اسلام ٹائمز: مختلف شہروں میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات، پلانٹڈ، ریموٹ کنٹرول اور خودکش دھماکے تو شائد معمول کا حصہ بن چکے ہیں، اس لئے حکومت، میڈیا اور انتظامیہ اب ان ’’معمولی واقعات‘‘ کو تقریباً نظر انداز ہی کر دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گذشتہ ماہ کوئٹہ میں ہونے والا بم دھماکہ، چار سدہ کی مسجد میں خودکش حملہ، یکے بعد دیگر ے تین ڈرون حملے، پاک افغان سرحدی چوکیوں پر افغانستان سے آئے دہشتگردوں کے حملے، کراچی، پشاور، کوئٹہ میں ٹارگٹ کلنگ کے سانحات میڈیا اور سرکار کی نظروں میں زیادہ اہمیت و حیثیت حاصل نہیں کر پائے۔
 پاکستان کی تاریخ میں شائد یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ محض چار دن کے وقفے سے دو ایسے سانحات رونما ہوئے کہ جن کے سوگ میں دو مرتبہ سبز ہلالی قومی پرچم سرنگوں رہا اور سرکاری سطح پر دو دفعہ قومی سوگ کا اعلان کیا گیا، گرچہ تیسرا سانحہ بھی کچھ کم افسوس ناک نہیں تھا، تاہم سرکاری سطح پر اس کے سوگ کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ ان واقعات کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ مئی کا گذشتہ مہینہ وطن عزیز پر کافی بھاری گزرا ہے۔ مختلف شہروں میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات، پلانٹڈ، ریموٹ کنٹرول اور خودکش دھماکے تو شائد معمول کا حصہ بن چکے ہیں، اس لئے حکومت، میڈیا اور انتظامیہ اب ان ’’معمولی واقعات‘‘ کو تقریباً نظر انداز ہی کر دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گذشتہ ماہ کوئٹہ میں ہونے والا بم دھماکہ، چار سدہ کی مسجد میں خودکش حملہ، یکے بعد دیگرے تین ڈرون حملے، پاک افغان سرحدی چوکیوں پر افغانستان سے آئے

دہشتگردوں کے حملے، کراچی، پشاور، کوئٹہ میں ٹارگٹ کلنگ کے سانحات میڈیا اور سرکار کی نظروں میں زیادہ اہمیت و حیثیت حاصل نہیں کر پائے، جس کا اندازہ یوں بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ان واقعات میں نشانہ بننے والے پاکستانی عوام کیلئے حکومت کی جانب سے نہ ہی کسی معاوضے کا اعلان سامنے آیا اور نہ ہی زخمیوں کا علاج سرکاری خرچ پر کرانے کا کوئی نوٹیفکیشن جاری ہوا۔ ملک میں برپا ہونے والے ’’معمولی سانحات‘‘ کو حکومت، سرکاری اداروں، میڈیا اور عدلیہ کی طرح ہم بھی اس تحریر میں نظر انداز کرتے ہوئے اپنی توجہ سانحہ نلتر، صفورا چورنگی اور سانحہ مستونگ پر مرکوز رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

