اسلام ٹائمز: معتبر ذرائع کا کہنا ہے کہ مجھے پہلی کال کرنے والے مولانا صاحب کا تعلق کالعدم تنظیموں سے رہا اور آج کل کلر سیداں میں اپنے مدارس چلا رہے ہیں، جن کے لئے انھیں یورپ سے فنڈنگ بھی ہو رہی ہے۔ کیا یہ سب ایجنسیوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے علم کے بغیر ممکن ہے؟ نہیں بلکہ 5-12۔2014 کو مجھے کلر سیداں میں تعینات C T D انسپکٹر نوید ظفر نے فون کرکے حکم دیا کہ میں اسے اس کے دفتر میں آکر ملوں۔ اس کال کے فوراً بعد میں نے ایک درخواست بنام صدر آر آئی یو جے لکھی۔ قصہ کوتاہ 141141سی ٹی ڈی کا انسپکٹر مجھے ہراساں کرتا رہا اور داعش کے سہولت کاروں کی خواہش پہ مجھے ’’شیڈول فور‘‘ میں ڈالنے کی کوشش بھی کی گئی۔ کلر سیداں میں داعش کے سہولت کاروں نے ہفت روزہ پنڈی پوسٹ کے ایڈیٹر پر اس قدر دباؤ ڈالا کہ ادارے کو معذرت شائع کرنا پڑی۔
تحریر: طاہر یاسین طاہر
ہم اپنے معاشرتی رویوں کی بنا پر ایک متشدد ہجوم ہیں۔ کسی بھی معاشرے میں انتہا پسندی بیک وقت فروغ نہیں پاتی بلکہ اس کی تاریخی و ’’تہذیبی‘‘ وجوہات ہوتی ہیں۔ اگرچہ پاکستان میں فرقہ وارانہ کشیدگی سے انکار ممکن ہی نہیں۔ لوگوں کو مسافر بسوں سے اتار کر ان کے شناختی کارڈرز دیکھے جاتے ہیں اور پھر انھیں قتل کرکے ’’ثواب‘‘ کمایا جاتا ہے۔ افغانی طالبان سے لے کر پاکستانی طالبان تک، اور پھر پاکستان کے اچھے برے طالبان کی ’’تمیز و بحث‘‘ سے لے کر القاعدہ و النصرہ اور پھر داعش تک سب فکری رویے میں ایک دوسرے کے ہم نوا ہیں۔ ہمیں تسلیم کر لینا چاہیے کہ افغانی و پاکستانی طالبان اور القاعدہ و داعش کے ظالمانہ طریقہ کار میں قدرے اختلاف تو ہوسکتا ہے مگر ان سب کا مطمعء نظر ایک نام نہاد اسلامی خلافت کا قیام ہی ہے۔ کیا یہ خلافت اسلام کی آفاقی تعلیمات کے ذریعے ممکن ہو پائے گی؟ نہیں بلکہ تکفیری جماعتوں اور ان کے سہولت کاروں کا عقیدہ ہے کہ یہ کام صرف قتال کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ ہم دیکھ بھی رہے ہیں کہ قتال کیا جا رہا ہے۔ ابھی کل ہی تو دو مسافر بسوں سے 20 افراد کو اتار کر شہید کر دیا گیا۔
کالم کا موضوع اگرچہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان نہیں، نہ ہی احرار الہند والے ’’مجاہدین‘‘ ہیں بلکہ ہم اس انتہا پسندی کی تازہ لہر سے معاشرے کو خبردار کر رہے ہیں، جس کے بارے میں ہمارے وزیر داخلہ بارہا انکار کرچکے ہیں جبکہ اسی وحشت ناک خطرے کے بارے میں سابق وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک صاحب بارہا کہہ چکے ہیں کہ داعش پاکستان میں زور پکڑ رہی ہے۔ حتٰی کہ وہ تو پاکستان میں داعش کے کمانڈروں کے نام تک بھی بتاتے ہیں، مگر حیرت ہے کہ موجودہ حکومت داعش کے دہشت گردوں پہ ہاتھ تو کیا ڈالے گی، ان کے سہولت کاروں کی طرف بھی آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتی۔ وجہ سمجھ آسکتی ہے، اخبارات نے بارہا رپورٹ کیا کہ کالعدم قرار دی گئی تنظیمیں حکومت اورحکومت ان تنظیموں کے لئے ہمدردی رکھتی ہے۔
