اسلام ٹائمز:شہید سید نجات حسین کے فرزند نے بڑی شیرین زبان میں ایک خط کی صورت میں مولا امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے حضور استغاثہ پیش کیا۔ انداز خط بڑا نرالا تھا۔ لفظ لفظ پر لوگوں کی دھاڑیں نکلتی تھیں۔ وہ امام سے کچھ یوں استغاثہ کرتے تھے۔ مولا جان۔ میں آج یتیم ہوں، دوسرے بچوں کو اپنے والد کا ہاتھ پکڑکر جاتے ہوئے دیکھتا ہوں تو اپنا والد بہت یاد آتا ہے۔ مولا جان کسی والد کو عید کا سامان لیکر اپنے بچوں میں تقسیم کرتے دیکھتا ہوں تو اپنے باپ کی شفقت بہت ستاتی ہے۔ مولا جان، کسی والد کو اپنا بچہ چومتے دیکھ اپنے والد کی وہ محبت یاد آجاتی ہے کہ جب وہ بازار سے آجاتے، میں اسے سلام کرتا تو وہ مجھے اٹھا کر گالوں پر چومتے تھے۔ میں اب بھی انکے ہونٹوں کی لمس کو اپنے رخساروں پر محسوس کرتا ہوں۔
گزشتہ چند سالوں سے مجلس وحدت مسلمین کے زیر اہتمام پاراچنار کے نواحی علاقے قباد شاہ خیل میں 28 رمضان المبارک کی رات کو شب شہداء کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس حوالے سے رات کو افطاری کے لئے مقامی افراد کے علاوہ کرم بھر کی تمام تنظیموں، علماء، زعماء اور اساتذہ کرام کو دعوت دی جاتی ہے۔ جس میں لوگ نہایت شوق سے شرکت کرتے ہیں۔ بندہ کو بھی اس دفعہ اس پروگرام میں شرکت کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔
افطاری اور نماز مغربین کے کچھ ہی دیر بعد جامع مسجد قباد شاہ خیل میں اس پرنور پروگرام کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ طالبعلم سید محمد ثقلین نے اپنی میٹھی آواز سے تلاوت کلام پاک انجام دیتے ہوئے پروگرام کا آغاز کیا۔ اس کے بعد صوبائی سیکرٹری جنرل ایم ڈبلیو ایم علامہ سید سبطین حسینی نے طالبعلم سید طارق حسین کو ترانے کی دعوت دی، جنہوں نے ‘‘فصل گل ہے اب جہاں میں’’ پڑھ کر شہداء کو خراج عقیدت پیش کیا۔
ترانے کے بعد تحریک حسینی کے صدر مولانا منیر حسین جعفری کو دعوت دی گئی۔ جہنوں نے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں قباد شاہ خیل قوم کو بالعموم جبکہ سبطین الحسینی کو بالخصوص مبارکباد پیش کرتا ہوں جنہوں نے ایسا پرشکوہ اور روح پرور پروگرام مرتب کرکے شہداء کی یاد کو تازہ کیا۔ انہوں ںے کہا کہ شہداء کو یاد رکھنا ہمارا فریضہ ہے۔ آج جو ہم یہاں عزت کی زندگی گزار رہے ہیں، یہ انہی شہداء کے مرہون منت ہے۔ انہوں نے امام خمینی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ امام خمینی فرانس سے ایک فاتح کی حیثیت سے جب تہران پہنچ گئے تو انہوں نے اپنے پہلے خطاب میں کہا کہ میری یہاں آمد شہداء کے خون کی رہین ہے، شہداء اگر خون نہ دیتے تو آج میں یا آپ لوگ یہاں نہ ہوتے۔ خطاب کے فوراً بعد سب سے پہلے انہوں نے شہداء کی قبور پر حاضری دیکر فاتحہ پڑھا اور پھر انکے خانوادوں کے پاس جاکر تسلیت پیش کی۔
