اسلام ٹائمز: جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر کے ترجمان کا ’’ٓاسلام ٹائمز‘‘ کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں کہنا تھا کہ پوری دنیا جانتی ہے کہ بی جے پی اور آر ایس ایس اسلام و مسلمان مخالف تنظیمیں ہیں اور رہیں گی، اب حکومت میں رہ کر وہ مختلف طریقوں سے یہاں کی مسلم اکثریتی شناخت کو زک پہنچانے کی کوشش کریں گے اور کر رہے ہیں، ان کا ہمیشہ سے یہ ارادہ رہا ہے کہ جموں و کشمیر کی خصوصی پوزیشن کو ختم کیا جائے، تاکہ وہ ہندوں کو یہاں بسا سکیں، یہاں کے لوگوں کو ان عناصر سے خبردار رہنا چاہئے اور ان کے منصوبوں کو کامیاب نہیں ہونے دینا چاہئے، دوسری بات وہ یہاں کی دینی شناخت کو مٹانا چاہتے ہیں اور اسے بھارتی رنگ میں رنگنا چاہتے ہیں۔
ایڈووکیٹ زاہد علی کا تعلق مقبوضہ کشمیر کے شہر خاص سے ہے، جنہوں نے مسلم پرسنل لاء کی تعلیم حاصل کی اور اسلامک لاء میں ’’ایل ایل بی‘‘ کی ڈگری حاصل کی، 1997ء سے ہی جماعت اسلامی سے وابستہ رہے ہیں، پہلے سید علی گیلانی کے دور صدارت میں شعبہ لیگل ایڈ کے سیکریٹری رہے اور بعد میں ترجمان اعلٰی کی ذمہ داری سمبھال لی اور ہنوز اسی عہدہ پر فائز ہیں، وہ ایک دیندار، صالح اور اپنے منصب کے تئیں ذمہ دار شخص ہیں۔ جماعت اسلامی کشمیر کے ترجمان سے خصوصی نشست کے دوران ’’اسلام ٹائمز‘‘ کے نمائندے نے ایک انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کرام کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)
اسلام ٹائمز: عالم اسلام میں جاری قتل و غارتگری کے حوالے سے آپکی تشویش کیا ہے۔؟
ایڈووکیٹ زاہد علی: میں سمجھتا ہوں کہ عالم اسلام میں جو حالات تشویش ناک رخ اختیار کرچکے ہیں، ان کے پیچھے اسلام دشمن طاقتوں کا ہاتھ ہے، جو مسلمانوں کو کمزور کرنے اور انھیں آپس میں لڑانے کے لئے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں، ان مسلم دشمن طاقتوں میں یہود و نصاریٰ سب سے آگے ہیں، یہ اپنی مکارانہ پالیسیوں کے ذریعے مسلمانوں میں پھوٹ ڈال کر ان کا قتل عام کرواتے ہیں۔
اسلام ٹائمز: مسلمان کیوں دشمنوں کی سازشوں کو سمجھ نہیں پاتے ہیں اور انکے آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔؟
ایڈووکیٹ زاہد علی: اکثر مسلمان اسلام کی تعلیمات سے روشناس نہیں ہیں، وہ جذبات کی رو میں آکر غلط قدم اٹھاتے ہیں، جو مسلمانوں اور اسلام کو نقصان اور باطل قوتوں کو فائدہ پہنچاتے ہیں، دوسری بات یہ کہ اسلام دشمن اپنی ایجنسیوں کے ذریعے افراد سازی کرتے ہیں، جو مسلمانوں کے اندر پھوٹ ڈال کر اور انھیں آپس میں لڑا کر کمزور کرتے ہیں اور ایک دوسرے سے دور کرتے ہیں، جب تک ہم اسلام کے اصولوں کی پاسداری اور علم کے نور سے اپنے آپ کو منور نہیں کریں گے، تب تک ہم اسلام مخالف سازشوں کا توڑ نہیں کرسکتے۔