پاکستان میں داعش ہے یا نہیں، یہ بھی ایک عجب سوال ہے، کیونکہ داعش مخفف ہے (دولتِ اسلامیہ عراق و شام) کا۔ کیا پاکستان شام و عراق کا حصہ ہے؟ نہیں، بالکل نہیں، بلکہ خود ساختہ اسلامی خلافت کے قیام کی خاطر قتال کرنے والے پورے خطے کو ’’خراسان‘‘ بنا کر اسلام کی ایسی تعبیر کرنے پر تلے ہوئے ہیں، جس کا منبع ابنِ تیمیہ کی انتہا پسندانہ تعلیمات ہیں۔ ہمارا المیہ مگر یہ ہے کہ ہم حقائق سے چشم پوشی کرتے ہیں۔ سطحی سیاسی مفادات کی خاطر ہم نے پورے معاشرے کو وحشیوں کے آگے ڈال دیا۔ اختلافِ رائے کو میں علمی حسن سمجھتا ہوں، مگر مخالفت ایسا وحشیانہ عمل ہے جو انسان کو انسان سے دور کر رہا ہے۔ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی اور اس کے محرکات پہ میں تسلسل سے لکھتا چلا آرہا ہوں، جس تسلسل سے میں دہشت گردوں کے بارے لکھ رہا ہوں، اسی تسلسل سے مجھے دھمکیاں بھی مل رہی ہیں۔ میری یہ سوچی سمجھی رائے ہے کہ جب تک ہم معاشرے سے طالبانائزیشن اور تکفیریت کے زہر کو نکال باہر نہیں کریں گے، ہم ترقی کرنا تو درکنار اس کا خواب بھی نہیں دیکھ پائیں گے۔
اس امر میں کلام نہیں کہ پشاور آرمی پبلک سکول پر ہونے والے حملے کی مذمت کرنے سے انکار کرنے والا مولوی آج بھی اسلام آباد کی لال مسجد میں بیٹھ کر خطبے دے رہا ہے۔ یہ ایک مثال ہے کہ ریاست کس طرح مذہبی گروہوں کے سامنے جھکتی چلی جا رہی ہے۔ پاک فوج اگرچہ ایک جارحانہ آپریشن شروع کرچکی ہے اور اس کے مثبت نتائج بھی سامنے آ رہے ہیں، لیکن سفر ابھی بہت طویل ہے۔ ہمارے سیاست دانوں کو سیاسی موشگافیوں کے بجائے حقائق کو تسلیم کرنا چاہیے۔ کیا اسامہ بن لادن ایبٹ آباد میں نہیں مارا گیا تھا؟ لیکن آخر وقت تک انکار کیا جاتا رہا کہ وہ تو یہاں ہے ہی نہیں۔ بے شک القاعدہ کے کئی ایک بڑے دہشت گرد پاکستان کے بڑے شہروں سے گرفتار ہوئے۔ پنجابی طالبان کی شاخ سے انکار کیا جاتا رہا مگر وہ موجود ہیں۔ عصمت اللہ معاویہ آج بھی پنجابی طالبان کی کمان کر رہا ہے۔