انہوں نے کہا کہ کرم میں ہر جگہ اسی طرح کے پروگرامات کا انعقاد کرانا چاہئے۔ اسکے علاوہ شب جمعہ کو اجتماعی طور پر ہمیں شہداء کی قبور پر جاکر فاتحہ خوانی، دعائے کمیل، دعائے ندبہ وغیرہ کا انعقاد کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ امام زمان علیہ السلام کی آمد کی اکثر نشانیاں ظاہر ہوچکی ہیں، جن میں سے ایک یمن کی جنگ ہے۔ ذرا سوچنا چاہئے کہ کیا ہم امام کے لئے تیار ہیں۔ امام جو کچھ ہم سے چاہتے ہیں، کیا وہ چیزیں ہمارے اندر موجود ہیں؟ امام ہم سے اتحاد چاہتا ہے، جبکہ بڑی بدقسمتی سے آج ہم نفاق کا شکار ہیں۔ آج سے چند سال پہلے ہم کس طرح متفق و متحد تھے ہم نے کس طرح اپنے متفقہ دشمن کے دانت توڑ ڈالے؟ اگر دشمن نے پھر حملہ کیا تو کیا اس دفعہ ہم اسی طرح تیار ہیں؟ کیا ہم قربانی کے لئے خود تیار ہیں۔ کیا ہماری مائیں تیار ہیں، جو اپنے عزیز بیٹوں کو میدان میں بھیجیں؟
انہوں نے لبنان میں عماد مغنیہ کی والدہ کی ماں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، چند ماہ قبل سید حسن نصراللہ جہاد مغنیہ کی تسلیت کے لئے انکی دادی کے پاس پہنچ گئے تو وہ رو پڑیں۔ ان کے رونے پر سید بھی رو پڑے، وہ سوچنے لگے کہ شاید یہ عظیم خاتون اپنے تین بیٹوں (عماد، فواد اور جواد مغنیہ) اور ایک پوتے جہاد مغنیہ کے فراق میں رو رہی ہیں؟ مگر ان کے سوال سے پہلے خاتون نے کہا کہ سید جان۔ مجھے بہت افسوس ہے کہ میرے پاس اب مزید کچھ بھی نہیں رہا جسے اسلام کی خاطر آپ کے ہاتھ میں دیکر قربان کروں۔ کاش کوئی اور سرمایہ پاس ہوتا جو آپ کو ھدیہ کرکے اسلام پر اور سید شہداء پر نچاور کرلیتی۔ ایسی ہوتی ہیں مائیں۔ کیا ہمارے پاس اب بھی ایسی مائیں موجود ہیں۔ میری گزارش ہے خواتین سے کہ وہ اپنے بیٹوں اور عزیزوں کو اسلام کی خاطر، اور اس ارض مقدس کی خاطر قربان کرنے لئے خود کو ہر وقت آمادہ رکھیں۔
سٹیج کے فرائض بڑی خوش اسلوبی سے انجام دیتے ہوئے علامہ سبطین الحسینی نے منیر آغا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اس مٹی کو اگر بالش خیل میں ضرورت پیش آئی ہے تو سادات قباد شاہ خیل نے اپنی قربانی پیش کی ہے، پیواڑ میں ضرورت پڑی ہے تو یہ لوگ کسی سے پیچھے نہیں رہے ہیں، صدہ لوئر کرم، تابے مقام، بوتل سر، علی زئی، پاراچنار، کڑمان، جہاں جہاں اس دھرتی کو خون کی ضرورت پیش آئی ہے۔ ان سادات نے کبھی دریغ نہیں کیا۔ انہوں نے کہ اس قبیلے کے تمام افراد، مردان و زنان سب کی رگوں میں سید و سالار کربلا امام حسین علیہ السلام کا خون متحرک ہے، اگرچہ یہاں کا اپنا کوئی محاذ نہیں، تاہم اس دھرتی کے ہر قطعہ زمین کو مقدس، اور اسکے باسیوں کو اپنا بھائی سمجھ کو انکے تحفظ کا اپنا فریضہ جانا ہے۔ پہلے بھی اور مستقبل میں بھی انشاء اللہ ضرورت پڑی تو یہ قبیلہ کسی سے پیچھے نہیں رہے گا۔ آپ یہاں سے بالکل بے فکر رہیں۔