اسلام ٹائمز: اسلام کے نام پر آج نئے نئے دہشتگرد گروہ وجود میں آئے ہیں، جیسے داعش، القاعدہ وغیرہ جو نعرہ تکبیر کہہ کر مسلمانوں کے گلے کاٹتے ہیں اور انکی ویڈیو بنا کر انٹرنیٹ پر ڈالتے ہیں، کیا ان حرکات سے اسلام کی شبیہ نہیں بگڑ رہی ہے۔؟
ایڈووکیٹ زاہد علی: پہلی بات تو یہ کہ جو کوئی بھی دہشت گرد گروہ یہ حرکات انجام دے رہا ہے، سراسر اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہے، قرآن نے واضح حکم دیا ہے کہ کسی بے گناہ انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔ دوسری بات جو کوئی بھی یہ غیر انسانی فعل انجام دے رہا ہے، ضرور ان کے پیچھے اسلام دشمن طاقتوں کا ہاتھ ہے، جو اسلام کی سربلندی نہیں چاہتے اور اسلام کو پوری دنیا میں دہشت پسند دین کے طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں، ان دہشت گرد گروہوں کے حرکات سے بیشک پوری دنیا کے میں ایک منفی پیغام جا رہا ہے اور لوگ اسلام اور اسلامی تعلیمات سے دوری اختیار کر رہے ہیں، کیونکہ دشمن نے ان کے سامنے اسلام کو توڑ مروڑ کر پیش کیا ہے، ایثار و قربانی والا اسلام نہیں دکھایا۔
اسلام ٹائمز: اسلام دشمن طاقتیں خاص طور پر مغربی طاقتیں جو مختلف سازشوں سے اسلام کو بدنام کر رہی ہیں، کے مقابلے میں مسلمانوں کا کیا کردار ہونا چاہئے۔؟
ایڈووکیٹ زاہد علی: مسلمانوں کو داعیانہ کردار ادا کرنا چاہئے، اسلام کا نمونہ بن کر ان کے سامنے جانا چاہئے، تاکہ وہ جو اسلام کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈہ کرتے ہیں ان کو واضح جواب ملے، اگر وہ غلط کرتے ہیں، اگر وہ ظلم کرتے ہیں، بے گناہ انسانوں کا قتل عام کرتے ہیں اور دنیا میں جنگ کی ہوا بھڑکا رہے ہیں تو ہمیں ان جیسا نہیں بننا ہے، ہمیں اسلام کی تعلیمات کو پوری دنیا کے سامنے لانا ہے، تاکہ باطل جان سکے کہ جس اسلام کو وہ دہشت پسند دین کے طور دنیا میں متعارف کرتا ہے، وہ کتنا امن پسند اور ایثار پسند دین ہے۔
اسلام ٹائمز: اخوان المسلمین کے صدر محمد مرسی کی سزائے موت پر آپکی تشویش کیا ہے۔؟
ایڈووکیٹ زاہد علی: ہم نے بار بار اس مسئلہ پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے، یہ سب جو مصر میں ہو رہا ہے، کس طرح سے اخوان المسلمین سے وابستہ افراد کو کسی نہ کسی بہانے سے عذاب و عتاب کا شکار بنایا جا رہا ہے، یہ سب اسلام دشمن عناصر کی سازشیں ہیں اور اس سب میں ان کی مدد وہ مکروہ مسلم حکمران کر رہے ہیں جو مسلمانوں پر مسلط کئے گئے ہیں، صدر مرسی کو اقتدار سے ہٹا کر باطل و استعماری قوتوں نے اپنے من پسند کٹھ پتلیوں کو منصب صدارت پر بٹھایا، تاکہ یہ باطل کے عزائم کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے ان کی مدد کرسکیں۔
