اسلام ٹائمز: کل جماعتی حریت کانفرنس (گ) کے چیئرمین کا ’’اسلام ٹائمز‘‘ کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں کہنا تھا کہ ہندوستان کے ساتھ اسرائیل کے بہت اچھے تعلقات رہے ہیں اور نریندر مودی کے وزیراعظم بننے کے بعد مزید گرم جوشی دکھائی دے رہی ہے، بھارت اسرائیل سے ہتھیار خریدتا ہے اور اسرائیلی پالیسی کا یہاں بہت گہرا اثر ہے، ہندوستان قریب قریب وہی پالیسی یہاں اپنا رہا ہے، جو پالیسی اسرائیل مشرقی وسطٰی میں اپنا رہا ہے، جس طرح اسرائیل نے فلسطین کی ناکہ بندی کی ہے اور فلسطینی عوام کی زندگیاں اجیرن بنا دی ہیں، اسی طرح ہندوستان بھی یہاں کی اقلیتوں خاص کر مسلمانوں کے ساتھ وہی سلوک روا رکھے ہوئے ہے۔
 
جموں و کشمیر کل جماعتی حریت کانفرنس (گ) کے چیئرمین سید علی شاہ گیلانی برصغیر کے منجھے ہوئے سیاست دان، شعلہ بیاں مقرر اور روح دین پر گہری نظر رکھنے والی شخصیت ہیں، 1953ء میں وہ جماعت اسلامی کے رکن بنے، انہوں نے جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر میں مختلف مناصب جیسے امیر ضلع، ایڈیٹر اذان، قیم جماعت اور قائمقام امیر جماعت کی حیثیت سے اپنی خدمات سرانجام دیں، 7 جولائی 2004ء کو وہ تحریک حریت جموں و کشمیر کو منصئہ شہود پر لائے اور تب سے آپ تحریک حریت کے چیئرمین اور ساتھ ہی ساتھ جموں و کشمیر کل جماعتی حریت کانفرنس (گ) کے چیئرمین بھی ہیں، وہ مقبوضہ کشمیر کی حالیہ تحریک آزادی میں پیش پیش رہے ہیں اور اس سلسلے میں انہوں اپنی زندگی کی ایک ربع صدی یا اس سے بھی زیادہ وقت پسِ دیوار زندان گزار چکے ہیں، مجاہدین آزادی میں سید علی گیلانی اس اعتبار سے ایک منفرد شخص ہیں کہ موصوف نے تحریک آزادی کی ہنگامہ خیز زندگی اور اذیت ناک جدوجہد میں بھی قلم و قرطاس سے رشتہ برقرار رکھا، وہ تیس سے زائد کتابوں کے مصنف بھی ہیں، جن میں روداد چمن، مقتل سے واپسی، اقبال روح دین کا شناسا اول، دوئم، ولر کنارے اور پیام آخریں وغیرہ قابل ذکر ہیں، 84 سالہ حیات میں انہوں نے مجموعی طور 15 سال سے زائد بھارتی سامراج کے خلاف آواز بلند کرنے کی پاداش میں بھارت کی مختلف جیلوں میں گذارے، لیکن پھر بھی وہ اپنے بنیادی اور اصولی موقف پر چٹان کی طرح ڈٹے رہے، اسلام ٹائمز نے بزرگ رہنماء سید علی شاہ گیلانی کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کرام کے پیش خدمت ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: جموں و کشمیر کی موجودہ مخلوط حکومت کی پالسیوں اور پس پردہ جو کچھ ہو رہا ہے اس بارے میں آپکے تاثرات کیا ہیں۔؟
سید علی گیلانی: میں نے ہمیشہ کہا ہے کہ جب تک جموں و کشمیر پر ہندوستان قابض ہے، ہندوستانی فوج کا قبضہ ہے، تب تک یہاں کے لوگ امن و چین کی زندگی نہیں گزار سکتے، ہندوستان کا یہاں الیکشن کرانا محض ڈھونگ ہے، تاکہ وہ اس سے اپنے غیر اصولی قبضہ کو دوام بخش سکیں، میں نے 2014ء کے اسمبلی انتخابات میں لوگوں سے کہا تھا کہ چہرے بدلنے سے یا ہاتھ بدلنے سے حقیقت تبدیل نہیں ہوسکتی، یہاں کے سیاست دان لوگوں کے مسائل حل کرنے کی طاقت نہیں رکھتے، وہ محض بھارت کے خاکوں میں رنگ بھرنے اور بھارتی قبضہ کو دوام بخشنے کے لئے استعمال ہوتے ہیں، جب تک بھارتی فوج کا جموں و کشمیر پر قبضہ ہے، یہاں کی صورتحال کبھی بھی بہتر نہیں ہوسکتی۔

