رسول اسلام کا یہ معروف فقرہ ’’یا علی میرے اور تمہارے علاوہ کسی نے اللہ کو نہیں پہچانا اور تمہارے اور اللہ کے علاوہ کسی نے مجھے نہیں پہچانا اور میرے اور اللہ کے علاوہ کسی نے تمہیں نہیں پہچانا ‘‘ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ علی علیہ السلام کی ذات ناشناختہ اس دنیا سے اٹھ گئی۔
اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔
امیر المومنین حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام وہ ناشناختہ گوہر ہیں جنہیں اللہ اور اس کے رسول کے علاوہ کوئی پہچان نہ سکا۔ رسول اسلام کا یہ معروف فقرہ ’’یا علی میرے اور تمہارے علاوہ کسی نے اللہ کو نہیں پہچانا اور تمہارے اور اللہ کے علاوہ کسی نے مجھے نہیں پہچانا اور میرے اور اللہ کے علاوہ کسی نے تمہیں نہیں پہچانا ‘‘ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ علی علیہ السلام کی ذات ناشناختہ اس دنیا سے اٹھ گئی۔
رسول اسلام (ص) نے اپنی زندگی کے قدم قدم پر آپ کی شخصیت کو پہچنوانے کی کوشش کی، ہر زاویے اور ہر رخ سے آپ کے فضائل بیان کئے لیکن مسلمانوں نے سنی ان سنی کر دی اور اس گوہر نایاب کو نہ کماحقہ پہچان سکے اور نہ اس سے فائدہ اٹھا سکے۔
اسی سلسلے میں ’’ابنا‘‘ نے حجۃ الاسلام و المسلمین محمد جعفر مروجی طبسی سے گفتگو کی ہے جنہوں نے اہل بیت اطہار(ع) کے بارے میں انسائکلوپیڈیا تحریر کیا ہے کہ مولائے کائنات کی ذات والا صفات کو زبان رسالت سے پہچنوائیں اور ان کی زندگی کے مختلف گوشوں سے پردہ ہٹائیں۔
موصوف سے اس موضوع پر کی گئی گفتگو کا خلاصہ ذیل میں پیش کیا جاتا ہے:
علی آغوش رسالت کے پروردہ
اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت علی علیہ السلام کا سب سے بڑا امتیاز یہ ہے کہ آپ نے آغوش رسالت میں تربیت حاصل کی۔ بچپن سے ہی آپ خانہ رسالت میں مشرف ہوئے اور اس طرح رسول خدا کے ساتھ ساتھ رہے جیسے اوٹنی کا بچہ اس کے ساتھ رہتا ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ امیر المومنین علی علیہ السلام، رسول خدا کے اہم ترین شاگرد بھی ہیں۔
عالم اسلام کی اس عظیم شخصیت کو اگر پیغمبر اکرم (ص) کی نگاہ سے دیکھا جائے تو دو زاویوں سے انہیں مورد تحقیق قرار دیا جا سکتا ہے ایک دنیوی مقام کے رخ سے اور دوسرے اخروی مقام و منزلت کے زاوئے سے۔ میرے نزدیک دوسرے رخ یعنی عالم آخرت اور قیامت میں آپ کے مقام و منزلت کے بارے میں گفتگو کرنا دنیوی مقام سے زیادہ اہم ہے۔