سانحہ نلتر:
مورخہ 8 مئی 2015ء وادی نلتر میں پاک فوج کا ایم آئی 17 ہیلی کاپٹر صبح دس بجکر پینتالیس منٹ پر کریش لینڈنگ کے دوران گر کر تباہ ہوگیا۔ جس میں چیف ٹیکنیشن نائب صوبیدار ذاکر حسین، پائلٹ میجر التمش، پائلٹ میجر فیصل شہید ہوگئے، جبکہ حادثے میں ناروے کے سفیر لیف ہولگر لارسن، فلپائنی سفیر ڈومنگولو سیزیو جونیر، انڈونیشیا ہائی کمشنر کی بیگم ہیر لستیاوتی برہان، ملائشین ہائی کمشنر کی بیگم داتن حبیبہ محمد بھی زندگی کی بازی ہار گئے۔ حادثے میں پولینڈ، ہالینڈ اور انڈونیشیا کے سفیر زخمی ہوئے، جن میں سے انڈونیشیا کے سفیر برہان محمد گیارہ دن سنگاپور ہسپتال میں زیر علاج رہنے کے بعد جاں بحق ہوگئے۔ گلگت کی وادی نلتر میں چیئر لفٹ اور ریزارٹ کے افتتاح کے موقع پر وزارت خارجہ کی دعوت پہ 8 مئی سے 11 مئی تک چار روزہ دورہ ترتیب دیا گیا تھا۔ جس کے مہمان خصوصی وزیراعظم پاکستان جبکہ دیگر شرکاء میں فرانس، آسٹریا، بنگلہ دیش، بوسنیا، چیک ریپبلک، جرمن، ہنگری، لبنان، تاجکستان، آذربائیجان، بلغاریہ، کینیڈا، مصر، یونان، جاپان، ہالینڈ، سپین، سویڈن، سوئٹزرلینڈ، تھائی لینڈ، تیونس، جنوبی افریقہ، ارجنٹائن کے سفیر اور ان کی فیملیز سمیت دفتر خارجہ کے افسران اور ان کی فیملیز شریک ہونی تھیں۔ تمام مہمانوں اور میزبان وزارت کے افسران کو پاک فوج کے چار ہیلی کاپٹرز کے ذریعے وادی نلتر جانا تھا۔

بعض ذرائع کے مطابق چاروں ہیلی کاپٹرز کی پرواز سے قبل فائنل چیکنگ کے دوران ایک ہیلی کاپٹر میں معمولی خرابی کی بناء پر اسے استعمال نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ تین ہیلی کاپٹرز مہمانوں کو لیکر گلگت گئے۔ شیڈول کے مطابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے بھی ہیلی کاپٹر کے ذریعے پہنچنا تھا۔ حادثے سے قبل دو ہیلی کاپٹرز نے کامیاب لینڈنگ کی، جبکہ تیسرا ہیلی کاپٹر لینڈنگ سے قبل فضا میں بے قابو ہوا، مگر پائلٹ اسے بحفاظت اتارنے میں کامیاب ہوگیا۔ ان ہیلی کاپٹرز میں سے ایک واپس آیا اور سترہ افراد کو لیکر واپس گیا۔ جن میں 11 غیر ملکی اور چھ پاکستانی شامل تھے۔ جس وقت حادثہ پیش آیا، اس وقت ہیلی کاپٹر زیادہ بلندی پر نہیں تھا، اگر ’’خرابی‘‘ پیش نہ آتی تو چند لمحوں بعد ہی ہیلی کاپٹر نے محفوظ لینڈنگ کرلینی تھی، مگر زمین سے تھوڑی دوری پر ہیلی کاپٹر نے اچانک فضا میں گھومنا شروع کر دیا اور عدم توازن کا شکار ہوگیا۔

ابتدائی رپورٹ کے مطابق ٹیل روٹر جام ہونے کی وجہ سے ہیلی کاپٹر کو موڑنے کی صلاحیت ختم ہوگئی، چونکہ ٹیل روٹر کی وجہ سے ہی ہیلی کاپٹر فضا میں متوازن رہتا ہے، جبکہ وادی میں تیز ہوائیں ایک سرنگ کی صورت اختیار کرلیتی ہیں، لہذا بے قابو ہیلی کاپٹر پر قابو نہیں پایا جاسکا۔ حالانکہ یہی ہوائیں بلندی پر زیادہ شدید تھیں، مگر شائد اس وقت تک ٹیل روٹر اپنا کام کر رہا تھا۔ پائلٹ آخری لمحوں تک ہیلی کاپٹر کو بچانے کی کوشش کرتے رہے، گرچہ ان کے پاس محفوظ انخلاء کا آپشن موجود تھا، مگر انہوں نے اپنی جانوں کی پروا کئے بغیر معزز مہمانوں کی زندگیاں محفوظ کرنے کی اپنے تہی پوری کوشش کی۔ آخری لمحوں میں ہیلی کاپٹر آرمی پبلک سکول کی دیوار کے ساتھ ٹکرایا۔ موقع پر موجود پاک فوج کے جوانوں نے جلتے ہیلی کاپٹر سے اندر پھنسے لوگوں کو جان پر کھیل کے باہر نکالا۔ وزیراعظم نواز شریف کو جب حادثے کی اطلاع ملی تو وہ گلگت جانے کیلئے ہیلی کاپٹر کے بجائے جہاز میں سوار ہوچکے تھے، حادثے کی خبر ملنے کے بعد وہ واپس چلے گئے، جبکہ زخمیوں اور زندگی کی بازی ہارنے والے غیر ملکی مہمانوں کی نعشوں کو ریسکیو آپریشن کے ذریعے سی ایم ایچ منتقل کیا گیا۔