اسلام ٹائمز: بی جے پی جو آر ایس ایس کا سیاسی بازو ہے، اب کی بار جموں و کشمیر کی حکومت کا حصہ ہے اور کھل کر اپنی پالیسیوں پر عمل پیرا ہے، اس پر آپکی تشویش کیا ہے۔؟
سید علی گیلانی: آر ایس ایس 1925ء سے ہی اس کوشش میں ہے کہ کسی طرح سے ہندوستان کو ایک ہندو راشٹر بنایا جائے اور آزادی کے بعد جب پاکستان وجود میں آیا تو انھوں نے اس کو تسلیم نہیں کیا اور آج بھی وہ پاکستان کو ایک الگ ملک تسلیم نہیں کرتے ہیں، بلکہ وہ کہتے ہیں کہ اگر گاندھی جی نہیں جھکتے تو پاکستان وجود میں نہیں آتا، یہ اپنے ہندوتوا کے ایجنڈے پر قائم ہیں اور اس کے لئے وہ ہندوستان میں بس رہے تمام اقلیتوں کو طاقت، دباؤ اور ظلم و بربریت کے بل بوتے پر دبائے رکھتے ہیں، 2002ء میں نریندر مودی نے گجرات میں جو مسلمانوں کا قتل عام کیا اور تقریباً 3 ہزار مسلمان مردوں، عورتوں اور بچوں کو موت کے گھاٹ اتارا، آر ایس ایس سمیت تمام شدت پسند ہندؤں کو وہ بہت پسند آیا اور 2014ء کے پارلیمانی انتخابات میں انھوں نے بی جے پی کو واضع اکثریت دلائی، جو یہ بات عیاں کرتی ہے کہ ہندوستان کے 80 فیصد ہندؤں کو نریندر مودی کی مسلم دشمن پالیسی بہت پسند آئی۔ اسی طرح جموں و کشمیر اسمبلی انتخابات میں ہندؤں نے بی جے پی کو 25 سیٹوں پر کامیاب کیا، اب حکومت کا حصہ ہیں اور کھل کر اپنا نظریہ پھیلا رہے ہیں۔ رہا سوال مفتی صاحب کا وہ وزیراعلٰی کی کرسی پر تو بیٹھے ہیں لیکن بقول مشہور تاریخ دان اے جی نورانی صاحب کے” Mufti is on chair but not in power ” یعنی مفتی صاحب کرسی پر تو ہیں لیکن اختیارات نہیں ہیں، اختیارات ہندوستان کی وزارت داخلہ کے پاس ہیں، یہ صورتحال بہت تشویشناک ہے۔

اسلام ٹائمز: کہا جا رہا ہے کہ بی جے پی کو اقتدار میں لانے کیلئے اسرائیل نے خوب معالی معاونت کی، اس بات میں کتنی سچائی ہے۔؟
سید علی گیلانی: دیکھیے، نریندر مودی جب ہندوستان کے وزیراعظم بنے تو اسرائیل نے کہا تھا کہ ہمارا خاص دوست اقتدار میں آیا ہے اور انھوں نے خوشی کا اظہار کیا، اس سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ بی جے پی کو اقتدارمیں لانے کے لئے اسرائیل کی جانب سے معالی معاونت بھی کی گئی ہوگی، امریکہ نے جب گجرات سانحہ کے بعد مودی کو ویزا نہ دینے کی پالیسی اپنائی، وہ بھی اس پر قائم نہیں رہے، وزیراعظم بننے کے بعد مودی کو باضابطہ مدعو کیا گیا، انھوں نے سوچا ہوگا کہ ہندوستان ایک بہت بڑی منڈی ہے، اس کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے میں فائدہ ہے، یہ ساری چیزیں ہندوستان میں بسنے والی اقلیتوں خاص کر مسلمانوں کے لئے ناقابل برداشت ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا ہندوستان اسرائیل کی مرتب کردہ پالیسیوں پر عمل پیرا ہے اور انکا ہی طرز عمل اپنا رہا ہے۔؟
