پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے نے بھارت کے تھانیدار بننے کا خواب چکنا چور کر دیا
اسلام ٹائمز: آئی ایس آئی کے سابق سربراہ کا “اسلام ٹائمز” سے خصوصی انٹرویو میں کہنا تھا کہ لوگ بھوک اور پیاس سے مر رہے ہیں، رشوت سے تنگ ہیں اور لیڈروں کے محلات دبئی اور یورپ میں بن رہے ہیں۔ عدالتیں بھی غور کریں کہ عتیقہ اوڈھو سامان سے 2 بوتلیں شراب برآمد ہونے پر پکڑی جاتی ہے لیکن لاہور میں پولیس 14 بے گناہ افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیتی ہے اور کوئی ملزم گرفتار نہیں ہوتا۔ موجودہ آئین سے وفاداری اتنی اہم نہیں جتنی ملک و قوم سے وفاداری اہم ہے۔
لیفٹیننٹ جنرل (ر) حمید گل 20 نومبر 1936ء کو پیدا ہوئے۔ حمید گل پاک فوج کے ہائی رینک ریٹائرڈ افسر ہیں۔ حمید گل 1987ء سے 1989ء تک آئی ایس آئی کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں۔ حمید گل بھارت کے حوالے سے سخت موقف رکھنے میں معروف ہیں، افغان وار میں بھی ان کا کردار نمایاں رہا۔ مولانا سمیع الحق کے بعد “بابائے طالبان” کا لقب انہیں ملا۔ طالبان میں اچھا خاصا اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ اسلامک ڈیمو کریٹک الائنس بنانے کا سہرا بھی انہی کے سر ہے۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں سکواڈرن کمانڈر کی حیثیت سے حصہ لیا۔ ضیاءالحق کے دور میں بٹالین کمانڈر رہے۔ بعد ازاں اسٹاف کرنل سمیت دیگر اہم عہدوں پر بھی کام کیا۔ اسلام ٹائمز نے ان کے ساتھ لاہور میں ایک نشست کی، جس کا احوال قارئین کے لئے پیش کیا جا رہا ہے۔ (ادارہ)
اسلام ٹائمز: جنرل راحیل شریف کے دورہ روس کو کس نظر سے دیکھتے ہیں اور کیا ملک کی خارجہ پالیسی فوج کے ہاتھ میں تو نہیں آگئی، کیونکہ چین کے ساتھ معاملات ہوں یا افغانستان کے ساتھ، آرمی چیف ہی سارے معاملات طے کر رہے ہیں۔؟
جنرل (ر) حمید گل: روس اور پاکستان کے درمیان تعلقات بہتر اور مستحکم بنانے کی جو کوششیں کی جا رہی ہیں، آرمی چیف کا دورہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ پاکستان میں فوج کے علاوہ کوئی ادارہ نہیں بچا کہ جس کے ساتھ تعلقات کے فروغ کی بات کی جائے۔ اس لئے چین کے ساتھ معاملات ہوں یا افغانستان کے ساتھ بات چیت، تمام معاملات ہی فوج کے ساتھ طے کئے جا رہے ہیں۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ فارن آفس نے آرمی چیف کے پیچھے جگہ بنالی ہے، اب تو ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ سب کچھ آرمی چیف نے ہی کرنا ہے۔ میاں صاحب کے گذشتہ ادوار میں فوج کو اندرونی معاملات سنبھالنے کی دعوت دی گئی۔ بجلی کے میٹر سے لے کر سکولوں کی چیکنگ تک کے معاملات فوج کے پاس تھے۔ اس دفعہ ملک کی خارجہ پالیسی فوج کے ہاتھ میں ہے۔ ایسا اس لئے ہو رہا ہے کہ عوام کا سیاسی جماعتوں اور دیگر اداروں پر اعتماد اٹھ چکا ہے۔ لوگ فوج پر ہی یقین رکھتے ہیں کہ وہی اس ملک کو صحیح خطوط پر چلا سکتی ہے۔ اس لئے ملک کے اندر دہشت گردی پر قابو پانا ہو یا بیرون ملکوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات کو مضبوط کرنا ہو، آرمی چیف ہی عوام کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ پاکستان کو اس وقت اونچی اڑان والے ہیلی کاپٹر درکار ہیں، پھر اینٹی ایئر کرافٹ میزائل ایس 300 مل جائیں تو بھارت کی بڑھکیں دم توڑ جائیں گی، آرمی چیف کا دورہ روس کا مقصد خالصتاً دفاعی ہے، جس سے ملک اور فوج کو مضبوط بنانا مقصود ہے۔ دو تین برس سے روس کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کی جو کوششیں کی جا رہی، تھیں یہ اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ روس کے صدر نے پاکستان کا دورہ بھی کرنا تھا، اس لئے سرتاج عزیز روس گئے تھے، روس کے ساتھ دفاعی معاملات بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ اس لئے کہ سرد جنگ کے زمانے سے ہمارے تعلقات سرد مہری کا شکار چلے آرہے تھے، مگر گذشتہ چند سالوں سے صورتحال یکسر تبدیل ہوچکی ہے۔ اس لئے موجودہ حالات میں روس سے دفاعی فیلڈ میں تعلقات بہتر بنا کر ہم خطے میں امن کو فروغ دینے کا باعث بن سکتے ہیں، صرف بھارت سے امن کی آشا قائم کرکے ہم کچھ حاصل نہیں کرسکتے۔ نئی بھارتی حکومت کے عزائم تو کھل کر سامنے آچکے ہیں، اس لئے ہمیں اس کی طرف سے کسی قسم کی نیک خواہش نہین رکھنی چاہیے، بلکہ اس کے جارحیت پسندانہ عزائم کو خاک میں ملانے کے لئے ملک کو مضبوط کرنا ہوگا۔
اسلام ٹائمز: مودی نے بنگلہ دیش جا کر مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرنے کا اقدام تسلیم کر لیا ہے، دوسری طرف بھارتی وزراء کھل کر پاکستان مخالف بیانات دے رہے ہیں، اس پر حکومت پاکستان کیطرف سے بھرپور جواب نہ آنا کیا اس سے محب وطن پاکستانیوں کے جذبات مجروح نہیں ہوئے۔؟
جنرل (ر) حمید گل: پاکستان دو قومی نظریہ کی بنیاد پر قائم ہوا تھا اور یہی نظریہ اسے تاقیامت آباد رکھے گا۔ جو اس نظریہ کو دفن کرنے کی باتیں کرتے ہیں، وہ خود دفن ہوگئے مگر پاکستان آج بھی زندہ و پائندہ ہے۔ آج ہمارے حکمران اس نظریہ کو پس پشت ڈال کر ہندو سے دوستی اور بھائی چارہ قائم کرنے کی بات کر رہے ہیں، وہ نظریہ پاکستان کو آلو پیاز کی تجارت میں دفن کرنا چاہتے ہیں۔ مگر انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں۔ ملک اپنے نظریات اور نظریاتی اساس پر زندہ رہتے ہیں۔ بھارت کی مودی سرکار نے پاکستان کو 47ء والا ہندو یاد دلا دیا ہے، جو مسلمانوں کے خون کا پیاسا تھا۔ جس نے مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ ڈالا، مگر یہ 1947ء نہیں، یہ 2015ء کا پاکستان ہے، جس کے پاس ایٹم بم ہے، ہماری قیادتیں جتنی بھی کمزور ہوں مگر عوام مضبوط ہیں، وہ اس ملک کو نظریہ پاکستان کی اساسی روح کے مطابق چلانے کی اہلیت رکھتی ہیں۔ حکومت بھارت سے بات کرنے کی پوزیشن میں نہیں، آپ دیکھ لیں کہ بنگلہ دیش میں بھارتی وزیراعظم مودی نے جو بیان دیا، کس کو اس کا جواب دینے کی جرات ہوئی؟ بھارتی وزراء نے پاکستان دشمنی پر مبنی کتنے بیانات داغے؟ کسی پاکستانی لیڈر کو اس کا جواب دینے کی جرات ہوئی؟ اگر ان باتوں کا جواب کسی نے دیا تو وہ آرمی چیف ہی تھے۔ جنہوں نے اس موقع پر بھارت کو دندان شکن جواب دیا اور بتا دیا کہ پاک فوج جاگ رہی ہے اور بھارتی عزائم خاک میں ملانے کی ہمت رکھتی ہے۔ پاک فوج دشمن کے ناپاک عزائم کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑی ہے اور پوری قوم پاک فوج کے ساتھ ہے۔ بھارت 250 ارب ڈالر کے جدید ہتھیاروں پر خرچ کر رہا ہے جبکہ اسے پاک چین اقتصادی راہداری ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ چین کے ساتھ اس معاہدے سے بھارت کے خطے کا سپر پاور بننے کا خواب چکنا چور ہوگیا ہے، اس لئے وہ تلملا کر اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آیا ہے، مگر اس وقت پاکستانی قیادت کی طرف سے بھارتی قیادت کو سخت جواب دینے کی ضرورت ہے۔
اسلام ٹائمز: ایسے موقع پر جب پاک فوج آپریشن ضرب عضب میں مصروف ہے، دوسری طرف کراچی میں دہشتگردی اور کرپشن کیخلاف نبرد آزما ہے، ایسے میں آصف علی زرداری کا بیان آنا، کیا یہ فوج کا مورال ڈاؤن کرنے کی سازش نہیں۔؟
جنرل (ر) حمید گل: اصل میں موجودہ حکومت ناکام ہوچکی ہے۔ وہ اندرونی بحرانوں پر قابو پاسکی نہ سرحدوں کو محفوظ بنا سکی ہے۔ وہ کل جاتی آج چلی جائے تو بہتر ہوگا۔ موجودہ حکومت قومی ایکشن پلان کی راہ میں رکاؤٹیں ڈال رہی ہے۔ اس لئے تو قومی ایکشن پلان پر عملدرآمد نہیں ہو رہا۔ نواز حکومت کو آصف علی زرداری کی پشت پناہی حاصل ہے۔ اس لئے کراچی میں آپریشن کی راہ میں رکاوٹیں ڈالی جا رہی ہیں۔ آصف علی زرداری نے اپنے دور میں جاتے جاتے ایسی ترامیم کر ڈالیں جس سے مرکزیت کا خاتمہ ہوگیا، سندھ میں کب سے گورنر راج لگ جانا چاہیے تھا مگر یہ آئینی ترمیم اس کی راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔ پی پی پی کی قیادت نے کراچی آپریشن کی راہ میں روڑے اٹکائے اور مزاحمت جاری رکھی، جس سے ابھی تک جرائم پیشہ عناصر پر پوری طرح سے قابو نہیں پایا جاسکا۔ کراچی آپریشن کی راہ میں وزیراعلٰی قائم علی شاہ سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ آپ دیکھ لیں کہ سندھ بلڈنگ اتھارٹی کے دفتر پر رینجرز کے چھاپے پر آصف علی زرداری کا کس طرح ردعمل آیا، ان کی تقریر اسی کا شاخسانہ معلوم ہوتی ہے۔ زرداری اپنی کمزوریاں چھپانے کے لئے قومی اداروں پر تنقید کر رہے ہیں۔ ایسے وقت میں جب فوج کے جوان آپریشن ضرب عضب میں اپنی جانوں کے نذرانے دے رہے ہیں، ان کا یہ بیان غیر مناسب اور ہتک آمیز معلوم ہوتا ہے۔ انہیں اپنے طرز عمل پر غور کرنا چاہیے۔ زرداری کے سخت الفاظ اور شدید طرز عمل پر غور کرنا چاہئے۔ زرداری کے سخت الفاظ اور شدید ردعمل سے لگتا ہے کہ اندرون خانہ کچھ گڑبڑ ضرور ہے اور وہ اس سے بچنے کے لئے اس قسم کے بیانات دے رہے ہیں، تاکہ کرپشن پر پردہ پڑا رہے اور وہ اس سے بچ جائیں۔ انہوں نے اپنی تقریر میں پاک فوج اور بالخصوص آرمی چیف کو للکارا ہے اور انہیں دھمکانے کی کوشش کی ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ ایک بار پھر سندھ کارڈ استعمال کر رہے ہیں۔ زرداری کچھ بھی کہہ لیں، ان کی کرپشن بھی قوم کے سامنے ہے اور فوج کا کردار بھی۔ انہیں چاہیے کہ پی پی پی کی گرتی ہوئی ساکھ کو بحال کرنے کے لئے فوج کیخلاف نازیبا الفاظ استعمال کرنے سے باز رہیں۔ ان کے طرز سیاست سے اداروں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
اسلام ٹائمز: زرداری صاحب منت سماجت کرکے بلاول کو میدان میں لے ہی آئے ہیں، کیا چہرہ بدلنے سے کوئی تبدیلی آپائے گی۔؟
جنرل (ر) حمید گل: پیپلز پارٹی میں زرداری کی جگہ ان کے فرزند ارجمند بلاول سے کوئی امید رکھنا بے کار ہے، کیونکہ باپ بیٹے میں کوئی فرق نہیں اور نئے سیپل کے ساتھ نوجوان لیڈر کو لانچ کرنے کی مہم بھی ناکام ہو جائے گی۔ لوگ ان سیاسی جماعتوں سے بیزار ہوچکے ہیں۔ جمہوریت کے ثمرات سامنے نہیں آرہے۔ میرے خیال میں تو بلاول صاحب کو اس بات سے ڈرنا چاہیے کہ خدا نہ کرے جن قوتوں نے ان کی والدہ کو قتل کرایا تھا، وہ ان پر بھی کوئی وار نہ کریں۔ ہم یہاں قتل و خون سے تنگ آچکے ہیں اور ملک میں صاف ستھری حکومت، کرپشن سے پاک نظام، میرٹ کی حکمرانی اور سیاسی جوڑ توڑ سے نجات چاہتے ہیں۔ پاکستان کے لئے اور اس کے سب سے مستحکم، سب سے محب وطن اور سب سے مستعد ادارے فوج کے لئے میری جان تک حاضر ہے۔ میں سیاست دانوں کی گیڈر بھبھکیوں سے نہیں ڈرتا۔ ہر پاکستانی کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنے ملک کے لئے جس قسم کے نظام کو بہتر سمجھتے ہیں، اس کے لئے کوشش کریں۔ یہ گناہ نہیں فرض ہے اور میں اپنا فرض نبھاتا رہوں گا۔
اسلام ٹائمز: آپ نے آئین سے متعلق ایسی کیا بات کہہ دی تھی کہ ایوان میں آگ بھڑک اٹھی، اور گڈگورننس قائم کرنے کیلئے آپ کیا تجویز دیں گے، کیا آئین میں ترمیم کرنا اسمبلیوں کا حق نہیں۔؟