گرچہ یہ حادثہ تکنیکی خرابی کی بناء پر پیش آیا، تاہم تحریک طالبان نے سوشل میڈیا کے ذریعے اس حادثے کو اپنا کارنامہ ظاہر کرنے کی سطحی کوشش کی۔ موصول شدہ فوٹیج میں ہیلی کاپٹر کو فضا میں ہی آگ لگ چکی تھی، اور شائد کہ چند مسافروں نے جلتے ہیلی کاپٹر سے نیچے چھلانگ لگائی۔ گرچہ ماہرین کی جانب سے ابھی تک یہ وضاحت سامنے نہیں آئی کہ ٹیل روٹر کی خرابی کی بنیاد پر جے پی فور انجن آگ کیسے پکڑتا ہے۔ حادثے کی مکمل تحقیقی رپورٹ ابھی تک پیش نہیں کی گئی۔ وزارت خارجہ کی جانب سے یہ بھی کہا گیا کہ تحقیقاتی رپورٹ دیگر ممالک کے ساتھ بھی شیئر کی جائے گی۔ جس سکول کی دیوار سے ہیلی کاپٹر ٹکرایا، اس دن کلاسز معطل تھیں، ورنہ شائد کہ جانی نقصان اس سے بڑھ کر ہوتا۔ ایم آئی 17 ہیلی کاپٹرز روسی ساختہ ہیں اور ایم آئی ایٹ کی ترقی یافتہ شکل ہیں۔ دنیا کے پچاس سے زائد ممالک اس کا استعمال کر رہے ہیں۔ حادثے کے بعد پاک فضائیہ کے سربراہ کا کہنا ہے کہ حادثے کا شکار ہونے والا ہیلی کاپٹر لینڈنگ سے کچھ دیر قبل کنٹرول سے باہر ہوگیا تھا۔

ہیلی کاپٹر کے پائلٹ تجربہ کار تھے اور بیس کمانڈر حادثے کے مقام پر موجود تھے۔ حادثہ لینڈنگ سے کچھ دیر قبل ہیلی کاپٹر میں پیدا ہونے والی تکنیکی خرابی کے باعث پیش آیا ہے۔ ائرچیف مارشل کے مطابق جس وقت ہیلی کاپٹر لینڈنگ کے علاقے میں پہنچا، وہ بالکل معمول کے مطابق کام کر رہا تھا۔ انھوں نے کہا کہ یہ ایک حادثہ تھا، جس طرح دنیا کے دیگر حصوں میں حادثات ہوتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر طالبان کی جانب سے حادثے کی ذمہ داری قبول کرنے کے بعد وفاقی سیکرٹری خارجہ اعزاز چودھری نے کہا ہے کہ سانحہ نلتر تخریب کاری یا دہشت گردی نہیں، تحریک طالبان کا دعویٰ قطعی بے بنیاد ہے۔ آرمی چیف نے تحقیقاتی بورڈ تشکیل دیدیا، ان کا کہنا تھا کہ ہیلی کاپٹر کے بلیک باکس سے ملنے والی معلومات کے مطابق تخریب کاری یا دہشتگردی کے شواہد نہیں ملے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ حادثے کا شکار ایم آئی 17 ہیلی کاپٹر 2002ء میں خریدا گیا تھا اور واقعے سے چند گھنٹے قبل ہیلی کاپٹر کی سروس بھی کی گئی تھی۔ ہیلی کاپٹر حادثے کا اگلے دن پورے ملک میں یوم سوگ منایا گیا اور سبز ہلالی قومی پرچم سرنگوں رہا۔

