زرداری نے معاہدے کے تحت شادی کے بعد سیاست میں حصہ نہ لینے کا وعدہ کیا تھا
اسلام ٹائمز: پاکستان کے سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے موجودہ صوبائی رہنماء کا ’’اسلام ٹائمز‘‘ سے خصوصی انٹرویو میں کہنا تھا کہ جب میں وزیراعظم تھا تو الطاف حسین کو کہا تھا کہ پاکستان آپ کا گھر ہے، آپ واپس اپنے ملک آئیں کوئی آپکو کچھ نہیں کہے گا۔ اسی طرح میں نے نواز شریف اور بینظیر صاحبہ کو بھی کہا تھا۔ جب زرداری صاحب بھٹو فیملی کیساتھ جے تھے تو حاکم علی زرداری اور مرتضٰی بھٹو کے درمیان اس وقت یہ بات طے ہوئی تھی کہ آصف علی زرداری صاحب کا پارٹی سیاست کیساتھ کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ لیکن وہ اپنی کہی ہوئی بات پر قائم نہیں رہے۔ آج اگر وہ فوج کو دھمکیاں دیتے ہیں کہ اینٹ سے اینٹ بجا دینگے تو کسی نے نہیں روکا۔ جو چاہے کر لیں، لیکن ایک بات واضح ہے کہ سیاست اس طرح نہیں ہوتی۔ انکے وزراء سندھ میں بے تحاشا کرپشن میں ملوث ہیں اور صوبہ سندھ کا خانہ خراب کر دیا گیا ہے۔ لہذا اسے سیاست نہیں کہتے۔
میر ظفراللہ خان جمالی پاکستان کے سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے موجودہ صوبائی رہنماء ہیں۔ وہ یکم جنوری 1944ء کو بلوچستان کے علاقے ڈیرہ مراد جمالی میں پیدا ہوئے۔ وہ 2002ء سے لیکر 2004ء تک مشرف دور میں وزارت عظمٰی کے عہدے پر فائز رہے اور بعدازاں انہوں نے مشرف کیساتھ بعض معاملات پر اختلافات کی وجہ سے استعفٰی دے دیا۔ انہوں نے زمانہ طالبعلمی سے ہی سیاسی سرگرمیاں شروع کر دی تھیں۔ جب 1962ء میں آپکے ماموں میر جعفر خان جمالی نے صوبائی اسمبلی کی نشست کیلئے انتخابات میں حصہ لیا تو پہلی مرتبہ انہوں نے پولنگ ایجنٹ کے طور پر خدمات سرانجام دیں۔ بعدازاں محترمہ فاطمہ جناح کی ایوب خان کیخلاف انتخابی مہم شروع ہوئی تو وہ جمالی ہاؤس جعفرآباد میں انکے ذاتی اٹنڈنٹ تھے۔ اسی طرح سردار شیر باز مزاری کیساتھ انکے پولنگ ایجنٹ بھی رہے۔ فروری 1966ء میں انکے ماموں میر جعفر خان جمالی انہیں باقاعدہ سیاست میں لیکر آئے۔ لاہور سے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد باقاعدہ اپنے سیاسی کیرئیر کا آغاز کر دیا۔ وہ 1996ء اور 1998ء کو دو مرتبہ وزیراعلٰی بلوچستان بھی منتخب ہوئے۔ میر ظفراللہ خان جمالی سے انکی گذشتہ زندگی اور ملک کی موجودہ سیاسی کشمکش سمیت دیگر معاملات کے حوالے سے ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے ایک مختصر انٹرویو کیا، جو قارئین کے لئے پیش ہے۔ (ادارہ)
اسلام ٹائمز: کیا آپ ذوالفقار علی بھٹو صاحب کے نظریئے سے دلچسپی رکھتے تھے۔؟
