ریاض کھوکر اور برنیٹ روبن، دونوں ہی نے نشاندہی کی کہ امریکیوں کے برعکس چینی پاکستان سے مزید کچھ کرنے کے لئے نہیں کہتے ہیں۔ برنیٹ روبن نے مشورہ دیا کہ پاکستان مشرقِ وسطٰی میں جاری شیعہ سنی لڑائی سے ایک محفوظ فاصلہ برقرار رکھے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان شیعہ اور سنی مسلمانوں کے درمیان یکجہتی کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتا۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ۔ ابنا ۔ کی رپورٹ کے مطابق سینیئر سفارتکاروں اور اسکالرز کے ایک اجتماع نے خبردار کیا ہے کہ ’’پاکستان سنّی اور شیعہ مسلمانوں کے درمیان یکجہتی کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتا۔‘‘ امریکی درالحکومت میں ہونے والے اس اجتماع میں اس حوالے سے بھی خبردار کیا گیا کہ موجودہ پریشان کن صورتحال سے باہر نکلنے کے لئے وقت پاکستان کے ہاتھ سے نکلتا جا رہا ہے، اور یہ بھی کہ درپیش بنیادی چیلنجز کا سنجیدگی سے دوبارہ تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ واشنگٹن میں سینچری فاؤنڈیشن پر ہونے والے اس مباحثے کے تقریباً تمام شرکاء نے پاکستان میں 40 ارب ڈالرز سے زیادہ کی چینی سرمایہ کاری کے منصوبے کو ملکی معیشت کے استحکام کے لئے ایک منفرد موقع قرار دیا۔ 2001ء میں افغانستان پر حملے کے بعد پہلے امریکی سفیر رابرٹ فن نے کہا کہ کمزوریوں کے باوجود پاکستان میں جمہوریت موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ چیزوں کو راتوں رات تبدیل نہیں کیا جاسکتا، لیکن وہ ترقی کرسکتے ہیں اور انہیں ایسا کرنا چاہیے۔

واشنگٹن، نئی دہلی اور بیجنگ میں پاکستان کے سابق سفیر ریاض کھوکھر نے محسوس کیا کہ پاکستان میں سیکولر سیاسی قوتوں کے پاس انتہاء پسندی سے مقابلے کے لئے کوئی حکمت عملی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’اس وجہ سے ایسی قوتوں کو سیاسی جگہ ملی ہے اور انہوں نے اس کا استحصال کیا ہے۔‘‘ نیویارک یونیورسٹی میں افغانستان پاکستان پروگرام کے ڈائریکٹر برنیٹ روبن نے نشاندہی کی کہ اسلام آباد کے کابل کے ساتھ تعلقات میں پچھلے چھ مہینوں کے دوران بہتری آئی تھی، جس کا پورے خطے پر مثبت اثر پڑسکتا ہے۔ انہوں نے چین کی پالیسی میں تبدیلی کی جانب بھی اشارہ کیا، جس کے تحت ’’ناصرف سنکیانگ میں بلکہ پورے خطے میں‘‘ انتہاپسندی کی مخالفت کی جا رہی ہے۔ برنیٹ روبن نے کہا کہ ’’اب چین افغانستان میں بھی طالبان کی حکومت نہیں چاہتا۔ افغانستان میں ہندوستان کے اثرورسوخ کے بارے میں پاکستانی تشویش کے پیش نظر چین کی شمولیت اس کے سکیورٹی کے احساس میں اضافہ کرے گی۔‘‘ پاکستان کے ایک سینیئر صحافی اور ایک تھنک ٹینک کے ماہر امتیاز گل نے حکومت پر زور دیا کہ وہ عوام کو تعلیم، صحت اور توانائی جیسی بنیادی سہولیات فراہم کرے۔ انہوں نے کہا کہ ’’پاکستان کو درپیش بہت سے مسائل میں سے بنیادی مسئلہ قانون کی حکمرانی کی عدم موجودگی ہے اور یہ بہت بڑا خطرہ ہے۔‘‘

ریاض کھوکر اور برنیٹ روبن، دونوں ہی نے نشاندہی کی کہ امریکیوں کے برعکس چینی پاکستان سے مزید کچھ کرنے کے لئے نہیں کہتے ہیں۔ برنیٹ روبن نے مشورہ دیا کہ پاکستان مشرقِ وسطٰی میں جاری شیعہ سنی لڑائی سے ایک محفوظ فاصلہ برقرار رکھے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان شیعہ اور سنی مسلمانوں کے درمیان یکجہتی کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتا۔ پاکستان کے لئے مشرقِ وسطٰی کے فرقہ ورانہ تنازعے میں کسی طرح سے بھی ملوث ہونا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ برنیٹ روبن نے کہا کہ یمن تنازعے سے دور رہنے کے لئے پاکستانی پارلیمنٹ کا فیصلہ حکمت آمیز تھا اور حکومت کو اس پالیسی میں تبدیلی نہیں کرنی چاہیے۔ امریکی فارن سروس میں اعلٰی عہدے پر فائز اور سفارتکار تھامس پکرنگ نے نشاندہی کی کہ سعودی عرب بھی تبدیلی سے گزر رہا ہے، اور پاکستان کے لئے بہتر مشورہ یہ ہوگا کہ وہ اس خطے میں تیزوتند تنازعات سے دور رہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’پاکستان کے لئے اسکی اپنی وجوہات ہیں، جن کی بنیاد پر یمن کی جنگ میں شامل نہ ہونے کا فیصلہ میری نظر میں عقلمندی پر مبنی تھا۔‘‘ انہوں نے بین الاقوامی برادری پر زور دیا کہ وہ ’’ایک روشن خیال فیصلے‘‘ کی حمایت کرے۔