سانحہ صفورا چورنگی
ابھی ہیلی کاپٹر حادثے کی بازگشت نہیں تھمی تھی کہ کراچی کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا ایسا خونی واقعہ پیش آیا، جس میں منظم پلاننگ کے تحت بس میں سوار اسماعیلی برادری سے تعلق رکھنے والے 47 افراد کو انتہائی بیدردی سے قتل کر دیا گیا۔ بدقسمت بس ساٹھ مسافروں کو لیکر الازہر گارڈن سے کریم آباد جماعت خانے جا رہی تھی کہ صفورا چورنگی کے نزدیک غازی گوٹھ کے مقام پر پولیس کی وردیوں میں ملبوس دہشتگردوں نے بس کے سامنے آکر اسے رکنے کا اشارہ کیا۔ ڈرائیور نے سمجھا کہ شائد چیکنگ کی غرض سے بس کو روکا جا رہا ہے۔ بس رکنے کی دیر تھی کہ عقبی دروازے سے تین دہشتگرد اندر داخل ہوئے۔ مسافروں نے خیال کیا کہ ڈاکو ہیں، جو لوٹ مار کی غرض سے چڑھے ہیں۔ آگے والے دروازے سے ایک دہشتگرد نے ڈرائیور کو گن پوائنٹ پر لے لیا۔ ایک دہشت گرد جس کے ایک ہاتھ میں پسٹل اور دوسرے ہاتھ میں موبائل تھا، اس نے دو بچوں کو مسافروں سے الگ کرکے آخری سیٹ پر بٹھایا اور مسافروں کو سر نیچے رکھنے کی ہدایت دی، اور فائر کی آواز بلند کی۔ جس کے بعد دہشتگرد پچھلی نشستوں سے فائرنگ کرتے ہوئے آگے بڑھتے گئے اور بس کے اگلے دروازے سے نیچے اتر گئے۔ اس دوران چار مسافروں کو گردن میں خنجر بھی مارے گئے۔ غالباً کسی ایک دہشتگرد کے پاس جب گولیاں ختم ہوگئیں تو اس نے خنجر سے مسافروں کے گلے کاٹے۔

انسانیت کو شرمندہ کرنے والے بربریت پر مبنی اس سانحہ میں کل 47 افراد کو نہایت سفاکی سے قتل کیا گیا۔ جن میں 17 خواتین بھی شامل تھیں۔ زیادہ تر مسافروں کو سروں میں پشت کی جانب سے انتہائی قریب سے گولیاں ماری گئی تھیں۔ جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ دہشتگردوں نے نہایت اطمینان سے یہ خون کی ہولی کھیلی۔ ایک سے زائد گولیاں لگنے سے ڈرائیور موقع پر ہی جاں بحق ہوگیا تھا۔ دین و دنیا پر کلنک درندہ صفت دہشتگرد جاتے جاتے داعش کے پمفلٹ بھی بس میں پھینک گئے۔ بس میں موجود سلطان علی نامی ایک زخمی نے انتہائی ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بس کی ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی اور زخمیوں و لاشوں سے بھری بس لیکر قریب واقع ہسپتال پہنچا۔ لاشوں سے بھری بس جب ہسپتال پہنچی تو ایک کہرام برپا ہوگیا۔ اس المناک سانحہ کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں نے شدید مذمت کی اور سرکاری سطح پر یوم سوگ کا اعلان کیا گیا۔ جس کے بعد اگلے روز یعنی 14 مئی کو ایک بار پھر پورے ملک میں قومی پرچم سرنگوں رہا۔ صفورا چورنگی سانحہ کی ایف آئی آر دو روز بعد سچل تھانے میں درج کرکے سیل کر دی گئی۔