اسکے بعد منیجر حبیب حسین کو دعوت دی گئی۔ انہوں نے شہداء کی یاد منانے کے علاوہ اتحاد پر زور دیا۔ انہوں نے کرم میں نفاق کے فتنے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا۔ تاہم انہوں نے سامعین خصوصاً اہلیان قباد شاہ خیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ مایوس نہ ہوں۔ ایسے لوگ بہت ہی کم ہیں۔ دس فیصد سے بھی۔ تمام لوگ سید اور غیر سید کی باتیں پسند نہیں کرتے، یہ معدودے چند افراد ہیں۔ انہوں نے جذباتی ہوکر کہا کہ یاد رکھیں۔ یمن کی جنگ امام کی آمد کی نشانیوں میں سے ایک بڑی نشانی ہے۔ امام کی زیارت مومنین کو بہت جلد نصیب ہوگی۔ لیکن مجھے افسوس ہے ان لوگوں سے جو عمومی طور بلا کسی جرم کے سادات سے نفرت کا اظہار کرتے ہیں۔ وہ امام علیہ السلام کو اپنا منہ کسطرح دکھا سکیں گے۔
انہوں نے کہا کہ میرے والد محترم حاجی نظر علی اپنے آخری ایام میں آج کے ایام کی پیش گوئی کرتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ میرے عزیز بیٹو، بہت جلد کرم میں ایسا فتنہ برپا ہوگا جب، رسول اللہ (ص) کی اولاد سے نفرت کی جانے لگے گی۔ لیکن یاد رکھنا کہ تم وہاں رہنا جہاں رسول (ص) کی اولاد ہوگی۔ چنانچہ ہم سارے بھائی اپنے مرحوم والد کے فرمان کے مطابق کل بھی سادات کے ہمراہ تھے۔ آج بھی اور ہمیشہ انکے ساتھ نہیں بلکہ انکے غلام رہنے پر فخر کریں گے۔ انہوں نے مجمع کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ خبردار آپ صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔ آپ کے اجداد کے ساتھ کیا سلوک ہوا۔ تخت اور اقتدار کی خاطر کیا کیا مظالم ڈھائے گئے۔ قتل ہوئے۔ پائمال ہوئے، چھتوں سے ان پر پتھر برسائے گئے۔ زندگی میں کوئی انہیں سلام تو کیا۔ انکا سلام بھی نہ لیا جاتا تھا۔ امام علی علیہ السلام ۲۵ سال گوشہ نشین رہے۔ لیکن آج نتیجہ دیکھیں۔ انکے آباو اجداد کا بھی جنکا نام و نشان تک نہیں ہے۔ جبکہ امام علی علیہ السلام سے لیکر امام حسن عسکری علیہ السلام تک ہر امام کا مزار ہے اور آج لاکھوں نہیں کروڑوں زائرین کی زیارت گاہ بنے ہوئے ہیں۔
انہوں نے اختلافات کو ہوا دینے والے پانچ چھ فیصد افراد کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ بہت جلد آپ کو جانا ہے۔ خبردار موت کے بعد ذریت رسول (ص) ہی کی حکمرانی ہے۔ قبر سے لیکر پل صراط تک اور بہشت کے دروازوں پر آئمہ اطہار کی حکمرانی ہے۔ آپ بغیر کسی جرم کے انکی اولاد سے جو نفرت کا بیج بو رہے ہیں۔ کل انہیں کسطرح اپنا منہ دکھائیں گے۔
بعد ازاں کربلا جاتے ہوئے راستے میں چارخیل کے مقام پر جام شہادت نوش کرنے والے شہید سید نجات حسین کے فرزند نے بڑی شیرین زبان میں ایک خط کی صورت میں مولا امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے حضور استغاثہ پیش کیا۔ انداز خط بڑا نرالا تھا۔ لفظ لفظ پر لوگوں کی دھاڑیں نکلتی تھیں۔ وہ امام سے کچھ یوں استغاثہ کرتے تھے۔
