برطانوی پولیس نے انکشاف کیا ہے کہ برطانیہ سے 700 سے زائد ممکنہ مشتبہ دہشت گردوں نے انتہاپسندی کی حمایت یا لڑنے کیلئے شام کا رخ کیا اور خیال کیا جاتا ہے کہ ان میں سےآدھے واپس آ چکے ہیں۔ انسداد دہشت گردی کیلئے قومی پولیس کے سربراہ مارک رولے نے میڈیا کو بتایا کہ حقیقی تشویش کا باعث بننے والے یہ افراد نا تو امدادی رضا کار تھے اور نہ ہی وہ اپنے رشتہ داروں سے ملنے وہاں گئے۔ رولے کے مطابق گزشتہ سال سے اب تک دہشت گردی کے شبے میں ریکارڈ 338 کو حراست میں لیا گیا اور ان میں سے آدھی تعداد کسی نہ کسی طرح شام سے جڑی تھی۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اس عرصے میں 89 افراد پر دہشت گردی سے متعلق دفعات کے تحت فرد جرم عائد کی گئی۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ماضی میں مشکلات کا شکار رہنے کے باعث انتہا پسندی کی جانب مائل ہونے والی خواتین اور نوعمر بچوں کی تعداد بڑی ہے۔ رولے نے بتایا کہ اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ دہشت گردی کے خدو خال میں تبدیلی آئی ہے اور آج سے پانچ یا دس سال پہلے ایسا نہ تھا، خاندانوں، خواتین اور نو عمر بچوں کا انتہا پسندی کی جانب رجحان نیا ہے۔ رولے نے مزید بتایا کہ برطانیہ میں انتہا پسندی پر مبنی جرائم کا انحصار ملزم کی صلاحیتوں پر ہوتا ہے، مثلاً انتہائی ماہر ملزمان کو بیرون ملک سے ہدایات مل سکتی ہیں تو دولت اسلامیہ سے متاثر کچھ لوگ مقامی سطح پر لو-ٹیک آلات جیسے کہ چھریوں یا دیسی ساختہ بموں کا سہارا لیتے ہیں۔
خبر کا کوڈ: 461079