میر ظفراللہ جمالی: اس میں کوئی شک نہیں کی پیپلز پارٹی دور کے اوائل میں میں ذوالفقار علی بھٹو صاحب کے نظریئے سے متاثر تھا اور اسکی اپنی ایک وجہ تھی۔ میرے ماموں اور ذوالفقار علی بھٹو کے درمیان آخری ملاقات 31 مارچ 1967ء میں ہوئی۔ بعدازاں جب ماموں کی وفات ہوگئی تو ذوالفقار علی بھٹو صاحب فاتحہ کیلئے ہمارے آبائی گاؤں تشریف لائے۔ اس وقت میرے اپنے والد زندہ تھے۔ اس موقع پر بھٹو صاحب نے میرے والد سے کہا کہ آپکے خاندان کی اس ملک کیلئے کافی خدمات ہیں۔ اس خاندان میں سے ہمیں اپنا کوئی نوجوان دے دیں۔ اس وقت میں نے لاہور سے اپنی ماسٹرز کی تعلیم مکمل کرلی تھی۔ اس وقت میرے والد نے میری طرف اشارہ کیا اور کہا کہ میرا یہ بیٹا آپکی خدمت میں حاضر ہے، کیونکہ ہم گھر آئے کو خالی ہاتھ واپس نہیں لوٹاتے، اسی وجہ سے میں انکے ساتھ شامل ہوگیا۔ میری زندگی میں تین شخصیات کی بہت زیادہ اہمیت ہے، ایک میرے ماموں، دوسرے نمبر پر ذوالفقار علی بھٹو صاحب اور آخر میں نواب اکبر خان بگٹی صاحب میرے حقیقی آئیڈیل ہیں۔
اسلام ٹائمز: گورنر جنرل (ر) رحیم الدین اسوقت اس تمام سیاسی دوڑ میں کہاں گئے۔؟
میر ظفراللہ جمالی: وہ تو اس میدان میں ضیاءالحق کے مارشل لاء لگنے کے بعد آئے تھے، جو کہ ایک انتہائی معتبر اور دانا شخصیت کے مالک تھے۔
اسلام ٹائمز: ایک جانب آپ ذوالفقار علی بھٹو کے نظریاتی حامی تھے، بعدازاں گورنر رحیم الدین سے بھی کافی متاثر رہے اور آخر میں جنرل ضیاءالحق کی حکومت میں بھی شامل رہے۔ اتنی پیچیدگی کیوں۔؟
میر ظفراللہ جمالی: جب جنرل ضیاءالحق نے مارشل لاء لگایا تو اس وقت میں جیل میں تھا۔ اس وقت مجھ پر جھوٹے الزامات لگائے گئے اور مجھے دو مہینے کیلئے جیل میں ڈال دیا گیا، کیونکہ میں بھٹو دور میں میں صوبائی وزیر تھا۔ اس اثناء میں جب 1979ء میں الیکشن ہونے تھے، جو کہ نہیں ہوئے، تو میں نے پیپلز پارٹی کیلئے دو قومی اسمبلی کے اور تین صوبائی اسمبلی کے حلقوں کیلئے ڈرافٹ بناکر دیئے کہ مجھے ان حلقوں سے ٹکٹ چاہیئے۔ بدقسمتی یہ ہوئی کہ میرے چچا مراد خان جمالی 1978ء میں کوئٹہ کی ایک مسجد میں قتل کر دیئے گئے۔ اس وقت مارشل لاء کا زمانہ تھا اور ہماری شنوائی نہیں ہوتی تھی۔ جنرل ضیاءالحق کو پہلی مرتبہ گاؤں میں فاتحہ کیلئے آئے ہوئے دیکھا۔ اس موقع پر جنرل رحیم الدین صاحب بھی انکے ہمراہ تھے، تو میں نے ان سے بھی ملاقات کی۔ اس وقت میں نے قاتلوں کی گرفتاری کا معاملہ اُٹھایا۔، کیونکہ خاندان کے بڑے یہی تھے اور ہم لاوارث ہوگئے تھے۔ اس وقت جنرل ضیاءالحق نے کہا کہ آپکو کچھ ضرورت ہوئی تو میرے پاس آجائیں۔ بعدازاں میں راولپنڈی انکے پاس چلا گیا۔ وہاں پر میں نے ان سے گزارش کی تو انہوں نے جنرل رحیم الدین کو کہا کہ آپ ظفراللہ جمالی اور انکے خاندان کی خدمت کریں، کیونکہ جنرل رحیم الدین کے دو الفاظ تھے، کہ کاش ہماری ملاقات مراد خان جمالی سے نہ ہوتی تو بہتر تھا۔ بہرحال انہوں نے ہماری مدد کی۔ جب میں جنرل ضیاءالحق صاحب سے ملا تو اس وقت ٹی وی والوں نے کہا کہ میر ظفراللہ جمالی جنرل ضیاءالحق سے ملاقات کرنے آئے تھے، حالانکہ اس وقت اگر مجھ سے پوچھا جاتا تو میں دنیا کو کہتا کہ ملاقات کا اصل مقصد کیا تھا۔ لیکن جب ذوالفقار علی بھٹو صاحب کو پھانسی ہوئی تو پہلے دن نوڈیرو میں انکی فاتحہ کیلئے میں پہنچا تھا۔ اس وقت سکھر میں کرفیو لگا ہوا تھا، اسی وجہ سے سکھر میں فوج سے اجازت لیکر میں انکی فاتحہ کیلئے گیا، تو ہمارے بھٹو خاندان سے شروع دن سے تعلقات رہے ہیں۔