داعش کی حقیقت سے اب انکار ممکن نہیں، واہ کینٹ، لاہور، راولپنڈی، کراچی وغیرہ میں داعش کے حق میں وال چاکنگ ہوچکی ہے۔ میں اسلام آباد میں کئی ایک قومی اخبارات کے ادارتی صفحات کا انچارج رہا، آج کل ویب کے ایک اخبار کے لئے کالم نگاری کرتا ہوں اور اسلام آباد ہی میں ایک ادارے کے ساتھ ریسرچ فیلو ہوں۔ جن دنوں داعش کے حق میں وال چاکنگ کی جا رہی تھی تو میں نے بعنوان “داعش کے حق میں وال چاکنگ؟‘‘ ایک کالم لکھا، جو مختلف اخبارات میں شائع ہوا۔ کلر سیداں سے شائع ہونے وانے ایک ہفت روزے ’’پنڈی پوسٹ‘‘ میں بھی یہ کالم 02 نومبر 2014ء کو شائع ہوا تو سابق وزیر داخلہ رحمن ملک صاحب کی اس بات کی تصدیق یوں ہوئی کہ 03 نومبر 2014ء بروز سوموار مجھے پہلی دھمکی آمیز کال کلر سیداں سے ہی آئی۔، اس کے بعد یہ سلسلہ چل نکلا، 04 نومبر کو دوبارہ کسی نمبر سے کال آئی، پھر 7 نومبر کو کسی نے کلر سیداں ہی سے کال کرکے مجھے وہ کچھ کہا کہ رہے نام اللہ کا۔
معتبر ذرائع کا کہنا ہے کہ مجھے پہلی کال کرنے والے مولانا صاحب کا تعلق کالعدم تنظیموں سے رہا اور آج کل کلر سیداں میں اپنے مدارس چلا رہے ہیں، جن کے لئے انھیں یورپ سے فنڈنگ بھی ہو رہی ہے۔ کیا یہ سب ایجنسیوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے علم کے بغیر ممکن ہے؟ نہیں بلکہ 5-12۔2014 کو مجھے کلر سیداں میں تعینات C T D انسپکٹر نوید ظفر نے فون کرکے حکم دیا کہ میں اسے اس کے دفتر میں آکر ملوں۔ اس کال کے فوراً بعد میں نے ایک درخواست بنام صدر آر آئی یو جے لکھی۔ قصہ کوتاہ 141141سی ٹی ڈی کا انسپکٹر مجھے ہراساں کرتا رہا اور داعش کے سہولت کاروں کی خواہش پہ مجھے ’’شیڈول فور‘‘ میں ڈالنے کی کوشش بھی کی گئی۔ کلر سیداں میں داعش کے سہولت کاروں نے ہفت روزہ پنڈی پوسٹ کے ایڈیٹر پر اس قدر دباؤ ڈالا کہ ادارے کو معذرت شائع کرنا پڑی۔
گذشتہ سے پیوستہ روز بھی ایک قومی روزنامے میں میرا کالم بعنوان ’’پنجاب کے مدارس سے مشکوک افراد کی گرفتاری‘‘ شائع ہوا تو مجھے کالعدم قرار دی گئی تنظیم، جو کہ نئے نام سے کام کر رہی ہے، اس کے ایک ذمہ دار کا فون آیا، لہجہ اگرچہ ترش نہ تھا مگر فون کرنے کا مقصد بڑا واضح تھا۔ گذشتہ سے پیوستہ روز سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے افغان حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے رہنما ملا فضل اللہ کو پاکستانی حکام کے حوالے کرے۔ کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر رحمان ملک نے وزارت داخلہ کے حکام کو بھی حکم دیا کہ وہ سکیورٹی فورسز کے حالیہ آپریشن میں ہلاک یا گرفتار ہونے والے دہشت گردوں کی فہرست جمع کرائیں، ان کا کہنا تھا کہ یہ جاننا ضروری ہے اور وزارت داخلہ کو چاہیئے کہ وہ دہشت گردوں کے نام، ولدیت اور تصاویر بھی شیئر کریں۔ عوامی نیشنل پارٹی کے سینیٹر شاہی سید نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اب تک چالیس ہزار مشتبہ افراد کو گرفتار کرچکے ہیں اور قوم زیر حراست افراد کی شناخت جاننا چاہتی ہے۔