سید علی گیلانی: ہندوستان کے ساتھ اسرائیل کے بہت اچھے تعلقات رہے ہیں اور نریندر مودی کے وزیراعظم بننے کے بعد مزید گرم جوشی دکھائی دے رہی ہے، بھارت اسرائیل سے ہتھیار خریدتا ہے اور یہاں اسرائیلی پالیسی کا بہت گہرا اثر ہے، ہندوستان قریب قریب وہی پالیسی یہاں اپنا رہا ہے جو پالیسی اسرائیل مشرقی وسطٰی میں اپنا رہا ہے، جس طرح اسرائیل نے فلسطین کی ناکہ بندی کی ہے اور فلسطینی عوام کی زندگیاں اجیرن بنا دی ہیں، اسی طرح ہندوستان بھی یہاں کی اقلیتوں خاص کر مسلمانوں کے ساتھ وہی سلوک روا رکھے ہوئے ہے، جموں و کشمیر پر ہندوستان کے فوجی قبضہ سے یہاں کے لوگوں کی زندگیاں اجیرن بن گئی ہیں، یہاں کے کلچر و تہذیب پر اثر انداز ہونے کے علاوہ یہاں کے قدرتی وسائل پر کنٹرول کر رہے ہیں، جس میں ان کی مدد یہاں کے سیاست دان کر رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: لشکر اسلام نامی تنظیم جو سوپور میں حالیہ ٹارگٹ کلنگ میں ملوث رہی ہے، کو کیا یہاں داعش کے نفوذ کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔؟
سید علی گیلانی: بالکل نہیں، داعش کا یہاں کوئی اثر نہیں ہے، یہ ہندوستانی ایجنسیوں کی کارستانی ہے، کیونکہ انھوں نے ہر دور میں یہاں کی تحریک آزادی کو بدنام کرنے کے لئے ایسے حربے استعمال کئے ہیں، ہندوستان ہمیشہ اس طاق میں رہا ہے کہ یہاں کے لوگوں کو سکون نہ ملے، آرام نہ ملے، امن و چین میسر نہ ہو اور ان کو دبائے رکھا جائے اور انھیں بنیادی حقوق سے بھی محروم رکھا جائے اور ان پر ظلم مسلسل روا رکھا جائے، اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے ان کی خفیہ ایجنسیاں وقتاً فوقتاً ایسے کارنامے انجام دیتی رہتی ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا یہ ممکن ہے کہ داعش جموں و کشمیر میں بھی اپنے پیر جما سکتی ہے کیونکہ ان کے پیچھے بہت ساری ایجنسیاں کام کر رہی ہیں، جو انھیں ہتھیار، پیسے وغیرہ فراہم کرتی ہیں۔؟
سید علی گیلانی: اگر کبھی بھی ایسا ہوگا تو یقین مانئے اس میں ہندوستان کا ہاتھ ہوگا، ہندوستان کی خفیہ ایجنسیوں کا ہاتھ ہوگا کیونکہ ان کی مدد کے بغیر وہ یہاں نہیں آسکتے، ہندوستان تو چاہتا ہے کہ جموں و کشمیر کی تحریک آزادی کو دہشت گردی سے جوڑا جائے، اس کے لئے وہ کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں، جس طرح انھوں نے اخوانیوں کا استعمال کیا، انھیں ہتھیار فراہم کئے، مراعات دیں اور وہ قتل کرکے آرمی کیمپوں میں اور پولیس تھانوں میں پناہ لیتے تھے، ان کو برابر تحفظ ملتا تھا، ممکن ہے کہ مستقبل میں بھی یہ ایسی حرکات کرتے رہیں گے۔

اسلام ٹائمز: اگر خدا نخواستہ ’’آئی ایس آئی ایل‘‘ کا یہاں نفوذ ہوتا ہے تو ہماری ذمہ داریاں کیا ہونگی۔؟