اسلام ٹائمز: آج بھی پیپلزپارٹی پاکستانی سیاست کا اہم حصہ ہے اور پارٹی کی بعض اہم شخصیات پر الزام لگایا جاتا ہیں کہ مذکورہ افراد بھٹو صاحب کی پھانسی پر خوش تھے۔ کیا یہ بات درست ہے۔؟
میر ظفراللہ جمالی: یہ تو خدا بہتر جانتا ہے۔ بھٹو صاحب کے وکلاء مخلص نہیں تھے۔ پھر بعد میں پی این اے درمیان میں آگئی اور جو کچھ بھی ہوا، اس وقت کافی لوگ بھٹو صاحب کو تنہاء چھوڑ چکے تھے۔ چند نام لینا تو مناسب نہیں، لیکن یہ بات حقیقت ہے کہ حاکم علی زرداری صاحب، عبدالحمید جتوئی، غلام مصطفٰی جتوئی اور نواب قریشی سمیت دیگر چند افراد نے انکا ساتھ چھوڑ دیا۔ لہذا یہ تو ایک حقیقت ہے۔
اسلام ٹائمز: پہلی مرتبہ جب آپکو بلوچستان میں وزیراعلٰی بنایا گیا تو اسلامی جمہوری اتحاد کے سامنے آپ نے اپنی کرسی کیسے سنبھالی۔؟
میر ظفراللہ جمالی: مجھے وزارت اعلٰی کی کرسی جنرل ضیاءالحق صاحب نے دی تھی۔ جب غلام قادر صاحب کو فارغ کر دیا گیا تو اس وقت میں امریکہ میں تھا۔ مجھے وہاں سے بلایا گیا تو میں نے صدارتی محل میں ان سے ملاقات کی۔ اس وقت انہوں نے مجھے وفاقی وزیر بناکر بعدازاں وزیراعلٰی بلوچستان بنا دیا۔ اس وقت مجھے اپنوں نے ہی زیادہ تکلیفیں دیں۔
اسلام ٹائمز: نگراں حکومت کے دور میں آپ دوسری مرتبہ وزیراعلٰی بنے، اسوقت مشرف نے نواز شریف کا تختہ الٹ دیا تھا، کیا انکا یہ اقدام درست تھا۔؟
میر ظفراللہ جمالی: اس فیصلے سے ہمارا کوئی تعلق نہیں تھا۔ پرویز مشرف نے خود ایسا کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس وقت میں آزاد سینیٹر تھا۔ اس حوالے سے اب تک بحث جاری ہے۔ نواز شریف کہتے ہیں کہ انکے ساتھ زیادتی ہوئی اور مشرف کہتے ہیں کہ انکے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے۔ تو اس وقت یہ بڑوں کے درمیان معاملات تھے۔ ہمارا اس سے کوئی واسطہ نہیں تھا۔
اسلام ٹائمز: جنرل مشرف نے آپکو وزیراعظم بنایا۔ کیا ایک فوجی آمر کا اسوقت ساتھ دینا صحیح تھا۔؟
میر ظفراللہ جمالی: اس وقت انہوں نے انتخابات کرائے اور میں منتخب ہوکر آیا۔ اس وقت مسلم لیگ (ق) بنی تھی اور میں مسلم لیگ کے ٹکٹ پر منتخب ہوکر آیا تھا۔ اس وقت جب میں وزیراعظم بنا تو چند افراد نے میری رہنمائی کی، کیونکہ وزیراعظم بننا میرے لئے ممکن نہیں تھا۔ جنرل ضیاءالحق نے بھی مجھے زبان دی تھی کہ آپکو وزیراعظم بنایا جائے گا، لیکن بعد میں وہ اپنی بات سے مکر گئے۔ اس وقت اللہ تعالٰی کی عطا سے میں وزیراعظم بن گیا۔ میں بیس مہینے جنرل مشرف صاحب کیساتھ رہا۔ ہماا مشترکہ ٹیم ورک صحیح جا رہا تھا۔
اسلام ٹائمز: آپکی وزارت عظمٰی کے دور میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا واقعہ رونماء ہوا۔ کیا انکو امریکہ کے حوالے کیا جانے والا تھا۔؟
میر ظفراللہ جمالی: آئین کے مطابق وزیراعظم کی ایک ڈیوٹی تھی، اس سے قبل بینظیر صاحبہ کے دور میں رمزی یوسف کو دیا گیا۔ پھر نواز شریف کے دور میں ایمل کاسی کو امریکہ کے حوالے کیا گیا۔ اسی طرح ڈاکٹر عبدالقدیر خان ملک کے ہیرو تھے۔ جس نے بھٹو صاحب کے توسط سے ایٹمی طاقت حاصل کرنے کی کوشش کی۔ اس وقت میں ملک و قوم کو کیا منہ دکھاتا۔؟ میں نے ایک سیاسی ڈیل کی اور مشرف صاحب میری بات مان گئے۔