نیشنل کاؤنٹر ٹیریرازم اتھارٹی (نیکٹا) کے رابطہ کار حامد علی خان نے کمیٹی کو بتایا کہ وزارت داخلہ اب تک 127 دہشت گرد تنظیموں پر پابندی لگا چکی ہے۔ مگر کیا یہ ضروری نہیں کہ ان 127 تنظیموں کی فہرست میڈیا کو دی جائے، تاکہ معلوم ہوسکے کہ کون کیا ہے؟ نیکٹا کے رابطہ کار حامد علی نے کمیٹی ارکان کو قومی ایکشن پلان پر عمل درآمد کے حوالے سے بھی بریفنگ دی اور بتایا کہ حکومت نے افغان پناہ گزینوں کو وطن واپس لوٹنے کیلئے 31 دسمبر 2015ء کی ڈیڈ لائن دے رکھی ہے۔ انیس ہزار سے زائد غیر رجسٹرڈ شدہ افغان گرفتار ہوچکے ہیں اور تمام ضلعی انتظامیہ کو ایسے افراد کی ترجیحی بنیادوں پر رجسٹریشن کی ہدایات کی گئی ہیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ وزارت داخلہ نے خیبر پختونخوا میں 260000، پنجاب میں دس ہزار جبکہ سندھ میں تین ہزار اسلحہ لائسنس منسوخ کئے۔
لفظوں کے اس ہیر پھیر میں مگر دو ٹوک بات سابق وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک صاحب نے کی اور کہا کہ یوسف سلفی نامی شخص داعش کے لئے 600 ڈالر روزانہ کی بنیاد پر لوگوں کو بھرتی کر رہا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کلر سیداں اور بہارہ کہو میں داعش کے ٹھکانے موجود ہیں۔ ان علاقوں سے 26/27 لوگ داعش کے اٹھائے گئے تھے جو پاکستان سے یونان جانا چاہتے تھے اور پھر وہاں سے انھوں نے داعش کو جوائن کرنا تھا۔ خیال رہے کہ کلر سیداں موجودہ وزیر داخلہ چوہدری نثار علیخان کا حلقہ انتخاب بھی ہے۔ اس امر میں کلام نہیں کہ کلر سیداں سے کئی ایک بار مدارس سے مشکوک افراد کو اٹھایا گیا۔ میرا سوال مگر یہ ہے کہ اگر کلر سیداں میں داعش کے سہولت کاروں کے بارے میں سابق وفاقی وزیر داخلہ کو پختہ معلومات ہیں تو پھر ایسے وطن دشمنوں پر ہاتھ ڈالنے میں حکومت کو کیا امر مانع ہے؟
کلر سیداں کے لوگ پڑھے لکھے اور معاشرے کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے والے افراد ہیں۔ چند یک مٹھی بھر شدت پسند جنھیں ’’جہاد‘‘ اور ’’جہاد النکاح‘‘ کا دورہ پڑا ہوا ہے، کیا ان سے اس امن پسند علاقے کو صاف نہیں کیا جاسکتا؟ میرا مطالبہ ہے کہ سینیٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی برائے داخلہ کے چیئرمین کی باتوں کو روایتی انداز میں نظر انداز کرنے کی بجائے کلر سیداں اور بہارہ کہو میں بالخصوص داعش اور طالبان کے سہولت کاروں کیخلاف پاک فوج ایک بے رحمانہ آپریشن کرے۔ اگرچہ اطلاعات ہیں کہ یوسف سلفی ترکی کے راستے عراق فرار ہوچکا ہے مگر کیا فرار سے پہلے اس نے پاکستان میں تنظیمی ڈھانچہ ترتیب نہیں دیا ہوگا؟
آشفتہ یاد آتے ہیں۔
افسوس بے شمار سخن ہائے گفتنی
خوفِ فسادِ خلق سے ناگفتہ رہ گئے