سید علی گیلانی: میں آپ کی وساطت سے اپنی پوری قوم کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ حالات کیسے بھی ہوں، ہمیں اپنے بنیادی عزم سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے، ہم بھارت کے غاصبانہ قبضہ کے تحت زندگی گزار رہے ہیں، ہمیں چاہیے کہ اس قبضہ سے نجات حاصل کرنے کے لئے لڑتے رہیں اور حق کی آواز بلند کرتے رہیں، ہمیں چاہیے کہ ہم اس مسئلہ کو اپنے لئے مرکزی مسئلہ بنائیں اور یہ یاد رکھیں کہ جو کچھ ہم پر گزر رہی ہے، ہماری زمینیں چھینی جا رہی ہیں، جنگلات، آبی وسائل بھارت کے زیر استعمال ہیں، یہ سب اس لئے ہے کہ ہم بھارت کے زیر قبضہ ہیں اور جب تک ہم اس غاصبانہ قبضہ سے نجات حاصل نہیں کریں گے، ہم چین و سکون و امن کی زندگی نہیں گزار سکتے، میں اپنے نوجوانوں سے التماس کرتا ہوں کہ آپ ہماری قوم کا سرمایہ ہو، اپنی زندگیوں کو شراب، نشہ آور چیزوں و دیگر بے راہ روی کے سامان میں خراب نہ کرو، ہندوستان یہی چاہتا ہے کہ یہاں کے نوجوانوں کو غلط چیزوں میں مبتلا کیا جائے، تاکہ وہ اصل مسئلہ کو بھول جائیں، میں تمام لوگوں سے یہ گزارش کرتا ہوں کہ ان چیزوں سے دوری اختیار کریں اور اپنے آپ میں سچائی اور حق پر جان نچھاور کرنے کا جذبہ پیدا کریں اور حق یہ ہے کہ ہم بھارت کے زیر قبضہ ہیں، ہمیں اس قبضہ سے آزادی کے لئے لڑنا ہے، دشمن کی تمام ناپاک سازشوں سے آگہی ہمیں رکھنی چاہیے۔

اسلام ٹائمز: عالم اسلام میں جو قتل غارتگری جاری ہے، چاہے عراق ہو، شام ہو، یمن یا دیگر اسلامی ممالک اسکی کیا وجہ ہے۔؟
سید علی گیلانی: مسلمان اگر آج زیر عتاب ہیں تو میں سمجھتا ہوں اس کی وجہ ہے کہ ہم نے قرآن و اسوہ رسول (ص) کو نہیں اپنایا، دنیا کے 6 کروڑ مہاجرین میں مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہے، یمن میں شام میں عراق میں افغانستان میں و پاکستان میں ہر جگہ مسلمان بٹے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے کی گردنیں کاٹ رہیں ہیں، یہ عذاب خداوند تعالٰی کی جانب سے اس لئے ہے کہ ہم نے قرآن و اسوہ رسول (ص) پر عمل نہیں کیا، ہم اپنے مسلکی و فروعی اختلافات کو بالائے طاق نہیں رکھنا چاہتے اور قرآن و اسوہ رسول (ص) کے زیر سایہ زندگی نہیں گزارنا چاہتے۔

اسلام ٹائمز: ماہ مبارک رمضان میں آپ عالم اسلام سے کیا اپیل کریں گے۔؟
سید علی گیلانی: میں آپ کی وساطت سے تمام مسلمانوں سے یہی کہوں گا کہ وہ اپنے آپسی اختلافات مل بیٹھ کر حل کریں او باطل قوتیں جو اسلام کو مٹانے پر کمر بستہ ہیں، ان سے مقابلہ کرنے کے لئے قرآن کے اس حکم ’’واعتصموا بحبل اللہ جمیعاً ولا تفرقوا‘‘ پر عمل کریں، مسلکی اختلافات کا شکار نہ ہوں، شیعہ سنی اختلافات کو فروغ نہ دیا جائے اور اس بنیاد پر قتل و غارتگری نہ کی جائے، وطنیت زبان یا مادی مفاد کی بنیاد پر مسلمانوں کو بٹنا نہیں چاہیے، ہمیں اتفاق و اتحاد کا مظاہرہ کرنا چاہیے، تاکہ اللہ تعالٰی ہمیں دنیا میں اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ عطا فرمائے۔