اس وقت سب نظریں کیمپ ڈیوڈ میں ہونے والی سربراہی ملاقات پر لگی ہوئی ہیں۔ خلیجی ممالک کی قیادت اور امریکی صدر باراک اوبامہ کے مابین ہونے والی اس ملاقات کا مقصد امریکہ کی جانب سے اپنے عرب اتحادیوں کو یقین دہانی کرانا ہے کہ امریکہ ان کے ساتھ کھڑا ہے اور مستقبل میں بھی کھڑا رہے گا۔ کوئی وقت تھا کہ خلیجی ممالک امریکہ کی زبانی کلامی یقین دہانیوں کو کافی سمجھتے تھے لیکن اب وہ تحریری معاہدہ چاہتے ہیں۔ ایک ایسا معاہدہ جس میں واضح طور پر تحریر ہو کہ خلیجی ممالک کی سیکورٹی امریکہ کی ذمہ داری ہے۔ آج تک خلیجی ریاستوں میں امن قائم ہے اور کوئی گڑبڑ نہیں ہوئی تو وہ امریکی ضمانت کی بدولت ہی ہے’ ماسوائے کویت پر عراقی حملے کے گزشتہ تہائی صدی میں خلیجی ممالک میں اندرونی یا بیرونی مہم جوئی نہیں ہوئی۔
امریکی سینٹرل کمانڈ سے قبل خلیج میں امریکی مفادات کے تحفظ کے لئے ریپڈ ایکشن فورس قائم تھی جس کا مقصد ایرانی انقلاب کے تناظر میں خلیجی ممالک اور امریکی مفادات کو تحفظ فراہم کرنا تھا۔ جنوری 1980ء میں امریکی صدر جمی کارٹر نے افغانستان اور ایران میں سیاسی تبدیلیوں کے بعد جس کارٹر ڈاکٹرائن کا اعلان کیا اس میں صاف لفظوں میں کہا گیا کہ کسی غیر متعلقہ ریاست کو خلیج تک رسائی دی گئی تو اسے امریکہ اپنے مفادات پر براہ راست حملے سے تعبیر کرے گا۔ آج خلیج کے عرب ممالک اوبامہ کی جانب سے اس طرح کی زبانی باتوں پر بھروسہ کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ صدر اوبامہ متعدد بار اپنی کہی ہوئی باتوں سے پیچھے ہٹ گئے ہیں مثال کے طور پر انہوں نے شام پر حملے کا اعلان کیا لیکن اب وہ شامی اپوزیشن جماعتوں کی فوجی و مالی مدد سے بھی پیچھے ہٹ رہے ہیں۔ مزید برآں صدر اوبامہ نے ایران کے ساتھ جو خفیہ نیوکلیئر مذاکرات کئے ہیں اس وجہ سے بھی خلیجی ممالک میں تشویش موجود ہے اور اس حوالے سے بھی اوبامہ انتظامیہ سے واضح ضمانت چاہتے ہیں۔
صدر اوبامہ کی مشرق وسطیٰ پالیسی اپنے پیش روئوں سے مختلف ہے۔ انہوں نے ایران سے امریکی تعلقات بڑھانے کو خاص اہمیت دی ہے۔ اپنی صدارتی مہم کے دوران اوبامہ کہا کرتے تھے کہ اگر ایران تعاون کے لئے اپنی انگلی بھی آگے بڑھائے گا تو وہ اپنی بند مٹھی کھول دیں گے۔ یعنی وہ ریاست جس کے بارے میں سابق امریکی صدر ”بدمعاش ریاست” جیسے الفاظ استعمال کیا کرتے تھے۔ اس کے بارے میں اوبامہ کے خیالات شروع دن سے ہی مفاہمانہ تھے۔ حسن روحانی کے برسراقتدار آنے کے بعد امریکہ ایران تعلقات میں مزید بہتری آئی اور آج امریکہ کاوشوں کے نتیجے میں ایران کے ساتھ نیوکلیئر ڈیل طے پانی والی ہے۔ بات چیت کا دوسرا رائونڈ12مئی کو جینوا میں شروع ہوگیا ہے اور لگ رہا ہے کہ سب کچھ خوشگوار انداز سے طے پا جائے گا۔
اپریل میں نیوکلیئر ڈیل پر اتفاق ہوا تو بعض احباب کا خیال تھا کہ جون میں طے ہونے والا معاہدہ انجام تک نہیں پہنچ سکے گا۔ کہا جاتا ہے کہ زیادہ تر شیطان تفصیلات اور جزئیات میں ہوتے ہیں لیکن اوبامہ انتظامیہ کے ذہن میں مشرق وسطیٰ کا جو نقشہ موجود ہے اس کے پیش نظر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا ایران کے ساتھ تفصیلات میں الجھنے کا امکان نہایت معدوم دکھائی دیتا ہے۔ اس صورتحال میں جبکہ ایران نیوکلیئر معاہدے کے بعد عالمی پابندیوں سے آزاد ہو جائے گا۔ خلیجی ممالک اپنی سیکورٹی کے بارے میں خاصے فکر مند ہیں۔ وہ امریکہ سے اس طرح کا دفاعی تعاون چاہتے ہیں جو امریکہ اور اسرائیل کے درمیان ہے۔ میزائل ڈیفنس سسٹم خاص طور پر خلیجی ممالک کی ضرورت ہے۔ جبکہ ایک لمبی وش لسٹ اس کے علاوہ ہے۔