جنرل (ر) حمید گل: ہاں میں نے آئین معطل کرنے کی بات کی تھی، جس پر سب بھڑک اٹھے، وہ جس آئین کے تقدس کی بات کرتے ہیں، اس آئین میں اتنی ترامیم ہوچکی ہیں کہ اس کا نقشہ ہی بگڑ چکا ہے۔ کسی صوبے میں کرپشن کی انتہا ہوجائے تو بھی دونوں بڑی پارٹیوں کی ملی بھگت سے آئین میں گنجائش کو جو صوبے میں گورنر راج لگایا جاسکتا تھا، عملاً اس کو ناممکن بنا دیا گیا، کہ اب کرپشن سے بھرپور حکومت کا صوبائی سربراہ ہی سفارش کرسکتا ہے کہ میری حکومت ختم کر دی جائے جو ناممکن ہے۔ لوگ بھوک اور پیاس سے مر رہے ہیں، رشوت سے تنگ ہیں اور لیڈروں کے محلات دبئی اور یورپ میں بن رہے ہیں۔ عدالتیں بھی غور کریں کہ عتیقہ اوڈھو سامان سے 2 بوتلیں شراب برآمد ہونے پر پکڑی جاتی ہے، لیکن لاہور میں پولیس 14 بے گناہ افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیتی ہے اور کوئی ملزم گرفتار نہیں ہوتا۔ موجودہ آئین سے وفاداری اتنی اہم نہیں جتنی ملک و قوم سے وفاداری اہم ہے۔ میرا تعلق پاک فوج سے رہا ہے، فوج ایک طرف تو آپریشن ضرب عضب کر رہی ہے اور دہشت گردوں سے نبرد آزما ہے تو دوسری طرف اس کے ہاتھ پاؤں باندھ کر سندھ کی کرپٹ انتظامیہ اور مشکوک کردار کی حامل سیاسی جماعتوں کے سامنے ڈال دیا گیا ہے۔
ڈی جی رینجرز کی پریس ریلیز اس صورت حال کی نشاندہی کرتی ہے، جس سے ہم آج دوچار ہیں۔ اگر کرپٹ نظام ہی رکھنا ہے تو پاک فوج بالخصوصی رینجرز کے جوانوں اور افسروں کو اس آگ میں کیوں جھونکا جا رہا ہے؟ کراچی کو پرامن بنانا ہے تو رینجرز اور اس کے پیچھے بیٹھی ہوئی فوج کو مکمل اختیارات دیئے جائیں۔ چین کی ہم دن رات تعریفیں کرتے ہیں۔ کم از کم وہاں سے سبق تو سیکھ لیا جائے کہ برسراقتدار پارٹی کے مقابلے میں دوسری پارٹی نہیں بنے گی۔ چین پاکستان کے بعد آزاد ہوا تھا، اور آج برطانوی جمہوریت کی بجائے اپنے اندر کے سیاسی نظام کے سبب دنیا کی سب سے بڑی قوت بن چکا ہے۔ کیا وہاں پارلیمانی جمہوریت ہے۔ میری تجویز ہے کہ ضیاء کے زمانے میں انصاری کمیشن نے نظام حکومت کے بارے میں جو تجاویز دی تھیں، ان کی روشنی میں نظام وضع کیا جائے۔ کیوںکہ جمہوریت جمہوریت کے شور میں ہمیں سوائے بدحالی کے اور کچھ نہیں ملا۔ مٹھی بھر رینجرز والے قربانی دے رہے ہیں، میثاق جمہوریت دراصل باریاں لینے اور لوٹ مار کرنے کے مشترکہ پروگرام کا نام ہے۔ وزیروں مشیروں کے گھروں سے اربوں روپے برآمد ہوسکتے ہیں۔ ایک ماڈل گرل پکڑی گئی تو پتہ چلا 44 مرتبہ بھاری رقوم لے کر باہر جا چکی ہے، مگر اس کا کیس ایک دو دن میں فیصلہ ہونے کی بجائے جان بوجھ کر چونٹی کی چال میں چلایا جا رہا ہے، تاکہ زرداری کو فائدہ پہنچایا جاسکے، آخر میثاق جمہوریت جو ہوچکا ہے تو اس پر عمل تو کرنا ہے۔ یہ میثاق جمہوریت ملک کی تباہی کا معاہدہ ہے، جو نواز اور زرداری کے درمیان ہوچکا ہے۔