عراق کے شہر نجف اشرف میں مقیم مرجع تقلید حضرت آیت اللہ العظمی سید علی سیستانی اور اسلامی جمہوریہ ایران کے سلسلے میں مثبت اور اچھے روابط کے سلسلے میں شک و تردید پیدا کرنا عالم اسلام کے دشمنوں کی صرف ایک سازش اور اپنے استعماری اور استکباری طاقتوں کا اپنے مقاصد کےحصول کےلیےایک حربہ ہے ۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ عراق کے شہر نجف اشرف میں مقیم مرجع تقلید حضرت  آیت اللہ العظمی سید علی سیستانی کو اس وقت عراق میں ایک سب سے بڑی سیاسی ۔مذہبی شخصیت کہا جا سکتا ہے ۔آپ فقہی علم اور سیاسی بینش میں بڑے مقام پر فائز ہونے کی وجہ سے عراقی عوام کے درمیان زبر دست مقبولیت کے حامل ہیں ۔اسی بنا پر اس مرجع عالیقدر کی بہت ساری تحلیلیں ستمدیدہ عراق کے سیاسی اور اجتماعی میدان میں اس ملک کے حال اور مستقبل کے لیے حیرت ناک حد تک سب سے آگے نظر آتی ہیں ۔

عراق کے سیاسی اور اجتماعی میدانوں میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے بارے میں آپ کے نظریات اور خیالات میں غور کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اگر ان کو عراق کے سیاسی میدان میں طاقت کا توازن بحال رکھنے کا سب سے بڑا اور قوی ذریعہ قرار دیں تو اس میں کوئی مبالغہ نہیں ہے ۔

آیت اللہ سیستانی کے ساتھ رہنے والے  اکثر لوگ یہ بتاتے ہیں کہ عراقی عوام  آپ سے والہانہ عقیدت رکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ عراق کے لوگ جتنا اعتماد آیت اللہ سیستانی پر رکھتے ہیں اس کا تجربہ اس ملک کے سیاسی افراد کے بارے میں نہیں ملتا ہے ،چنانچہ آپ کے حکم کو ایک  دینی مرجع ہونے کے اعتبار سے تمام سیاسی افراد کے فیصلوں پر ترجیح دی جاتی ہے ۔

اس بنا پر یہ کہنا بر حق ہو گا کہ اگر چہ تاریخ کے ہر دور میں عوام سیاسی افراد سے زیادہ فقہی اور دینی مراجع کے قریب رہے ہیں  لیکن اس دور میں جو رابطہ آیت اللہ سیستانی اور عراق کے عوام کے درمیان ہے وہ اس حقیقت کا بولتا ہوا ترجمان ہے ،البتہ اس ملک کے لوگوں کو اس وقت سیاسی لوگوں سے جو لگاو ہے وہ بھی آیت اللہ سیستانی کی وجہ سے ہے ۔

آیت اللہ کے نزدیکی افراد کے حوالے سے ایک بار پھر یاد دلا دیں کہ عراق کے سیاسی اور اجتماعی میدان میں بہت سارے حساس اور خطر ناک مواقع پر صرف آیت اللہ سیستانی کے اقوال اور بیانات تھے کہ جو عراقیوں کے لیے فیصلہ کن رہے ہیں اور ہر قسم کے سیاسی عمل میں لوگ ان کے ہاتھ اور زبان کے اشارے کے منتظر رہتے ہیں اور رہے ہیں ۔

اس کے ساتھ ہی ان حالات کے باوجود بہت سارے مواقع پر عالم اسلام کے دشمنوں کی نگاہیں اس واقعیت پر مرکوز رہی ہیں اور انہوں نے عجیب و غریب شکوک پیدا کرنے کی کوشش کی ہے  ۔ان میں سے ایک اصلی اور سب سے اہم شبہ کہ جس کے پیدا کرنے کے متعدد دلایل ذکر کیے جاسکتے ہیں آیت اللہ سیستانی کے اسلامی جمہوریہ ایران اور اسلامی حکومت کے نمایندوں کے ساتھ رابطے کے بارے میں ہے ۔

دشمنوں نے کئی بار یہ شبہ پیدا کیا ہے اور اس کو تقویت پہنچائی ہے کہ آیت اللہ سید علی سیستانی اور جمہوری اسلامی  ایران کے مسئولین کے درمیان اختلافات پائے جاتے ہیں اور یہی اختلافات ہیں جن کی وجہ سے عراق میں پایدار امن اور صلح کے عمل کی رفتار سست ہے اور اس کی راہ میں مشکلیں پائی جاتی ہیں ۔

