مقررین نے اتحاد واتفاق پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وقت آچکا ہے کہ ماضی کی کوتاہیوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے کشمیر ی قیادت کو عوام کے وسیع تر مفادات اور بہتر مستقبل کے لئے مشترکہ طور جدوجہد کرنا ہوگی۔
اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ۔ ابنا ۔ کی رپورٹ کے مطابق کشمیری قائدین نے تنازعہ کشمیر کے مستقل حل کے حوالے سے اقوام متحدہ کی جانب سے تجویز کردہ حل کے تحت کشمیر میں رائے شماری کے انعقاد کو سب سے موزوں ترین حل قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ مجوزہ طریقہ کار کو اختیار کر کے ہی صحیح معنوں میں کشمیری عوام کی امنگوں اور خواہشات کا تعین کیا جاسکتا ہے۔ کشمیری قائدین نے ان خیالات کا اظہار گذشتہ رات کشمیر الیوم کے زیر اہتمام منعقدہ اسلام آباد میں گول میز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ کانفرنس میں حریت کانفرنس (گ) پاکستان شاخ کے کنوینر غلام محمد صفی، حزب کمانڈ کونسل کے ممبر محمد عبداللہ ملک، فریڈم پارٹی کے نائب صدر محمود احمد ساغر، نیشنل فرنٹ کے مرکزی لیڈر الطاف احمد وانی، مسلم لیگ کے رہنما اشتیاق حمید اور حزب ترجمان سلیم ہاشمی نے اظہار خیال کیا۔ مقررین نے رواں تحریک آزادی کے مختلف پہلوﺅں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اب جبکہ کشمیری عوام کی جدوجہد ایک اہم موڑ میں داخل ہوچکی ہے ایسے میں کشمیری قیادت پر دوہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ واضح نقطہ نظر اور ایک واضح موقف کے ساتھ آگے بڑھیں تاکہ بھارت کے مذموم مقاصد اور کشمیری عوام کے خلاف کی جانے والی سازشوں کا توڑ کیا جاسکے۔
کشمیری پنڈتوں کومخصوص بستیوں میں آباد کرنے کے بھارتی منصوبے پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی حکمرانوں کا مقصد ریاست کشمیرکی صدیوں پرانی مذہبی ہم آہنگی اور امن و آشتی کو تباہ و برباد کرنا اور فرقہ پرستی کو ہوا دینا مقصود ہے۔ مسئلہ کشمیر کے ممکنہ حل کے حوالے سے قائدین کا کہنا تھا کہ جہاں تک تقسیم کشمیر، چارنکاتی فارمولہ یا جوں کی توں (Statusquo) کا تعلق ہے، یہ محض خام خیالی اور مفروضوں کے سوا کچھ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ جس قوم نے مقصد کے حصول کے لئے بے پناہ قربانیاں دی ہوں وہ کبھی بھی کسی بھی قومی مفاد کے منافی حل کو تسلیم نہیں کرینگے۔ انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ کشمیری عوام نے گذشتہ کئی دہائیوں بے پناہ مصیبت، مصائب اور مشکلات کا سامنا کیا لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اگر عالمی سطح پر آج کشمیر کی گونج سنائی دے رہی ہے تو اسکا سہرہ ان کشمیری نوجوانوں کے سر ہے جنہوں بیش بہا قربانیاں دے کر اور تحریک آزادی کی آبیاری کی۔
مقررین نے اتحاد واتفاق پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وقت آچکا ہے کہ ماضی کی کوتاہیوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے کشمیر ی قیادت کو عوام کے وسیع تر مفادات اور بہتر مستقبل کے لئے مشترکہ طور جدوجہد کرنا ہوگی۔ رواں جدوجہد کے طویل ہونے کے اسباب بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا اگرچہ اس میںبہت سے عوامل کار فرما ہیں تاہم حریت قائدین کے مابین اتحاد و اتفاق کا فقدان، پاکستانی حکمرانوں کی غیر مستقل کشمیر پالیسی اور بالخصوص عالمی برادری کی کشمیر کے تئیں بے حسی نے کشمیر کاز کو بے حد نقصان پہنچایا جبکہ بھارت کی روایتی ہٹ دھرمی اور غیر جمہوری طرزعمل مسئلہ کشمیر کے پرامن حل میں ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