’’مولا جان۔ آج سے چار سال پہلے جب کہ میں دس سال کا تھا، میرے والد اپنے جد کی زیارت جاتے ہوئے بے دردی سے شہید کئے گئے۔ میں آج یتیم ہوں، دوسرے بچوں کو اپنے والد کا ہاتھ پکڑ کر جاتے ہوئے دیکھتا ہوں تو اپنا والد بہت یاد آتا ہے۔ مولا جان کسی والد کو عید کا سامان لیکر اپنے بچوں میں تقسیم کرتے دیکھتا ہوں تو اپنے باپ کی شفقت بہت ستاتی ہے۔ مولا جان، کسی والد کو اپنا بچہ چومتے دیکھ اپنے والد کی وہ محبت یاد آجاتی ہے کہ جب وہ بازار سے آجاتے، میں اسے سلام کرتا تو وہ مجھے اٹھا کر گالوں پر چومتے تھے۔ میں اب بھی انکے ہونٹوں کی لمس کو اپنے رخساروں پر محسوس کرتا ہوں۔ مولا جان، یہ بھول دیتا ہوں۔ لیکن میں جب اپنے چھ سالہ چھوٹے بھائی کو دیکھتا ہوں جو شہادت کے وقت اپنے والد کی گود میں تھا۔ تو محسوس کرتا ہوں کہ ٹکڑے ٹکڑے ہوتے وقت میرے والد کے دل میں اپنے ننھے بیٹے کے مستقبل کے لئے کیا گذر رہا ہوگا۔ اور اس وقت میرے بھائی پر کیا گذر رہا ہوگا۔ آج اپنے سینے سے لگانے والا میرا والد نہیں ہے۔ مولا جان، جلد طہور فرمائیں جلد ظہور فرمائیں‘‘۔
وہ ایک جملے کے لئے جب مولا جان کہا کرتے نا۔ تو اجتماع کی آہوں اور سسکیوں سے سامعین نہیں، مسجد بھی نہیں بلکہ باہر کی ہر در و دیوار کانپ اٹھتی تھی۔ مولا کے حضور یہ خط بڑا طولانی تھا۔ زندگی نے وفا کی تو اس پورے خط کو علیحدہ پیش کیا جائے گا۔
فرزند شہید کے بعد انصار الحسین کی نمائندگی کرتے ہوئے ماسٹر سید امین حسین نے اپنے خطاب میں شہداء کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے لبنان اور ایران میں کچھ شہداء کا تذکرہ کیا تو لوگوں دھاڑیں مار کر رو پڑے۔ شہید کے مقام کا تذکرہ کرتے ہوئے شہید حسین فہمیدہ کا حوالہ دیکر کہا کہ امام خمینی نے اس تیرہ سالہ شہید بچے حسین فہمیدہ کے متعلق کہا کہ میرا اور پورے ایران کا رہبر یہ چھوٹا شہید حسین فہمیدہ ہے۔ انکا طرز بیاں یقیناً بڑا دلنشین تھا۔ انہوں نے شہید کی عظمت کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ رہبر معظم سید علی خامنہ ای اپنی بہت ساری مصروفیات کے باوجود ہر جمعرات کو کسی شہید کے خانوادے کے پاس جاکر تسلیت پیش کرتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ وہ شہید کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں۔ اسکے بعد طالبعلم سید ثقلین حسینی نے نوحہ کی صورت میں شہداء کو خراج عقیدت پیش کیا۔ پھر ڈاکٹر سید حسین جان نے خطاب کیا اور پھر علامہ سید نجم الحسن حسینی نے دعائے فرج پڑھنے کے بعد شرکاء کے لئے اجتماعی دعا کی۔ آخر میں ذاکر حسینی سید لیاقت حسین الحسینی کے نوحہ کے ساتھ شرکاء نے سینہ زنی کرکے پروگرام کو اختتام تک پہنچایا۔