پروگرام اچھے ہیں۔ نئے دور کے تقاضوں کے تحت اچھی پروپیگنڈا حکمت عملی ہے۔ اس میں نیا پن ہے، لیکن یہ یاد رکھا جائے کہ یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے تو یہاں اسلامی و مشرقی شرم و حیا کو آڑے آنا چاہیے۔ مادر پدر آزادی کی جس روش پر پاکستان کو زبردستی دھکیلنے کی کوشش کی جا رہی ہے، اس سے باز رہا جائے۔ طالبان ایک انتہا تھی تو مشرف کا سیکولر لبرل ازم دوسری انتہا تھی اور اس وقت میں اپنے سینیئر صحافی دوستوں سے یہ بات برملا کہا کرتا تھا کہ وہ بھی غلط تھے اور یہ بھی غلط ہے۔

 

آپ کے پاس تاحال پرانے قومی نغموں کا متبادل نیا نغمہ نہیں آسکا ہے۔ میرے خون کو آج بھی استاد امانت علی کی آواز میں اے وطن پاک وطن کی صدا گرما دیتی ہے۔ آج بھی ’’اے راہ حق کے شہیدو، وفا کی تصویرو‘‘ ہی یوم دفاع کا بہترین نغمہ ہے۔ اگر ناچ گانے والی ہر پروڈکٹ کامیاب ہوتی، تو آج اس شعبہ میں نت نئی ایجادات ہوچکیں، لیکن آپ اس میں کوئی اثر انگیز نیاپن نہیں لاسکے۔ سانحہ آرمی اسکول پشاور پر جب بچوں کا ایک نغمہ آیا تھا (میں ایسی قوم سے ہوں جس کے وہ بچوں سے ڈرتا ہے) تو میں نے اسی وقت کہا تھا کہ دشمن کو ایک نغمے سے بھی شکست دی جاسکتی ہے۔ آئی ایس پی آر کو اس طرف خاص توجہ دینی چاہیے اور نئے نغمہ نگاروں کو بھی متوجہ رہنا چاہیے۔

 

آخر میں یوم دفاع پاکستان کی مناسبت سے اپنا ہی تحریر کردہ جملہ دہراؤں کہ ستمبر 1965ء میں چونکہ فوج پر قوم کا اعتماد تھا، لہٰذا دشمنوں نے اس اعتماد کو توڑنے کے لئے سازشیں کیں۔ ملکی سلامتی ادارے اس طرف دھیان دیں، فوج کو متنازعہ سیاسی معاملات سے دور رکھیں۔ بین الاقوامی اور علاقائی سیاست پر نظر رکھتے ہوئے ایسی پالیسی وضع کی جائے کہ اس میں خطے کے سارے ممالک اور بالخصوص پاکستان کے پڑوسی ممالک سے انتہائی اچھے اور دوستانہ تعلقات قائم ہوں، تاکہ سرحدی خطرات دور ہوں۔ داخلی سطح پر وفاق اور صوبوں کے درمیان بین الصوبائی متنازعہ امور خوش اسلوبی سے حل کئے جائیں۔ ہر قیمت پر داخلی استحکام کو برقرار رکھا جائے۔ لسانی و فرقہ وارانہ و صوبائی تعصبات کے خاتمے کے لئے ضروری اقدامات کئے جائیں۔ یہ اقدامات قاتل و مقتول، ظالم و مظلوم کو ایک ہی صف میں کھڑے کر دینے پر مبنی نہیں ہونے چاہئیں۔

 

تکفیریوں سے اس ملک کو جو خطرہ ہے، اس کا تقاضا ہے کہ شیعہ قائدین کے خلاف متعصبانہ زاویہ نگاہ کو صاحبان اقتدار کی بالا ترین سطح سے نچلی ترین سطح تک ختم کر دیا جائے۔ شیعہ قائدین کے لئے نائن الیون سے پہلے بھی اور اس کے بعد بھی پاکستان کی ہیئت مقتدرہ کی پالیسی مخاصمانہ ہی دکھائی دیتی ہے۔ جنرل ضیاء ہوں یا دو اڑھائی سالہ بے نظیر نواز حکومتیں، پرویز مشرف کے دور حکومت سے نواز شریف کی تیسری مرکزی حکومت تک پاکستان کے شیعہ مسلمانوں اور ان کے قائدین کے خلاف تکفیریوں کی سرپرستی صاف دکھائی دیتی ہے۔ مجھے یاد ہے علامہ حسن ظفر نقوی اور علامہ حسن ترابی پر بھی قتل کے جھوٹے مقدمات قائم کئے گئے تھے، حالانکہ اس وقت ان کی جماعت تحریک جعفریہ پر پابندی نہیں لگی تھی۔ علامہ ساجد نقوی کو بھی پابند سلاسل کیا گیا اور اب علامہ امین شہیدی کے خلاف جھوٹا مقدمہ۔

 

یہاں سپریم کورٹ پر حملہ کرنے والی جماعت تیسری مرتبہ پاکستان پر حکمران بنا دی گئی ہے، پاکستان کو گالیاں دینے والے جگہ جگہ حکمران طبقے میں شامل کئے جاتے رہے، لیکن پاکستان کے شیعہ شہری اور قائدین زیر عتاب ہی رہے۔ پاکستان کی دفاعی ڈاکٹرائن میں بھارت خارجی دشمن ہے، لیکن سابق جرنیل اشفاق پرویز کیانی کے دور میں انتہاپسندوں کو اندرونی خطرہ قرار دیا جاچکا ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ صوبہ پنجاب کے یہ انتہاء پسند اور ملک بھر میں ان کی ڈگڈی پر پاچنے والے انسان نما بندر سرکاری پروٹوکول سے فیضیاب ہو رہے ہیں! یوم دفاع پاکستان کی مناسبت سے میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ شیعہ دشمن ذہنیت نے پاکستان کے دفاع کو خطرے میں ڈالا ہے، ورنہ نشان حیدر کی حامل فوج حیدری شیر بن کر اموی ملوکیت کی باقیات کے خلاف وہ کچھ کرتی کہ جو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دفاع کا حق بنتا ہے۔