اسلام ٹائمز: عراق پر امریکی حملہ ہوا تو انہوں نے پاکستانی مدد بھی مانگی۔ کیا مشرف اسوقت عراق میں اپنی فوج بھیجنا چاہتے تھے۔؟
میر ظفراللہ جمالی: جب میں امریکہ کے دورے پر گیا تو اس وقت امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ نے مجھ سے کہا کہ مشرف صاحب کو پیغام پہنچائیں کہ جو وعدہ انہوں نے کیا تھا، اسے نبھائیں۔ اس وقت تک مجھے اس حوالے سے خبر نہیں تھی۔ لیکن میں نے صدر بش سے ملاقات کے موقع پر کہا کہ عراق میں فوج بھیجنے کا معاملہ پاکستانی پارلیمنٹ طے کرے گی۔ اگر عوام نے اجازت دی تو ہم اپنی فوج بھیجیں گے، لیکن اگر عوام نہیں مانی تو فوج نہیں بھیجیں گے۔
اسلام ٹائمز: آپ اور مشرف دونوں ایک دوسرے کی بات مانتے تھے تو دوری کس بات پر ہوئی۔؟
میر ظفراللہ جمالی: میں نے آج تک مشرف کیساتھ بحث نہیں کی۔ جب جتوئی صاحب ملک کے صدر تھے تو اس وقت نواز شریف صاحب کو ملاقات کیلئے وقت نہیں دیتے تھے۔ اسی طرح بینظیر کے دور میں فارق لغاری کیساتھ اسی طرح ناراضگیاں ہوتی رہتی تھی۔ لیکن میں نے انکی کہانی نہیں دہرائی، کیونکہ آئین کے مطابق ریاست کا سب سے بڑا نمائندہ صدر ہوتا ہے، لہذا میں نے تمام معاملات افہام و تفہیم سے حل کئے۔ جس دن لاہور میں شہباز شریف صاحب پر ہاتھ ڈالا گیا تو میں نے خود ہی فیصلہ کرلیا کہ استعفٰی دے دونگا۔ اسی طرح ایک دن مشرف صاحب نے مجھے بلایا اور کہا کہ آپ کو مستعفی ہوجانا چاہیئے تو میں نے کہا کہ الحمداللہ کوئی مسئلہ نہیں اور بعدازاں استعفٰی دے دیا۔
اسلام ٹائمز: حالیہ دنوں میں موجودہ فوجی قیادت کیخلاف پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے قائدین نے شدید تند بیانات دیئے ہیں۔ اس حوالے سے کیا کہیں گے۔؟
میر ظفراللہ جمالی: جب میں وزیراعظم تھا تو الطاف حسین کو کہا تھا کہ پاکستان آپ کا گھر ہے، آپ واپس اپنے ملک آئیں، کوئی آپکو کچھ نہیں کہے گا۔ اسی طرح میں نے نواز شریف اور بینظیر صاحبہ کو بھی کہا تھا۔ جب زرداری صاحب بھٹو فیملی کیساتھ جڑے تھے تو حاکم علی زرداری اور مرتضٰی بھٹو کے درمیان اس وقت یہ بات طے ہوئی تھی کہ آصف علی زرداری صاحب کا پارٹی سیاست کیساتھ کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ لیکن وہ اپنی کہی ہوئی بات پر قائم نہیں رہے۔ آج اگر وہ فوج کو دھمکیاں دیتے ہیں کہ اینٹ سے اینٹ بجا دینگے تو کسی نے نہیں روکا، جو چاہے کر لیں۔ لیکن ایک بات واضح ہے کہ سیاست اس طرح نہیں ہوتی۔ انکے وزراء سندھ میں بے تحاشا کرپشن میں ملوث ہیں اور صوبہ سندھ کا خانہ خراب کر دیا گیا ہے۔ لہذا اسے سیاست نہیں کہتے۔
اسلام ٹائمز: اسوقت ملک میں عملی طور پر جنرل راحیل شریف کی حکومت ہے یا میاں نواز شریف کی۔؟
میر ظفراللہ جمالی: اللہ کی حکومت ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت اللہ تعالٰی نے جنرل راحیل شریف کو اپنا نائب مقرر کیا ہے، جو ملک کی بہتری کیلئے کام کر رہا ہے، اسکی تعریف ہونی چاہیئے۔ نہ کہ اسکی اینٹ سے اینٹ بجا دی جائے۔