اسلام ٹائمز: عالم اسلام کا کوئی ملک قائدانہ کردار ادا کرنے کے لئے کیوں سامنے نہیں آ رہا ہے۔؟
ایڈووکیٹ زاہد علی: عالمی سطح پر اگر مسلمان آج ظلم و تشدد کا شکار ہیں تو اس کی وجہ یہی ہے کہ مسلمان بٹے ہوئے ہیں اور ان میں کوئی یکجہتی دکھائی نہیں دے رہی ہے، او آئی سی جو مسلمان ملکوں کی عالمی تنظیم ہے، وہ بھی صرف کاغذی ہے، کیوںکہ وہ کوئی قائدانہ کردار ادا نہیں کر رہی ہے، اس تنظیم کو بھی خاص ممالک کے حکمران اپنے مفاد کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔
اسلام ٹائمز: ان حالات میں اگر کوئی ملک اپنا کردار ادا کرنا چاہے تو کون ہوسکتا ہے۔؟
ایڈووکیٹ زاہد علی: مجھے لگتا ہے کہ ترکی ایک قائدانہ کردار ادا کرسکتا ہے، اس میں اتنی صلاحیت ہے کہ وہ مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرسکے اور باطل کی سازشوں کا منہ توڑ جواب دے سکے۔
اسلام ٹائمز: کیا ایسا اندیشہ ہے کہ آگے جاکر ترکی بھی اسلام دشمنوں کا آلہ کار ثابت ہوجائے۔؟
ایڈووکیٹ زاہد علی: اس وقت تو ایسے حالات نہیں دکھائی دے رہے ہیں، جس طرح سے ترکی نے اپنی حالت بدلی ہے اور آئی ایم ایف جو ایک استحصالی ادارہ ہے، جو غریب ممالک کو دبانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے، سے اپنے آپ کو آزاد کیا ہے، اس کے علاوہ وہاں امن و امان کی حالت کافی بہتر ہے اور لوگوں کی معاشی حالت بھی کافی حد تک بہتر ہے، تو ایسا لگتا ہے کہ وہ ایک کردار ادا کرسکتا ہے۔
اسلام ٹائمز: مرکزی حیثیت حاصل ہونے کے باوجود سعودی عرب کیوں ایک قائدانہ کردار ادا نہیں کر پا رہا ہے۔؟
ایڈووکیٹ زاہد علی: یہ بات بالکل درست ہے کہ سعودی عرب کو ایک مرکزیت حاصل ہے اور اسے ایک قائدانہ کردار ادا کرنا چاہئے تھا، لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ وہ اسرائیل اور مغربی طاقتوں کو ناراض نہیں کرنا چاہتا، وہاں کے حکمرانوں کو لگتا ہے کہ اگر ہم ان تنازعات میں پڑجائیں گے تو ہمارا اقتدار چلا جائے گا، وہ مسلمانوں کی بہبودی کے بجائے اپنے اقتدار کے لئے زیادہ فکرمند ہیں، وہاں حکومت کے خلاف کسی کو بھی بات کرنے کی اجازت نہیں ہے اور نہ ہی وہاں آزادی رائے ہے، سعودی عرب میں حکومت کے خلاف جو بھی آواز اٹھاتا ہے، وہ یا تو پابند سلاسل کیا جاتا ہے یا قتل کیا جاتا ہے، ایک مرکزیت ہونے کے ناطے اسے چاہئے تھا کہ مسلمانوں کے مفادات کی بات کرتے، لیکن وہاں خاندانی راج قائم ہے، جو مسلمانوں کے بارے میں کم اور اپنے اقتدار کے بارے میں زیادہ سوچتے ہیں۔