سعودی عرب کی قیادت میں خلیجی ممالک کے اتحاد نے یمن کے حوثی باغیوں کے خلاف جو کارروائی شروع کر رکھی ہے اس کے تناظر میں خطرہ موجود ہے کہ ایران باغیوں کی مدد کے لئے کسی حد تک بھی جاسکتا ہے۔ خلیجی ممالک اس طرح سوچنے پر مجبور ہیں تو اس کی وجہ ایران کی جانب سے شامی عراق ‘ لبنان اور فلسطین پر اپنے ہم خیالوں کی پشت پناہی ہے اب یہ خبریں منظر عام پر ہیں کہ یمن کے حوثی باغیوں اور لبنانی حزب اللہ کے آپس میں گہرے رابطے ہیں۔ فنانشل ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق حوثی باغیوں کے کمانڈرز ایرانی خرچے پر لبنان میں مقیم رہے اور انہوں نے حزب اللہ سے فوجی ٹریننگ بھی حاصل کی۔ اس تناظر میں یہ الزام لگ رہا ہے کہ ایران کی سرپرستی میں ایک مخصوص فرقہ سے وابستہ گروہوں کا سعودی عرب کے خلاف متحدہ محاذ قائم کیا جارہا ہے۔
یہ پیش رفت یقینی طور پر سعودی عرب کے لئے تشویش کا باعث ہے کہ ایک طرف عراق میں ایک ایسی حکومت کا قیام عمل میں لایا جاچکا ہے جو اپنی سرزمین پر ایران کے ساتھ باضابطہ فوجی تعاون کی راہ پر گامزن ہے تو دوسری طرف مشرق وسطیٰ کی دو بڑی جنگجو قوتیں حزب اللہ اور حماس سعودی عرب کی مخالفت میں ایران کے پراکسی کا کردار ادا کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ یمن کے حوثی باغیوں کو بھی خوفناک جنگجوئوں کی فہرست میں شمار کیا جاتا ہے۔ ان تمام جنگجو قوتوں کا سعودی مخالف اتحاد خطے میں عدم استحکام پھیلانے کا سبب بن رہا ہے۔ اس خطرے کو بھانپتے ہوئے سعودی عرب نے دیگر خلیجی ممالک کے ساتھ مل کر یمن کے حوثی باغیوں کی سرکوبی کا فیصلہ کیا۔ سعودی عرب کے یمن میں فوجی ایکشن کو علامی قانونی جواز حاصل ہے چونکہ اس نے یمن کی تسلیم شدہ حکومت کی درخواست پر فوجی کارروائی کی ہے۔
حال ہی میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد یمنی باغیوں کو اسلحہ کی فراہمی روکنے کے لئے ممبر ممالک کو مناسب کارروائی کرنے کا مینڈیٹ دیا ہے۔ یوں پاکستان سمیت کوئی ملک بھی بحری ناکہ بندی یا دیگر اقدامات کرے گا تو وہ اپنی عالمی ذمہ داریاں پوری کرے گا۔ پاکستان اور مصر دو ایسے ممالک تھے جن پر سعودی عرب ویسے بھی فوجی لحاظ سے انحصار کر رہا تھا لیکن پاکستان نے حیران کن طور پر ایک ایسے راستے کا انتخاب کیا جو اپنے سعودی دوستوں کے لئے غیر متوقع اور انہیں ناراض کرنے والا تھا۔
حکومت پاکستان نے جنگ میں الجھنے سے گریز کیا تو بعض تجزیہ نگاروں کے خیال میں یہ اس لئے تھا کہ پاکستان معروضی جغرافیائی حالات میں ایران کو ناراض نہیں کرنا چاہتا تھا۔ دوسری طرف ایران قطعی طور پر اس بات کو اہمیت نہیں دے رہا کہ اس کے کسی اقدام کا پاکستان پر کیا اثر پڑے گا۔ پچھلے ہفتے ہندوستانی شپنگ منسٹر ایران تشریف لے گئے تھے اور انہوں نے ہندوستان کی جانب سے ایران کے ساتھ چاہ بہار بندرگاہ استعمال کرنے کے حوالے سے مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کئے ہیں۔ ایران کی یہ بندرگاہ بلوچستان کے انتہائی نزدیک ہے جبکہ اس کا دوسرا قابل اعتراض پہلو یہ ہے کہ پاکستان کو مائنس کرتے ہوئے ایران ہندوستان کو افغانستان اور سینٹرل ایشیاء تک رسائی فراہم کر رہا ہے۔ یعنی اپنی خاص جغرافیائی پوزیشن کے لحاظ سے ہمیں جو لیوریج حاصل تھا ایران اسے ختم کرنے کے درپے ہے۔
ہندوستان کے افغانستان میں خصوصی اسٹیک ہیں’ ابھی حال ہی میں اس نے 100ملین ڈالر کی لاگت سے 200کلو میٹر طویل سڑک افغانستان کے نمروز صوبے میں تعمیر کی ہے۔ اس سڑک کو اب چاہ بہار بندرگاہ تک لے جانے کا منصوبہ ہے۔ اس تناظر میں پاکستان کی حکومت کو سوچنا چاہیے کہ اپنے خلیجی دوستوں خاص طور پر سعودی عرب کے بھائیوں کو ناراض کرکے ہم کیا پا رہے ہیں اور کیا کھو رہے ہیں؟ سعودی عرب کے ساتھ مضبوط تعلقات نے پاکستان کو ایران کے ساتھ معاملہ کرتے ہوئے ہمیشہ بھرپور لیوریج مہیا کیا ہے جبکہ آج ہماری یہ خاص پوزیشن کمپرومائز ہو رہی ہے اور نتیجہ ہندوستان ایران گڑھ جوڑ کی صورت میں ہمارے سامنے آرہا ہے