دشمن جھوٹ بولتے ہیں کہ آیت اللہ سیستانی عراق کی میدانی تبدیلیوں کے سلسلے میں ایران کے کردار کو تسلیم نہیں کرتے ،اور اس کے ساتھ ہی وہ علاقے کی سیاسی سطح پر ایران کی جو اہم ترین پوزیشن ہے اس کو نہیں مانتے ۔

بارہا دیکھا گیا ہے کہ انہوں نے ان جھوٹے دعووں کو اپنے ذرائع کے وسایل اور پروپیگنڈے کو کام میں لاتے ہوئے  آیت اللہ سید سیستانی کی طرف نسبت دی ہے ۔اور اس سے جو ممکنہ حالات پیدا ہو سکتے ہیں ان سے وہ اپنے ناپاک مقاصد کے حصول کی راہ میں استفادہ کرتے ہیں ۔

لیکن حقیقت اس کے علاوہ ہے ،بہت سارے شواہد کو دلیل بناتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ آیت اللہ سید سیستانی کا موقف جمہوری اسلامی کے بارے میں اور اس نظام کی وجہ سے جو عراق کو بہترین اور فائدہ مند ترین نتائج حاصل ہوئے ہیں ان کے بارے میں منفی نہیں بلکہ مثبت ہے ۔

آیت اللہ سید سیستانی نے بارہا  جمہوری اسلامی ایران کے سیاسی حکام کے ساتھ ملاقاتوں میں ولی فقیہ حضرت اما م خامنہ ای کے ساتھ اپنے قلبی لگاو کا ذکر کیا ہے اور اس بات کی تصریح کی ہے کہ اس ملک کے تباہ کن بحران کی ابتدا سے جمہوری اسلامی ایران اس ملک کے مظلوم عوام کا سب سے اصلی حامی  رہا ہے ۔

آیت اللہ سید سیستانی  نے بارہا  حضرت امام خمینی (رہ) کی تعریف کی ہے اور ان کو ایک ایسی شخصیت بتایا ہے کہ جو زمان و مکان سے بالاتر ہے ۔اور ان کا عقیدہ ہے کہ جس انقلاب کی امام خمینی (رہ ) نے ہدایت و رہبری کی ہے وہ عالمی امپریالزم  اور استکبار کے خالف عالمی تحریک ہے اور عراقی عوام اگر اپنے مقاصد کے حصول کی راہ پر چلنا چاہتے ہیں تو ان کے لیے سب سے بڑا اور آشکارا نمونہ ایران کے عوام ہیں ۔

آیت اللہ سید سیستانی کا عقیدہ ہے کہ عراق کے لوگ طاغوت کے خلاف جنگ میں وہ طریقہ اختیار کریں جو ایران کے لوگوں نے اختیار کیا ہے اور اپنی پوری طاقت کے ساتھ ظلم اور طاغوت کے خلاف جنگ کریں ۔

آیت اللہ سید سیستانی کی سوچ میں جمہوری اسلامی ایران اور عراق کے سلسلے میں اس ملک کے اصولی منطقی نظریات قابل تعریف اور قابل پیروی ہیں ۔آیت اللہ سید سیستانی جیسی شخصیت کے قاموس میں ایران ایک ایسا ملک ہے کہ جو طاقتور ہے ،اور سچی اسلامی تعلیمات پر مبنی بلند ترین نفوذ کا حامل ہے ۔آزادی خواہ اور امن پسند ہے ،ظالم کا دشمن اور مظلوم کا دوست ہے اور عراق کے عوام اور اس کی حکومت کا سب سے اصلی حامی ہے ۔

بعض ماہرین کا عقیدہ ہے کہ عراق کے لوگ اور وہ  لوگ جو کہ حقیقت میں ان لوگوں کے ہمدرد ہیں وہ عراق کے باشکوہ اور پر امن مستقبل کو آیت اللہ سیستانی جیسی شخصیتوں کے وجود میں دیکھتے ہیں ،اور ان کا عقیدہ ہے کہ عراق واقعی معنی میں اسی وقت اپنی مناسب پوزیشن حاصل کر سکتا ہے کہ جب لوگوں کی ہدایت کی ذمہ داری دینی مرجعیت کے ہاتھ میں ہو گی اور اس طرح عراق کے لوگ اپنے سب سے اہم تاریخی تجربے تک رسائی میں کامیاب ہوں گے ۔