اسلام ٹائمز: جماعت اسلامی کا اتحاد بین المسلمین کے حوالے سے پاکستان میں اہم کردار رہا ہے، کشمیر میں اس حوالے سے آپکے کیا اہداف ہیں۔؟
ایڈووکیٹ زاہد علی: جہاں تک اتحاد و یکجہتی کا سوال ہے، جماعت اسلامی نے ہر محاذ پر اتحاد بین المسلمین پر زور دیا ہے، ہماری یہ کوشش رہی ہے کہ مسلمان متحد ہوجائیں اور اپنے خلاف ہو رہی سازشوں کا مقابلہ کریں، جموں و کشمیر میں اتحاد کے حوالے سے ہم نے مجلس اتحاد ملت کے نام پر تمام مکتبہ فکر کے علماء کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی کوشش کی ہے اور یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں، ہمیں مسلکی تفریق سے بلند ہو کر سماج میں ایک دوسرے کے ساتھ بھائی بھائی بن کر رہنا چاہئے، ہمیں ایک دوسرے میں کوئی فرق نہیں کرنا چاہئے اور ہمیشہ یہ ذہن میں رکھنا چاہئے کہ سب اللہ کے بندے اور رسول (ص) کے امتی ہیں۔
اسلام ٹائمز: کیا جماعت اسلامی ہند و جماعت اسلامی کشمیر کے اہداف الگ الگ ہیں۔؟
ایڈووکیٹ زاہد علی: جی نہیں، ہمارے اہداف ایک ہیں اور واضح ہیں، ہاں مسئلہ کشمیر کے حوالے سے جماعت اسلامی ہند اور جماعت اسلامی کشمیر الگ الگ نظریہ رکھتے ہیں، ہم کشمیر کو متنازعہ سمجھتے ہیں اور چونکہ وہ بھارت میں رہتے ہیں تو ان کا اپنا نظریہ ہے، وہ بھارت میں رہ رہے مسلمانوں کی نمائندگی کرتے ہیں اور ان کا مسئلہ کشمیر میں کوئی رول نہیں بنتا ہے۔ اگر بھارت میں رہ رہے مسلمان کھل کر مسئلہ کشمیر کے بارے میں رائے زنی کریں گے تو ان کی مشکلات میں اضافہ ہوگا، البتہ وہ اس دیرینہ مسئلہ کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر زور دیتے ہیں۔
اسلام ٹائمز: بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی سے وابستہ مسلمانوں کو عذاب و عتاب کا شکار بنایا جا رہا ہے، اس پر آپکی تشوش کیا ہے۔؟
ایڈووکیٹ زاہد علی: اگر آج بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے کارکنوں پر ظلم و جبر کا بازار گرم ہے تو اس کے پیچھے براہ راست بھارت اور اس کی خفیہ ایجنسیاں ہیں، وہاں جو کوئی بھی جماعت اسلامی سے اپنی وابستگی کا اظہار کرتا ہے تو اسے بھارت کی ایماء پر بنگلہ دیشی حکومت پابند سلاسل کرتی ہے۔
اسلام ٹائمز: بی جے پی جو جموں و کشمیر میں حکومت کا حصہ ہے، انکی پالیسیاں اور عزائم کیا ہیں۔؟
ایڈووکیٹ زاہد علی: پوری دنیا جانتی ہے کہ بی جے پی اور آر ایس ایس اسلام و مسلمان مخالف تنظیمیں ہیں اور رہیں گی، اب حکومت میں رہ کر وہ مختلف طریقوں سے یہاں کی مسلم اکثریتی شناخت کو زک پہنچانے کی کوشش کریں گے اور کر رہے ہیں، ان کا ہمیشہ سے یہ ارادہ رہا ہے کہ جموں و کشمیر کی خصوصی پوزیشن کو ختم کیا جائے، تاکہ وہ ہندوں کو یہاں بسا سکیں، یہاں کے لوگوں کو ان عناصر سے خبردار رہنا چاہئے اور ان کے منصوبوں کو کامیاب نہیں ہونے دینا چاہئے، دوسری بات وہ یہاں کی دینی شناخت کو مٹانا چاہتے ہیں اور اسے بھارتی رنگ میں رنگنا چاہتے ہیں۔
اسلام ٹائمز: ہندوستانی خفیہ ایجنسی‘‘را‘‘ کے سابق چیف اے ایس دُلت کے انکشافات کو آپ کس حد تک درست سمجھتے ہیں۔؟
ایڈووکیٹ زاہد علی: یہ سب پروپیگنڈہ ہے مسلمانوں کو آپس میں تقسیم کرنے کا اور تحریک آزادی کے طرف داروں کو بدنام کرنے کا۔
اسلام ٹائمز: اے ایس دُلت نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ بھارت یہاں ملی ٹینسی کو فنڈنگ کرتا رہا ہے، کہاں تک صحیح ہے۔؟
ایڈووکیٹ زاہد علی: ہم مانتے ہیں کہ بھارت یہاں ملی ٹینٹوں کو سپورٹ کر رہا ہے، لیکن سرکاری ملی ٹنسی کو، جیسے پہلے اخوانیوں اور دوسرے سرکاری دہشت گرد گروہوں کو سپورٹ کیا، جنھوں نے یہاں ہزاروں بے گناہ لوگوں کا قتل کیا، بڑے بڑے ڈاکٹروں کو، دانشوروں کو اور بڑے بڑے علماء کا قتل کیا۔
اسلام ٹائمز: اے ایس دُلت کا یہ انکشاف کس حد تک صحیح ہے کہ پی ڈی پی سیاسی جماعت مفتی سعید اور سید علی گیلانی نے مل کر بنائی۔؟
ایڈووکیٹ زاہد علی: یہ ایک جھوٹا الزام ہے، جو انھوں نے سید علی گیلانی کی شخصیت پر لگایا ہے، بھارتی آلہ کاروں کا کام ہی یہی ہے کہ وہ تحریک آزادی سے منسلک شخصیتوں کو لوگوں کی نظروں میں مشکوک بنائیں، میں اسے ایک سازش قرار دیتا ہوں۔
اسلام ٹائمز: فلسطین کے حوالے سے امام خمینی (رہ) نے کہا تھا کہ جمعۃ الوداع کو قدس ڈے کے طور پر منایا جائے، اس حوالے سے یہاں آپکی کیا سرگرمیاں ہیں۔؟
ایڈووکیٹ زاہد علی: دیکھیے مسئلہ فلسطین پورے عالم اسلام کا مسئلہ ہے، یہ نہ شیعوں کا مسئلہ ہے اور نہ سنیوں کا، اور جو کوئی بھی اس حوالے سے مسلمانوں کو متحد کرنے کی کوشش کرے گا، ہم اس کا خیرمقدم کریںگے، اس سلسلے میں ہم نے فلسطینی مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کرنے کی غرض سے ایک شاندار ریلی نکالنے کا پروگرام بنا رہے ہیں۔ دراصل میں کشمیر کے لوگ خود پریشانیوں میں مبتلا ہیں، ہم بھی ظلم و بربریت کا شکار ہیں، جو ظلم فلسطینیوں پر ہو رہا ہے، ہم اس سے زیادہ ظلم کے شکار ہیں، اس کے باوجود ہم مظلومین فلسطین کے ساتھ اظہار ہمدردی کرتے ہیں، ہم کشمیر بھر میں جمعۃ الوداع کو یوم القدس اور یوم کشمیر کے طور پر مناتے ہیں اور اگر اس سمت میں کوئی کوشش کرتا ہے تو یہ ایک انقلابی قدم ہوگا کیوںکہ کشمیر اور فلسطین دونوں عالم اسلام کے سب سے بڑے اور دیرینہ مسائل ہیں، ان دونوں مسائل کو حل کرنے کے لئے ہمیں اکٹھے مل کر ظلم اور ظالم کے ساتھ اس دن اظہار نفرین کرنا چاہیے۔