مجلس شورائے اسلامی (پارلمنٹ)ایران کی خارجی سیاست اور قومی سلامتی کمیشن کے رکن عوض حیدر پور  نے اس حوالے سے اس نکتے پر تاکید کرتے ہوئے کہا ہے : آج کے عراق کو شدت کے ساتھ ،فقہی اور دینی مراجع خاص کرحضرت  آیت اللہ العظمی سیدسیستانی کی ہدایات اور رہنمایوں کی ضرورت ہے ۔آپ نے ثابت کیا ہے کہ آپ کو واقعی معنی میں عراق کے عوام اور اس ملک کی فکر ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ عراقی اس چیز تک پہنچیں کہ جو ان کا حق ہے لیکن ایک لمبے عرصے سے وہ اس سے محروم رہے ہیں ۔

حیدر پور نے مزید کہا :حضرت  آیت اللہ سید سیستانی اور جمہوری اسلامی ایران کے سلسلے میں جو شکوک ایجاد کیے جاتے ہیں یہ انہی جھوٹے الزامات اور دعووں کی کڑی ہیں کہ جو ہمیشہ مراجع بزرگ تقلید کے سلسلے میں پیش کیے جاتے ہیں دشمن عوامی تحریکوں کے شرعی اور دینی چہرے کو مسخ کرنا چاہتے ہیں اور یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ مراجع تقلید معاشرے کی سیاسی فضا سے دور ہیں اور ان کو صرف اپنی دینی ذمہ داریوں کو پورا کرنا چاہیے ۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ اصل میں ایسا نہیں ہے اور کم سے کم انقلاب اسلامی ایران نے دنیا کے سامنے ثابت کر دیا ہے کہ عوام اور مرجعیت کے درمیان گہرا اور نہ ٹوٹنے والا رابطہ ہے۔اور وہی ہیں کہ ہر ایک سے زیادہ لوگ جن پر اعتماد کرتے ہیں اور وہی ظلم وجور اور دشمنی کے مقابلے میں ان کے قیام کی رہنمائی کرتے ہیں  ۔

جمہوری اسلامی ایران کی خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کمیشن کے  اس رکن نے اس نکتے کی وضاحت کی آیت اللہ سید سیستانی اور جمہوری اسلامی ایران کے درمیان اختلاف کا جو شوشہ چھوڑا گیا ہے اس کے پیچھے بھی عالمی استکبار کی تفرقہ انگیزی پر مبنی سیاست کا ہاتھ ہے اور مرجعیت اور عوام کے درمیان اختلاف پیدا کرنے کا یہ دشمنوں ایک پرانا حربہ ہے ۔

ان کا کہنا ہے کہ عراق اور ایران کے دشمن یہ سوچتے ہیں کہ اگر اس شک کو تقویت دی جائے کہ آیت اللہ سید سیستانی جمہوری اسلامی کے حکام کے ساتھ اختلاف رکھتے ہیں اور وہ عراق کے عوامی انقلاب کی پیشرفت میں ایران کے کردار کو تسلیم نہیں کرتے تو آہستہ آہستہ مقاومت کا محاذ بغیر حامی اور پشت پناہ کے ہو جائے گا اور آگے چل کر لوگوں کی تحریک کمزور پڑ جائے گی اور مرجعیت کا خاتمہ ہو جائے گا ۔ لیکن حقیقت یہ نہیں ہے بلکہ یہ ہے کہ ایران کے  اور اس ملک کا  عراق کے استحکام اور امن میں جو کردار ہے اس کےبارے میں آیت اللہ سیدسیستانی کی سوچ  بالکل مثبت اور اعتماد پر مبنی ہے ۔

اس طرح جو کچھ آیت اللہ سید سیستانی اور ایران کے درمیان رابطے کے بارے میں کہا  گیا ہے وہ اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ ایران اور آیت اللہ سید سیستانی کے درمیان مثبت رابطے کے بارے میں شک پیدا کرنا صرف ایک سازش اور حربہ ہے کہ جو استکباری اور استعماری اہداف و مقاصد کو آگے بڑھانے کے لیے ہے اس لیے کہ دین و مذہب کی بنیاد پر جو رابطہ ایران اور عراق کے درمیان وجود میں آیا ہے وہ اس سے کہیں زیادہ مضبوط ہے کہ جس کو اس قسم کے شکوک پیدا کر کے کمزور کیا جا سکے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